‎مائے نی! میں کِتھوں لبھاں درد وچھوڑے دا حَل نی . . .

‎تُو بچھڑ گئی تو دنیا ہی اجڑ گئی . . . . . بات ہی بگڑ گئی تیری مرگ ناگہاں سے

‎اب سے سات سال پہلے پاکستان میں ہماری والدہ کا بہت اچانک انتقال ہو گیا تھا ۔ صرف ایک روز پہلے ان سے آدھا گھنٹے تک فون پر بات ہوئی تھی ۔ چھوٹی بہن کی شادی کی تاریخ مقرر ہو چکی تھی صرف تین ہفتے باقی رہ گئے تھے ۔ وہ خوشی خوشی ہمیں انتظامات اور تیاریوں کے بارے میں بتا رہی تھیں ۔ ہماری شرکت ممکن نہ تھی اس لئے تھوڑی سی افسردہ بھی تھیں ۔ اس وقت ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ہماری اپنی ماں سے آخری بات چیت ہے ۔ اگلے ہی روز ان کی دائمی جدائی کی خبر آ گئی ۔ ہمارے لئے یہ صدمہ بہت بڑا اور ناقابل برداشت تھا ۔ ہر وہ شخص جس نے اپنی ماں کو اس سے دور رہ کر کھویا ہو اور اس کی خدمت اور اس کے آخری دیدار سے محروم رہا ہو وہ اس دکھ کا اندازہ کر سکتا ہے ۔

‎امی کے انتقال کے تیسرے روز ایک عجیب واقعہ پیش آیا تھا ۔ آج اس تحریر کو قلمبند کرتے ہوئے پہلی بار خیال آیا ہے کہ اسے ویب قارئین کےساتھ بھی شیئر کیا جائے ۔ تب ہم کرائے کے اپارٹمنٹ میں تیسرے فلور پر رہتے تھے جمعے کے روز کی سہہ پہر تھی اس وقت ہم گھر کے لِونگ روم میں اکیلے بیٹھے تھے وہاں کوئی اور موجود نہ تھا ۔ حالت یہ ہو چکی تھی کہ آنسو خشک ہو گئے تھے مگر دل سے طغیانی نہیں گئی تھی ۔ اسی کیفیت میں اچانک بالکنی کے کھلے ہوئے دروازے سے بادل کا ایک سرمئی سا ٹکڑا اندر آ گیا اور بہت بےقرار سا اِدھر اُدھر چکرانے لگا ۔ ہم اپنا سارا رنج و غم بھول کر اس بادل کو دیکھ رہے تھے وہ چھت کے ساتھ ساتھ کبھی ہماری طرف آتا اور کبھی دور چلا جاتا ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ ماجرا کیا ہے ۔ پھر اچانک ایک آواز ہمیں اپنے دماغ میں سنائی دی ۔

‎" بیٹے! پریشان مت ہو " یہ امی کی آواز تھی جس میں خاصی سختی اور درشتگی تھی ۔ہم پر ہیبت طاری ہو گئی اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلا کہ کب وہ بادل کا ٹکڑا غائب بھی ہو گیا ۔ اب سے دو برس پہلے بھی جبکہ ہم کسی وجہ سے ایک شدید بحرانی کیفیت سے گذر رہے تھے تو تب بھی گھر کے لِونگ روم میں ہی جبکہ وہاں کوئی اور موجود نہ تھا تو ہم نے اپنے سامنے والی دیوار کے ساتھ ایک چھوٹا سا دودھیا غبار کا گولہ سا دیکھا ۔ ہمیں حیرانی ہوئی کہ یہ بھلا کیا چیز ہے اور یہاں کہاں سے آئی ہے ۔ ہم غور سے اس کی طرف دیکھنے لگے تو وہ دودھیا غبار یکلخت غائب ہو گیا لیکن اس کے بعد ہم نے اپنی طبیعت میں خاصا سکون محسوس کیا اور جو بحران ہم کو لاحق تھا اس کا بھی بہت جلد حل نکل آیا ۔

