جس ملک کے ساٹھ فی صد لوگ غربت کے خط سے نیچے زندگی
گزارنے پر مجبور ہوں جس ملک کی ستر فی صد عوام پینے کے صاف پانی سے محروم
ہوں۔ جس ملک میں دہشت گردی نے ستر ہزار شہریوں کو درگو رکردیا ہو۔ جس ملک
کی فوج کے سپاہی سے لے کر جرنیل تک نے دہشت گردی کی جنگ میں جانوں کی
قربانی دی ہو۔ جس ملک میں بے روزگاری کا عالم یہ ہوں کہ پرائیوٹ ادارئے
دھڑادھر ڈگریاں بناٹ رہے ہیں اور بے روزگاری کا سمندر ہے کہ اُس کا کوئی
پُرسان حال نہیں۔ جس ملک میں شوگر، بلڈ پریشر میں ہر دسواں آدمی مبتلا ہو۔
جس ملک کے ہسپتالوں میں دن کی روشنی میں ڈاکٹر نام کے مسیحا قاتل لوگوں کے
گردوے چوری کر رہے ہوں ۔ جس ملک میں ملٹی نیشنل ادویات کی کمپنیاں ڈاکٹروں
کو رشوتیں دے دے کر ادویات کے نسخے لکھواکر عوام کی کھال اُتار ر ہے ہوں ۔
جس ملک میں ہسپتالوں میں ڈسپرین تو نہ ملتی ہو لیکن حکمران اپنی مشہوری ے
لیے پچاس ارب روپے کے اشتہارات دے رہے ہوں۔ معاشیات کی ایک ٹرم ہے کہ ایک
ملک غریب ہے کیونکہ وہ غریب ہے۔ ہمارئے ملک میں ساٹھ فی صد آبادی ایسی ہے
جس کی آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ ایسے میں ملک کو گروی رکھ کر اور چین کو
پاکستان کی عملاً عملداری میں دے کر حکمران خوش ہورہے ہیں کہ ملک کو ہم نے
ترقی پر گامزن کر دیا ہے۔ حکمرانوں ذاتی طور پر تو معاشی ترقی کی ہے لیکن
عام آدمی کا حشر بسوں کے اڈووں، ہسپتالوں، نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں
جو ہورہا ہے اُس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ سرکاری اعداد و شمار کا گورکھ
دھند ہ جو گزرئے ہوئے مالی سال کے اقتصادی سروئے کے حوالے سے پیش کیا ہے
اُس کی حقیقت حال کیا ہے۔جس طرح چین کے لیے پاکستان سے سب کچھ اوپن کردیا
ہے دیکھ لیں کہیں ایسٹ انڈیا کمپنی والا حال نہ ہوجائے۔ چین کی آبدی اتنی
زیادہ پاکستان تو اُس کے آگے کچھ بھی نہیں اور پھر اُن کے لیے ویزہ ختم
ہمارئے لیے وہاں جانے کے لیے ویزہ برقرار۔ معاشی ترقی کا شوق ہم سے ہمارا
سماجی ڈھانچہ جو پہلے ہی لولا لنگڑا ہے بالکل تباہ بربادہ نہ ہوجائے۔
پا کستان کو وجود میں آئے ستر برس گزر گئے۔ 1947 ء میں ملک کی جغرافیائی
حدود کا تعین تو ہوگیا۔ اور اِس مقصد کے لیے لاکھوں شہادتیں ہوئیں اور لوگ
سب کچھ قربان کرکے پاکستان کی جغرافیائی حد میں داخل ہوئے۔ پاکستان کے حصول
میں جہاں مذہبی آزادی پیش نظر تھی وہاں یہ امر بھی خاص اہمیت کا حامل تھا
کہ مسلمانوں کی سماجی اور معاشی زندگی میں اطمینان آئے گا۔ لیکن شائد حضرت
قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد ایسا طبقہ حکمرانی پر قابض ہوگیا جنہیں نہ تو
دین سے محبت تھی اور نہ ہی پاکستانی عوام سے کوئی لین دین۔ اشرافیہ جو
پچھلے ستر سالوں سے اقتدار پر قابض ہے اِس نے حقیقی معنوں میں بادشاہت قا
ئم کر رکھی ہے۔ صرف چند ہزار نفوس پر مشتمل اشرافیہ نے بیس کروڑ عوام کو یر
غمال بنا رکھا ہے۔ عوام کو نہ تو صحت عامہ کی سہولتیں میسر ہیں۔ اور نہ ہی
تعلیم نہ ہی روزگا راور سب سے بڑھ کر یہ کہ امن نام کی بھی کوئی چیز
نہیں۔جس جمہوریت کے لیے عوام کو بے وقوف کو بنایا جاتا ہے اِس جموریت کا
حُسن ہی یہ ہے کہ یہ بدترین آمریت ہے۔ اِس جمہوری نظام میں اشرافیہ ہی حصہ
لیتے ہی ہے اشرافیہ اپنی اپنی باری پر عوام پر حکومت کرتی ہے اور پھر اِسی
