معروف ڈراما نگار نورالہدی شاہ کی پر اثر تحریر...
تقریباً چھ سال پہلے دبئی کے ہسپتال میں میری نواسی وقت سے بہت پہلے ساتویں
مہینے کی ابتدا میں ہی پیدا ہو گئی۔ میرے گھر کا وہ پہلا بچہ تھی۔ شادی کے
چار سال بعد میری بیٹی کے ہاں بچہ ہوا تھا مگر وہ بھی ان حالات میں کہ لگتا
تھا کہ مکمل بنی بھی نہیں ہے۔ بالوں بھرا ننھا سا بندر کا بچہ جس کا پورا
ہاتھ میری انگلی کی ایک پور پر آتا تھا۔
زندہ رہے گی یا نہیں؟ زندہ رہے گی تو نارمل ہوگی یا نہیں؟ ان سوالوں کا
جواب ڈاکٹرز کے پاس بھی نہیں تھا سوائے اس جواب کے کہ سب اللہ کے اختیار
میں ہے۔ ہر روز ڈاکٹرز بتاتے کہ بس ختم ہوا چاہتی ہے، فوراً پہنچو۔ بھاگے
بھاگے پہنچتے۔ پھر کچھ سانسیں لینا شروع کرتی تو ایک امید کے ساتھ گھر
لوٹتے۔ مگر اگلے دن امید پھر دم توڑ دیتی۔
کبھی بلڈپریشر ہائی اور کبھی لو۔ ہائی بھی اتنا کہ ہاتھوں پیروں کی انگلیاں
نیلی پڑ جاتیں۔ پوچھنے پر بتایا جاتا کہ اگر بلڈ سرکیولیشن نارمل ہوگئی تو
یہ ٹھیک ہو جائیں گی ورنہ جسم کا ناکارہ حصّہ بن جائیں گی۔ اسی طرح کبھی
شوگر لیول ہائی اور کبھی لو ہو جاتا۔ وینٹ پر بے دم پڑی بچی نے ہماری
سانسیں پھلا دیں۔ کبھی دماغ کا ٹیسٹ بتاتا کہ دماغی طور پر نارمل نہ ہوگی۔
کبھی دل میں سوراخ ملتا۔ کبھی آنکھوں کا معاملہ سامنے آ جاتا۔ اوپر سے خرچہ
اتنا کہ تین لاکھ درہم پندرہ دن کا بل بن گیا۔ میرا حال یہ تھا کہ میرے
سامنے میری اپنی بیٹی کے بھی آنسو تھے اور اس کے بچے کی ناممکن زندگی بھی۔
تھک کر چوُر ہو گئی۔ ایک بار تو ڈاکٹر کو بھی کہہ دیا کہ اس کو بچانے کی
کوشش نہ کریں۔ بچ بھی گئی تو پتہ نہیں کس حال میں ہوگی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آپ
کون ہوتی ہیں زندگی چھیننے کا فیصلہ کرنے والی!
انہی حالات میں ایک دن نماز میں کھڑے ہوئے میں رو دی۔ اللہ کو بے بسی سے
مخاطب کرکے کہا کہ یااللہ مجھ سے ایسا کیا گناہ ہو گیا ہے کہ جس کی یہ سزا
ہے؟
بالکل ہی اگلے لمحے چھپاک سے ایک منظر کی تصویر اور اس میں ایک چہرہ صرف
ایک سیکنڈ کے لیے میری نگاہ یا ذہن سے گزر گیا اور حیرت کی بات کہ اگلے
سیکنڈ میں مجھے یاد بھی نہ رہا کہ میں نے کیا دیکھا تھا۔
پوری نماز اسی کشمکش میں گزری پر یاد ہی نہ آیا۔ اگلے دو دن، دبئی کی سڑکوں
پر ہسپتال اور گھر کے بیچ آتے جاتے، رات کو بستر میں، میں اسی کشمکش سے
گزرتی رہی۔ پر یاد ہی نہ آیا کہ دیکھا کیا تھا میں نے۔ اپنے جتنے بھی
گناہوں اور خطاؤں کی فہرست میرے ذہن میں تھی، انہیں گنتی رہی مگر کسی سے اس
منظر کا نشان نہیں مل رہا تھا۔
دو دن بعد اچانک یاد آ گیا کہ وہ کیا منظر اور چہرہ تھا۔
پندرہ برس پرانا وہ واقعہ مجھے کبھی بھی یاد نہ آیا تھا۔
میری ایک بہت ہی قریبی رشتہ دار لڑکی، شوہر اور حالات کے ہاتھوں ستائی
