پانی،کلبوشن اور مسئلہ کشمیر

ہندوستان کی مستعدی اور پاکستان کی بیمار پالیسی

 پاکستان کلبوشن یادو کے کیس سے پہلے پانی کا کیس ہندوستان کے مقابلے میں ہار چکا ہے اور اس وقت بھی پاکستان کے نالائق حکمرانوں نے اپنی عوام کو بیوقوف سمجھ کر آخر وقت تک جھوٹ بولا تھا ۔حیرت انگیز بات یہ کہ ایک مسئلے سے متعلق پاکستان کے میڈیا نے دو متضاد خبریں چلائیں تھیں ۔ایک خبریہ تھی کہ’’ عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان کی جانب سے کشن گنگا ڈیم منصوبہ پر اٹھائے جانیوالے اعتراضات کو درست قرار دیتے ہوئے فیصلہ پاکستان کے حق میں سنادیا ہے جبکہ اس کے بالکل برعکس خبر یہ تھی کہ پاکستان کے ٹیم کی نااہلی اور ناقص تیاری کی وجہ سے پاکستان مقدمہ ہی ہار گیا اس کے حقائق بعد میں سامنے آئے کہ بھارتی رشوت نے اس مسئلے میں بڑا کام کیا تھا ۔پاکستان کی مشہور وئب سائٹ’’سیاست‘‘ پر خبر ہے کہpakistan has lost its stand due to poor handling of the case with india پاکستان بھارت کے خلاف اپنا مقدمہ ناقص تیاری کی وجہ سے ہار گیا۔روزنامہ نوائے وقت 23جنوری2014ء کو لکھتا ہے کہ قو می اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے عالمی عدالت انصاف میں کشن گنگا پاور منصوبے کیخلاف مقدمہ ہارنے کے باوجود انڈس واٹر کمشنر مرزا آصف بیگ نے پاکستان کے مقدمہ جیتنے کا بیان جاری کیا، عالمی عدالت انصاف نے دریائے جہلم پر بھارت کی طرف سے کشن گنگا پاور منصوبے کی تعمیر کیخلاف پاکستان کی درخواست مسترد کرکے موسم سرما میں پاکستان کے 12مکعب میٹر فی سیکنڈ پانی کے مطالبے کے برعکس صرف 9 مکعب میٹر فی سیکنڈ پانی جاری کرنے کا فیصلہ دیا۔اردوپوائنٹ میں ’’تقسیم آب ‘‘کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں لکھا ہے کہ ’’تقسیم ِ برصغیر کے وقت پاکستان کو کشمیر سے آنے والے دریاؤں سے 5600کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جبکہ جس میں سند طاس معاہدے کے تحت تین دریاؤں پر بھارتی حق تسلیم کر لینے کے بعد یہ پانی کم ہوتے ہوتے 1200کیوبک میٹر تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔جموں و کشمیر کے تمام دریاؤں پر بجلی پروجیکٹس کی تعمیر سے نہ صرف پاکستانی سرزمین بنجر ہو جائے گی بلکہ غذائی اجناس کی شدید کمی کے ساتھ ساتھ بجلی کا پہلے سے بحران شدت اختیار کرتا جا ئے گا۔مگر پاکستان کے لکھے پڑھے لوگوں کا پیٹ ملک کے برعکس صرف اس خفیہ رشوت سے ہی بھرتا ہے جو بھارت کی ایجنسیاں مختلف طریقوں سے مختلف مواقع پر انھیں پاکستانی کو نقصان پہنچا کر فراہم کرتی ہیں یقین نہ آئے تو کلبوشن یادو کے کیس سے متعلق پاکستانی اخبارات میں شائع ہو نے والے انکشافات پڑھ کر رفع کر لیجئے ۔

