فاروق عمر ٗ پاک فضائیہ کے ممتاز اور جری فائٹررہے
ہیں ۔ یہ میرے اور سکواڈرن لیڈ سرفراز رفیقی (شہید) کے ساتھی ہیں۔ہم 1965ء
اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں اکٹھے دفاع پاکستان کی جنگ لڑتے رہے ۔حکومت
پاکستان نے گراں قدر خدمات کے صلے جناب فاروق عمر کو بے شمار اعلی اعزازات
سے نوازا۔ جو ان کی بہادری کے صلے میں تھے۔یہ الفاظ پاکستان کے ممتاز اور
مایہ ناز فائٹر پائلٹ اور ائیر کموڈور (ر) ایم ایم عالم( ستارہ جرات اینڈ
بار ) کے ہیں۔ جنہوں نے اپنے رفیق کار فاروق عمر کو بہترین الفاظ میں خراج
تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی کتاب کا فلیپ لکھا ۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ
ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر نے پاک فضائیہ اور پاکستان کے لیے بے
شمارکارہائے نمایاں انجام دیئے ۔وہ ریٹائر منٹ کے بعدمینجنگ ڈائریکٹر پی
آئی اے بھی رہے ۔ یہ وہ دور تھا جب پی آئی اے دنیا کی بہترین ائیر لائن میں
شمار کی جاتی تھی بلکہ دنیاکے کتنے ہی ممالک میں ائیر لائن کو اپنے پاؤں پر
کھڑا کرنے کا فریضہ پی آئی اے نے ہی انجام دیا تھا ۔ آپ چیف ایگزیکٹو اور
ڈائریکٹر جنرل پی اے سی کامرہ رہے ۔اس دوران مشاق جہاز کو سپر مشاق بنوایا
۔ چین کی مدد سے قراقرم آٹھ جیٹ ٹرینر تیار کروائے -ایف 16 جہاز کے انجن کی
استطاعت بڑھانے کے لیے مفید اقدامات کیے ۔ جے ایف 17 تھنڈر کے ابتدائی کام
کی نگرانی کی ۔ آپ شاہین ائیر لائن سربراہ بھی رہے ۔جب ہاکی فیڈریشن کے صدر
بنے تو ایسی ٹیم تیار کی جس نے اپریل 1994ء میں ورلڈ چیمپیئن ٹرافی حاصل
کرکے پاکستان کا نام روشن کیا ۔
فاروق عمر 24 جولائی 1941ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد میاں
محمد نور اﷲ ٗ قائداعظم کے قریبی ساتھی اور ممدوٹ کابینہ میں پنجاب کے پہلے
فنانس منسٹر بنے ۔ فاروق عمر نے ابتدائی تعلیم ٗ برن ہال ایبٹ آباد اور
میٹرک سنٹرل ماڈل سکول لاہور سے کیا ۔بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے بقیہ
تعلیمی مدارج حاصل کرکے 1957ء میں پاک فضائیہ کو جوائن کرلیا۔فائٹر پائلٹ
کی حیثیت سے جہاں فاروق عمرصاحب نے پاک بھارت جنگوں میں کارہائے نمایاں
انجام دیئے ۔وہاں لیبیا میں آپ پاکستان کی جانب سے پہلے سکواڈرن لیڈر
تعینات ہوئے اور لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کو جہاز اڑانا سیکھانے کے
ساتھ ساتھ لیبیا میں ائیر فورس کی تربیت کے فرائض انجام دیئے۔آپ کی فنی
مہارت کے چرچے صرف لیبیا تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ مصر ائیرفورس کے کمانڈر
انچیف اور پریذیڈنٹ مصر ٗ انور سادات اور بعد میں حسنی مبارک بھی آپ ہی سے
جہاز فلائنگ کرنا سیکھتے رہے۔
ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر ٗ جنگ ستمبر کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ایک
جگہ لکھتے ہیں کہ 5 ستمبر 1965ء کو حکم ملا کہ میں امرتسر شہر کے اوپر سپر
سونک دھماکہ کروں ۔ چنانچہ میں نے کسی خوف کے بغیر انٹرنیشنل بارڈر کراس
کیا ۔اس وقت میں 10 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کررہاتھا ۔ میرے جہاز کی
رفتار 540 ناٹ تھی ۔ جونہی میں دریائے راوی پر پرواز کرتے ہوئے جونہی میں
امرتسر شہر پر پہنچا تومیں نے 200 فٹ کی بلندی پر جہاز کی سپیڈ بڑھائی اور
1.21ماک پر گولڈن ٹمپل پر نشانہ بناتے ہوئے امرتسر شہر کے اوپر سے نہایت
تیزی سے گزرگیا ۔صرف 20 سیکنڈ میں ٗمیں نے امرتسر شہر کا چکر لگا کر واپس
سرگودھا کی جانب کامیابی سے پرواز کی ۔ کسی بھارتی جہاز اور طیارہ شکن توپ
کو مجھ پر یلغار کرنے کی ہمت نہ ہوئی ۔
1965ء کی جنگ کے دوران ایک اہم ترین فضائی معرکے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے
ہیں کہ فلائٹ لیفٹیننٹ عارف اقبال ایف 104میں ایک طرف اور سرگودھا کی دوسری
طرف 20ہزار فٹ کی بلندی پر میں فضائی گشت کررہے تھے ۔سکوارڈن لیڈر ایم ایم
عالم اور ان کے نمبر 2 اپنے جہاز F-86 میں پہلے ہی فضا میں موجود تھے ۔
اتنی دیر میں سرگودھا کی توپوں نے اینٹی ائیر کرافٹ کے گولے برسانے شروع
کردیئے ۔ اس کا مطلب تھا کہ انڈین ائیر فورس کے جہاز سرگودھا پر حملہ
آورہونے والے ہیں ۔ ابھی ہم ان کے مقابلے کے لیے بلندی سے نیچے آنے کی کوشش
کررہے تھے کہ ہم سے پہلے ہی سکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم ریڈار چینل پر پہنچے
اور انڈین ہنٹر جہازوں پر حملہ آور ہوگئے ۔ انہوں نے زمینی توپوں کی پرواہ
نہ کرتے ہوئے انڈین جہازوں کا تعاقب کیا اور دو منٹ میں تین جہاز مارگرائے
جبکہ چوتھا انڈین طیارہ دم دبا کر بھاگ کھڑا ہوا۔اس کے بعد بھارتی طیاروں
سے آنکھ مچولی جاری رہی لیکن انڈین سرگودھا ائیر بیس کونقصان پہنچانے میں
کامیاب نہ ہوسکے ۔
آپ ایک اور جگہ پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر پہنچ کر تصویریں لینے کے مشن کے
بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں۔ انڈیا نے پٹھانکوٹ ائیر بیس اور پاکستانی سرحد
پر SAM-3 کی بیٹریز نصب کردی تھی تاکہ پٹھان کوٹ کا رخ کرنے والے پاکستانی
طیاروں کو ٹارگٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی گرایا جاسکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہیوی
گن اور روسی ساخت کے مگ 21 بھی چار چار کی ٹولیوں میں فضا میں پہرہ دے رہے
تھے ۔ اس صورت حال میں ائیر ہیڈ کوارٹر کی جانب سے مجھے اور میرے نمبر 2
پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ راؤ اخترکو جالندھر ائیر فیلڈ اور گرد و نواح میں
فوجی تنصیبات کی تصویریں ی بنانے کا ٹاسک ملا۔ہم جونہی بھارتی سرحد عبور
کرکے جیکولری ریلوے لائن کے قریب پہنچے تو نیچے سے گن فائر شروع ہوگیا ۔
یہاں سے ڈیڑھ سو فٹ کی بلندی پر پٹھانکو ٹ کاائیر بیس موجود تھا جو
کیموفلاج کی وجہ سے ہمیں واضح طور پر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔عین اس وقت
مجھے دوانڈین مگ 21 طیارے حملہ آور ہونے کے لیے پوزیشن لیتے ہوئے دکھائی
دیئے ۔ اگر ہم پٹھان کوٹ ائیر فیلڈ کی جانب رخ کریں تو انڈین طیارے تعاقب
