افغانستان معدنی وسائل سے مالامال ملک ہے۔مغربی ماہرین نے
جدیدترین آلات کی مددسے اندازہ لگایاہے کہ افغانستان کے طول وعرض میں کم و
بیش ایک کھرب یعنی سوارب ڈالرمالیت کی معدنیات ہیں مگر چونکہ ملک شدید
بدامنی کا شکارہے اور بنیادی ڈھانچابھی تباہ ہوچکاہے،اس لیے ان معدنیات
کونکالنا اورعالمی منڈی میں موثراندازسے فروخت کرناکٹھ پتلی کابل انتظامیہ
کیلئے ممکن نہیں رہا۔ طالبان سمیت کئی منظم گروپ معدنی وسائل پرمتصرف ہیں۔
اس وقت افغانستان کے۳۴ میں سے۱۴صوبوں میں طالبان معدنی وسائل نکال کرہر
سال۲۰ سے سے۳۰کروڑڈالرکمارہے ہیں گویامعدنیات ہی ان کیلئے سب سے بڑاذریعہ
آمدن ہے۔ طالبان افغانستان کے طول وعرض میں تیزی سے قدم جمارہے ہیں۔انہیں
اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کاملک معدنیات سے مالامال ہے ،اس لیے وہ قیمتی
پتھرنکالنے کے شعبے میں بھی تیزی سے قدم جما رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ
آمدن کامستقل اورمعقول ذریعہ ہے۔انہوں نے اسٹون کمیشن بنانے کی بات بھی کی
ہے۔ معدنیات کے شعبے سے ہونے والی آمدن نے ان کی لڑنے کی صلاحیت میں اضافہ
کیاہے۔اب وہ زیادہ منظم اندازاورجدیدترین ہتھیاروں کے ساتھ سکیورٹی فورسزسے
نبردآزماہیں۔
افغانستان میں لوہے اورتانبے کے وسیع ذخائرکے علاوہ ہائڈروکاربن مٹیریل کے
ذخائربھی وافرمقدارمیں موجودہیں۔ملک بھرمیں سنگِ مرمراوردوسرے قیمتی پتھرکے
علاوہ جواہرکے ذخائربھی موجودہیں۔بہت سے مقامات پرتیل اورگیس کے ذخائرکابھی
پتاچلاہےمگرچونکہ مرکزمیں کمزورحکومت ہے اورپورے ملک پراس کا تصرف ایسانہیں
جس پربھروساکیاجاسکے،اس لیے اب تک ان معدنی وسائل سے بھرپور طور پر مستفید
ہونا سرکاری مشینری کیلئے ممکن ہی نہیں۔طالبان اوردیگرمنظم عسکریت پسندگروپ
معدنی وسائل کو اپنی مرضی کے مطابق نکال کرفروخت کررہے ہیں۔ماہرین بتاتے
ہیں کہ افغانستان میں۹۰۸/ارب ڈالرسے زائدمالیت کی معدنیات اوردوسوارب
ڈالرسے زائد مالیت کے ہائیڈرو کاربن(پٹرولیم)ذخائرپائے جاتے ہیں۔ اگراس
شعبے کومنظم کیاجائے اوران معدنیات کوموزوں اورمعیاری طریقے سے نکال کر
فروخت کیاجائے توملک کی تقدیربدل سکتی ہے۔اس وقت بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ملک
بھرمیں درجنوں مقامات پرسنگِ مرمراوردیگرمعدنیات دھڑلے سے نکال کرفروخت کی
جارہی ہیں جس کے نتیجے میں حکومتی سرپرستی میں مائننگ کا شعبہ پنپ نہیں
پارہا۔اس حوالے سے کی جانے والی حکومتی کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
طالبان کے ساتھ ساتھ اب اسلامک اسٹیٹ آف خراسان(ننگرہار)اوردیگرعسکریت
پسند گروپ بھی غیرقانونی مائننگ میں ملوث ہیں۔ دی افغانستان اینٹی کرپشن