بدترین جمہوریت کا شاخسانہ یہ ہے کہ غریب غریب تر امیر امیر تر۔پاکستان اﷲ
پاک کا نور ہے۔ پاکستان نبی پاکﷺ کے حکم پر بننے والی ریاست مدینہ ثانی
ہے۔لیکن
موجودہ حالات میں قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے والے نام نہاد جمہوریت کے
چیمپین، سرمایہ دار وڈیرئے ، چوہدری،جاگیر دار انصاف کے راستے میں بُری طرح
حائل ہیں۔ وفاقی حکومت نے مالی سال 2016-17ئکے دوران ملک کی معاشی کارکردگی
کے بارے میں اقتصادی سروے جاری کر دیا ہے جس کے مطابق بیشتر معاشی اہداف جن
میں گروتھ‘ ریونیو‘ درآمدات و برآمدات‘ کرنٹ اکا?نٹ خسارہ‘ بجٹ خسارہ شامل
ہیں حاصل نہیں کئے جا سکے۔ زراعت‘ سروسز کیلئے ترقی ہدف سے زیادہ رہی جبکہ
افراط زر بھی مقررہ حد کے اندر رہا۔ وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے
اقتصادی سروے جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کوئی
بالواسطہ ٹیکس نہیں بڑھایا جا رہا۔ نان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کریں گے۔
آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کیا جائے گا۔ ایف بی آر کے سالانہ ریونیو کے ہدف
میں کمی کرکے 3520 ارب روپے مقرر کر دیا ہے۔ آئی ڈی پیز اور سویلین آرمڈ
فورسز کے 57 ونگز بنانے کیلئے 100 ارب روپے مختص کر دیئے ہیں۔ معیشت کو
سیاست سے الگ رکھا جائے۔ 30 لاکھ کے غیر ٹیکس دہندگان کا کوئی ڈیٹا موجود
نہیں۔ درآمدات میں زیادہ تر مشینری آرہی ہے۔ ملک کے ذمہ قرضے جی ڈی پی
کے59․3 فیصد کے مساوی ہیں۔ 10 سال کی مدت کے بعد اس سال ہم 5 فیصد کی گروتھ
سے آگے بڑھے ہیں۔ 2013ئمیں 3 فیصد کی حد میں تھے۔ اس سال 5․28 فیصد کی
گروتھ ہوئی ہے۔ اسحاق ڈار سے سوال کیا گیا آپ تین دہانی کراتے ہیں 2019ء
میں پاکستان آ ئی ایم ایف سے رجوع نہیں کرے گا؟ جس پر انہوں نے کہا میں
وزیرخزانہ ہوا تو گارنٹی دیتا ہوں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ این
این آئی کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے رواں مالی سال
کی معاشی کارکردگی کے حوالے سے اقتصادی سروے 2016-17ئجاری کرتے ہوئے کہا ہے
ملکی تاریخ میں پہلی بار ملکی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالرز سے تجاوز کرگیا
ہے ¾ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو
5․28 فیصد رہی ¾زراعت اور توانائی کے شعبے میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے
میں نمایاں اضافہ ¾ بینکاری کے شعبہ میں 16․2 فیصد اور تجارت کے شعبہ میں
رواں سال 6․82 فیصد اضافہ ہوا ہے ¾ جولائی 2016 سے اپریل 2017 تک مہنگائی
کی شرح تسلی بخش رہی، فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 3․86 فیصد جبکہ نان فوڈ
آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 4․25 فیصد رہی ¾آئندہ بجٹ میں کسانوں کے لیے کھاد،
بجلی اور دیگر اشیا میں سبسڈی بھی دی جائے گی ¾عالمی بینک آئندہ سال
پاکستان کے جی ڈی پی کا نیا طریقہ کار متعارف کرائیگا ¾دہشتگردی کے خلاف
جنگ سے پاکستان کو ہر سال 90 سے 100 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے ¾رواں برس
بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات کی مد میں 101 ارب روپے رکھے جائیں