کلبوشن یادو پاکستان کے مطابق مبارک حسین پٹیل کے خفیہ نام پرجاسوسی کرنے والے اس شخص کا نام ہے جس نے بلوچستان سے لیکر کراچی تک بہت ساری دہشت گردی کی کاروائیاں انجام دیدی ہیں ۔پاکستان کی فوجی عدالت نے اس شخص کو سزائے موت سنائی ہے ۔اور 20مئی 2017ء کے بعد فوجی سربراہ سے رحم کی اپیل کی مدت ختم ہو نے کے بعد اس کے پاس دو ہی آپشن باقی رہیں گے ایک سپریم کورٹ اپیل اور دوم صدر مملکت سے رحم کی درخواست ۔اخباری اطلاعات کے مطابق کلبوشن یادو فوجی سربراہ سے اپیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے اور شاید وہ دوسرے دو آپشنز کے برعکس پھانسی ہی کو قبول کرے گا ۔مگر بھارتی حکومت نے اپنے طرف سے تمام تر ذرائع استعمال میں لاتے ہو ئے کلبوشن یادو کو بچانے کے لئے عالمی عدالت کی طرف رجوع کرتے ہو ئے پھانسی پر روک لگانے کی سنجیدہ کوششوں کا نہ صرف باضابط آغاز کر لیا ہے بلکہ اب بھارت کی کوششیں رنگ لاتی ہوئی نظر آرہی ہیں اس لئے کہ عالمی عدالت نے پہلی ہی سماعت میں حتمی فیصلہ آنے تک پھانسی پر روک لگا رکھی ہے ۔مگر بات اتنی سی نہیں بلکہ پاکستانی میڈیا ذرائع سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ خود پاکستان کے بعض طاقتور حلقے کلبوشن کو بچانے میں نہ صرف دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ انھوں نے اس کھیل کا با ضابط آغاز کر لیا ہے ۔ کراچی پاکستان سے شائع ہو نے والے روزنامہ اُمت 19مئی2017ء کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں وہ کلبوشن کے کیس کو عالمی عدالت تک پہنچانے کے کھیل کے دوسرا خوفناک پہلو بھی بیان کرتا ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ’’حکومت کو ہمیشہ شک و شبہ کی نظر سے دیکھنے والے حلقے کلبوشن یادو کا معاملہ عالمی عدالت میں لے جانے کے تانے بانے بھارتی اسٹیل ٹائیکون سجن جندال کے ساتھ وزیر اعظم کے کی غیر اعلانیہ ملاقات سے جوڑ رہے ہیں ۔یہ حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہیں کہ بھارتی بزنس مین کے ذریعے حکومت تک یہ پیغام پہنچایا گیا تھا کہ وہ کسی طرح کلبوشن تک بھارتی قونصلر رسائی کا راستہ ہموار کرے تاکہ دونوں ممالک دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی میں کچھ کمی آئے۔اس حوالے سے اپنی بے بسی ظاہر ہائے سجن جندال کو پیغام دیاگیاکہ بھارت عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرے۔

کلبوشن کے کیس کو عالمی عدالت میں لے جانے سے پہلے ’’عالمی عدالت‘‘کے دائرہ اختیار کو پاکستان تک بڑھانے کے لئے حیرت انگیز طور پر 29مارچ2017ء کو اقوام متحدہ کے ’’کمپلسری ڈیکلریشن‘‘پردستخط کئے ہیں۔ہندوستان اور پاکستان 1977ء میں ویانا کنونشن کے رکن بنے ہیں ہندوستان نے رکن بننے سے چار برس قبل اس ڈیکلریشن پر دستخط کئے ہیں ۔روز نامہ امت کے مطابق پاکستان کے کئی ماہرین قانون کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے خود بھارت کو کلبوشن کا کیس عالمی عدالت میں لے جانے کا موقع فراہم کیا ہے ۔اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ’’کمپلسری ڈیکلریشن ‘‘پر دستخط کئے ہیں جس سے بھارت کو کلبوشن کا کیس عالمی عدالت مین لے جانے کا موقع فراہم ہوا ہے ۔حیرت یہ کہ پاکستان کشمیر میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کیس بھارت کے کہنے پر ہی ابھی تک عالمی عدالت میں لینے سے رکاہواہے اس لئے کہ عالمی عدالت میں اسی کیس پر فیصلہ ہوتا ہے جس پر فریقین رضا مند ہوں ۔کلبوشن کے کیس میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا ہے ۔بھارت کے وکیل نے عالمی عدالت مین کیس لڑنے کے لئے فیس صرف ایک روپیہ لیا ہے جبکہ پاکستانی حکومت اپنے وکیل سے متعلق ابھی تک بتا نہیں پاتی ہے کہ کتنا فیس ادا کیا ہے یا کرنا ہے ۔حیرت انگیز بات یہ کہ پاکستانی وکیل نے عالمی عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کرتے ہو ئے وقت سے پہلے ہی بات ختم کر لی یعنی نوے منٹ کا کام اس نے صرف چالیس منٹ میں ختم کر کے شکوک و شبہات کو جنم دیدیاجس سے ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہو ئے ہیں کہ وکیل صاحب تیاری کر کے عدالت میں نہیں آئے تھے یا یہ عالمی عدالت میں موقف نرم رکھنے کی دانستہ کوشش کا حصہ ہے ۔

