امریکہ عرب اسلامک ممالک کانفرنس، دہشتگردی اور پاکستان

خانہ کعبہ و روضہ ء رسول والی پاک سرزمین مقدس سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکہ اور 55 اسلامی ممالک پر مشتمل امریکہ عرب اسلامک ممالک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس کی میزبانی کے فرائض سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سرانجام دیئے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خصوصی مہمان ٹھہرے۔ سعودی شاہی خاندان نے امریکی صدر انکی اہلیہ اور بیٹی کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور شاہی تقاضوں کے مطابق اپنے ان مہمانوں کی خوب آو بھگت کی۔ یہ کانفرنس بنیادی طور پر دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے اور کانفرنس میں شامل ممالک کے ایک دوسرے سے تعاون پر مرکوز تھی۔ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تاریخ کا سب سے بڑا 110 ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ طے پایا جس کے تحت سعودی عرب امریکہ سے اسلحہ و ہتھیار خریدے گا۔

سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات گزشتہ 7 دہائیوں پر مشتمل ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کئی بار اتار چڑھاؤ بھی دیکھنے میں آیا۔ تیل دے کر ہتھیار و اسلحہ حاصل کرنے پر استوار اور پروان چڑھنے والے یہ تعلقات 1973 میں اس وقت کام آئے تھے جب عرب اسرائیل جنگ میں اوپیک نے اسرائیل کا ساتھ دینے والے ممالک کا تیل بند کر دیا تھا اور تیل کی عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہو کر شدید بحران آگیا تھا۔ پھر امریکہ کے دباؤ پر سعودی عرب کی مداخلت سے اوپیک نے ان ممالک کو تیل کی سپلائی بحال کر دی تھی۔ گزشتہ امریکی صدر اوباما کے دور میں امریکہ کا ایران سے جوہری معاہدہ طے پایا تھا جس پر سعودی عرب اور امریکہ کے حالات میں کشیدگی دیکھنے میں آئی۔ ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ عرب اسلامک ممالک کانفرنس میں غیر معمولی اہمیت دے کر 110 ارب کا دفاعی معاہدہ کرنے پر سعودی عرب کی امریکہ سے ناراضگی ختم ہوئی۔ سعودی عرب ایران کے تعلقات ایک دوسرے کے ساتھ دیرینہ ہیں۔ سعودی عرب نے امریکہ عرب اسلامک ممالک کانفرنس کی میزبانی کر کے اور امریکہ سے ایک بڑا اور تاریخی دفاعی معاہدہ کر کے 110 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے کا واضح اشارہ شائد ایران کو ہی یہ پیغام پہنچا کر دینا چاہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ سعودی تعلقات بہت اہم بنیادوں پر ہیں اور ایران اپنا قبلہ درست کرے۔ اس سے پہلے سعودی عرب کی طرف سے ہی ایک اسلامک ممالک کا فوجی اتحاد تشکیل پا چکا ہے جس کے سربراہ پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل راحیل شریف ہیں۔ اس اسلامک فوجی اتحاد میں اسلامی ملک ایران شامل نہیں ہے۔ بظاہر تو یہ اسلامی فوجی اتحاد داعش کو کچلنے کے لیئے تشکیل دیا گیا ہے مگر اس میں ایران کی غیر موجودگی کی وجہ سے پاکستان کو مستقبل میں ایران کی ناراضگی مول لینے کاخطرہ بدستور قائم رہے گا۔ پاکستان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے پاکستان کو معرض وجود میں آنیکے فورا بعد سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے۔ ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے اور ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے میں ہی عقلمندی ہوتی ہے۔ موجودہ صورت حال میں دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کے اپنے تینوں ہمسایہ ممالک ایران، افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ حالات کشیدہ جا رہے ہیں اور ایک بحیرہ عرب واحد ہمسایہ ہے جس سے پاکستان کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں اور بحیرہ عرب والی طرف سے ہی امن ہے ورنہ باقی تینوں اطراف سے کوئی اچھی خبریں نہیں ہیں۔ موجودہ حالات کے پیش نظر وزیر داخلہ چوہدری نثار کا یہ کہنا کہ وہ عید کے بعد ایک وفد کے ساتھ ایران کا دورہ کریں گے حوصلہ افزا اور مثبت قدم ہے۔ وزیر داخلہ کی ایران کا دورہ کر کے ایران کے ساتھ موجودہ غلط فہمیوں کو ختم کر کے اچھے اور برادرانہ تعلقات کو قائم اور پروان چڑھانے کی کوششیں یقینا قابل تعریف ہوں گی۔

دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے ہونے والی اس کانفرنس میں دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے اور نقصان اٹھانے والے ملک پاکستان کا ذکر تک نہ کرنا انتہائی افسوسناک اور پاکستان کے لیئے لمحہ ء فکریہ ہے کہ جس دہشت گردی کی پرائی جنگ میں خود کو لپیٹ کر پھینک دیا گیا تھا اور جس ملک کے ساتھ دہشتگردی میں اتحادی بنے تھے اس ملک کے صدر نے دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے پر ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کا نام تک لینا مناسب نہیں سمجھا۔ اسلامی ممالک کے واحد ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک پاکستان کو اس طرح امریکہ عرب اسلامک ممالک کانفرنس میں نظر انداز کرنا اور وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو تقریر کرنے کا موقع نہ دینا بہت سے سوالوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ نواز شریف پاکستان کے وہ وزیر اعظم ہیں جن کے دور حکومت میں ہی پاکستان نے ہندوستان کے مقابلے میں ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو واحد اسلامی ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک بنایا تھا۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ ذاتی تعلقات بھی اپنی جگہہ ایک غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس کانفرنس میں یہ کہنا تو ہرگز نہیں بھولے کہ امریکہ نائن الیون کی دہشتگردی سے متاثر ہوا ہے اور اس کے علاوہ ہندوستان اور اسرائیل بھی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں مگر پاکستان کا نام تک لینا بھول گئے بلکہ یوں کہیئے کہ جان بوجھ کر پاکستان کا ذکر نہیں کیا۔ دہشت گردی کی اس لہر میں پاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی ملک نے اتنی قیمت ادا نہیں کی۔ پاکستان دنیا میں اس دہشتگردی سے سب سے ذیادہ متاثر ہونے والا واحد ملک ہے جس کی قوم کا نا حق خون بہایا گیا ہے۔ بلا کسی شک و شبہہ کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دنیا کے کسی بھی ملک سے ذیادہ ہیں۔

پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را ملوث ہے جس کے باقاعدہ ثبوت ہیں۔ را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو جس کو پاکستان نے تخریبی اور دہشت گردی کی کارروایؤں میں ملوث ہونے پر گرفتار کر کے سزائے موت کی سزا سنائی ہوئی ہے۔ جس پر ہندوستان عالمی عدالت انصاف میں جا پہنچا کہ سزائے موت رکوائی جائے۔ ہندوستان اس سے پہلے بھی عالمی عدالت انصاف میں کشمیر کا مسئلہ لے کر گیا تھا جس پر عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ سنایا تھا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کیاجائے مگر 70 سال گزر جانے کے بعد بھی ہندوستان نے کشمیر کی عوام کو آزادی جیسی بنیادی نعمت سے محروم رکھا ہوا ہے اور کشمیر پر اپنا غاصبانہ تسلط قائم رکھ کر کشمیر میں کھلم کھلا دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ امریکی صدر نے ہندوستان کو دہشت گردی کا شکار تو کہہ دیا مگر کشمیر میں خود ہندوستان کی طرف سی کی جانے والی دہشت گردی نظر نہیں آئی۔ اور نہ ہی اسرائیل کی فلسطین کے بے گناہ شہریوں پر جاری دہشت گردی دکھائی دی۔ الٹا یہ کہہ دیا کہ اسرائیل دہشتگردی کا شکار ہے اور اس دہشت گردی میں فلسطین کی آزادی کے حق کے لیئے جدوجہد کرنیوالی تنظیم حماس کو مجرم ٹھہرا دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سعودی عرب کے دورہ کے بعد اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ محبت اور احترام کا رشتہ ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیئے ڈونلڈ ٹرمپ کی منطق عجیب ہے کہ دہشتگردی میں ملوث ممالک کو ہی دہشت گردی کا شکار کہہ دیا۔ اور دہشت گردی کا حقیقی طور پر شکار ہونے والے ملک کا ذکر تک نہیں کیا۔

پاکستان کو امریکہ عرب اسلامک ممالک کانفرنس میں اسطرح نظر انداز کرکے اس کانفرنس کے دنیا سے دہشتگردی کے خاتمے اور کانفرنس میں شامل ممالک کے باہمی تعاون کے حقیقی نتائج حاصل نہیں کیئے جا سکتے۔ پاکستان کو چاہیئے کہ اسطرح سے امریکہ عرب اسلامک ممالک کانفرنس میں نظر انداز کرنے کے معاملے کو سعودی عرب اور کانفرنس میں شامل دوسرے ممالک کے سامنے اٹھائے اور حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیئے کہ پاکستان وہ ملک ہے جس نے تمام اسلامی ممالک کو اکٹھا کر کے اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کی تھی۔

Abid Ayub Awan
About the Author: Abid Ayub Awan Read More Articles by Abid Ayub Awan: 13 Articles with 8186 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.