جس روز 26مئی 2017کو ہمارے ضرورت سے زیادہ ماہر ِمعیشت
اور وزیراعظم نوازشریف کے سمدھیء خاص وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار
آئندہ مالی سال 2017-2018ء کے لئے1480ارب روپے کے خسارے اور47کھرب53ارب کا
وفاقی بجٹ پیش کررہے تھے جس میں چندفیصد مُلک امیر طبقے کو خوبصورت انداز
سے نوازاگیاہے یقینا یہ بجٹ تقریرسُن کرملک کا امیرطبقہ اپنے امیر ہونے پر
فخر اور غریب و مزدورطبقہ مایوسیوں کے گہرے سمند ر میں غوطہ زن ہوتا گیا
الغرض یہ کہ جب (راقم الحرف) میں بھی مسٹر اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر سُن
رہاتھا تب مجھے اکشے کمار کی فلم راؤڈی راٹھور شدت سے یاد آرہی تھی آپ سوچ
رہے ہوں گے کہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر سے اکشے کمار اور اِس کی فلم سے کیا
تعلق ہے تو عرض یہ ہے کہ اکشے کی اِس فلم کو اِس موقع پر یاد آنے کا جو خاص
مقصد رہاوہ یہ تھاکہ اِس فلم کے ایک سین میں اکشے کمار اپنے ساتھی اداکار
کو لوٹی گئی رقم کے بٹوارے کو کچھ اِس طرح گورکھ دھن سے تقسیم کرتا ہے کہ
آخر میں ساری کی ساری رقم اکشے کمار کے ہتھے لگ جا تی ہے اور بٹوارے کے
اختتام پر ساتھی کے حصے میں سوا ئے کفِ افسوس اور خالی ہاتھ و خالی جھولی
کے کچھ نہیں آتا ہے، فلم کا یہ جملہ مجھے یاد ہے کہ لوٹی ہوئی رقم کے
بٹوارے کے وقت اکشے کمار اپنے مخصوص انداز سے بار بار یہی کہتا رہا کہ ’’
ایک تیرا دومیرا ‘‘اوریوں اِسی فارمولے پر دونوں کے درمیان رقم کی تقسیم
ہوئی اور آخرکار اکشے سب کچھ بٹور کر چلتا بنا اور بیچارہ ساتھی اداکار
اپنی کچھ وقتوں کی خوش فہمی کے بعد خالی ہاتھ رہا۔
یکدم ایسے ہی جیسے کہ آج اسحاق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران بار بار
قسمیں کھا کرمُلک کے( اپنے تمام بنیادی حقوق سے محروم )98فیصد اور خطے غریب
سے بھی نیچے زندگیاں گزارنے والے غریب اور تنخواہ دارطبقے کے لوگوں کوپوری
قوت سے یہ یقین دلانے کی کوشش کی یہ ن لیگ (نوازحکومت) کا پانچواں قومی بجٹ
ہے جو انتہا ئی محتاط و متوازن ہے جس میں ڈیلی ویجز ، مزدور اور کم آمدنی
والے سرکاری و نیم سرکاری ملازمین کو ٹیکسوں کی بے شمار چھوٹ دے کر ریلیف
اور مراعات کی نوازشیں کردی گئی ہیں رقم الحرف کو یہ سُن کر ایسا لگاکہ
جیسے وہ دبے لفظوں میں یہ کہنا چا ہ رہے تھے کہ اِس بجٹ کو بنا تے وقت
دوفیصد اپنے امیر اورمراعات یافتہ طبقے کو نظرانداز کرکے سب سے زیادہ غریب
اور ملازم پیشہ طبقے کو مراعات دی گئی ہیں ایسا اِس لئے بھی خاص طور پرکیا
گیاہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی خصوصی ہدایات تھیں کہ اگلاسال الیکشن کا سال
ہے ہمیں اِس بجٹ سے زیادہ سے زیادہ رقم الیکشن مہم کے لئے بھی رکھنی ہے سو
بجٹ میں مُلک کے غریب اور کم آمدنی والے طبقے کو زیادہ سے زیادہ مراعا ت
دینی ہے اور اِن کی زیادہ سے زیادہ ماہانہ تنخواہ ایک ہزار روپے کے اضافے
کے بعد 15ہزار روپے ہر صورت کرنی ہے کیو نکہ یہ ن لیگ /نوازحکومت کا عوام
سے کھلا اور سچا وعدہ ہے کہ حکومت غریبوں اور کم آمدنی اور تنخواہ دار طبقے
کی پریشانیوں اور مشکلات اور دُکھ درد کا مکمل احساس رکھتی ہے اِس بِنا پر
ماہا نہ تنخواہ کی مد اور اُجرت میں ایک ہزارکا اضافہ کرنا حکومت پر لازم
تھا ورنہ اگلے سال2018ء کے انتخابات میں غریب عوام ن لیگ کو ووٹ نہیں دے
گی،یوں حکومت نے اپنے فائدے اور آئندہ انتخابات میں غریبوں ، مزدوروں اور
کم تنخواہ دار طبقے سے اپنے حق میں زیادہ سے زیادہ ووٹ لینے کے خاطر ماہانہ
اُجرت کی مد میں صرف ایک ہزار روپے کا اضا فہ کرکے بہت بڑا تیرچلایا ہے
کیونکہ بقول حکومت اِس اضافے سے پہلے ماہانہ چودہ ہزار روپے کمانے والے
طبقے کے گھر میں خوشیاں ڈیرے ڈالے گی اور غریب راتوں رات امیر ہوکر مُلک کے
امیروں کے صف میں آجا ئے گااورمُلک کے زیادہ تر غریب اور تنخواہ دار طبقے
سے تعلق رکھنے والے افراد کو بہت سے رنگ برنگین اور سُہنرے باغات دکھا ئے
گئے کہ غریب اور مزدور طبقہ اِس میں ہی گھوگیااِسے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ
بجٹ میں اسحاق ڈار نے غریبوں کو سوا ئے حسین خواب دکھا نے کے اِن کے لئے
اور کچھ نہیں کیا ہے۔
تاہم بجٹ تقریر میں مسٹر اسحاق ڈار نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں کہاکہ بجٹ
ن لیگ حکومت کی مقبولیت میں اضافہ کا گراف بلند کرے گا اِس لئے کہ بجٹ میں
1001ارب روپے کے جتنے بھی پروگرام ہیں یہ مُلکی تاریخ کا ترقیاتی پروگراموں
کے لحاظ سے ن لیگ کی حکومت کا بہت عظیم یعنی کہ اعظم عظیم کارنامہ ہے جبکہ
مُلکی دفاعی ضروریات کے لئے920ارب روپے دل کھول کر مختص کئے گئے ہیں،بجٹ
میں موبائل کالز،مرغی کھاداور پیمپرزسستے جبکہ غریبوں کی قوتِ خریدوالے کم
قیمت موبائل فون مہنگے اور امیروں کے لئے زیادہ قیمت والے موبائل فونز سستے
کئے گئے ہیں،(کیوں یہ ہے ناں بجٹ کی عجیب اور حیران کن بات )سیمنٹ، سریااور
دودھ مہنگا،اور تنخواہوں پنشن میں10فیصداضافہ کرکے بہت بڑاکارنامہ انجام
دیاگیاہے،سگریٹ،پان چھالیہ، امیروں کی بیگمات کے میک اَپ کے سامان
درآمدی،کپڑے،گھڑیوں پر ڈیوٹی میں اضافہ کے ساتھ 1480ارب روپے خسارے کا بجٹ
پیش کرنے کی جہاں حکومت نے جسارت کی ہے تو وہیں اِس حکومت نے بڑی جرات اور
بہادری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے بیٹھے بیٹھائے صدرِ مملکت ممنون حُسین کی
نتخواہ میں بھی 6لاکھ روپے کا یکدم سے اضافہ کرکے خود صدرِمملکت ممنون
حُسین کو بھی حیرت میں ڈال دیا یقینا اُنہوں نے بھی ایک لمحے کو یہ ضرور
سوچا ہوگاکہ اِنہوں نے اپنے صدر بننے سے لے کر آج تک کیا ہی کیاہے؟؟کہ
نوازشریف کی حکومت نے موجودہ بجٹ میں اِن کی تنخواہ میں یکد م سے 6لاکھ
روپے کا اضافہ کردیاگیاہے پھریہ بھی سوچ کر خود ہی خاموش ہوگئے ہوں گے کہ
جب اﷲ مہربان تو بندہ پہلوان...
اسحا ق ڈار نے حکومتی ایما پر موجودہ بجٹ میں( اپنوں جیسے بالخصوص)
وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں یومیہ 25لاکھ جو سال
کے91کروڑ67لاکھ22ہزارروپے بنتے ہیں کا اضافہ کیا ہے اور اِسی طرح ایوانِ
صدر کے لئے بھی ساڑھے 12لاکھ روپے یومیہ اخراجات کی مد میں مختص کئے گئے
ہیں۔
جبکہ یہاں توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کے اِس سے قبل مالی سال
2016-2017ء کے بجٹ میں وزیراعظم ہاؤس کے لئے سالانہ 88کروڑ96لاکھ94ہزار
روپے مختص کئے گئے تھے خبر ہے کہ بعد میں اخراجات میں مسلسل ہونے والے
اضافے کے باعث نظرثانی شدہ 95کروڑ6لاکھ13ہزارروپے مختص کئے گئے مگر اِس کے
باوجود بھی مُلک میں غربت کے خاتمے اور توانا ئی بحرانوں کے لئے کوئی خاطر
خواہ حکمتِ عملی وضع نہ ہوسکی اور قوم پھر بھی اپنے بنیادی حقوق سے یکسر
محروم ہی رہی ایسا لگتا ہے آئندہ بھی قوم کے حصے میں سوا ئے پریشانیوں اور
مشکلات و آزمائشوں کے کچھ نہیں آئے گا اور وزیراعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر کے
اخراجات یوں ہی دن دگنی رات چگنی رفتار سے بڑھتے رہیں گے۔
تا ہم ایک افسوس نا ک امر یہ بھی ہے کہ ایک طرف موجودہ بجٹ میں مُلک کے صرف
ایک وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں یومیہ 25لاکھ کے حساب سے سالانہ
91کروڑ67لاکھ22ہزارروپے اور ایوان ِ صدر کے اخراجات کے لئے یومیہ ساڑھے
12لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں تو وہیں موجودہ اپنے نوعیت کے سب سے زیادہ
انوکھے اور عجوبے بجٹ 2017-2018ء میں اِسی ن لیگ یا نواز شریف کی حکومت نے
کھلم کھلا کھیلوں کے لئے بھی 2ارب روپے مختص کردیئے ہیں توکیا یہ حکومت کی
کتنی بڑی غلطی اور ہٹ دھرمی نہیں ہے کہ موجودہ بجٹ میں مُلک کی107جامعات کے
لئے محض 62.184بلین مختص کرکے حکومت بڑے بڑے دعوے بھی کررہی ہے کہ نواز
حکومت نے تعلیم کو بین الاقوامی سطح کے معیار پر لے جا نے کا تہیہ کررکھا
ہے،یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا یہ تہیہ کررکھا کہ موجودہ بجٹ میں
سرکاری جامعات کے غیرترقیاتی اخراجات میں 10فیصداضافہ بھی نہیں کیاگیانہ
صرف یہ بلکہ موجودہ بجٹ میں حکومت نے مُلک کی 107جامعات کے لئے جتنی
حقیررقم مختص کی ہے تو جنابِ اعلیٰ ، اِس رقم سے تو اساتذہ ، اسٹاف کی
نتخواہوں اور پنشنرز کی ماہانہ ادائیگیوں کی رقم کے قال پڑ جا ئے گااور بہت
سے دیگر مسائل پیدا ہو جا ئیں گے۔
جبکہ ہونا تو یہ چا ہئے تھاکہ حکومت نے موجودہ بجٹ میں وزیراعظم ہاؤس ،
