ایک وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے وفاقی وزارت
سے مستعفی ہوکر اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوا دیا۔ وجہ اس انتہائی مایوس
کن اور جذباتی قدم کی یہ ہوئی کہ ڈی جی سپورٹس بورڈ کو معطل کر دیا گیا تھا،
وزیر موصوف کا کہنا تھا کہ مجھے اعتماد میں نہیں لیا گیا ، اپنے تحفظا ت کے
اظہار کے لئے وزیراعظم سے وقت مانگا گیا ، وہ نہیں ملا۔ تاہم میاں نواز کے
بارے میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ میرے لیڈر ہیں، میں اُن کے بارے میں کچھ
نہیں کہوں گا۔ انہوں نے وزیراعظم کے ارد گرد کچھ افسروں پر کرپشن کا الزام
بھی لگایا۔ اس واقعہ کے بعد اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پیرزادہ اور ان کے
موقف کی حمایت کی ہے، جبکہ پنجاب حکومت کے غیر اعلانیہ ترجمان رانا ثناء اﷲ
نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ استعفیٰ دینے سے قبل رابطہ کرنا
چاہیے، بعد میں ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔
چلیں اس استعفے سے (جس پرکہا جاتا ہے کہ پیرزادہ کو منا لیا جائے گا)
پیرزادہ کو سالہاسال کے بعد یہ تو معلوم ہوگیا کہ میاں نواز شریف سے وقت
لینا کتنا مشکل ہے۔ اس موقع پر پیرزادہ کو کچھ مزید صبر سے کام لینا چاہیے
تھا، ابھی تو پاناما لیکس کی ’عدالتی کامیابی‘ کے بعد میاں صاحب مبارکبادیں
وصول کرنے اور مٹھائی وغیرہ کھانے سے بھی فارغ نہیں ہوئے، خطرہ بہت حد تک
ٹل گیا ہے، مکمل ختم نہیں ہوا، اس لئے میاں صاحب سے وقت مانگنا مناسب معلوم
نہیں ہوتا،کبھی فرصت کے لمحات ہوں تو وقت دیا بھی جاسکتا ہے، وزیراعظم پر
بہت ذہنی دباؤ ہے، اسی لئے انہیں تروتازگی کے حصول کے لئے مری وغیرہ کا چکر
بھی لگانا پڑتا ہے، گزشتہ چند روز میں وہ دو مرتبہ مری کی سیر کر آئے ہیں،
اس کے علاوہ آج کل الیکشن مہم بھی شروع ہونے کو ہے، جس کے لئے انہیں سندھ
وغیرہ کے دورے بھی کرنے ہیں، بجلی کے نئے بننے والے کارخانوں کے دورے اور
عوام کو متحرک رکھنا بھی مجبوری ہے، لوڈشیڈنگ کم نہ ہونے پر متعلقہ لوگوں
پر اظہارِ ناراضی کے لئے بھی وقت نکالنا پڑتا ہے، پاناما لیکس کے نتائج کے
بعد قانونی ماہرین سے مشورے بھی ضروری ہیں۔ کیا کہا جائے وزیراعظم ہاتھ پر
ہاتھ دھرے فارغ تو بیٹھے نہیں رہتے کہ چھوٹے چھوٹے ملازمین کی معطلیوں اور
تبادلوں پر وزراء کی سفارشوں کے لئے اہم معاملات سے وقت نکالیں۔
ریاض پیرزادہ جہاں دیدہ انسان ہیں، انہوں نے ایک نہیں دیگر کئی بڑی پارٹیوں
کے ساتھ وقت ہی نہیں گزارا ، ان کی حکومتوں میں بھی شامل رہے ہیں، وہ پہلے
مسلم لیگ ن میں تھے، تو پی پی میں بھی گئے، اس کے بعد ملت پارٹی بنی تو
وہاں بھی کچھ عرصہ گزارا، پھر میاں نواز شریف جلاوطنی گزار رہے تھے تو
پیرزادہ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مشرف کے ساتھ ہو لئے، حکومت مشرف کے
ہاتھ میں تھی، تو سیاسی بندوق چوہدریوں کے کاندھے پر رکھی گئی تھی۔ پیرزادہ
نے صرف اُن لوگوں کی حمایت ہی نہیں کی، ان کی طرف سے دی گئی وزارت بھی قبول
کی اور انہیں اپنا قائد بھی تسلیم کیا۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ مشرف دور
میں وزارت کے دوران بھی پیرزادہ (نجی محفلوں کی حد تک) مشرف اور چوہدریوں
کے خلاف بیانات جاری رکھا کرتے تھے۔ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ میاں
نواز شریف اپنے ساتھیوں کو وقت کب دیتے ہیں؟ اور کن کو دیتے ہیں؟ یہ معجزہ
صرف ہنگامی حالات میں ہی رونما ہوتا ہے۔ وہ تو اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی
نہیں جاتے، کابینہ کا اجلاس بھی نہیں بلاتے، ہاں البتہ اُن دنوں میں جب
کوئی دھرنا وغیرہ ہو رہا ہو، عدالتوں میں کوئی کیس وغیرہ زیرسماعت ہو، یا
اسی طرح کا کوئی ہنگامی مسئلہ درپیش ہو۔ کہا گیا ہے کہ پیرزادہ کو منا لیا
جائے گا، اگرچہ یہ دروازہ رانا ثناء اﷲ نے بند کرنے کی کوشش کی ہے، اور وہ
ایسی کارروائیوں کی مہارت رکھتے ہیں۔ یہ بھی بعید نہیں کہ جس طرح انہیں
واپس بلانے کی خبر ہے، اسی طرح انہوں نے بھی کہیں اور جانے کی تیاری کرر
کھی ہو۔ پی پی، ق لیگ اور ن لیگ کی حکومتوں کے مزے تو وہ لے چکے ہیں، اب
صرف تحریک انصاف ہی کے امکانات رہ گئے ہیں،کیا جانئے کہ اب پنچھی ایک مرتبہ
پھر اُڑان بھرنے کے لئے تیار بیٹھا ہو۔ دعویٰ تو کسی بات کا نہیں کیا
جاسکتا ، کیونکہ شام تک پارٹی کی وفاداری کی باتیں کرنے والوں کا ناشتہ کسی
اور دسترخوان پر ہوتا ہے۔ ویسے اگر پیرزادہ میاں صاحب کو اب بھی اپنا لیڈر
مانتے ہیں تو پھر استعفے کا کیا جواز ہے؟ لیڈر کی تو ہر ادا کے سامنے سرِ
تسلیم خم ہوتا ہے۔ |