جب آپ(شاہ شمس تبریز ) ؒ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک بلند
چبوترہ ہے جس کے اطراف میں ایک چھوٹا سا باغیچہ ہے۔ اس چبوترے کے اطراف میں
ہر قسم کے پھول موجود تھے۔ وہاں آپ ؒ کی ملاقات مختلف علماء دین سے ہوئی
لیکن مولانا جلال الدین رومی ؒ کہیں نظر نہ آئے۔ چبوترے پر با قاعدہ مجلس
کا آغاز ہوا تو تصوف پر بحث شروع ہو گئی۔ اس دوران حضرت عمر نے با آواز
بلند اعلان کیا کہ ہمارے درمیاں آج علم و ادب کی ایک نامور شخصیت حضرت شاہ
شمس تبریز ؒ موجود ہیں۔ ساتھ ہی وہ آپ ؒ کا ہاتھ پکڑ کر سامنے لے آیا۔ آپ ؒ
نے اپنا مختصر تعارف کروایا۔ علماء نے آپ ؒ سے علم القران کے بارے میں
اظہار خیال کرنے کو کہا۔ آپ ؒ نے قدرے توقف سے کام لیا پھر اپنی تقریر شروع
کی۔
حمد و ثناء درود و سلام کے بعد آپ ؒ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے زوال کی بڑی
وجہ یہ ہے کہ وہ علم القرآن کو بھلا بیٹھے ہیں یہاں تک کہ قرآن کریم کے
پیغام کو بھول ہی بیٹھے ہیں۔دولت دنیا اور عیش کو سجدے کر رہے ہیں۔ موجودہ
دور میں اس بات کا جائزہ لیا جائے تو مسلمان دولت اور عیش عشرت میں ایسے گم
ہو چکے ہیں کہ اب لوگ انہیں علم کی بجائے دولت سے ہی پہچانتے ہیں اور ان کی
دولت کو ہی سلام کرتے ہیں۔قرآن پاک کی تعلیم اور اس میں موجودہ پیغام کو
پہچاننا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے۔
مسلمانوں کی دولت پرستی کی روش نے انہیں اب تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا
ہے۔قرآن مجید کا علم حقیقت میں علم کا سمندر بحر بیکراں ہے۔ قرآن مجید کے
علوم کا حصول ہر انسان پر واجب ہے اور اس کے علوم کسی ایک انسانی زندگی پر
ختم نہیں ہوتے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالی نے خود فرمایا ہے کہ اگر جن اور
انسان مل کر بھی کوشش کریں تو وہ ایک آیت بھی نہیں لا سکتے۔
حضرت شاہ شمس تبریز ؒ نے علوم قرآن پر سیر حاصل بحث کی۔ آپ ؒ کی گفتگو کے
دوران ہی مولانا جلال الدین رومی ؒ تشریف لے آئے تھے۔ انہوں نے آپ ؒ کی
گفتگو سنی۔جب آپ ؒ اپنی گفتگو کے اختتام کے بعد مسند ارشاد سے نیچے تشریف
لائے تو آپ ؒ کی مولانا جلال الدین رومی ؒ سے ملاقات ہوئی۔ محمد زبیر نے
آگے بڑھ کر آپ ؒ کو بتایا کہ یہی مولانا جلال الدین رومی ؒ ہیں۔ مولانا
جلال الدین رومی ؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں نے آپؒ کی تمام تقریر سنی
آپؒ کے پاس بہت علم ہے کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپؒ تبریز سے یہاں کیوں
تشریف لائے؟ آپ ؒ نے فرمایا کہ میں محض تم سے ملنے کے لئے آیا ہوں۔ پھر آپ
ؒ نے مولانا جلال الدین رومی ؒ سے سوال کیا کہ آپ ؒ ملک روم کے سب سے بڑے
عالم ہیں آپ ؒ مجھے بتا سکتے ہیں کہ مجاہدہ اور ریاضت کا کیا مقصد ہے؟
حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ نے فرمایا مجاہدہ اور ریاضت درحقیقت اتباع
شریعت کا دوسرا نام ہے۔ اس پر حضرت شاہ شمس تبریز ؒ نے فرمایا کہ یہ تو
سبھی جانتے ہیں لیکن ریاضت اور مجاہدہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی
