ہم تم کو نہیں بھولے،،،،،،شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی
حیات ہے
مئی کا مہینہ اور پھر بیس مئی کا دن اہلیان چکوال کے لیے اس لحاظ سے نہایت
اہمیت کا حامل ہے کہ اس روز چکوال کے قبرستانوں میں محو استراحت سینکڑو ں
شہدا میں ایک اور شہید کرنل عارف محمو د عالم کا اضافہ ہوا،چکوال کی دھرتی
اس لحاظ سے بڑی ہی خوش قسمت ہے کہ ا س کے ہر گاؤں میں کسی نہ کسی شہید کا
مرقد ہے،کرنل عارف محمود عالم10مارچ1965کو بھون کے ایک راجپوت گھرانے میں
پیدا ہوئے،ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اور بعد ازاں ملٹری کالج جہلم سے
میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج چکوال سے ایف اور بی اے کا
امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد 13 اپریل 1987کو کور آف
انجنیئرنگ میں کمشن ھاصل کیا،ملک بھر میں اپنی خدمات سرانجام دیں اور مختلف
پروفیشنل کورسز بھی پاس کیے 1992میں والدین نے رشتہ ازدواج سے منسلک کر دیا
،پہلی اولاد بیٹی اور پھر دو بیٹے ہوئے سب سے چھو ٹا بیٹا 2009میں پیدا
ہوا،جبکہ 2010 میں لیفٹیننٹ کرنل عارف نے کرنل کے عہدے پر ترقی حاصل
کی،ادھر گلگت بلتستان میں غالباً دسمبر کے مہینے میں ایک بہت بڑے مٹی کے
تووے نے نہ صرف دریائے ہنزہ کے بہاؤ کا راستہ بند کر کے اسے ایک بہت بڑی
جھیل میں تبدیل کر دیا دوسری طرف آ س پاس رہنے والوں کی زندگی کو بھی بند
گلی میں محصور کر دیا،پانی کی مسلسل آمد جبکہ نکلنے کا راستہ نہ ہونے کی
وجہ سے شاہراہ قراقرم اور ملحقہ سڑکیں بھی زیر آب �آ گئیں،ملک میں کوئی
ایسا ادارہ نہ تھا جو اس ناگہانی اور عذاب نما مصیبت سے نبرد آزما ہو سکتا
یا خلق خدا کی جان خلاصی کروا سکتالے دے کے نظر انتخاب ہر بار کی طرح اس
بار بھی پاکستان آرمی پہ ہی ٹھری اورپاک آرمی نے ہر بار کی طرح اس بار بھی
قوم پر آئے اس کڑے وقت میں عزم و ہمت کا شاندار مظاہرہ کیا،اس مصیبت سے
نمٹنے کے لیے ذمہ دار ی ایف ڈبلیو او کے کندھے پرڈالی گئی جو اس سے قبل بھی
ملک کے بڑے اور اہم ترین پراجیکٹ میں اپنا لوہا منوا چکی تھی،آدھا جنوری
گذرنے کے بعد اس پر کام شروع ہوا اور سلائیڈ کی ایک سائیڈ کاٹ کر پانی کے
بہاؤ کا عارضی راستہ بنا دیا گیا،مگر مسئلے کا یہ حل بالکل عارضی ثابت ہوا
کیوں پانی کی آمد اخراج سے کہیں زیادہ تھی ،اس لیے اس کے دوسرے مرحلے کے
لیے اکتوبر میں دوبارہ ایف ڈبلیواوکی خدمات حاصل کی گئیں،اور اس منصوبے کی
کمانڈ کرنل عارف محمود عالم کے سپرد کی گئی،یہاں یہ وضاحت ضرور ی ہے کہ
اکتوبر کے دنوں میں اس علاقے میں شدید ترین سردی پڑتی ہے اور بعض اوقات
پارہ منفی 14تک بھی پہنچ جاتا ہے تاہم موسم کی شدت اور سختی پاک آرمی کے
جوانوں کے عزم و ہمت کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی،اور عزم وہمت سے
سرشار جوانوں نے کرنل عارف محمود عالم کی قیادت میں علاقہ مکینوں اور ذرائع
آمدورفت سڑکوں اور پلوں کو کلیئر کر دیا، اپریل کے آخر اور مئی کے مہینے
میں گلیشئرز کے پگھلنے کی وجہ سے اس علاقے کے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ
معمول سے کہیں زیادہ تیز ہو جاتا ہے،اور ایسا ہی ادھر بھی ہوامقررہ سپل وے
سے پانی کا بہاؤ یک دم اس قدر تیز ہو گیا کہ کام کرتے عملے کے ساتھ ساتھ
کام کے لیے لائی گئی اربوں روپے کی بھاری مشینری بھی پانی میں غرق ہوتی نظر
آنے لگی،کرنل عارف محمود نے فوراً کام بند کر کے عملے کو مشینوں سمیت محفوظ
مقام پر پہنچ جانے کا حخم جاری کیا،تمام لوگ فوراً ہی مناسب بندوبست کے
ساتھ محفوظ جگہ پر منتقل ہو گئے مگر دو ایکسیویٹر مشینیں اور ان پر موجود
تین افراد پانی میں پھنس گئے اور مدد کے لیے چیخ و پکار کرنے لگے،اس وقت
کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان لوگوں کی مدد کیسے کی جائے اور ان کی
جان کیسے بچائی جائے،کرنل عارف محمود عالم چونکہ اس منصوبے کے نگران اور
انچارج تھے انہوں نے کسی بھی شخص کی زندگی داؤ پر لگانے کی بجائے عجیب
فیصلہ کیا کہ ان افراد کو بچانے میں خو دجاؤں گا،بیشمار جری جوانوں اور
کمانڈوز کے ہوتے ہوئے پاک فوج کے اس قابل فخر سپوت نے خود موت کے دریا میں
کودنے کا فیصلہ کیا ،کرنل عارف محمود نے محصور لوگوں کی ترف ایک مظبوط رسہ
پھینکا جو انہوں نے ایکسیویٹر کے ساتھ باندھ دیا دوسری طرف سے کرنل نے یخ
سردی میں تنے رسے پر موت کی وادی میں پھنسے اپنے جوانوں کی طرف سفر شروع
کیا مگر عین درمیاں میں دریا کی طغیانی کی وجہ سے اکیسی ویٹر کو جھٹکا لگا
اور کرنل اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور پانی میں گر گئے بہاؤ اتنا تیز
تھا کہ بھاری مشینری بھی اس میں بہہ جاتی کرنل عارف محمود عالم یخ بستہ
سردی میں یخ بستہ پانی میں گر کر ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے ،اور اس بات کو
سچ ثابت کر گئے کہ اپنے لیے تو سب جیتے ہیں زندگی کا اصل مقصد دوسروں کے
کام آنا ہی ہے،ان کا جسد خاکی وہاں سے کافی نیچے سرٹ پل کے مقام سے ملا،بعد
ازاں انہیں 23مئی کو ان کے آبائی گاؤں بھون میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ
سپرد خاک کر دیا گیا،اللہ سے دعا کہ شہید کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت
الفردوس مٰن اعلیٰ مقام عطا کرے۔ |