سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں 20 اور21 مئی کو عالمی
طاقت کے سربراہ رونالڈ ٹرمپ اور35 سے زیادہ اسلامی ممالک کے سربراہان اور
حکومتی نمائندوں کی موجود گی کے باعث دنیا کی نظروں کا مرکز رہا۔ اہم وجہ
دنیا کے طاقت ترین ملک امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا امریکہ کے صدر
منتخب ہوجانے کے بعد کسی بھی غیر ملک کا اولین دورہ تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے
دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی اور لوگوں کو
حیرت میں ڈال دیا ۔ کیا مصلحت تھی، کیا منطق ، کیا سیاست اور کیا مکاری ہے
تاحال کسی کے سمجھ میں نہیں آرہا۔ امریکہ ایک عیار ملک ہے۔ زرا غور کریں کہ
ابھی چند ماہ قبل صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں سے کس زبان اور
لہجے میں بات کررہا تھا، مسلمانوں کے بارے میں کیا خیالات کیا تھے ۔ اس نے
تو امریکہ سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی بات کی تھی، مسلمان ملکوں کے خلاف
امیگریشن قانون کا مسودہ تیار کرنے کی بات کی تھی، مسلمانوں کے امریکہ میں
داخلے پر پابندی کا اعلان کیا تھا، نہ معلوم کیا کیا مُغَلَظا ت مسلمانوں
کے خلاف بکی تھیں۔ صدر منتخب ہونے کے بعد بھی اس کی زبان اِسی قسم کی تھی،
چند مہینوں میں یہ تبدیلی کیسے اور کیوں کر آگئی؟ وہ مسلمانوں کا ہمدرد،
بہی خواہ ، غم گسارکیسے ہوگیا۔ سعودی عرب کو یہ اعزاز دینے کا خیال کیسے
آگیا کہ اس نے مسلمانوں کے اہم مرکز، متبرک و محترم ملک پر قدم رنجا کرنے
کا ارادہ ہی نہیں کیا بلکہ عملاً ایسا کر دکھا یا۔ وقت ہی بتائے گا کہ اس
میں کیا راز پوشیدہ ہے۔ صدارتی انتخابات کا ڈونلڈ ٹرمپ اور تھا اور سعودی
عرب میں مہمان بنا ڈونلڈ ٹرمپ کوئی اور ہے۔ اس یو ٹرن کے پیچھے کیا راز
پوشیدہ ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔ ویسے سیاست کسی ملک کے اندر کی ہویا ملکوں
کے مابین ہو اس کے ڈھنگ نرالے ہی ہوتے ہیں۔
بد گمانی اچھی بات نہیں مان لیتے ہیں کہ ٹرمپ کی نیت صاف ہے۔ اس کے دل میں
اچانک مسلمانوں سے دوستی، قربت اور سعودی عرب اوراس کے توسط سے مسلم ممالک
(ایک کے علاوہ) سے پینگیں بڑھانے کا خیال آگیاہو۔ وہ سارے مسلم ممالک (ایک
کے علاوہ) سے دوستی کرنا چاہتا ہے، تعلقات دوستانہ چاہتا ہے۔ اس میں کوئی
برائی نہیں، زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کی پالیسی بری نہیں ۔ اگر ایسا ہے
تو ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب خارجہ پالیسی کی جانب گامزن ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو غیر
معمولی پروٹوکول دیا جانا، اسلامی دنیا کے35ممالک کے سربراہان اور نمائندوں
کو ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سنانے کے لیے اکٹھا کرنا، اس اجتماع میں ایک اسلامی
ملک کے خلاف زہر اگلنا آخرکیا پیغام ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب آمدتو
درست لیکن اس اجتماع کو امریکہ عرب اسلامی سربراہ کانفرنس کا نام دینا ،
کہا کا انصاف ہے۔ سمجھ سے بالا عمل ہے۔ اس اجتماع کا مقصد ڈونلڈ ٹرمپ کے
خیالات سے مسلم ممالک کے سربراہان کو برائے راست آگاہ کرنا تھا۔ اپنی تقریر
میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’ وہ امریکہ سے محبت ، دوستی اور امید کا پیغام
لایا ہوں، مشترکہ اقدار اور مفادات کی بنیاد پر پارٹنر شب کی پیشکش کرتا
ہوں، لڑائی کسی ذہب کے خلاف نہیں،بلکہ یہ نیکی اور بدی کی لڑائی ہے،داعش
اور القاعدہ جیسی تنظیمیں دنیا کے لیے خطرہ ہیں، امت مسلمہ شدت پسندی کے
خاتمے کے لیے آگے آئے اور مرکزی کردار ادا کرے ،عرب ممالک دہشت گردوں کو
پناہ نہ دیں بلکہ انہیں اپنی سرزمین سے نکال باہر کریں، ہم پرانحصار ختم
ہونا چاہیے، فرمانا تھا کہ ڈیرھ ارب مسلمان واشنگٹن کے ساتھ ہیں، ایران کو
تنہا کیا جائے۔ٹرمپ کا بنیادی نعرہ یہی تھا کہ ’ایک دوسرے کے بغیر چارہ
نہیں‘۔ایک دوسرے سے مراد کیا ہے ، امریکہ کے ساتھ کون کون سے ملک شامل ہیں
جن کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔ بہت سی باتیں اچھی بھی ہیں لیکن یہ نعرہ بلا
تفریق پوری دنیا کے لیے ہونا چاہیے ۔ دنیا کا ہر ملک دہشت گردی جیسے ناسور
سے دوچار ہے۔ 9/11کے بعد جو دہشت گردی شروع ہوئی تھی اس نے پوری دنیا کو
اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ پاکستان اس دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔
ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 70ہزار پاکستانی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن چکے
ہیں جب کہ 6ہزار پاکستانی فوجی افسر و جوان شہادت پاچکے ہیں۔ یہ وہی امریکہ
ہے جو پاکستان سے ڈو مور ، ڈو مور کی گردان کرتا نہیں تھکتا تھا، پاکستان
کے ہوائی اڈوں پر قبضہ جمایا ہوا تھا ،انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا
کرتا تھا، بلااجاذت ڈرون گرانا اس کا معمول تھا۔ پاکستان کے مقابلے میں وہ
بھارت کو زیادہ عزیز رکھتا ہے اس کے ساتھ کئی قسم کے معاہدے کیے ہوئے ہیں،
کشمیر میں بھارت کی دہشت گردی، ظلم و زیادتی اسے نظر نہیں آتی، کشمیر میں
اب تک 3 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہو چکا ہے ، عراق میں ناکامی کے
بعد افغانستان میں کود پڑا اور افغانستان اور پاکستان کے درمیان بھی بد
گمانیاں پیدا کرادیں۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں دہشت گردی کے حوالے
سے پاکستان کی قربانیوں کاتذکرہ تو دور کی بات حوالہ بھی نہیں دیا، اسے
بھارت اور اسرائیل یاد رہے۔اسے پاکستان یاد نہیں آیا ، اس کی قربانیاں یاد
نہیں آئیں۔ امریکہ کے اس قسم کے عمل سے ہمیں دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے ،
امریکہ نے ہمیشہ ہی پاکستان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا ہے۔ یہ کبھی مسلمانوں
کا خاص طور پر پاکستان کا ہمدرد، بہی خواہ، دوست ہوہی نہیں سکتا۔ یہ اپنے