ہوئی، دو بچوں کو ساتھ لیے چھوٹے سے ٹاؤن سے حیدرآباد شفٹ ہوئی تھی کہ اس
کا تو مستقبل تاریک تھا ہی پر کسی طرح بچوں کا مستقبل سنور جائے۔ اس کے
بیٹے بیٹی کو میں نے حیدرآباد کے بہت ہی اچھے اسکولوں میں داخل کروایا۔ اسے
بچوں سمیت تب تک اپنے گھر میں رکھا جب تک ان کی رہائش کا بندوبست نہ ہوا۔
اسی دوران اس کی بیٹی کا نویں کلاس کا بورڈ کا امتحان بھی ہوا اور وہ بچی
اے گریڈ مارکس لے کر پاس ہو گئی۔ رزلٹ کے اگلے دن وہ بچی روتی ہوئی اسکول
سے لوٹی۔ پتہ چلا کہ کلاس ٹیچر مس حبیب النسا نے اسے پوری کلاس کے سامنے
کہا ہے کہ تم تو اتنے نمبر لینے والی نہیں ہو۔ کس سے سفارش کروائی ہے؟ بھری
کلاس میں اس بے عزتی پر وہ بچی بری طرح رو رہی تھی۔ بچی کی حالت دیکھ کر
ماں بھی رو رہی تھی۔ اوپر سے بچی نے کہہ دیا کہ اب وہ اس اسکول نہیں جائے
گی۔
میں ہمیشہ سے مظلوم کے حق کے لیے لڑنے مرنے پر تُل جانے والی رہی ہوں اور
اس طرح کے جھگڑوں میں خدائی فوجدار کی طرح کوُد پڑنے کی عادت رہی ہے میری۔
فوراً گاڑی نکالی اور پہنچ گئی اسکول۔ حیدرآباد کے اکثر لوگ مجھے پہچانتے
تھے۔ میں سیدھی پرنسپل کے آفس میں گئی اور ہنگامہ مچا دیا کہ ایک بچی اپنی
محنت سے پڑھی ہے۔ ایک چھوٹے ٹاؤن سے مستقبل بنانے آئی ہے اور حالات کی وجہ
سے پہلے سے ہی سہمی ہوئی ہے۔ اس کی اس طرح ٹیچر حبیب النسا نے پوری کلاس کے
سامنے انسلٹ کی ہے!
میرے ہنگامے پر مس حبیب النسا کو حاضر کیا گیا۔ سادہ سی خاتون مگر چہرے پر
ٹھہراؤ۔ کہنے لگیں ہاں میں نے کہا ہے، کیونکہ مجھے وہ بچی اتنی ہوشیار نہیں
لگتی جتنے نمبر اس نے لیے ہیں۔ یقیناً یا سفارش کی ہے، یا کاپی کی ہے۔
مجھے پتہ تھا کہ وہ بچی بچاری سفارش کروانے کی طاقت نہیں رکھتی۔ نہ ہی اپنی
سہمی ہوئی شخصیت کی وجہ سے کاپی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ رٹے مار کر اس نے
امتحان دیا تھا اور اتفاق سے وہی سوال آگئے جن کے جواب اسے یاد تھے۔
میں مس حبیب النسا پر برس پڑی کہ یہ کہاں کا انصاف ہے! آپ صرف چھوٹے شہر کی
بچی دیکھ کر اسے کمتر قرار دے رہی ہیں اور اس کا مستقبل برباد کر رہی ہیں۔
میری آواز یوں بھی بھاری ہے، اس میں مزید گرج آ گئی۔ مس حبیب النسا اسکول
کی باقی ٹیچرز کی بھی ناپسندیدہ تھیں۔ سو ان کی کھنچائی کا تماشہ دیکھنے
پرنسپل کے آفس کے باہر ٹیچرز جمع ہوگئیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بھی خوش
تھیں کہ چلو کوئی تو ہے مس حبیب النسا کو سنانے والا۔
قصہ مختصر کہ پرنسپل نے بھی انہیں کچھ سخت الفاظ کہے اور میرے ساتھ میرے
گھر آ کر اس بچی کو سوری کہا۔ راستے بھر وہ بھی مس حبیب النسا سے اپنی
ناراضگی کا اظہار کرتی آئیں۔۔۔۔۔۔ یوں یہ معاملہ تمام ہوا۔
یہ نیتاً میری ایک نیکی تھی۔ ایک مظلوم ماں اور اس کی بچی کی مدد۔