منزل مقصود کو پا لے ۔ پھر آپؒ نے یہ اشعار پڑھے؛
علم کز تو ترا نہ بستاند،
جو علم تجھے تجھ سے نا لے لے ،
جہل زاں بہ بود بسیار
اس علم سے جہل بہتر ہے ۔
مولانا جلال الدین رومی ؒ کی شاہ شمس تبریز ؒ سے ملاقات کے بعد زندگی یکسر
تبدیل ہو کر رہ گئی۔جس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب آپؒ کی طبیعت ناساز رہنے
لگی تو ان دنوں آپ ؒ شاہ شمس ؒ کو کثرت سے یاد کیا کرتے تھے۔اور ان کی ہی
باتیں کرتے رہتے ان دنوں آپ ؒ ریاضت و مجاہدے میں اس قدر مشغول رہتے کہ بیس
بیس دن تک کھانا نا کھا تے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہتے۔اور اس عبادت کا
یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ عشاء کی نماز کے لیئے کھڑے ہوئے اور
قیام میں ہی فجر کا وقت ہو گیا۔
۶۷۲ ہجری میں شہر قونیہ میں شدید زلزلہ آیا۔ لوگوں نے آپؒ سے دعا کے لیئے
کہا تو آپ ؒ نے فرمایا کہ زمین اس وقت تک بھوکی ہے اور تر لقمہ ہی اس کی
بھوک مٹا سکتا ہے۔ زمین کو عنقریب تر لقمہ ملنے والا ہے۔ آپ ؒ کے اس قول کے
کچھ دنوں بعد ہی آپ ؒ کی طبیعت شدید خراب ہوگئی۔ طبیب آپ ؒ کا مرض سمجھنے
سے قاصر تھے۔مولانا جلال الدین رومی ؒ نے ۶۷۲ھ کو اس دنیائے فانی سے کوچ
فرمایا آپ ؒ کو قونیہ میں ہی دفن کیا گیا۔ آپ ؒ کے تلامذہ میں حضرت بو علی
قلندر پانی پتی ؒ کا نام نمایاں ہے جن کا شمار بر صغیر پاک و ہند کے نامور
اولیاء اﷲ میں ہوتا ہے۔
مولانا جلال الدین رومی ؒ نے اپنے وصال سے قبل فرمایا تھا کہ میرے دوستو
مجھے قتل کر دو کیونکہ میری زندگی اب قابل قتل ہے آپ ؒ کے ان الفاظ کا مطلب
صوفیاء کرام ؒ نے یہ بیان کیا کہ یعنی میں زندگی کو دریافت کر چکا ہوں اور
میں نے زندگی کی حقیقت کو پہچان لیا اس لئے اب میرے دل میں زندہ رہنے کی
کوئی خواہش باقی نہیں ہے۔مولانا جلال الدین رومی ؒ کے عرس مبارک کے موقع پر
مزار پاک پر محفل سماع منعقد کی جاتی ہے جس میں آپؒ کی مثنوی کے اشعار
سنائے جاتے ہیں۔مولانا جلال الدین رومی ؒ کے بارے میں ایک یونانی فلسفی نے
کہا تھا کہ رومی ؒ کی مثال روٹی کی سی ہے جسے ہرکوئی تناول کرنا چاہتا ہے
خواہ وہ امیر ہو یا غریب اور کسی نے کبھی کیا کسی فاقے کو روٹی سے بھاگتے
دیکھا ہے۔
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ کو مولانا جلال الدین رومی ؒ سے دلی عقیدت تھی۔
آپ ؒ نے اپنی تصنیفات میں مولانا جلال الدین رومی ؒ سے اپنی عقیدت کا اظہار
جا بجا کیا ہے۔ آپ ؒ خود کو مولانا جلال الدین رومی ؒ کا مرید مانتے تھے
اور ان کے افکار و اقوال سے بے حد متاثر تھے۔
آپ ؒ نے مولانا جلال الدین رومی ؒ سے اپنی عقیدت کا اظہار ان الفاظ میں کیا
ہے۔
چو رومی در حرم دادم اذاں؛
منازو آموختم اسرار جاں من
بہ دور فتنہ عصر کہن او
بہ دور فتنہ عصر رواں من
مولانا رومیؒ کی زندگی کا احاطہ چند مضامین میں کرنا ممکن نہیں لیکن جہاں
تک ہو سکا ہر ممکن کوشش کی کہ کچھ واقعات سے آپکیؒ زندگی کے روشن پہلو
قارعین کی نظر کر سکوں۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے اﷲ کہ ہمیں اپنے انعام یافتہ
لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین |