وزیراعظم محمد نواز شریف نے این ای سی کے اجلاس سے خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے معاشی اعشاریئے بہت بہتر ہوئے ہیں اور بین
الاقوامی ریٹنگ ایجنسیاں اس کو تسلیم کرتی ہیں۔ وزیراعظم کے اس دعوے کی
تصدیق معروف عالمی جریدے اکانومسٹ نے بھی یہ کہتے ہوئے کی ہے ”پاکستان کی
ترقی کا حجم 300بلین ڈالرز تک بڑھ گیا۔پاکستانی معیشت تاریخ کی بلند ترین
سطح کو چھونے لگی۔پاکستان کی معاشی ترقی5.3 فیصد سالانہ کی بلند ترین سطح
پر پہنچ گئی ہے۔ زرعی شعبے میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہتری آئی ہے۔
مالی سال 2016 اور 2017 میں پاکستانی حکومت نے جی ڈی پی ٹارگٹ کو بھرپور
طریقے سے پورا کیا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری میں
دلچسپی لے رہے ہیں اور برآمدات کے شعبے میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے۔“
وزیراعظم نے اجلاس میں مزید کہا کہ پاکستان نے رواں سال میں 5.28 فیصد
گروتھ ریٹ حاصل کیا جو قابل تعریف ہے۔ پاکستان تیزی سے معاشی ترقی کرنیوالے
ممالک کی صف میں شامل ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک کی ترقی کیلئے ہم
آہنگی کے ساتھ مل کر کام کررہی ہیں۔ سی پیک کے منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد
ہورہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں چاروں وزرائے اعلیٰ میرے ساتھ تھے جس سے
دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان ترقی کیلئے اتفاق رائے سے کھڑا ہے۔ قیادت متحد
نظر آئی۔ یہ بہت مثبت پیغام ہے کہ ہم سب متحد ہیں۔ بجلی کے حصول کیلئے ایل
این جی، کوئلہ، پن بجلی، شمسی اور ہوا کے ذرائع متوازن انداز میں استعمال
کئے جارہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا انفراسٹرکچر ترقی کیلئے ضروری ہے اور ہم
سڑکوں اور کمیونی کیشن نیٹ ورک پر توجہ دے رہے ہیں۔ ترقی کو سیاست زدہ نہ
کیا جائے۔ پاکستان کی ترقی میں سب کی خوشحالی ہے یہ سیاست کی نذر نہیں ہونی
چاہئے۔ اس پر سب کو متحد ہونا چاہئے۔
قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی شمولیت
جمہوریت کیلئے نیک شگون ہے۔ اس کا کریڈٹ مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف اور
پیپلزپارٹی کی قیادت کو یکساں طور پر جاتا ہے، ومی اقتصادی کونسل کے اجلاس
میں بجٹ کے حوالے سے جو بھی اعلانات کئے گئے وہ بادی النظر میں خوش آئند
ہیں۔ ایسے اجلاسوں میں عموماً حالات کا مثبت رخ اور روشن پہلو ہی دکھایا
جاتا ہے تاہم عالمی اداروں کی طرف سے ملکی معیشت کی مضبوطی کا اعتراف بہتری
کی عکاسی کرتا ہے۔ اجلاس میں آبی ذخائر کے حوالے سے کوئی تجویز نظر نہیں
آئی۔ آبی ذخائر میں کالاباغ ڈیم اہم ترین ہے۔ وزیراعظم نے تمام صوبوں کی
قیادت کو ایک اجلاس میں شرکت پر آمادہ کرلیا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر
ان کو قائل کرنا چنداں مشکل نہیں ہے۔ اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ قومی
اقتصادی کونسل کے اجلاس کے دوران جو اعدادوشمار سامنے آئے‘ ایسے اعدادوشمار
کو عموماً ”گورکھ دھندا“ قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت پر اعدادوشمار میں ٹمپرنگ
کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔ کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی باتیں
ہوتی ہیں۔ آئندہ ہفتے پیش ہونیوالے بجٹ میں قوم حکومت سے حقیقی اعداد وشمار
کی توقع رکھتی ہے، آئندہ سال کے بجٹ کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا انتخابی
بجٹ کہا جا سکتا ہے۔ حکومت نے بڑے بڑے منصوبے شروع کئے ہیں‘ سی پیک اہم
ترین ہے جس کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔ اگر 2018ءکے الیکشن میں مسلم لیگ (ن)
جیت کر تسلسل جاری نہیں رکھتی تو ایسے منصوبوں کے مستقبل کے بارے میں کچھ
نہیں کہا جا سکتا۔ آمریت کے سائے میں چلنے والی (ق) لیگ کی حکومت کے دوران
بھی کوئی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں تاہم اسکے بعد خالصتاً
جمہوریت کے دور میں کئی منصوبے تلپٹ ہوگئے۔ بجلی کا نہ ختم ہونیوالا بحران
اسکے بعد کی حکومت کیلئے بھی سوہان روح ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو کوئی اور پارٹی
ری پلیس کرتی ہے تو اسکے شروع کئے ہوئے منصوبوں کی تکمیل کی کوئی گارنٹی
نہیں دی جا سکتی تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ زیرتعمیر منصوبوں میں مزید
تیزی لے آئے۔ روایتی طور پر ایسا ہونے کا زیادہ امکان نہیں ہے۔ مسلم لیگ
(ن) نے یہ منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچانے ہیں تو 2018ءکے الیکشن میں کامیابی
حاصل کرنا ہوگی اس لئے اگلا مالی سال اور اس کیلئے خصوصی بجٹ اہمیت کے حامل
ہیں۔
مہنگائی میں کمی کے حوالے سے جاری ہونیوالے اعداد و شمار قابل اعتبار نہیں۔
بجٹ کے بعد منی بجٹ کئی بار پیش کئے گئے۔ بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کا ذمہ
دار سابق حکومت کو قرار دیا جاتا ہے۔ 4 سال میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جانا
چاہیے تھا۔ موجودہ حکومت ہر الزام سابق حکومت پر ڈال کر اپنی ذمہ داری سے
بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ دن رات ایک کرکے نہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ
بلکہ بجلی کے نرخوں میں کمی بھی ضروری ہے۔ منی بجٹ کی روایت کو ختم کرنا
ہوگا۔ ملک کا سب سے بڑا اور گھمبیر مسئلہ دہشت گردی اور اسکے بعد بدترین
کرپشن ہے۔ دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ پاکستان سرمایہ
کاروں کیلئے عمومی کشش رکھتا ہے مگر دہشت گردی آڑے آرہی ہے جس میں کمی کے
باعث سرمایہ کاری کے پاکستان میں بہترین مواقع ہیں‘ جنہیں مکمل طور پر
بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ بڑے بڑے لوگوں کے نام کرپٹ لوگوں کی فہرست میں
آتے ہیں۔ نیب احتساب کا سب سے بڑا ادارہ ہے جس پر سپریم کورٹ بھی برہم
دکھائی دیتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے عوام کو انکے انتخابی نعروں کے
تناظر میں کڑے احتساب کی امید تھی مگر ایسا چار سال میں تو ممکن نہیں ہوسکا
البتہ ایک سال بھی اس کارخیر کیلئے کافی ہے۔مسلم لیگ (ن) اور اسکے اتحادی
ایک سال میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ اگر وہ ناکام رہے تو
عوام کسی اور پارٹی سے امیدیں وابستہ کرلیں گے- |