گے ¾رواں مالی سال کے اختتام تک براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 2․58
ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے ¾ آپریشن ضرب عضب میں مسلح افواج کی خدمات
قابل تعریف ہیں ¾نائن الیون کے بعد ایک فون کال پر لوگ بچھ گئے تھے ¾ ہم نے
دنیا کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس کے دوران
اقتصادی کارکردگی جائزہ رپورٹ برائے مالی سال 2016-17ئجاری کی۔ اقتصادی
سروے کے نمایاں خدوخال اور حکومت کی معاشی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں نمایاں
اضافہ ہوا ہے جس کا عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جا رہا ہے ¾ملکی معیشت کا
حجم 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے ¾ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کی
شرح نمو گزشتہ 10 سال کی بلند ترین سطح پر 5․28 فیصد رہی ہے۔ اگلے سال
کیلئے شرح نمو کا ہدف 6 فیصد سے زائد رکھا گیا ہے۔ 2013ئمیں معاشی شرح نمو
تین فیصد تھی۔ انہوں نے کہا کہ صنعتی ترقی کی شرح 5 فیصد سے اوپر رہی،
صنعتی ترقی کی شرح مارچ 2017ئسے 10 فیصد زائد رہی۔معیشت کی کار کر دگی کے
حوالے سے وزیر خزانہ نے بتایا پاکستان کی جی ڈی پی میں انڈسٹری کا حصہ 21
فیصد، زراعت 20 اور سروسز (خدمات) کا حصہ تقریباً 60 فیصد رہا۔رواں مالی
سال کے دوران صنعتی شعبے کی شرح نمو 5․02 فیصد رہی جبکہ زراعت کی 3․46 اور
سروسز کی شرح نمو 5․98 رہی جو گزشتہ تین برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔انہوں نے
کہا گزشتہ 10 برس میں پہلی بار شرح نمو 5․28 فیصد کی سطح پر آئی ہے جبکہ ان
کا کہنا تھا حکومت اور بین الاقوامی اداروں کے جائزوں کے مطابق پاکستان کی
اقتصادی شرح نمو اب بھی کم ہے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہاتوانائی کی
پیداوار میں گذشتہ برسوں کے مقابلے میں اضافہ ہوا جبکہ انھوں نے بتایا ترقی
کی شرح 5 فیصد سے بڑھ گئی ہے اور ہم نے 10 سال بعد یہ ترقی حاصل کی ہے۔وزیر
خزانہ نے بتایا تاریخ میں پہلی بار ملکی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالرز سے
تجاوز کر گیا ہے۔انہوں نے کہا آئندہ بجٹ میں کسانوں کے لیے کھاد، بجلی اور
دیگر اشیا میں سبسڈی بھی دی جائے گی۔اسحق ڈار نے کہاہم نے یوریا کھاد کی
قیمت کم کی اور فی بوری قیمت 1400 روپے پر لے گئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا
کہ زرعی ترقی کی شرح میں وزیراعظم کے کسان پیکج نے اہم کردار ادا کیا۔وزیر
خزانہ نے بتایا رواں مالی سال کے دوران تعمیراتی شعبے میں 9․05 فیصد کا
اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ یہ 13-2012 میں 1․08 فیصد، 14-2013 میں 5․96
فیصد، 15-2014 میں 7․26 اور 16-2015 میں 14․60 فیصد تھا۔ رواں مالی سال کے
دوران زراعت کے شعبے میں 3․46 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پاکستان کی اہم
زرعی اجناس جن میں گندم،چاول، گنا اور مکئی شامل ہیں، ان کی پیداوار میں
4․12 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔رواں مالی سال کے دوران گندم کی پیداوار
25․75 ملین ٹن رہی جبکہ کپاس کی پیداوار 10․7 ملین بیلز رہی حالانکہ
پاکستان کی اپنی ضرورت 14 ملین بیلز ہے۔گزشتہ برس گنے کی پیداوار 65․48
