ماہِ رمضان المبارک جو اﷲ عز وجل کی طرف سے بہت بڑی
نعمت ہے۔حضورصلی اﷲ علیہ وسلم اس کے استقبال اوراسے گذارنے کاخاص اہتمام
فرماتے۔پیغمبراسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کاسب سے پہلا معمول یہ تھا کہ آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم رمضان المبارک سے محبت فرماتے اور اس کی آمد سے کئی روزپہلے
سے ہی اسے پانے کی دعا کرتے رہتے چنانچہ امام طبرانی کی اوسط میں اور مسند
بزار میں ہے کہ جیسے ہی رجب کا چاند طلوع ہوتا تو آپ اﷲ تعالیٰ کے حضور یہ
دعا کرتے:’’اے اﷲ! ہمارے لیے رجب و شعبان با برکت بنا دے اور ہمیں رمضان
نصیب فرما۔‘‘مفتی محمدخان قادری لطائف المعارف کے حوالے سے ’’حضورصلی اﷲ
علیہ وسلم رمضان المبارک کیسے گذارتے؟‘‘تحریر فرماتے ہیں کہ جب ہمارے اسلاف
نے اپنے کریم آقاصلی اﷲ علیہ وسلم کایہ معمول پڑھااور رمضان المبارک کی
اہمیت ان کے سامنے واضح ہوئی تو صحابہ وتابعین چھ مہینے رمضان شریف پانے کی
دعاکرتے اور چھ ماہ اس کی قبولیت کی دعاکرتے۔اس سے یہ سبق ملتاہے کہ انسان
کو مبارک وقت پانے کے لیے دعاکرنی چاہیے تاکہ وہ اس میں مزید نیک اعمال
کرکے اپنے مولیٰ کاخوب قرب حاصل کرلے اور اس کوپالینے کے بعد اس کی قبولیت
کی دعابھی کرنی چاہیے۔حضورصلی اﷲ علیہ وسلم ماہ شعبان ہی سے ماہ رمضان کے
لیے تیاری فرماتے کیوں کہ ماہ شعبان ،رمضان المبارک کے لیے مقدمہ کی مانند
ہے ،اس میں وہی اعمال ہوں جورمضان میں ہوں گے،اسی لیے حضورصلی اﷲ علیہ وسلم
ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے اور عبادت وریاضت کاخاص اہتمام فرماتے،ان
اعمال میں اُمت محمدیہ کے لیے درس ہے کہ سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر عمل
کرتے ہوئے ہمیں بھی پہلے سے ماہ رمضان کی تیاریاں شروع کردینی چاہیے۔ماہ
شعبان میں ماہ رمضان کی تیاری کے حوالے سے محدثین یہ ایک حکمت یہ بھی بیان
فرمائی ہے کہ ماہ رمضان کی برکات کوحاصل کرنے کے لیے مسلمان مکمل طور
پرتیار ہوجائے اور نفس،رحمن کی طاعت پرخوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی
ہوجائے۔جیسے فرائض سے پہلے سنتیں ہیں جن کے ذریعے انسان ذہن کو اپنے رب کی
بارگاہ کی طرف متوجہ کرتاہے تاکہ فرائض کی ادائیگی کی ذہنی تیاری
ہوسکے۔معمولات صحابہ سے اس حکمت کی تائید بھی ہوجاتی ہے ۔چنانچہ حضرت انس
رضی اﷲ عنہ ماہ شعبان میں صحابہ کے معمولات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں
کہ شعبان شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے،اپنے اموال کی زکوٰۃ
نکالتے تاکہ غریب ،مسکین لوگ رمضان بہتر طور پرگزارسکیں۔
جب یہ مقدس و مبارک ماہ اپنی رحمتوں کے ساتھ سایہ فگن ہوتا تو غم خوارِ
اُمت شفیع رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم اپنے صحابہ کو اس کی آمد کی مبارک
باد دیتے، چنانچہ امام احمد اور امام نسائی نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ سے آپ کا مبارک معمول ان الفاظ میں نقل کیا ہے:’’حضور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ و سلم اپنے صحابہ کو یہ کہتے ہوئے مبارک باد دیتے کہ تم پر رمضان کا
مہینہ جلوہ فگن ہواہے جو نہایت با برکت ہے، اس کے روزے تم پر اﷲ نے فرض
فرمائے ہیں، اس میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے
بند کر دئے جاتے ہیں، شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے، اس میں ایک رات ہے جو
ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو اس سے محروم ہو گیا وہ محروم ہی رہے گا۔امام
جلال الدین سیوطی اور شیخ ابن رجب علیہما الرحمہ کہتے ہیں کہ رمضان المبارک
کی مبارک باد پیش کرنے پر یہ حدیث اصل ہے۔(الحاوی للفتاویٰ، ۱؍۱۹۳،بحوالہ:ماہ
رمضان کیسے گزاریں؟)حضورصلی اﷲ علیہ وسلم صحابۂ کرام کو مبارک باد اور ان
پر اس کی اہمیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک کو خوش آمدید فرماتے،
کنز العمال اور مجمع الزوائد میں ہے، آپ فرماتے:’’لوگو! تمہارے پاس رمضان
تمام مہینوں کا سردار آگیا، ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔جس دن رمضان المبارک
کا چاند طلوع ہونے کی اُمید ہوتی اور شعبان کا آخری دن ہوتا تو آپ مسجد
نبوی میں صحابہ کرام کو جمع فرما کر خطبہ ارشاد فرماتے جس میں رمضان
المبارک کے فضائل و وظائف اور اہمیت کو اجاگر فرماتے تاکہ اس کے شب و روز
سے خوب فائدہ اٹھایا جائے اور اس میں غفلت ہرگز نہ برتی جائے، اس کے ایک
ایک لمحہ کو غنیمت جانا جائے۔‘‘
کتبِ احادیث میں رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
و سلم کے فرمودہ خطبہ کی تفصیل بھی ملتی ہے۔ترجمہ:حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم کو
شعبان کے آخری دن خطبہ دیا، فرمایا: اے لوگو! ٭ ایک بہت ہی مبارک ماہ تم پر
سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر
ہے۔٭اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا
ہے۔٭جو شخص کسی نیکی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی طرف قرب چاہے اس کو اس قدر ثواب
ہوتا ہے گویا اس نے دوسرے ماہ میں فرض ادا کیا۔٭جس نے رمضان میں فرض ادا
کیا اس کا ثواب اس قدر ہے گویا اس نے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ستر
فرض ادا کئے۔٭وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔٭ وہ لوگوں کے
ساتھ غمخواری کا مہینہ ہے۔٭ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔٭جو
اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے اس کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں اور
اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جاتی ہے اور اس کو بھی اسی قدر ثواب ملتا ہے
اس سے روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہیں آتی۔ اس پر صحابہ نے عرض کیا اے
اﷲ کے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیک و سلم ! ہم میں سے ہر ایک میں یہ طاقت کہاں
کہ روزہ دار کو سیر کر کے کھلائے۔ اس پر آپ نے فرمایا یہ ثواب تو اﷲ اسے
بھی عطا فرمائے گا جو ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ پلا
دے۔٭جس نے کسی روزہ دار کو افطاری کے وقت پانی پلایا اﷲ تعالیٰ (روزِ قیامت)
میرے حوضِ کوثر سے اسے وہ پانی پلائے گا جس کے بعد دخولِ جنت تک پیاس نہیں
لگے گی۔٭یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول رحمت ہے، اس کے درمیان میں بخشش ہے اور
اس کے آخر میں آگ سے آزادی ہے۔ ٭جو شخص اس میں اپنے غلام کا بوجھ ہلکا کرے
اﷲ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے اور آگ سے آزاد کر دیتا ہے۔(مشکوٰۃ شریف:
ص۱۷۳،۱۷۴) |