مفادات کااَسِیر ہے۔ یہ وہی ایران ہے جو کبھی امریکہ کی آنکھ کا تارا تھا
جو اب اس کی آنکھ کا شہتیر بن گیا ہے۔
امریکہ تو ہے ہی اسلحہ کا تاجر ہے ، اسے تو اپنا اسلحہ بیچنا ہے، یہ تو
ملکوں کو لڑاتا رہے گا، انہیں اپنا اسلحہ فروخت کرتا رہے۔ اعلامیہ یہ سامنے
آیا کہ سعودی عرب اس سال امریکہ سے 110بلین ڈالر کے معاہدے کے تحت دفاعی
ساز و سامان خریدے گے ، یہ رقم آئندہ سال بڑھ کر 380بلین ڈالر تک جاسکتی
ہے۔اس تجارت کا فائدہ کس کو ہوگا؟ کیا ٹرمپ کے دورے کا بنیادی مقصد سعودی
عرب کو اسلحہ کی فروخت تھا، مسلم ممالک کے ساتھ مشترکہ مفادات کی بنا پر
پارٹنر شب کو آگے بڑھانا تھا یا پھر کچھ اور؟ اسلامی دفاعی اتحاد بھی قائم
ہوچکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر مسلم ملکوں کے مابین مشترکہ مفادات کی پاٹنر شب
کو آگے بڑھانے خواہش تھی تو اپنی تقریر میں ایران اور شام پر تنقید کا کیا
جواز تھا۔اس نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ’’وہ حکومتیں جو دھشت گردوں کو
محفوظ پناہ گاہیں دیتی ہیں ، مدد کرتی ہیں وہ حکومت اس خطے میں عد م
استحکام کے ذمہ دارہیں۔ ٹرمپ نے کہا لبنان سے عراق اور یمن تک ایران دھشت
گردوں کو مالی امداد دے رہا ہے۔ اسلحہ فراہم کر تا ہے اور دہشت گردوں ،
ملیشیا اور دوسرے شدت پسند گروہوں کی تربیت کرتا ہے جو خط میں تباہی اور
افراتفری پھیلاتے ہیں اور اسرائیل کی تباہی کے خواہاں ہیں اور امریکہ کے
لیے موت کے نعرے لگاتے ہیں‘۔ کچھ اسی قسم کی باتیں سعودی عرب کے سلمان بن
عبد العزیز نے بھی کیں۔ اب ایسی صورت میں امریکہ کی پالیسی بہت واضح نظر
آرہی ہے۔ ایران کوئی کمزور ملک تو ہے نہیں۔وہ امریکہ کے مقابلے میں جوہری
طاقت تو نہیں رکھتا، فوجی قوت میں کمزور ہوسکتا ہے ، روب اور دب دبے میں
امریکہ بہت آگے ہے لیکن ایران اسلامی جذبہ، جوش اور ولولہ، ہمت اور بہادری
میں امریکہ سے کہیں آگے ہے۔ ایران کے صدر نے ریاض کانفرنس کو ایک شو قرار
دیاجس کی کوئی سیاسی عملی حیثیت نہیں ، ایران کے صدر جو دوسری بار بھاری
اکثریت سے ایران کے صدر منتخب ہوئے ہیں نے کہا کہ ایران کے بغیر خطے میں
استحکام ممکن نہیں ۔سعودی عرب نے اسلامی ممالک کا عسکری اتحاد تو پہلے ہی
تشکیل پا چکا ہے جس کی قیادت پاکستانی جنرل کو سونپی جاچکی ہے۔ ریاض کا
اجتماع دراصل سعودی عرب کے مخالفین کو دنیا کی بڑی طاقت کی موجودگی میں اور
مسلمان ممالک کے نمائندوں کو اکٹھا کرکے اپنی بھر پور طاقت دکھانا تھا ۔ یہ
کسی بھی طرح اچھا عمل نہیں مسلمان ملک کا دوسرے مسلمان ملک سے تصادم یا
محاز آرائی کسی بھی طرح اچھی بات نہیں۔ ایسی صورت نقصان ہی نقصان ہوگا۔
امریکہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے ، اس کی
سرحدیں پاکستان سے طویل فاصلہ تک جڑی ہوئی ہیں، دونوں ملک عرصہ دراز سے
باہمی اعتماد، تاریخ اور ثقافت کے رشتے میں جڑے ہوئے ہیں۔ ایران میں
اکثریتی فرقے سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد پاکستان میں موجود ہیں ، وہ