کرکے ہمیں نقصان پہنچانے کی جستجو میں تھے ۔ دشمن کا ریڈار پہلے ہی ہمیں
دیکھ چکا تھا ۔اب ہمارے پاس دوآپشن تھے ایک فوٹوگرافی کیے بغیر ہم انڈین مگ
کے ساتھ آنکھ مچولی کرتے ہوئے سرگودھا کا رخ کریں تو دوسرا آپشن یہ تھا کہ
پہلے انڈین طیاروں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرلیے جائیں پھر فوٹوگرافی کرکے واپس
لوٹا جائے ۔میں نے اپنے نمبر 2 پائلٹ راؤ اختر کو حکم دیا کہ تم انڈین
طیاروں کو مصروف رکھو اورمیں پٹھانکوٹ ائیر فیلڈ کی تصویر لینے کی کوشش
کرتا ہوں ۔ جب راؤ اختر انڈین طیاروں پر جھپٹنے کی پوزیشن میں تھے تو میرے
جہاز کا ایک ٹینکر تو الگ ہوگیالیکن دوسرا ٹینکر جام ہوگیا ۔ اس پوزیشن میں
میرا جہاز انڈین طیاروں کے رحم و کرم پر تھا ۔ میں نے اس لمحے رب کو یاد
کیا اور بھارتی طیاروں کی تعداد گنی تو وہ چھ تھے جبکہ ہماری تعداد صرف دو
تھی ۔راؤ اختر تو سپیڈ تیز کرکے انڈین طیاروں کی پہنچ سے دور نکل گئے لیکن
میرا جہاز ٹینکر نہ گرنے کی وجہ سے مفلوج ہوگیا ۔ اب موت بالکل آنکھوں کے
سامنے تھی ۔ اﷲ سے مدد مانگی ۔اس کے باوجود کہ ایک ٹینک کے ساتھ جہاز کا
مڑنا ناممکن تھا اور رفتار بھی بہت کم ہوچکی تھی ۔اچانک اﷲ کی تائید و
حمایت پہنچی اور میں دشمن کے چھ طیاروں کو چکما دے کر انتہائی نیچی پرواز
اور ڈگمگاتا ہوا سرگودھا ائیر بیس پر لینڈ کرگیا ۔
ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر ایک حیرت انگیز واقعہ جو جرمن میں ٹریننگ کے
دور پیش آیا ٗ کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رمضان المباک کے دن تھے ہمیں
سحری کے لیے اٹھنا پڑتا ۔ ایک دن ہمیں پتہ چلا کہ جس فلور پر ہم قیام پذیر
ہیں۔اسی فلور کے حوالے سے ایک شخص نے شکایت کی کہ میرے ساتھ والے کمرے میں
رہائش پذیر پائلٹ سونے نہیں دیتا۔ روزانہ علی الصبح اونچی اونچی آواز میں
گانے گاتاہے ۔ یہ سن کر ہم سب حیران ہوئے کہ ہم میں سے توکوئی گلوکار نہیں
ہے لیکن شکایت کرنے والا اپنی بات پر بضد تھا ۔جب پوچھ گچھ شروع ہوئی توپتہ
چلاکہ یہ ایم ایم عالم کا کمرہ تھا جو ہمارے ٹیم لیڈر تھے ۔ جب ان سے اس
بارے میں پوچھاگیا تو انہوں نے بتایا کہ میں گانانہیں گاتا بلکہ نماز فجر
سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہوں جس کو یہ لوگ گانا سمجھ رہے ہیں۔
فاروق عمر ایک ریٹائر امریکی جنرل کے دورہ پاکستان کے واقعات قارئین سے
شیئر کرتے ہوئے ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ جنرل تھامس ڈیوائڈ ٗ ائیر چیف
مارشل اصغر خان کی دعوت پر 1964ء میں پشاور تشریف لائے ۔ میں چونکہ ائیر
چیف اصغر خاں کا اے ڈی سی تھا اس لیے کمانڈر انچیف کے حکم پر مجھے بطور اے
ڈی سی جنرل تھامس کے ساتھ بذریعہ ہیلی کاپٹر سیدو شریف پہنچادیا گیا ۔ اصغر
خان نے مجھے حکم دیا کہ جنرل تھامس دریائے سوات میں چکدرہ کے قریب ٹراؤٹ
اور مہ شیر مچھلی کا شکار کرنا چاہتے ہیں ۔انہیں ہر سہولت فراہم کی جائے
اور ان کو سردی اور سرد پانی سے بچانے کا بھی انتظام کیاجائے ۔ اگلے د ن