ان دو کیسوں کا معاملہ براہ راست پاکستان کی سالمیت سے جڑا ہوا ہے پانی کا کیس ہارنے کا مطلب تھا پاکستان کی سرسبزو شاداب زمینوں کو بنجر کرنے کی کوشش کرنا اور اب کلبوشن یادو کے کیس میں نرمی برتنے کا مطلب ہے پاکستان کی سرزمین اور جغرافیائی حدود سے کھلواڑ کرنا ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک ملک اور اس کے حکمران اس حد تک جاسکتے ہیں یا یہ کہ ان میں اس قدر گراوٹ آسکتی ہے تو پھر وہ اس کشمیر کا کیا کریں گے جہاں لوگ اپنے شہداء کو پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفناتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔کشمیر کا مسئلہ سمجھتے ہو ئے ہمیں اس بات کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ’’بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو‘‘اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں نہ لے جاتے تو شاید یہ مسئلہ سیاسی سطح پر اس قدر مستحکم نا ہوتا ۔آج بھی مسئلہ کشمیر سے ان قراردادوں کو نکال دیں تو گویا یہ مسئلہ ان ہزاروں مسائل میں سے ایک مسئلہ ہوگا جو سینکڑوں ملکوں اور قوموں کے بیچ پیدا ہو چکے ہیں لہذا یہ ماننا پڑے گا’’ صحیح یا غلط‘‘کہ یہ مسئلہ ہندوستان نے خود ہی علاقائی مسئلے سے نکال کر بین الاقوامی مسئلہ بنا دیا ہے ۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس نے اس مسئلے کو اپنی نااہلی اور نالائقی سے ہمیشہ بین الاقوامی سے مقامی مسئلہ بنادیا یقین نہ آئے تو پاکستان اور بھارت کے بیچ تمام معاہدوں کا تفصیلی مطالعہ کیجیے تو پتہ چلے گا کہ پاکستان نے اس کو صرف دو طرفہ مسئلہ مانا ہے اور آج بھی اس کی سفارتی کوششیں اس پر گواہ ہیں ۔