ایک تسلسل اور عقیدت مندی کے ساتھ ایران زیارات کے لیے جاتے ہیں۔ امریکی
صدر نے اس اہم معاملے کو پیش نظر نہیں رکھا۔ اس لیے کہ ایران وہ واحد
اسلامی ملک ہے جس نے امریکہ سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے۔ اینٹ
کا جواب پتھر سے دینے کی دھمکی دی ہے وہ ایسا کرسکے یا نہیں ، یہ دوسری بات
ہے ، اس لیے کہ ایران امریکہ کے مقابلے میں ظاہر ہے کمزور ہے لیکن جہاں
حوصلے بلند ہوں، ایمان سلامت ہو وہاں طاقت کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔بھارت کی
فوجی قوت پاکستان سے کہیں زیادہ ہے لیکن پاکستان کی فوج اور عوام میں جو
ایمانی قوت اور جوش ، جذبہ پایا جاتا ہے اس کے پیش نظر بھارتی فوج ہمیشہ دم
دبا کر بھاگنے پر مجبورہو جاتے ہیں۔ ریاض کانفرنس کے حوالے سے یہ بحث بھی
اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ پاکستان کو اس اجتماع میں وہ اہمیت نہیں دی گئی
جس کا پاکستان مستحق تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے وفد
کے ہمراہ اس اجلاس میں شرکت کی، صحافی جو ہوائی سفرمیں میاں صاحب کے ساتھ
شریک سفر تھے کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے دوران سفر تقریر تیار کی یا
اس کی نوک پلک درست کی ، جس سے معلوم ہوا کہ وزیر اعظم صاحب نے اجلاس سے
خطاب کا موقع دیا جائے گا اور ایسا ہونا چاہیے بھی تھا لیکن نہیں معلوم
کیوں ایسا نہ ہوسکا۔ کچھ ذرائع اس بات سے بھی انکاری ہیں کہ میاں صاحب سے
ٹرمپ کی ملاقات ہوئی ، ذرائع کہتے ہیں کہ دونوں کے ہاتھ ضرور ملے اس سے
زیادہ کچھ نہیں ہوا۔ اگر تقریر طے تھی اور نہیں ہوئی یا نہیں کر نے دی گئی
تو یہ بات قابل افسوس بھی ہے اور پاک سعودی تعلقات اور سعودی اور نواز شریف
تعلقات پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر طے نہیں تھی، وزیر اعظم صاحب نے حفظ ماتقدم
کے طور پر یہ سوچتے ہوئے کہ شاید موقع مل جائے کچھ نوٹس بنالیے تو پھر یہ
معاملہ اس قدر سنگین نہیں۔ اس کی وضاحت وزارت خارجہ کو دو ٹوک الفاظ میں
کردینی چاہیے تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ وزارت خارجہ کی جانب سے مناسب رابطوں کا
فقدان اور سعودی حکام سے معاملات میں سرد مہری کے باعث ایسا ہوا۔ اس کی بڑی
وجہ مستقل ، مستعداور قابل وزیر خارجہ کی عدم موجودگی ہے ۔ اس جانب توجہ ہر
جانب سے دلائی گئی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میاں صاحب کو ضِد ہوگئی ہے
کہ جو کرنا ہے کرلو میں وزارت خارجہ اپنے پاس ہی رکھوں گا۔وزیر اعظم کے
معاون خصوصی طارق فاطمی کو ڈان لیکس رپورٹ کے نتیجے میں فارغ کیا جاچکا ہے۔
خارجہ امور کے وزیر سرتاج عزیز کی قابلیت ، صلاحیت اور تجربے میں کوئی شبہ
نہیں لیکن کیا جائے یہ عمر عزیز بڑی ظالم ہوتی ہے۔ ہم 70 کو نہیں پہنچے تو
جو کچھ ہماری کیفیت ہے وہ ہم جانتے ہیں۔ سرتاج عزیز صاحب اللہ انہیں سلامت
رکھے 88کے ہوچکے ، ان کی تاریخ پیدائش اگر درست لکھی ہے تو 7فروری1929ہے۔