اس کے بعد کے برسوں میں اُس فیملی کے اور بھی کئی مسائل حل کرتے ہوئے اور
دکھ سکھ بانٹتے ہوئے یہ واقعہ میرے ذہن سے بالکل ہی اتر گیا۔ یہاں تک کہ
بعد میں جب میں خود زندگی کی ایک بہت بڑی آزمائش سے گزری اور اسی فیملی نے
میرے ساتھ بُرا رویّہ رکھا تو بھی وہ بات ماضی میں اُن پر اپنے احسان کے
طور پر بھی یاد نہ آئی۔ جس طرح انسان اپنے ساتھ برا کرنے والوں پر کیے گئے
احسانات فطری طور پر یاد کرتا ہے۔
دبئی میں جب سسک کر نماز میں میں نے اللہ کو کہا کہ مجھ سے ایسی کیا غلطی
ہوگئی ہے جس کی سزا میں مجھ پر اولاد کی تکلیف آ گئی ہے۔۔۔ جواب میں وہ
حیات اسکول کی پرنسپل مس بِلو کے آفس کے اس منظر کی ایک سیکنڈ کی تصویری
جھلک اور مس حبیب النسا کا چہرہ تھا۔
میں کراچی آئی۔
میری ایک کزن مس حبیب النسا کے ساتھ اسی اسکول میں پڑھاتی رہی تھیں اور وہ
بھی مس حبیب النسا سے ناراض رہا کرتی تھیں، اور ان کی بیٹی سلویٰ مس حبیب
النسا سے ان کے گھر پر جا کر قرآن بھی پڑھی تھی اور اسکول میں بھی پڑھی
تھی۔ میں نے سلویٰ سے مس حبیب النسا کا نمبر مانگا اور اسے پوری بات بتائی۔
جواب میں اس نے کہا کہ آپ کو صحیح جواب ملا ہے۔ میں نے بچپن مس حبیب النسا
کے پاس قرآن پڑھتے ہوئے گزارا ہے۔ وہ حافظِ قران ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ اور
حدیث سنَد کے ساتھ پڑھی ہوئی ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے اپنے ضعیف
والدین کی خدمت میں جوانی گزار دی مگر شادی نہ کی کہ والدین کو ان کی ضرورت
تھی۔ اپنے آخری دنوں میں ان کے والد بہت ہی ضعیف اور مشکل ہو گئے تھے مگر
وہ کبھی اس مشکل ڈیوٹی میں اُف تک نہ کہتی تھیں بلکہ والد کے پیچھے پیچھے
دوڑی دوڑی پھرتی تھیں۔ ان کے غسل خانے کے کام بھی وہ اپنے ہاتھوں سے کرتی
تھیں۔ مگر وہ لوگوں کو اس لیے پسند نہیں کہ منہ پر صاف صاف اور سچ بولتی
ہیں۔
سلویٰ سے نمبر لے کر میں نے مس حبیب النسا کو فون کیا۔ میرا نام سن کر وہ
خوش ہو گئیں۔ میں نے کہا کہ میں ایک ضروری کام کے سلسلے میں آپ سے ملنا
چاہتی ہوں۔ فوراً کہا کہ آ جائیے۔
اگلے دن صبح ہوتے ہی میں کراچی سے حیدرآباد سیدھی ان کے گھر ان کے آگے ایک
ہی صوفہ پر بیٹھی تھی۔ وہ کچھ بوڑھی اور کمزور ہو چکی تھیں۔ اس بات پر خوش
تھیں کہ ایک مشہور رائٹر خاص طور پر ان سے ملنے آئی ہے۔
خوش ہو کر کہنے لگیں کہ میں ریٹائر ہو چکی ہوں اور حیات اسکول چھوڑ چکی ہوں
اور ایک پرائیویٹ اسکول میں پرنسپل ہوں۔ آپ کا فون آیا تو میں نے اپنی
ٹیچرز کو بتایا کہ نورالہدیٰ شاہ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ میری ٹیچرز نے کہا
کہ ان کا بیوہ عورت کے حقوق سے متعلق ایک ڈرامہ چل رہا ہے۔ وہ اس موضوع پر
آپ سے شرعی مشورہ کرنا چاہتی ہوں گی۔
میں نے کہا، آپ کو یاد ہے میں حیات اسکول میں آپ کی شکایت لے کر آئی تھی؟