نیٹ ورک نے فروری میں اطلاع دی تھی کہ طالبان اوردیگر عسکریت پسند گروپوں
نے گزشتہ برس کاسمیٹکس کی تیاری میں استعمال ہونے والے عنصر ’’ٹیلک‘‘ کی
غیرقانونی فروخت سے کم وبیش۴۶کروڑڈالرکمائے۔طالبان اوردیگر عسکریت پسند
گروپ اس وقت اپنی آمدن کے ذرائع میں زیادہ سے زیادہ تنوع پیدا کرنے کی
کوشش کررہے ہیں۔
طالبان نے اب تک اس شعبے میں ملوث ہونے کی باضابطہ تصدیق نہیں کی ہے
اوراپنے آپ کواس حوالے سے بہت پیچھے اورپردے میں رکھنےکی کوشش کی ہے تاہم
طالبان ہی کے تحت ایک ’’دابار و کمسیون‘‘ (اسٹون کمیشن) کام کررہاہے
جومعاملات کوبہتراندازسے ڈیل کرتاہے،ٹیکس نافذکرتاہے اور مائننگ لائسنس بھی
جاری کرتا ہے۔ طالبان کادابارو کمسیون۲۰۰۹ء میں قائم کیاگیااوریہ مالی
کمسیون کے تحت کام کرتا ہے۔
امریکا نے ۲۰۰۹ء میں طالبان کی پیش قدمی روکنے کیلئے۳۳ہزاراضافی فوجی
تعینات کئے تو طالبان نے امریکی فوج کو فراہم کی جانے والی اس کمک کا ڈٹ کر
مقابلہ کرنے کی بھرپور تیاری کی اور اس کے لیے وسائل کی فراہمی کا سلسلہ
جاری رکھنے پر بھی خاطر خواہ توجہ دی۔ اسی دوران پاکستان نے طالبان کے سابق
امیرملامحمدعمر کے نائب اورسینئرملٹری کمانڈرملا عبدالغنی
برادرکوگرفتارکیا۔ یہ فروری۲۰۱۶ء کی بات ہے۔اس کے نتیجے میں طالبان قیادت
میں جوخلاپیداہوا،اُسے ملااخترمنصورکے ذریعے پُرکیاگیا۔ملا اخترمنصور کا
تعلق قندھارسے تھااوراس نے اسحاق زئی قبائل سے اپنے تعلق کوطالبان کی طاقت
میں اضافے کیلئے بھرپوراندازسے بروئے کارلانے کی کوشش کی۔ جولائی ۲۰۱۵ء میں
ملا عمر کی طبعی موت کی تصدیق ہوجانے کے بعد ملا اختر منصور نے طالبان کے
حقیقی امیر کا منصب سنبھال لیا۔ ملا عمر کی موت غالباً جولائی ۲۰۱۳ء میں
واقع ہوچکی تھی۔ ویسے ملااختر منصور نے عبدالغنی برادر کی گرفتاری کے بعدسے
طالبان کی قیادت کسی نہ کسی حیثیت میں سنبھال رکھی تھی ۔
ملااخترمنصورکومئی۲۰۱۶ء میں امریکی فوج نے فضائی حملے میں ہلاک کیا اس کے
ساتھ اسحاق زئی قبیلے کاملاگل آغااخوندبھی ماراگیا۔ان دونوں نے مل
کرمائننگ کے شعبے کوپروان چڑھایااورہلمندپرزیادہ توجہ دی جس کے نتیجے میں
طالبان کی آمدن میں متعدبہ اضافہ ہوا۔مالی کمسیون(فنانشل کمیشن ) طالبان
کی آمدن کے مختلف ذرائع کانگران ہے۔ طالبان کے مبینہ ذرائع آمدن میں پوست
کی فصل کے علاوہ معدنیات کانکالاجانا،اغوابرائے تاوان اورغیر سرکاری
تنظیموں سے بھتے کی وصولی نمایاں ہیں۔داباروکمسیون کاسربراہ غزنی صوبے سے
تعلق رکھنے والاسابق طالبان میڈیااینڈپروپیگنڈاپرسن احمد جان احمد ہے۔
طالبان نہیں چاہتے کہ دنیاکوان کی آمدن کے ذرائع کاعلم ہواس لیے دابارو
کمسیون یامالی کمسیون کے بارے میں لوگوں کوکم ہی معلوم ہے۔