ملین ٹن تھی جو رواں برس 73․61 ملین ٹن رہی۔انہوں نے بتایا کہ رواں مالی
سال 473 ارب روپے کے زرعی قرضے جاری ہوئے جبکہ سال کے اختتام تک زرعی قرضوں
کا 700 ارب روپے کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔ حکومت نے بجٹ خسارہ 3․8 فیصد
تک رکھنے کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا جو 3․7 فیصد رہا۔حکومت تجارتی خسارے
کو 20․4 ارب روپے کی حد پر روکنے میں ناکام رہی اور اقتصادی جائزے میں شامل
عرصے کے دوران تجارتی خسارہ 24 ارب روپے رہا۔ رواں مالی سال مہنگائی کی
اوسط شرح 6 فیصد رہنے کی توقع تھی تاہم یہ 4․9 فیصد رہی۔وزیر خزانہ نے
بتایا کہ جولائی 2016 سے اپریل 2017 تک مہنگائی کی شرح تسلی بخش رہی، فوڈ
آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 3․86 فیصد جبکہ نان فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح
4․25 فیصد رہی۔انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال کرنٹ اکاو¿نٹ خسارہ 7․25
ارب ڈالر تک جاپہنچا ہے جبکہ سال کے اختتام تک یہ جی ڈی پی کے 2․7 فیصد تک
پہنچ سکتا ہے۔وزیر خزانہ نے بتایا رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر 19․5
ارب ڈالر کی سطح پر پہنچنے کی توقع ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 21 ارب ڈالر
کے قریب پہنچ گئے ہیں۔اسحق ڈار نے بتایا کہ رواں مالی سال کے اختتام تک
براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 2․58 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔
عالمی بینک آئندہ سال پاکستان کے جی ڈی پی کا نیا طریقہ کار متعارف کرائے
گا۔ سالانہ فی کس آمدنی گزشتہ مالی سال 1333 ڈالر تھی جبکہ رواں مالی سال
یہ 1629 ڈالر رہی۔رواں برس فی کس آمدنی میں 22 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ٹیکس
ریونیو رواں برس 13․1 فیصد رہا۔ 2013 میں ملکی قرضے 14318 ارب روپے تھے
جبکہ مارچ 2017 تک ملکی قرضے 20872 ارب روپے ہوگئے۔رواں مالی سال کے دوران
بھی ملکی برآمدات اور درآمدات کے درمیان عدم توازن برقرار رہا اور جولائی
2016 تا اپریل 2016 کے دوران ملکی درآمدات کا حجم 45․48 ارب ڈالر ¾ برآمدات
کا حجم 21․75 ارب ڈالر رہا۔برآمداتی حجم میں کمی کی وجہ بتاتے ہوئے وزیر
خزانہ نے کہا چونکہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے
لہٰذا ان اشیائکی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی جو پاکستان برآمد کرتا ہے۔انہوں
نے کہا کہ برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت کی نظریں آئی ٹی ایکسپورٹس پر
ہیں اور اس مقصد کیلئے ہم نے کوریا کے اشتراک سے اسلام آباد میں آئی ٹی
پارک کا اعلان کیا ہے جبکہ کراچی اور لاہور میں بھی یہ ماڈل اپنایا
جائیگا۔وزیر خزانہ نے کہا پاکستان میں جون 2014 میں آپریشن ضرب عضب کا
فیصلہ ہوا، جس میں مسلح افواج کی خدمات قابل تعریف ہیں۔ اس سال بھی مسلح
افواج کیلئے 90 سے 100 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ جس میں
متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو وغیرہ بھی شامل ہے۔وزیر خزانہ نے کہا ہمیں توقع
ہے پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا کیوں کہ ہماری
افرادی قوت چین سے سستی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی
دہشت گردی کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ نہ کر سکے، دہشتگردی کے خلاف جنگ
میں 25 ہزار لوگ شہید اور 25 ہزار افراد زخمی ہوئے، اس جنگ سے پاکستان کو
ہر سال 90 سے 100 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے،اس جنگ سے ہمیں اب تک ملکی
معیشت کو 123ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، دہشت گردی کے اخراجات اپنے بجٹ سے
ادا کررہے ہیں کسی غیر ملکی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا رہے، رواں برس بھی
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات کی مد میں 101 ارب روپے رکھے جائیں
گے۔اسحاق ڈار نے کہا یہ ہم سب کا پاکستان ہے کسی ایک پارٹی کا نہیں، معاشی
اہداف پورا نہ ہونے کی ہیڈ لائن لگانا آسان ہے تاہم موجودہ حکومت مشکل
معاشی اہداف کے حصول پر یقین رکھتی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایاپٹرولیم مصنوعات
کی قیمتیں مستحکم رکھنے سے قومی خزانے کو 120 ارب روپے کا نقصان برداشت
کرنا پڑا۔ 47001 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ برائے سال 2017-18 آج پیش
کیا جائے گا، بجٹ خسارے کا حامل ہو گا، وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار
وفاقی بجٹ بعد از نماز جمعہ قومی اسمبلی میں پیش کریں گے جبکہ بجٹ
دستاویزات سینٹ میں بھی پیش کی جائیں گی، دفاعی اخراجات کے لئے 945 ارب
روپے رکھے جانے کی توقع ہے۔ آئندہ مالی سال کے لئے گروتھ کا ریٹ 6 فیصد
مقرر کر دیا گیا، زرعی گروتھ کا ریٹ 3․5 فیصد صنعتی 7․31 فیصد، سروسز 6․4
فیصد، نجی سرمایہ کاری کا ہدف 11․20 فیصد مقرر کیا جائے گا، افراط زر کی
شرح 6 فیصد مقرر کرنے کا امکان ہے، ذرائع نے کہا ہے سرکاری ملازمین کے
تنخواہ اور پنشن میں 10 سے 15 فیصد تک بڑھانے کا امکان ہے، تاہم وزیراعظم
کی صدارت میں آج وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بجٹ کی منظوری کے وقت وزیراعظم
کی ہدایت پر مزید اضافہ ہو سکتا ہے، ملازمین کو یوٹیلٹی الا?نس دیئے جانے
کا امکان موجود ہے، انہوں نے کہا کہ ایف سی آر ریونیو کا ہدف 4 ہزار روپے
یا اس سے کچھ زائد اس کے جانے کا امکان ہے، اس طرح آئی ٹی سیکٹر کے لئے
کافی مراعات بجٹ کا حصہ ہوں گی۔ آئی این پی کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ
اسحاق ڈار نے اقتصادی جائزہ رپورٹ برائے مالی سال 2016-17ء پیش کرتے ہوئے
پاکستان تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا دھرنے اور میوزیکل شو کی وجہ
سے ملک کی معیشت کو 100 ارب کا نقصان پہنچا۔ اسحاق ڈار گردشی قرضے کے حوالے
سے تسلی بخش جواب نہ دے سکے‘ انہوں نے کہا وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف
سے اس حوالے سے بات کروں گا۔۔ قارئیں ن حکمران امیر تر اور عوام غریب تر
ہورہے ہیں۔ ایسے میں جرائم کی صورتحال جہاں تک پہنچ چکی ہے یہ سب کچھ ہم سب
کے سامنے ہے۔
آدمی کی زندگی میں اتنی تلخیاں جنم لے رہی ہیں کہ پاکستانی سماج کے بنیادی
یونٹ گھر کا سکون تباہ و برباد ہورہا ہے۔ روحانی مذہب کے ماننے والوں کا یہ
ملک ہے لیکن یہاں کے باسی روحانیو سکون سے عاری ہوتے چلے جارہے ہیں۔ وجہ
بالائی طبقے کی کرپشن ہے اور عام آدمی کے پاس وسائل کا نہ ہونا ہے۔ |