جنرل تھامس ربڑ کے تین فٹ لمبے جوتے پہن کر دریائے سوات میں مچھلیاں پکڑنے
میں مصروف تھے ۔جب اس کام سے فارغ ہوئے تو انہیں سردی کی وجہ سے زکام ہوگیا
۔ائیر چیف اصغر خان کا فون آیا اور پوچھا جنرل تھامس کی طبیعت کیسی ہے میں
نے بتایا سر انہیں دریا کے ٹھنڈے میں مچھلیاں پکڑتے ہوئے زکام ہوگیا ہے
۔کمانڈر انچیف نے حکم دیا فاروق انہیں جلد صحت یاب ہونا چاہیئے دو دن بعد
انہوں نے صدر پاکستان جنرل محمدایوب خان سے ملاقات کرنی ہے ۔ چیف کے حکم
پرمیں نے ان کی صحت کی بحالی کے لیے ہر ممکن اقدام کیا۔ بعدازاں جب ہم جنرل
تھامس کے ساتھ کارمیں سوار اسلام آباد آرہے تھے تو جنرل تھامس نے مجھ سے
پوچھا ۔ فاروق مجھے بتاؤ انڈیا اور پاکستان میں اتنی تلخی کیوں ہے ؟ اگر
صدر پاکستان سے اس موضوع پر بات ہوئی تو آپ کے صدر کاکیا نقطہ نظرہوگا۔ میں
نے کہا سر میں تو ایک فلائیٹ لیفٹیننٹ ہوں لیکن اپنے مطالعے کے مطابق یہ
کہہ سکتا ہوں کہ صدر پاکستان آپ سے ایک سوال ضرور کریں گے اور وہ سوال یہ
ہوگا ۔
Need for maintaining balance of power between India and Pakistan
صدر پاکستان سے ملاقات کے بعد جنر ل تھامس نے کہا فاروق...... تم نے ٹھیک
ہی کہا تھا ۔ ایوب خان سے میٹنگ آدھی سے زیادہ Balance of Power پر ہی ہوتی
رہی ۔
اسرائیل عرب جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے فاروق عمر صاحب نے اس کتاب میں نقشہ
کچھ اس طرح کھینچا ہے کہ ذہن حیرتوں کے سمندر میں ڈوبتا چلاجاتاہے اور قاری
کی مکمل توجہ اس اہم ترین واقعے پر مرکوز رہتی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں اسرائیل
نے شام پر اچانک حملہ کردیا اور شامی ٹینکوں کو شدید نقصان پہنچا نے کے
ساتھ ساتھ فضائی برتری بھی حاصل کر لی ۔ شام نے اس مصیبت کی گھڑی میں
پاکستان سے مدد مانگی جبکہ مصر نے لیبیا کے ذریعے اس وقت کے وزیراعظم
ذوالفقارعلی بھٹو سے مدد کی اپیل کی ۔ پاکستان نے پاک فضائیہ کے سینئر ترین
8 پائلٹ کو مصر بھجوایا تاکہ مصر کو اسرائیلی جارحیت سے محفوظ رکھا جاسکے ۔
اسی طرح شام کی مدد کے لیے عالمی شہرت یافتہ پائلٹ اور سکوارڈرن لیڈر ایم
ایم عالم کی سرپرستی میں پاکستانی پائلٹوں کی ٹیم دمشق بھیجی گئی ۔یادرہے
کہ اس سے پہلے میری ( فاروق عمر ) کی قیادت میں 8 سنیئر فائٹر پائلٹوں کی
ٹیم اسرائیلی جارحیت سے بچانے کے لیے لیبیا میں موجود تھی۔ جب خطرہ مزید
بڑھا تو کرنل قذاقی نے بھٹو سے مزید مدد کی درخواست کی چنانچہ ایک پورا
سکوارڈرن حکیم اﷲ کی کمانڈ میں لیبیا بھیج دیاگیا ۔ پاکستان کے مایہ ناز
پائلٹوں کی موجودگی میں اسرائیل اپنی تمام تر کوشش کے باوجود شام ٗمصراور
لیبیا کو نقصان نہیں پہنچا سکا ۔ دمشق میں جتنی مرتبہ بھی اسرائیل جہاز
اٹیک کے لیے آئے تو ایم ایم عالم کی قیادت میں پاکستانی پائلٹوں نے نہ صرف
انہیں جارحیت سے روکے رکھابلکہ ان میں سے اکثر طیاروں کو مارگرایا۔ اس طرح
ایم ایم عالم اور دیگر پاکستانی پائلٹوں کی دھاک اسرائیل پر مکمل طور پر
بیٹھ گئی اور اسرائیلی فضائیہ 1972ء عرب اسرائیل جنگ میں ناکارہ ہوکر رہ
گئی ۔ اس کا سہرایقینا پاکستانی پائلٹوں کے سر بندھتا ہے ۔