ایوان صدر کے اللے تللے اورکھیلوں کے لئے جتنی رقوم مختص کی ہیں یہ ساری
رقوم مُلک میں صحت و تعلیم کے لئے مختص کردی جا تیں تو آئندہ سال صحت و
تعلیم کا معیار سالِ گزشتہ سے پیوستہ کچھ تو بہتر ہوجاتا، مگر حکومت کو اِس
سے کوئی غرض اور مطلب نہیں کہ قوموں کی ترقی اور خوشحالی کی راہیں تعلیم
اور صحت مند معاشرے سے کھولتی ہیں اور آج بھی دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ
دنیامیں جن اقوام میں تعلیم اور صحت کے بہتر مواقع میسر آئے اور حکمرانوں
اور حکومتوں نے تعلیم اور صحت کے میدان میں خصوصی توجہ دی وہی اقوام ترقی
اور خوشحالی کی منازل طے کرتے ہوئے آگے بڑھیں جب کہ اِس کے برعکس جن اقوام
میں تعلیم اور صحت کا فقدان رہا اور اُن اقوام کے حکمران اور حکومتیں ہماری
موجودہ حکومت اور ہمارے حال کے عیاش پسند حکمرانوں کی طرح قومی خزا نے سے
اللے تللے کرتے رہے ہماری طرح دنیا کی وہ قومیں بھی ہمیشہ پستی اور گمنامی
میں رہیں آج ن لیگ یا نواز شریف کی موجودہ حکومت جو لہک لہک کر یہ دعوے
کرتے نہیں تھک رہی ہے کہ اِس نے مُلکی تاریخ کا عظیم تر (مگر درحقیقت
انوکھااور عجوبہ )بجٹ پیش کیاہے تو درحقیقت ایسا ہے کہ اِس بجٹ میں مُلک کے
98فیصد غریب اور تنخواہ دار طبقے کومہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبانے
کا سامان کرکے موجودہ بجٹ میں اِس طبقے کو اِس کے بنیادی حقوق سے محروم
رکھاگیاہے اور مُلک کے2فیصدامیر اور مراعات یافتہ طبقے کے لئے نوازشوں کی
بارش کی گئی ہے، پاکستان ن لیگ کی حکومت کے وزیراعظم نوازشریف کے دورِ
حکومت میں اسحاق ڈار نے امیراور مراعات یا فتہ طبقے کا بجٹ 2017-2018ء پیش
کیا ہے جو صرف اور صرف امیروں اور حکمرانوں ، سیاستدانوں کا ہی بجٹ ہے
غریبوں کا بجٹ ہوتا تو اِس میں غریبوں اور تنخواہ دار طبقے کو زیادہ سے
زیادہ مراعات دی جاتیں،چونکہ موجودہ بجٹ غریبوں اور تنخواہ دار طبقے کانہیں
ہے امیروں اور مراعات یافتہ طبقے کا بجٹ ہے تو اِس لئے اختتامِ کالم
حکمرانوں کے موجودہ بجٹ سے متعلق شاعرفرماتاہے کہ :۔
ہمارے مالیاتی شہسواروں کا بجٹ آیا وطن کے غمگساروں رازداروں کا بجٹ آیا
مبارک ہو عزیزانِ وطن تم کو مبارک ہو گرانی کی خبر لے کر خساروں کا بجٹ آیا
یہ حکومت کہہ رہی ہے اربوں کا یہ بجٹ ہے غریبوں اور آشفتہ سروں کے واسطے
لیکن آثارو قرآئن سے پتہ چلتا ہے یہ ہے سیاسی رہبروں یا ورکروں کے واسطے
لبوں پر ہے فقط ذکر ِ معیشت کوئی تدبیر کی صُورت نہیں ہے
زباں پر ہیں بڑے غربت کے چرچے خیالِ کشتہِء غربت نہیں ہے
|