اس عمر میں وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں بڑی ہمت کی بات ہے۔چار سال بیت رہے
ہیں ، صرف ایک سال باقی رہ گیا ہے، حالات اور واقعات بتارہے ہیں کہ شاید اس
پہلے ہی انتخابات ہوجائیں میاں صاحب کو سنجیدگی سے اس جانب سوچنا چاہیے۔ ضد
اور عنا کو ملک کی خاطر چھوڑیں ، قابل نہ سہی کم قابل کو یہ ذمہ داری سونپ
دیں جو 60سے زیادہ کا نہ ہو ، ورنہ وہ بھی یہی کچھ کرے گا۔ سرتاج عزیز کے
ذکر سے یاد آیا کہ پرویز مشرف کو جو شخصیت زیادہ عزیز تھی وہ شوکت عزیز کی
تھی، ان سے قبل میاں نواز شریف کی کی دوسری باری میں سرتاج عزیز ان کی کچن
کیبنٹ کا حصہ تھے، اس حوالے سے اس وقت کے حالات کے مطابق ایک قطعہ کچھ اس
طرح کہا تھا
کل تھے سرتاج عزیز، آج ہیں شوکت عزیز...........اُنہیں تھے شریف عزیز ،
انہیں مشرف عزیز
ملک کی فکر نہ کل تھی عزیز ، نہ آج ہے عزیز............ کرسی تھی اُ نہیں
عزیز، کرسی انہیں ہے عزیز
اس معاملے میں سفارتی کاروائی میں کوتاہی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس
عمل سے پاکستان کی اور وزیر اعظم پاکستان کی سبکی ہوئی۔ میاں صاحب دوران
سفر یہ عمل نہ کرتے ، خاموشی سے جو کچھ لکھ لیا تھا یا لکھ کر دے دیا گیا
تھا اسے اندر ہی رکھا رہنے دیتے تو کسی کو معلوم بھی نہ ہوتا کہ وزیر اعظم
نے تقریر کرنا ہے۔میاں صاحب نے از خود معاملے کو طش از بام کیا تو پھر ایسا
تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں۔ کسی نے درست کہا کہ بڑی طاقتوں کے کھیل نرالے
ہوتے ہیں۔ یہ کسی کو خوش کرتی ہیں تو کسی پر دباؤ بڑھاتی ہیں۔ امریکہ اگر
اپنا اسلحہ فروخت کرنے میں لگا ہے تو چین بھی تو دوسرے طریقے سے اپنے آپ کو
اوپر لانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے ۔ پاکستان پر پانی کی طرح پیسہ لگانے کا
کوئی تو مقصد ہوگا۔ اب نہیں تو کچھ عرصہ بعد سامنے آجائے گا۔ یہ بڑے ملک
بڑی طاقتیں اپنا مفاد سوچتی ہیں، ظاہر ی طور پر اگر کسی چھوٹے ملک کو عارضی
فائدہ پہنچ بھی رہا ہوگا تو طویل مدتی فائدہ اسی بڑے ملک کو ہی پہنچنے والا
ہوگا۔ ہمیں ہر صورت میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔اپنی ضروریات
خود پوری کریں ، ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کہ ہم عالمی اداروں کے
محتاج نہ رہیں، بڑی قوتوں کے سامنے اپناہاتھ نہ پھیلائیں۔ ایسا تب ہی ممکن
ہے کہ ہمارے ملک کی قیادت ایماندار اور اس بات پر یقین رکھتی ہو کہ ہمیں ہر
صورت میں اپنے ملک کو اپنے پیروں پر کھٹر ا کرنا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہی رہی
کہ ہمیں ایسی قیادت نصیب نہ ہوسکی۔ ریاض کانفرنس سے کس کو کیا پیغام دینا
تھا وہ بہت واضح طور پر سامنے آچکا ہے۔ پیغام دینے والوں نے کھلم کھلم
پیغام دے دیا اور جس کو پیغام دینا تھا انہوں نے وہ پیغام سمجھ لیا، اس کا
جواب بھی فوری دے دیا۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ امریکہ کی دوستی بری
اور اس کی دشمنی اس سے بھی زیادہ بری ہے۔ |