عظیم جنگی ہیرو فاروق عمر کی ولولہ انگیز داستان حیات میں ایسے ہی بے شمار
اور حیرت انگیز واقعات درج ہیں جو پاک بھارت جنگوں اور اسرائیل عرب جنگ کے
علاوہ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو احاطہ کرتے ہوئے قاری کو یہ بتاتے
ہیں کہ جب جذبے جوان ہوں اوراﷲ تعالی کی تائید و حمایت بھی شامل حال ہو تو
دنیا کی کوئی طاقت کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ پاک بھارت جنگوں کے دوران کتنی بار
موت قریب سے گزر گئی ۔ اس وقت جبکہ فاروق عمر صاحب 76 سال کی عمر میں چاق
چوبند دکھائی دیتے ہیں اور پاکستانی قوم کو اپنی داستان حیات سناکر ان کے
دل میں دشمن کا خوف ختم کرناچاہتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں بے شک فاروق عمر
جیسے عظیم لوگ جس قوم کا حصہ ہوتے ہیں ایسی قوم کو دنیا کی کوئی طاقت شکست
نہیں دے سکتی ۔ فاروق عمر صاحب کی شخصیت خداداد صلاحیتوں کا حسین امتزاج ہے
وہ بہترین منتظم ٗ بہترین سپاہی ٗ بہترین پائلٹ ٗ بہترین انسان اور قابل
مثال مسلمان ہیں ۔ فاروق عمر صاحب ایک ایسی قابل تقلید اور قابل فخر شخصیت
کے حامل انسان ہیں جو نوجوان نسل کے لیے یقینا مشعل راہ ہیں۔ایم ایم عالم
کو تو ہم نے کھو چکے لیکن اس عظیم ہیرو کی قدر کرنا اور ان سے سیکھنے میں
ہمیں عار محسوس نہیں کرنی چاہیئے ۔کالجز اور یونیورسٹیوں میں مدعو کرکے
نوجوان نسل سے مخاطب ہونے کا موقعہ دینے کے لیے ساتھ ان کی عزت افزائی بہت
ضروری ہے ۔ یہ پاکستانی قوم کا اثاثہ ہیں ۔ بے شک عظیم قومیں اپنے ہیروز کو
کبھی نہیں بھولتیں ۔ ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم
اس عظیم جنگی ہیرو کی خدمات کو قومی سطح پر متعارف کروا کر نوجوان نسل کی
تربیت اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیں ۔ بطور خاص یہ بات پاکستانی میڈیا کے
لیے جو پاکستان کو برا بھلا کہنے والوں کو تو حد سے زیادہ کوریج دیتا ہے
لیکن پاکستان کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے والوں کی خدمات کو
اجاگرکرنے کا میڈیا کے پاس وقت نہیں ہے ۔ اس بات پر جتنا افسوس کیاجائے کم
ہے ۔ ایم ایم عالم کی رحلت کے بعد میانوالی ائیر بیس کا نام ان کے نام پر
رکھا گیا ۔ کیا فاروق عمر کے نام پر ملک بھر میں کسی بھی ائیربیس ٗ ادارے
یا شاہراہ کانام رکھنا ضروری نہیں ہے ۔ کیا اس کام کے لیے موت کو ہی کیوں
ضروری سمجھاجاتاہے ۔
رفیق شہزادکی لکھی ہوئی یہ داستان حیات حقیقی معنوں میں ایک پر اثر اور
قابل تعداد کتاب ہے جسے ہر محب وطن پاکستان اور بطور خاص سکول ٗ کالجز اور
یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو ضرور پڑھنا چاہیئے تاکہ ان کے دل میں مشکل
ترین حالات کے باوجود زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہو۔ 292 صفحات
پر مشتمل کتاب کی قیمت 600/- روپے ہے اور یہ کتاب بذریعہ منی آرڈر مبلغ 650
روپے ٗ فاروق فاؤنڈیشن ہاؤس نمبر 1 فالکن انکلوژر طفیل روڈ لاہور کینٹ فون
نمبر 042-36653462/63 سے منگوائی جاسکتی ہے ۔ |