اکتوبر۲۰۱۶ء میں اقوام متحدہ کے اینیلیٹیکل سپورٹ اینڈسینکشنزمانیٹرنگ ٹیم
نے بتایاکہ طالبان نے ہلمند سمیت کئی صوبوں میں معدنیات نکالنے پرغیر
معمولی توجہ دی ہے۔اس غیرقانونی سرگرمی سے طالبان کی آمدن کابڑا حصہ
آتاہے۔ طالبان کی معدنی سرگرمیوں کازورجنوبی افغانستان پرہے۔جن اداروں
نےکان کنی کے لائسنس لے رکھے ہیں اورقانونی طریقے سے معدنیات نکالتے ہیں
اُن سے بھی طالبان ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ طالبان خود بھی معدنیات نکال کر
فروخت کرتے ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں سے انہیں کتنی آمدن ہوتی ہے اس کا درست
اندازہ لگانابہت مشکل ہے کیونکہ یہ سب کچھ ڈھکے چھپے اندازسے ہو رہاہے۔
طالبان ان تمام سرگرمیوں کودنیاکی نگاہوں سے چھپاناچاہتے ہیں۔افغان حکومت
کے ایک اعلیٰ عہدیدارنے جون ۲۰۱۶ءمیں بتایاتھا کہ طالبان صرف ہلمند سے
یومیہ پچاس ساٹھ ہزارڈالر کی معدنیات نکال کرفروخت کررہے ہیں۔ سنگِ مرمربڑے
پیمانے پرنکالاجارہاہے۔ بدخشاں صوبے سے بھی معدنیات نکالی جا رہی ہیں جن
میں سنگِ مرمر نمایاں ہے۔ قیمتی پتھروں بالخصوص زمرد کی فروخت سے بھی
طالبان نے کروڑوں ڈالرکمائے ہیں۔ افغانستان میں ہرسال نکالی جانے والی
معدنیات سے ہونے والی آمدن کم وبیش۲/ارب ڈالرہے جس کا ۱۰تا۱۵فیصد طالبان
کی جیب میں جاتاہے۔۲۰۱۲ءکے بعدسے معدنیات کے شعبے میں طالبان کی سرگرمیاں
تیزی سے بڑھی ہیں۔ مرکزی حکومت کے کنٹرول والے علاقوں میں بھی طالبان کھل
کرکام کررہے ہیں،افغان حکومت نے ۲۰۱۵ء میں معدنیات کی فروخت سے۳کروڑ ڈالر
کمائے جوملک بھرمیں معدنیات کی مجموعی فروخت کودیکھتے ہوئے بہت کم ہے ۔ اس
سے ایک طرف توکٹھ پتلی حکومت کی کمزوری اوردوسری طرف طالبان اوردیگرعسکریت
پسندگروپوں کی مضبوطی کااندازہ بخوبی لگایاجا سکتاہے۔معدنیات کی فروخت کے
حوالے سے سرکاری کھاتے میں جانے والی رقم کم وبیش اتنی ہی ہے جتنی طالبان
حاصل کررہے ہیں۔ طالبان میدان جنگ میں اپنی فتوحات کودیگرشعبوں کی فتوحات
پرترجیح دیتے ہیں۔انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ عسکری پہلو مضبوط ہوگاتووہ
اپنی بات بہترڈھنگ سے منوانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ انہوں نے
۲۰۰۹ءاور۲۰۱۰ءمیں آمدن کے ذرائع میں تنوع پیداکرنے کاعمل شروع کیا تاکہ
مختلف ذرائع سے مال آتارہے اورمیدان جنگ میں پریشانی یاسبکی کا سامنانہ
کرناپڑے۔
مالیاتی ذرائع مضبوط کرنے کے حوالے سے طالبان پوست کی فصل اورہلمند صوبے
پرمتوجہ رہے ہیں۔۲۰۱۰ء تک یہاں طالبان کازورغیرمعمولی تھا۔ زرخیز زرعی
اراضی کے حامل علاقے مرجہ میں طالبان کی پوزیشن مضبوط تھی۔۷۰ فیصد تک کسان
پوست اگانے پرتوجہ دیتے تھے کیونکہ اس صورت میں ان کی آمدن معقول حدتک
