افسوس ہم نے کبھی حالات و واقعات کیبپس منظر پر غورنہیں
کیا۔ ہرامریکی صدر اپنے انتخاب کے بعد پہلے بیرونی دورے کی ابتدا سعودی عرب
ہی سے کرتا ہے۔ تحفے میں ملنے والا بیش قیمت خالص سونے کا ہار تو اسکا ہوتا
ہے مگروہ ھار ملنے کی خوشی میں امریکی عوام سے کئے گئے وعدوں سے کبھی غافل
نہیں ہوتا۔ امریکی صدور اپنے پہلے ہی دورے میں مختلف ممالک سے اسلحہ بیچنے
کے بڑے بڑے معاہدے کرکے امریکی عوام سے انوسٹمنٹ لانے کے اپنے انتخابی
وعدوں کی تکمیل کا آغاز اکثر اوقات سعودی عرب سے ہی کرتے ہیں۔ واشنگٹن کی
انوسٹمنٹ کے حوالے سے ایک نظر جدہ اور دوسری یروشلم پرہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے
کہ سعودی عرب میں امریکی صدر کی ہر سرگرمی میڈیا ہائی لائیٹ کرتا ہے جس کے
اسکو دوطرفہ فوائد ہوتے ہیں جبکہ صیہونی ریاست میں کیا معاہدات ہوئے دنیا
بھرکے میڈیا کو رپورٹ کرنے یا ان پر کھل کر تبصرہ کرنے کی بالعموم اجازت
نہیں ہوتی۔ امریکہ کی قومی پالیسی یہ ہے کہ دنیا میں اسلحہ اور
ھارڈوئیرٹیکنالوجی بیچنے کو پہلی ترجیح دینا اور پھر اس منڈی کو توسیع دینے
کے اقدامات کرتے رہنا۔ امریکہ کی تاریخ ہے کہ وہ سعودی عرب ، ایران ،
بھارت، جاپان، یورپ اور صیہونی ریاست کومختلف خطرات اور چیلنجز باور کرواکر
انسے فوجی معاہدے کرواتا ہے۔ اس دورے میں ان ممالک کو انکے اصل دشمن کی
پہچان کروانے کے علاوہ ان ممالک کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کے خطرناک اثرات
بھی ازبر کروائے جاتے ہیں۔پھر واپسی پر پرایرانی صدر کو امریکہ کے دورے کی
خاموش دعوت بھی پہنچائی جاتی ہے۔
امریکہ کی ہرملک کیلئے شرائط کا پیکج حالات و واقعات پر منحصر ہوتا ہے۔ اس
وقت گرین اینرجی کا سب سے بڑا پراجیکٹ افغانستان میں ہے جسکے لئے ٹیکنالوجی
چائنہ کی بجائے بھارت اور ایران سے امپورٹ کروائی جائیگی۔ مگران دوممالک
کیلئے لازم ہے کہ وہ پاکستان کیساتھ وہی پالیسی اپنائیں جو امریکی مفادات
کی نگران ہو۔یہ پہلا موقع ہے کہ اس کولڈ ورلڈ وار میں صیہونی ریاست نے ٹرمپ
کیساتھ اپنا نمائندہ خاص یعنی اسکا داماد لگاکر براہ راست رسائی اختیار کی
اور سعودی خانوادے کے حالات کا براہ راست جائزہ لیا اور اسے بھی ریڈکارپٹ
ویلکم کیا گیا۔ جبکہ پاکستان نے بھی تمام ممکنہ تدابیر کیں اور ان ممالک کے
مرکز میں پاکستان نے اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے براہ راست آگاہی کیلئے
اپنا ایک خاص بندہ ان سازشوں کی خفیہ نگرانی کیلئے بھیج رکھا ہے اور یہی وہ
نکتہ ہے جسکو ہمارا میڈیا سمجھانے میں ناکام رہا ہے۔ اس شخص کی مراعات کے
پیکج تک ہماری توجہ مرکوز ہے مگر اس کی قربانیوں کو ہم نے یکسر بھلادیا
ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ سعودی عرب آیا اسکے ساتھ بیوی ، بیٹی اور
داماد کے علاوہ اسکے خاندان کے مزید تین افراد بھی تھے جو میڈیا پر نہیں
آئے۔ مگر مجال ہے کسی امریکی میڈیا میں صدر ٹرمپ پراس دورے میں اپنا سارا
خاندان ساتھ لانے پر تنقید ہوئی ہو کسی اخبار یا ٹاک شو میں ایک ھیڈ لاین
بھی بنی ہو۔ دنیا جانتی ہے موجودہ نظام سرمایہ داریت غریب سے کام لینے اور
اسے زندہ رکھنے کیلئے بنا ہے۔ اگرعوام خود اپنے بیرونی دورے پرگئے ہوئے صدر
کے پرکاٹے گی تو اسکا نقصان ملک کو ہوگا۔ ہم پاکستانی اور پھر مسلمان
یکطرفہ سوچ کو حرف آخر سمجھ کرہرموقعے کو آخری موقع اور ہرمہم کو جان لیوا
سمجھ کر مرے مرے جاتے ہیں۔ ہمار قصور صرف یہ نہیں کہ ہمارے پاس فوجی وسائل
کی کمی ہے یا ہمارے پاس وہ سیاسی بساط لپیٹنے کیلئے مہرے نہیں رہے جو دنیا
پر قیادت کرنے کیلئے لازم ہیں۔ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم پلاننگ کرکے نہیں
چلتے اور جزباتئت سے کام لیتے ہوئے مختلف چیزوں کے پاس منظر کو جاننے کیلئے
ابھی تک ہم ذہنی طورپر نابالغ ہیں۔ |