‎پھر امی کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد کی بات ہے ، یو ٹیوب پر پاکستانی اپ لوڈرز میں سے ایک بہت بڑا نام " نینالی " نے اپنی والدہ کی برسی کے موقع پر ان کی یادگار تصاویر پر مشتمل ایک سلائیڈ شو پوسٹ کیا ۔ اس پر کمنٹس دیتے ہوئے اسی دوران ذہن میں دو شعر موزوں ہو گئے جو کہ ہم نے لکھ دئیے ۔ نینالی نے جواب میں لکھا " آپ کے کمنٹس پڑھ کر میرے آنسو نہیں رُک رہے تھے میں بہت دیر تک روتی رہی " پھر وہی دو اشعار جنہیں قطعہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا ، ہم نے " ھماری ویب " پر افتخار الحسن صاحب کی اپنی مرحومہ والدہ کے بارے میں یادداشتوں پر مبنی ایک تحریر پر کمنٹس دیتے ہوئے بھی لکھے ۔ لیکن ہم ناچیز کے ان اشعار کو بہت شہرت اور مقبولیت تب ملی جب یہ " ھماری ویب " کے شاعری کے سیکشن میں زمرہ " ماں " کے تحت " گمشدہ جنت " کے عنوان کے ساتھ شائع ہوئے اور وائرل ہو گئے ۔ پھر ابھی چار روز پہلے مدرز ڈے والے دن اسی زمین میں یا پھر کہہ لیں اسی کلام کے تسلسل میں چند اور اشعار بھی ہمارے ذہن میں موزوں ہو گئے جو کہ ہم نے سپرد تحریر کر کے اور شاہ حسینؒ کے کلام کے پہلے مصرعے میں کچھ تحریف کر کے اسے عنوان بنایا اور " ھماری ویب " پر بھیج دیا جو کہ اسی رات شائع کر دیا گیا جس کے لئے ہم ان کے بےحد شکر گذار ہیں ۔ یہیں جناب رئیس احمد صمدانی صاحب کی ایک تحریر " میری ماں (شخصی خاکہ ) " نظر سے گذری تھی تو اس پر جو تبصرہ کیا تھا یہاں اس کا کاپی پیسٹ پیش خدمت ہے ۔
‎" بے حد پر تاثر اور دلگداز پیرائے میں تحریر کی گئی آپکی یہ یادداشتیں یقینا ایک سعادتمند اور ہونہار اولاد کی طرف سے اپنے مرحوم والدین کے لئے ایک بہترین خراج تحسین ہے ۔ آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کو والدین کی خدمت کا موقع ملا اور آپ نے ان کے آخری ایام میں ان کے ساتھ وقت گذارا ورنہ ہم پردیسیوں کو تو اکثر ہی یہ سعادت نصیب نہیں ہوتی ان کے آخری دیدار سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ۔ آب سے چار سال قبل ہماری بھی والدہ کا پاکستان میں بہت اچانک ہی انتقال ہو گیا تھا ۔ امی ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ ضرور تھیں مگر انتقال کے وقت بالکل بھلی چنگی تھیں کوئی بات ہی نہیں تھی بیٹھے بیٹھے ایکدم طبیعت خراب ہوئی اور لمحوں میں چٹ پٹ ہوگئیں اسپتال لے جانے کی بھی نوبت نہیں آئی ۔ عمر بھی کوئی ایسی زیادہ نہیں تھی اندازہ اسی بات سے کر لیں کہ ماشاء اللہ ہماری نانی حیات ہیں اور والد صاحب بھی ماشاء اللہ بالکل صحتمند اور چاق و چوبند ہیں کسی بھی قسم کا کوئی عارضہ انہیں لا حق نہیں ہے اللہ کے فضل و کرم سے ۔ خیر یہ سب اتنی آنا فانا ہو گیا کہ یہاں اطلاع ملنے پر ہم پر تو گویا کوئی قیامت ہی ٹوٹ پڑی ۔ پہلی دستیاب فلائٹ پکڑ کر بھی ہمارا اڑتالیس گھنٹوں سے پہلے وہاں پہنچنا ممکن نہیں تھا جبکہ امی اکثر ہی میتوں کی کسی کے انتظار میں تدفین میں تاخیر کے سخت خلاف تھیں اور کہا کرتی تھیں دیکھو بھئی جب میں مروں تو مجھے دفنانے میں جلدی کرنا ۔ دیر مت لگانا ۔ یہ بات ہمیں یاد تھی لہذا گھر والوں کے پوچھنے پر بہت بے بسی کے ساتھ ان کی آخری رسومات کی اجازت دے دی ۔ اور یوں ہماری جنت ہمیں اپنی ایک آخری جھلک بھی دکھلائے بغیر سپرد خاک ہو گئی ہماری منتوں سماجتوں کے باوجود خاندان کے بزرگوں نے ان کی وڈیو کوریج نہیں ہونے دی کہ اس سے انہیں تکلیف پہنچ سکتی ہے ۔ آج تک اس سانحے کا صدمہ دل سے جاتا نہیں ہے ۔ آپ کی تحریر پڑھ کر آنکھیں اشکبار ہو گئیں ۔ خدا ان تمام دکھی غمزدہ لوگوں کو صبر دے جن کی جنت ان سے جدا ہو گئی ہے ۔ اور جن خوش نصیبوں کے والدین حیات ہیں انہیں ان کی خدمت کرنے اور ان کی دعائیں لینے کی توفیق عطا فرمائے ۔
‎ایک شعر عرض ہے ہمارا اپنا کہا ہؤا ۔
‎تو جا بسی ہے زمیں کے اندر تیری خوشبو آتی ہے آسماں سے
‎نہ تو دور ہے نہ تو پاس ہے ، تجھے اے ماں! لاؤں کہاں سے؟؟؟ (رعنا تبسم پاشا ، نارتھ امریکہ)

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 230 Articles with 1856757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.