پہنچ جاتی تھی۔ پھرمرجہ کاکنٹرول واپس لینے کیلئےامریکاو اتحادی ممالک کے
فوجیوں نے افغان سکیورٹی فورسزکے ساتھ مل کرآپریشن کیا۔جب طالبان نے
دیکھاکہ مرجہ کا کنٹرول ہاتھ سے نکل جانے پرپوست سے آمدن بھی کم ہورہی ہے
توانہوں نے ہلمند کے دیگرعلاقوں پرتوجہ دیناشروع کی۔ اب وہ پوست کی فصل سے
کہیں زیادہ معدنیات پرمتوجہ تھے۔انہیں معلوم تھاکہ فصل توخراب بھی ہوسکتی
ہے مگرمعدنی ذخائرکے ضائع ہونے کاکوئی خطرہ نہ تھا۔ یہ تومستقل آمدن کے
ذرائع تھے۔ طالبان نے اپنے زیراثرعلاقوں کے کسانوں سے فصلوں کی آمدن پردس
فیصد ٹیکس(عشر) وصول کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مجموعی دولت پرڈھائی فیصد
ٹیکس وصول کرنے کاسلسلہ شروع کررکھاتھا۔ دیہی علاقوں میں کان کنی کرنے والے
اداروں سے بھی طالبان نے اسی طوروصولی شروع کی۔ طالبان نے مائننگ کے شعبے
میں جو کچھ بھی کیا ہے اس کی باضابطہ ڈاکیومنٹیشن نہیں ہے۔ اقوام متحدہ
نے۲۰۱۲ء میں رپورٹ کیا کہ طالبان نے معدنیات کے شعبے سے اب تک۴۰کروڑڈالرسے
زائدکمائے ہیں۔ اس دوران طالبان نے کسانوں اور اداروں سے ٹیکس
اوردیگراخراجات بھی وصول کیے ہیں۔غیر سرکاری تنظیموں کوبھی بہت کچھ
اداکرناپڑاہے۔ ۲۰۱۳ء کے بعد سے طالبان نے جواہر برآمد کرنے پر خاص توجہ دی
ہے۔ عالمی بینک نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان سے نکالے جانے والے
قیمتی پتھروں کا ۹۰ فیصد غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجاجاتاہے ۔
۲۰۱۴ء کے آخرمیں جب امریکانے افغانستان میں اپنے فوجی مشن کے خاتمے کا
اعلان کیاتواس کے بعدسے طالبان نے مائننگ کے شعبے میں دلچسپی بڑھادی ۔ اس
کیلئے سیکورٹی کے مسائل بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔ جب امریکی فوج نےجزوی
انخلاشروع کیا اوراس دوران افغان فوج کی تربیت اورمدد کاسلسلہ شروع کیا تب
طالبان نے مختلف علاقوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی ٹھانی اوراس میں بہت
حدتک کامیاب بھی رہے۔ پوست کی فصل کے ساتھ ساتھ معدنیات سے بھی آمدن بڑھانے
پرتوجہ دی جانے لگی۔ کئی علاقوں پرتصرف پانے کے بعدطالبان نے وہاں کے معدنی
ذخائرکو بروئے کار لانا شروع کیا۔ ۱۵نومبر ۲۰۱۶ء کی پوزیشن کے مطابق
افغانستان کے ۴۰۷/اضلاع میں سے صرف۵۷فیصد پرکابل حکومت کانمایاں کنٹرول
تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں پر کابل حکومت کااختیاراور تصرف
گھٹتا ہی جارہا ہے۔ ہلمند کے ۱۴میں سے۱۱/اضلاع طالبان کے کنٹرول میں رہے
ہیں۔یہ اگست ۲۰۱۶ء کی پوزیشن ہے۔ اس کے نتیجے میں طالبان کومعدنیات کے
ذخائرسے بھرپوراستفادہ کرنے کا موقع ملا ہے۔(بقیہ ہفتہ کے شمارے میں ملاحظہ
فرمائیں) |