انہوں نے لمحہ بھر سوچا، پھر انکار میں سر ہلا دیا کہ مجھے یاد نہیں۔
میں نے یاد دلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ پرنسپل کے آفس میں میں بہت
اونچی آواز میں سخت الفاظ کے ساتھ آپ سے لڑی تھی۔۔۔ آپ کو یاد ہے؟
ذرا سوچا، پھر انکار میں سر ہلا دیا۔
میں نے کہا کہ میں نے تقریباً آپ کی انسلٹ کی تھی، آپ کو یاد نہیں؟
کہنے لگیں کہ مجھے ایسا کچھ بھی یاد نہیں پڑتا۔
قریب ہی بیٹھے ہوئے میں نے جھک کر ان کے پیر چھو لیے اور ان کے سامنے دونوں
ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میں نے ایسا کیا تھا اور میں آپ سے اپنے اس عمل کی
معافی مانگنے آئی ہوں۔
مس حبیب النسا نے ایک دم سے معافی کے لیے جڑے میرے ہاتھوں کو دونوں ہاتھوں
میں تھام لیا۔ یہ نہیں پوچھا کہ آج اتنے برسوں بعد کیسے یہ خیال آیا اور کس
مجبوری نے تمہیں جھکایا ہے۔ انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ میں نے آپ کو دل سے
معاف کیا۔ اللہ میری معافی آپ کے لیے قبول فرمائے اور آپ جس بھی مشکل میں
ہیں اسے آسان کرے اور آپ پر آئی ہوئی آزمائش کو معاف کرے۔۔۔
اس کے بعد انہوں نے بات بدل دی۔ بڑی دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی
رہیں۔ بڑے شوق سے مجھے کھلاتی پلاتی رہیں۔ دعاؤں کے ساتھ مجھے خدا حافظ
کہا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات میں انہوں نے بات کا رُخ اس طرف آنے ہی نہیں دیا
کہ میں اپنی مجبوری کی اصل کہانی انہیں سناتی۔
چند دنوں بعد میں واپس دبئی لوٹ گئی جہاں اینکیوبیٹر میں ایک ننھی سی جان
میں ہماری جان پھنسی ہوئی تھی۔
میری وہ نواسی اس سال ستمبر میں چھ سال کی ہو جائے گی۔ ماشالله بہت ہی
شرارتی ہے۔ بہت ہی ذہین اور باتونی۔ گھنگریالے بالوں اور بڑی بڑی آنکھوں کے
ساتھ بالکل ہی گڑیا سی لگتی ہے۔ اللہ نے اسے ہر عیب سے بچا لیا۔ بس ایک
ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی اوپر کی پور نیلی پڑنے کے بعد دوبارہ نارمل حالت
میں نہیں آئی اور انگلی سے جھڑ گئی۔ اس ایک پور کی کمی ہمیں یاد دلاتی ہے
کہ انسان کی تخلیق کا معاملہ کیا ہے اور کس کے ہاتھ میں ہے۔
مس حبیب النسا آج بھی حیات ہیں۔
مگر یہ تجربہ مجھے سکھا گیا کہ معافی دراصل کیا چیز ہوتی ہے اور نیکی کرنے
کا تکبر انسان کو کس طرح سزا کا مستحق بناتا ہے اور یہ کہ نیکی خود ایک
سوالیہ نشان ہے کہ وہ نیکی ہے بھی کہ نہیں۔۔۔ اسی لیے یہ دریا میں ڈالنے
والی چیز ہے۔ اور یہ جانا کہ ہم محض اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم رسمی
معافی تلافی کرتے ہوئے پچھلی گلی سے بہشت کی طرف نکل جائیں گے۔
معافی آپ کی انا کے ٹکڑے ٹکڑے مانگتی ہے جو رب کو نہیں چاہیں، بلکہ اس
انسان کے پیروں میں جا کر رکھنے ہوتے ہیں، جس کے ساتھ آپ نے زیادتی کی ہوتی
ہے |