سیاست کا ایندھن

حاجی سلامت اورکزئی عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن تھے ۔ باچہ خان کے نظریات سے متاثر اس شخص نے ساری جوانی پارٹی فعال کرنے اور پارٹی منشور کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے میں گزار دی ۔ وقت نے اسے سیاست کے سارے داؤ پیچ سکھا دیے تھے وہ سیاسی شطرنج کا اس قدر ماہر کھلاڑی نکلا کہ پارٹی اسے اہم ترین عہدے دینے پر مجبور ہوگئی وہ طویل عرصہ تک عوامی نیشنل پارٹی کا مرکزی سیکرٹری مالیات رہا ۔خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع میں اسے ایک طاقت سمجھا جاتا تھا اور 2008 کے عام انتخابات میں اس نے جنوبی اضلاع سے حیران کن نتائج دے کر اپنا لوہا بھی منوالیا مگر پھر اس کی یہ ساری کامیابیاں اس کی اُصول پسندی نگل گئی ۔

بحالی عدلیہ تحریک ہماری سیاسی تاریخ کی چند اہم تحریکوں میں سے ایک ہے اس تحریک نے مشرف آمریت کے مضبوط قلعے میں دراڑیں ڈال دیں ۔ جب اس تحریک کا آغاز ہوا تو اس وقت کی سبھی اپوزیشن جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) بشمول اے این پی نے وکلاء اور سول سوسائٹی کا ساتھ دیا شاہراہ دستور پر ہر احتجاج میں اپنے کارکنان کے ہمراہ لال ٹوپی پہنے اے این پی کا جھنڈا تھامے بحالی عدلیہ کیلئے پُرجوش نعرے لگاتا حاجی سلامت اورکزئی نمایاں ہوتا تھا۔

2008ء کے عام انتخابات کے بعد مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت بنالی اے این پی اتحادی تھی اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں اسے حکومت بنانے کا موقعہ بھی مل گیا ۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو وکلاء تحریک سے جو حاصل کرنا تھا وہ اُنہیں مل گیا تھا اس لیئے بحالی عدلیہ میں ان کو دلچسپی تھی نہ ہی یہ ان کی ترجیح ،نوازشریف کو تاہم ان سلگتی چنگاریوں میں جان نظر آرہی تھی اور وہ وقتاً فوقتاً اس راکھ کو کریدتے رہتے آخر کار نوازشریف نے آخری راؤنڈ کھیلنے کا فیصلہ کرلیا انہوں نے لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کی کال دی۔

یہ وہ وقت تھا جب جذبات کی ایک لہر حاجی سلامت اورکزئی کی ساری سیاست کو لے ڈوبی ۔ اقتدار کی غلام گردشیں بھی اس کے اندر کے سیاسی کارکن کا گلہ نہیں گھونٹ سکی تھی۔ عدلیہ بحالی کے لانگ مارچ سے قبل اے این پی کے ایک مرکزی راہنما کے اس بیان نے بھونچال بپا کردیا کہ ہم عدلیہ بحالی مارچ کے شرکاء کا شاہرہ دستور پر سرخ جھنڈوں سے استقبال کریں گے ۔ اے این پی کی قیادت سٹپٹا گئی اور ظاہر ہے صدر زرداری کی طرف سے اسفند یار ولی کو کھری کھری سننا بھی پڑی ہونگی ۔حاجی سلامت اورکزئی کے تمام دوست بھی صورت حال سے سخت پریشان تھے ۔ پارلمانی سیکرٹری پیر حیدر علی شاہ ان کے بھائی پیر محمد شاہ ،کوہاٹ کے ایم این اے پیر دلاور سمیت ان کے سبھی دوستوں نے بے پنا ہ سمجھایا ، دباؤ ڈالا مگر حاجی سلامت اورکزائی اپنی ضد پر ڈٹ گیا اس کا موقف ٹھوس تھا کہ کل تک جس چوہدری افتخار کی بحالی کیلئے ہم سڑکوں پر تھے آج اس کی بحالی کی مخالفت کیوں کریں ؟

آخر کا اے این پی کے صوبائی صدر افراسیاب خٹک نے ان کو شوکاز نوٹس جاری کردیا ۔ ایک بیان سے شروع ہونے والے اس ہنگامے کا اختتام اس وقت ہوا جب حاجی سلامت اورکزئی نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عدلیہ بحالی تحریک میں شمولیت اور اے این پی کی بنیادی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ۔ انہوں نے اپنی ہی پارٹی قیادت کو باچہ خان کے نظریات سے انحراف اور کرپشن کا مرتکب قراردیا ۔

اس پریس کانفرنس کے اگلے روز نواز شریف نے لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا اور ان کے گوجرانوالہ پہنچتے پہنچتے حکمران جماعت کے اعصاب جواب دے گئے چنانچہ رات گئے عدلیہ بحال کردی گئی اور چوہدری افتخار دوبارہ انصاف کی سب سے بلند مسند پر تشریف فرما ہو گئے ۔ سیاست کے اس کھیل میں سب نے کچھ نہ کچھ پایا کھویا تو صرف اس جذباتی کارکن نے ۔ لیکن یہ باہمت کارکن گھر کا بھیدی تھا لنکا ڈھانے پر تل گیا ۔چند ہی روز میں اس نے اے این پی کے ایک وفاقی وزیر خواجہ خان محمد ہوتی کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا اور خواجہ خان محمد ہوتی نے بھی پارٹی قیادت پر بدترین کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ۔

اب شروع ہوا سیاست کا بے رحمانہ کھیل ،اے این پی کی قیادت نے اس کارکن کو نشانہ عبرت بنانے کی ٹھان لی اقتدار کی اپنی ایک طاقت اور خمار ہوتا ہے چنانچہ کرپشن کی نشاندہی کرنے والے اس کارکن کے ارد گرد ایسی بساط بچھائی گئی کہ وہ لاچار ہوگیا ۔ نیب پشاور نے اس کے خلاف کرپشن کا مقدمہ درج کیا اور طویل روپوشی کے بعد آخر کا اس کارکن کو گرفتاری دینا پڑی۔

تین سال سے زائد عرصہ قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد جب ہائی کورٹ پشاور نے تمام الزامات کو لغو قرار دے کر حاجی سلامت اورکزئی کو باعزت بری کرنے کا حکم دیا تو اس کے دامن میں اس فیصلے کے سوا کچھ نہ تھا ۔مجھے یقین ہے وہ اپنے عہد رفتہ کا یاد کرتا ہوگا اپنے جذبات پر لعن طعن بھی کرتا ہوگا۔ جس معاشرے میں راست گوئی رسوائی بن جائے اصول حماقت ٹھہریں شاطرانہ پن اور بے زبانی سکہ رائج الوقت ہو وہ معاشرہ نہیں غلاظت کا ڈھیر ہوتا ہے ۔ یہ تو ایک کارکن کی کہانی تھی نہ جانے کتنے پر عزم جوان اس سیاست کی راکھ بنے ہیں ۔جہاں سیاسی جماعتیں ایک شخص یا ایک خاندان کی مُٹھی میں ہوں اور اس کی آبروئے خم کی محتاج ہوں اس کو جمہوریت نہیں سادہ لوح سیاسی کارکنان کا قبرستان کہنا مناسب ہوگا ۔ نہ جانے اس کا ایندھن بننے والے کارکنان کی اور کتنی دل دوز کہانیوں نے ابھی جنم لینا ہے ۔
 

Javed Malik
About the Author: Javed Malik Read More Articles by Javed Malik: 12 Articles with 9010 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.