کسانوں اور غریبوں کی ہمدرد ہونے کا دعویٰ کرنے والی
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2017-18 کا بجٹ پیش کرنے سے پہلے ایک کارنامہ یہ
انجام دیا کہ اسلام آباد میں جمع ہوکر اپنے مسائل پر احتجاجی ریلی نکالنے
والے کسانوں پر لاٹھیاں برسایں اور آنسو گیس کی شیلنگ کی، پاکستان کے تمام
نیوزچینلز میں دکھائی جانے والی اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس
اہلکار احتجاج کرنے والے مظاہرین کو زمین پر گھسیٹ رہے تھے، جو یہ مطالبہ
کررہے تھے کہ حکومت زراعت کے شعبے کےلیے زیادہ وسائل مختص کرے۔ گزشتہ کئی
سالوں سے کسان حکومتوں کو زرعی شعبے کو نظر انداز کرنے پر تنقید کا نشانہ
بناتے رہے ہیں۔ کسانوں کی احتجاجی ریلی اس وقت نکالی گئی جب پاکستان کے
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ میں اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کرنا
تھا۔پولیس نے کئی مظاہرین کو مارا پیٹا اور درجنوں کسانوں کو گرفتار کرلیا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ان مظاہرین نے وفاقی دارالحکومت میں احتجاجی ریلیوں
پر پابندی کے باوجود یہ ریلی نکالی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کسانوں
سے بات چیت کے زریعے مسلئہ حل کرنے کے بجائے ان سے پولیس کی لاٹھیوں اور
آنسو گیس کے زریعے نبٹنا بہتر سمجھا۔شاید نہتے اور مجبور احتجاجی کسانوں
کو زیر حراست لینے پر یہ کہنا بہتر ہوگا کہ’’اس بجٹ کےوقت پاکستان کی
شاندار جمہوریت نے لاٹھی گولی کی سرکار بن کرمظلوم کسانوں کا استقبال کیا
تھا‘‘۔
پاکستان کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار جو وزیراعظم نواز شریف کے سمدہی بھی ہیں
انہوں نے26 مئ 2017کو اپنی حکومت مسلم لیگ (ن) کا پانچواں بجٹ پیش کرنے سے
پہلے کسی اچھے بیوٹی پالر جاکراپنے حسن کو چار چاند لگائے، وزیر خزانہ کی
جو تصویر بجٹ پیش کرتے ہوئے سامنے آئی اس میں وہ اپنی مسکراہٹ کے ساتھ بہت
دلکش لگ رہے تھے۔ 2013 سے 2017 تک انہوں نے اسی انداز میں اپنے بجٹ پیش کیے
ہیں اور شاید ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ بیوٹی پالرجانے سے جیسے وہ دلکش لگتے
ہیں ویسے ہی عوام کو ان کا بجٹ بھی دلکش لگتا ہے۔ہر سال کا بجٹ پیش کرنے کے
بعد ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اور انکے رہنما نواز شریف اس قوم کے نجات
دہندہ ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف کے اس تیسرئے دور میں بھی عام
آدمی کا کچھ نہیں بدلا ہے، سب جانتے ہیں کہ اسحاق ڈار اعداد و شمار میں
ہیر پھیر کرنے کے ماہر ہیں۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے جو بجٹ پیش کیا ہےاس
کامجموعی حجم 47 کھرب 52 ارب 90 کروڑ روپے ہے۔جس میں انہوں نے دعویٰ کیا
ہےکہ لوڈ شیڈنگ کا اگلے سال مکمل خاتمہ کردیا جائے گا اور عوام کی سہولت کے
لیے کئی اقدامات کیے جائیں گے۔مضمون کی ابتدا کسانوں کی احتجاجی ریلی سے
شروع ہوئی تو سب سے پہلے کسانوں کے مسائل پر بات کرلیتے ہیں۔
زرعی شعبے کی ترقی کےلیے وفاقی حکومت نے تین برس قبل جو کسان پیکج دیا تھا
حالیہ بجٹ میں اسی پیکج کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ نئے اقدامات میں
ساڑھے بارہ ایکڑ زمین کے مالک کسانوں کے لیے 50 ہزار روپے تک کے قرضوں کی
تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر خزانہ نے کسانوں کو یقین دلایا کہ اس
سال کے دوران کھاد کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے
دعویٰ کیا کہ نواز حکومت نے کسانوں کو چھ سوارب کے قرضے دیئے جسکی وجہ سے
زراعت کے شعبے میں کپاس، مکئی اور گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی۔ وزیرخزانہ
کے یہ دعو ے حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے۔ دوسرئے شعبوں کی طرح ملک میں زراعت
کے شعبے کو بھی گزشتہ پانچ سالوں میں شدید دھچکا لگا ہے۔ملک کی معروف معیشت
دان ڈاکڑ عذرا طلعت سعید موجودہ حکومت کی پانچ سالہ معاشی کارکردگی پر
تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’پانچ سال میں اس حکومت نے کوئی عوام دوست
بجٹ پیش نہیں کیا۔ میں زرعی شعبے سے منسلک ہوں اور کسانوں کے ساتھ کام کرتی
ہوں۔ تو اس شعبے کے حوالے سے میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ حکومت نے جو سبسڈی دی،