بھارت کے برعکس پاکستان کوعالمی سطح پر سب سے آسان پذیریائی وہ مسلم دنیا ہے جو اب ہر جگہ بھارت کو ترجیح دے رہا ہے یہ ایک دو نہیں پچاس سے بھی زیادہ ممالک پر مشتمل مسلم دنیا ہے جن کے ساتھ مل کر پاکستان بہت کچھ کر سکتا تھا مگر ہمالیائی حقیقت یہ ہے کہ اُو،آئی،سی کے اجلاس میں کشمیر پر قرارداد لانے کے لئے بھی پاکستان کوبہت جوکھم اٹھانے پڑتے ہیں اس لئے کہ مسلم دنیا بھارت کی ناراضگی سے اپنے آپ کو بچانا چاہتی ہے حالانکہ چند برس قبل تک بھارت کے ساتھ ان کے مفادات بہت ہی محدود تھے مگر اب ان میں بے انتہا وسعت آچکی ہے حتیٰ کہ کل تک ’’نریندر مودی‘‘کو ’’گجرات کے قاتل ‘‘سمجھنے والے عرب حکمران اب اس کو خوش کرنے کے لئے اپنے ممالک میں زمینیں فراہم کر کے مندربنانے کی بھی اجازت فراہم کر رہے ہیں اور تو اور خادمین حرمین شریفین اس کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازکر یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمیں ’’خونِ مسلم ‘‘سے بھی زیادہ عزیز وہ مالی مفادات ہیں جن کے توسع کے لئے بھارت ایک وسیع منڈی ہے ۔بھارت کی اس پذیریائی سے یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ وہ ہر محاذ پر مستعد ہے جبکہ پاکستان کی بیمار پالیسی پورے خطے کے لئے سرطان کا کام انجام دے رہی ہے ۔اس کی وزارت خارجہ سب کے سامنے ہے اور اس کے ماتحت سفراء خدا جانے کن مسائل میں مصروف ہیں کہ سب کچھ جانتے ہو ئے بھی وہ عالمی ضمیر کو کشمیر کے قتل عام پر باخبر کرنے سے ہچکچاتے ہیں یا ان کا حال بھی ’’مولانا‘‘کی کشمیر کمیٹی جیسا ہی ہے ۔جو سب کچھ کرتی ہے کشمیر کے سواء!!

کشمیری عوام کی مایوسی کوئی حیران کن امرنہیں ہے بلکہ شاید کچھ عرصے میں کشمیری عوام تنگ آکر اپنا من بدل لیں اس لئے کہ لاشوں کو اٹھاتے اٹھاتے اب ہماری کمر ٹوٹ چکی ہے ۔ہم سے قیدی،زخمی،یتیم ،بیوائیں سنبھالی نہیں جا پاتی تھیں کہ اب ہماری کوکھ میں بھارت کی گاندھیائی فورس نے اندھوں کی بھی ایک بڑی تعداد ڈال دی ہے ۔پاکستان بین الاقوامی برادری کو مسئلہ کشمیر پر جاندار موقف رکھنے کے باوجود بھی مطمئن نہیں کر پاتا ہے نا ہی اُس مسلم دنیا کو جو کئی حوالوں سے اس کے اپنے ہیں اور جن میں ’’ایٹمی قوت اور باصلاحیت فوج‘‘ہونے کے سبب ایک دبدبہ بھی قائم ہے ۔مگر پاکستان کے نااہل حکمران خود ہی 1972ء کے نقش قدم پر پھر چلتے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔جب ’’ہم اِدھر تم اُدھر‘‘کہہ کر ایک ملک کو دو حصوں میں بانٹ کھایا گیا۔آج بھی حکمرانوں کی نااہلی اس سطح تک پہنچی ہوئی ہے کہ کہیں بلوچستان میں لگی آگ پر قابو پانے کے لئے انہیں پسینے چھوٹتے ہیں اور کہیں کراچی میں نفرتوں کی دیواریں گرانے والے لوگوں پر گردوغبار ڈالنے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔پھر کشمیری کسی سے امید وابستہ کریں تو کیسے ؟جن کے حکمران بزدل اور نااہل ہونے کے ساتھ ساتھ حریص اور کرسی سے چمٹے رہنے کی بھوک میں مبتلا ہوں وہ بھلا اس نریندر مودی سے کیسے مقابلہ کریں جس کے نزدیک ’’گجرات کے قتل عام‘‘میں مارے جانے والے انسان گاڑی کے پہیے کے نیچے مر جانے والے کتے کے بچے جیسا ہو اور جس کی موجودگی میں آج بھی مسلمانوں کی توہین و تذلیل جاری ہو مگر وہ اپنے ہی ملک کے پچیس کروڑ مسلمانوں کے لئے ایک لفظ بھی منہ سے نکالنے کا حامی نا ہو تو بھلا پاکستانی حاکم اسے کیا مقابلہ کرے جس کا دل کلبوشن جیسے ’’شریف زادے‘‘ کے لئے بھی موم کی طرح نرم ہو ۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93668 views writer
journalist
political analyst
.. View More