مرحبا ماہ صیام

رمضان المبارک شروع ہو چکا ہے۔شدید گرمی ہے۔ بھوک اور پیاس کااحساس ہوگا۔ہونا بھی چاہیئے۔ ورنہ بھوکوں ، پیاسوں کی طرف کون متوجہ ہو گا۔ یہ تربیتی کورس ہے ۔اﷲ پاک جسے توفیق دے، اس سے وہ فیض یاب گا۔ رمضان المبارک اور روزہ کی فضیلت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔اس پر دینی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور سائنسی نقطۂ نگاہ سے بحث جاری رہتی ہے۔ٹی وی چینلز پر بھی رمضان المبارک کی خصوصی نشریات کا آغاز ہو چکا ہے ۔سحری و افطار کے وقت خصوصی پروگرام نشرہو رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے اعمال سے زیادہ خلوص نیت جانتے ہیں۔ہمارے نفس کی تربیت، بھوک و پیاس کے احساس سے نہیں، روح اور جسم کی تربیت سے ہو گی۔ نیکی کمانے اور مال بنانے والے بھی متحرک ہو جاتے ہیں۔یہاں چیزیں سستی ہونے کے بجائے مہنگی بلکہ نایاب ہو جاتی ہیں۔یوٹیلٹی سٹورز نے بھی تین ماہ قبل اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیں۔ اب ان میں رمضان پیکیج کی آڑ میں نمائشی کمی کی گئی ہے۔ یہ عوام کو بے وقوف بنانے اور لوٹنے کے حربے ہیں۔ اشیاء کی مصنوعی قلت سے روزہ داروں کو پریشان کیا جاتا ہے۔ نیکی کے احسن جزا اور برائی کی سزا بہرحال سب کو ملے گی۔ ماہ مقدس کے آتے ہی مسلمانوں میں ایک منفرد جوش و جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ یہ جذبہ شعور کو بیدار ہی نہیں پاکیزہ بھی کرتا ہے۔

روزہ صرف بھوک و پیاس کا نام نہیں بلکہ بھوکوں،پیاسوں کی مشکل کا احساس کرنے اور ان سے خیرات و صدقات اور فطرانہ کی صورت میں تعاون کرنے کا نام ہے۔مگر ان کی عزت نفس بھی قائم رہے۔بھوک اور پیاس کیا ہوتی ہے۔ یہ وہی جانتے ہیں جو اس سے گزرتے ہیں۔روزہ دار بلا شبہ روزہسے تزکیۂ نفس کا درس حاصل کرتا ہے ۔ یعنی نفس کو تمام برائیوں سے پاک و صاف کرنے کا سبق و مشق۔ روزہ صرف شکم کو تالا لگانے کا نام نہیں بلکہ یہ حواس خمسہ سمیت دل و دماغ کو پاکیزگی عطاکرتا ہے۔ آنکھ برائی کو دیکھے، کان سے لوگوں کی غیبت سنی جائے، رزق حرام یعنی جھوٹ، دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری ، بد دیانتی، خیانت سے کمائے ہوئے مال سے افطاری و سحری ہو ، تو اس روزہ کا کیا فائدہ۔ ہم کھیت، کارخانے، دفاترمیں کام چوری اور ملازمت کا حق ادا نہ کریں تو روزہ ہمارے کس کام آئے گا۔ کوئی بد کلامی کرے، تو کہہ سکتے ہیں، ’’میں روزے سے ہوں‘‘۔تا کہ ایک ماہ کی تربیت و ٹریننگ سے ایک سال تربیت کے اثرات سے گزر سکے۔ روزہ انسان کواپنے نفس پر قا بو پانے ،غلطیوں سے بچنے اور نیک اور اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد تعمیر سیرت وانسانیت ہے۔ انسان حرص و لالچ ، خواہشات سے بچ جاتا ہے۔ روح کو بھی تربیت ملتی ہے۔ ذہنی و جسمانی نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ نبیﷺ کا فرمان ہے ’’جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ اور بد عملی سے نہیں رکتا، اﷲ تعالیٰ کو اس کی بھوک اور پیاس کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’روزہ شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے ایک ڈھال ہے ، روزہ دار کو چاہئے وہ بد زبانی اور جہالت سے اجتناب کرے اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا گالیاں دے تو اسے دو مر تبہ کہے ، میں روزہ دار ہوں۔‘‘روزہ کے باعث چادر تان کر سو جانا بھی روزہ کے فلسفہ کے منافی ہے۔ روزہ دارمعمولات زندگی ترک نہیں کرتا۔ بلکہ ان کو درست کرتاہے۔ رہبانیت اسلام میں جائز نہیں۔ کانٹے دار راستوں میں چلیں تو ایسے چلیں کہ کانٹے آپ کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔برائی سے خود کو بچانے کی یہ بہترین مثال ہے۔ یہی تقویٰ ہے۔ بھوک و پیاس اور موسمی سختی کو نظر انداز کرتے ہوئے چند سو مسلمانوں نے روزے کی حالت میں بد رکے میدان میں حضرت محمد ﷺکی زیر قیادت ہزاروں کفار کو شکست دی ۔ روزہ نے مسلمانوں کو صبر و استقامت، ایثار و قربانی، اتحاد و یگانگت، باہمی اخوت و محبت ، مساوات، ضرورت مندوں سے حسن سلوک ، انفاق، موثر پلاننگ کی تربیت دی۔ ایک ماہ میں گیارہ ماہ کی تربیت۔ آپ اپنے دسترخوان پرامیروں کے بجائے غرباء اور مساکین اور محتاجوں کو افطاری کرائیں تو اﷲ آپ کے مال میں برکت دے گا۔ آپ کا مال پاک ہو گا۔ یاد رہے اس سے کالا دھن سفید نہیں ہو سکتا۔غلط طریقوں سے کمایاہوا مال غریبوں پر خرچ کرنے سے پاک نہیں ہوتاہے نہ اﷲ اسے قبول کرتے ہیں۔ برکت اور پاکیزگی صرف حلال مال کے لئے ہے۔

روزہ صرف شکم کا نہیں بلکہ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں ، دل ، دماغ غرض پوری جان کا ہے۔ انسان اپنے اعضاء کی بغاوت اور سرکشی کو کنٹرول کرتا ہے۔ وہ ایک گھر، خاندان، ادارے یا علاقے کو کنٹرول کرنے کی تربیت حاصل کرتا ہے۔ایسے انسان سے کسی مشن یا فریضہ کی ادائیگی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھنے کی تاکید ہے۔ یعنی خود احتسابی۔ لا تعداد لوگوں کی زندگی ہی بدل جاتی ہے۔ روزے کی قبولیت کا اندازہ بھی اسی سے ہوتا ہے کہ رمضان اور اس کے بعد میں ہم میں کیا تبدیلی رونما ہوئی۔اگر مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اگرہم نیکی کرنے لگے ہیں اور برائی ترک کر دی ہے۔یا اگر ہم بھلائی کو بھلائی اور برائی کو برائی قرار دینے کے اہل بن چکے ہیں۔ تو سمجھ لیں کہ ہم رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب ہو گئے، ورنہ بھوک و پیاس کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اﷲ ہمارے اس تربیتی پروگرام ، ہماری بھوک، پیاس، افطاری، سحری، تراویح اور جملہ عبادات کو قبول فرمائے۔ہمیں عبادات اور معاملات کو درست کرنے کی توفیق دے۔ سب قارئین کو رمضان مبارک ہو۔ کشمیر کی آزادی اور پاکستان کی سلامتی کے لئے دعا کیجئے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485112 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More