اس سے چھوٹے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ کسان پاکستان کی اکثریت ہیں۔
حکومت کی پرائس پالیسی نے ان غریب کسانوں کا کوئی بھلا نہیں کیا۔ زراعت کے
شعبے میں کوئی ریگولیشن نہیں ہے اور نہ وہاں کوئی کم سے کم اجرت کا تصور ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے اس بجٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اگلے سال تک بجلی کی
پیداوار میں 10 ہزار میگا واٹ تک کا اضافہ ہوجائے گا۔گذشتہ 9 سال سے جس میں
پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سال بھی شامل ہیں عوام یہ سن سن کر بیزار
ہوچکے کہ بس جلدہی لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی کبھی ایک سال اور کبھی دو سال
کا وقت دیا گیا۔ اربوں روپے کے اشتہارات اور ان گنت فیتے کاٹنے کے باوجود
آج چار سال بعد بھی نواز حکومت میں لوڈشیڈنگ تو ختم نہیں ہوئی البتہ بجلی
کی قلت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ہر سال وعدہ کیا جاتا کہ اس مرتبہ رمضان میں
سحری اور افطار کے وقت لوڈ شیڈنگ بلکل نہیں ہوگی لیکن نواز حکومت میں ایسا
کبھی نہ ہوا۔ 28 اور 29 مئی 2017 یعنی یکم اور دو رمضان کو کراچی اور سندھ
کےاکثر علاقوں کے لوگوں نے بغیر بجلی کے سحری کی ہے۔ وزیرخزانہ کے اس دعوے
میں بھی کوئی حقیقت نظر نہیں آتی کہ اگلے سال 2018میں بجلی کی لوڈشیڈنگ
ختم ہوجائے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے کئی بڑئے شہروں میں لوڈشیڈنگ
کا جن بے قابو ہے۔ کراچی جیسے شہر میں کئی کئی گھنٹوں تک بجلی کی آنکھ
مچولی چلتی رہتی ہے جب کہ دیہی علاقوں کا کوئی پرسان حا ل نہیں ہے، جہاں
اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، لوڈشیڈنگ کے ستاے ہوئے عوام
سڑکوں پر آتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں جسکی وجہ سے قیمتی املاک کا بھی
نقصان ہوتا ہے۔
نواز شریف کی اس چار سالہ حکومت میں انسانی زندگی کی تمام اشیاء ضرورت کی
قیمتوں میں دو سے تین سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ تیل سستا ترین تھا لیکن
مہنگے داموں بیچا گیا، سانس کےعلاوہ ہر چیز پہ ٹیکس لگایا گیا۔ ان حالات
میں تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ اور مزدور کی ماہانہ اجرت 15 ہزار مقرر
کرنا ایک مذاق سے کم نہیں۔ پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک مسلہ غربت بھی
ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ غربت صرف ایک مسلہ ہی نہیں ہے بلکہ
یہ اپنے ساتھ اور کئی مسائل پیدا کرتی ہے اس لئیے غربت کو کئی مسائل کو جنم
دینے والی ماں بھی کہا جا سکتا ہے۔ غربت کے بطن سے جرائم بھی بہت پیدا ہوتے
ہیں اور جہالت میں بھی اضافے کا سبب بنتی ہے ملک کی مجموعی پیداوار اور
اقتصادی سرگرمیوں میں بھی رکاوٹیں پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے لیکن موجودہ
حکومت ملک سے غربت کے خاتمے کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتی ہے ۔موجودہ حکومت
کی تعلیم کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں ہے جس کی وجہ سے تعلیم کی شرح بڑھنے کے
بجائے گھٹ رہی ہے۔حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق تعلیم کی شرح میں دو
فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بلند مقام حاصل
کرنے کے لیے تعلیم ضرورری نہیں ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کابینہ
میں ایک بھی وزیر ایسا نہیں ہے جس کو اعلیٰ تعلیم یافتہ کہا جائے۔ نواز
شریف جو خود بھی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں انہوں نے بس یہ سمجھا ہواہے کہ
صرف سڑکیں بنانے سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نےآئندہ مالی سال کے بجٹ کو مجموعی طور
پرعوام کےلیے خسارے کا بجٹ قراردیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔اس حکومت نے پانچ
بجٹ تو دیے لیکن لوڈشیڈنگ کے خاتمے، کشکول توڑنے اورگردشی قرضوں کے خاتمے
سمیت سرمایہ کاری بڑھانے، صنعتیں لگانے اور نوکریاں پیدا کرنے کے لیے
جووعدئے کیے تھے ان پرگذشتہ چار سالوں میں کبھی کوئی عمل نہیں کیا۔ اس بجٹ
کی حقیقت جاننی ہو تو کسی بھی عام آدمی سے پوچھ لیں وہ فوراً ہی اسے ایک
عوام دشمن بجٹ کہے گا۔ |