سعودی عرب کا دفاع حقیقت کیا ہے

 امریکی صدر ٹرمپ کے2۔روزہ دورۂ ریاض اور اس سے پہلے اسلامی عسکری اتحاد کے قیام کے وقت عالمی سطح پر یہ محسوس کیاگیا کہ سعودی عرب اپنے آپ کو خطرات میں گھرا ہوا سمجھتا ہے۔انہی خطرات سے نمٹنے کے لئے وہ دہائیوں پہلے سے امریکی دفاعی چھتری کے نیچے آگیا تھا۔اور امریکہ سے جدید ترین ہتھیاروں کی خرید بھی بڑے پیمانے پرجاری رکھے ہوئے ہے۔تقریباً40۔ممالک پر مشتمل اسلامی عسکری اتحاد کی تشکیل کے پیچھے بھی یہی محرک ہے۔آج ہم مختصر سا جائزہ میں یہ دیکھیں گے کہ سعودی عرب کی اپنی دفاعی صلاحیت کی کیا صورت حال ہے۔ساحلی اور بری سرحدیں کتنی پھیلی ہوئی ہیں۔اور اس کے دفاع کے لئے ہاؤس آف سعود نے ملکی سطح پر کیاکچھ کیا ہے۔اسے مزید کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔سعودی عرب 22۔لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبہ رکھنے والا ایک بڑا ملک ہے۔اسکی بری سرحد کی لمبائی4415۔کلومیٹر اور ساحلی سرحد کی لمبائی2640۔کلومیٹر ہے۔اس کی ساحلی سرحدوں سے بحیرہ احمر اور خلیج فارس کے پانی ٹکراتے ہیں۔اور بری سرحدیں اردن،عراق،کویت،عمان،متحدہ عرب امارات ،قطر اور یمن سے ملتی ہیں۔سعودی عرب نے اب تک اپنے ساحلوں اور بری سرحدوں کے دفاع کے لئے کافی انتظامات کئے ہیں۔پہلی خلیجی جنگ جو1991ء میں ہوئی تھی۔تب سعودی بری فوج عراق باڈر پر موجود رہی اور کاروائیوں میں اتحادی فوجوں کے ساتھ ملکر حصہ لیا۔اور سعودی ائیر فورس نے7۔ہزاراڑانیں بھریں۔سعودی افواج کو جدید طرز کی جنگ لڑنے کا یہ پہلا تجربہ ہو ا تھا۔تب امریکہ نے اس جنگ کا نام آپریشن ڈیزرٹ سٹارم رکھاتھا۔دوسری خلیجی جنگ(2003)کے وقت بھی سعودی افواج شمالی سرحدوں پر موجود رہیں۔ان دونوں جنگوں کے وقت سعودی عرب کی خلیج فارس کے راستے تیل کی سپلائی کی نگرانی میں سعودی عرب کی افواج کے ساتھ ساتھ امریکہ نے بڑے پیمانے پر ساتھ دیا۔سعودی افواج کی ٹریننگ امریکیوں کی طرف سے اس لمبے عرصہ میں جاری رہی۔90ء۔کی دہائی کے شروع سے لیکر2003ء تک امریکہ کے10۔ہزار سپاہی سعودیہ میں موجود رہے۔اسامہ بن لادن ان امریکی سپاہیوں کی موجودگی کے بڑے خلاف تھے۔9/11۔کا واقعہ انہی افواج کی سعودیہ میں موجودگی کا شاخسانہ سمجھا جاتا ہے۔سعودیوں کا انحصار شروع سے ہی امریکی اور مغربی اسلحہ پر رہا ہے۔اربوں ڈالر کا جدید ترین اسلحہ امریکہ۔برطانیہ اور فرانس سے خریدا جاتا رہا ہے۔اگرچہ اس تمام اسلحہ کو استعمال کرنے کا موقع کم ہی آیا ہے۔سعودی عرب ابھی تک برائے نام اسلحہ اپنے ملک میں تیار کرتا ہے۔چار کمپنیوں کے نام معروف ہیں جو ابتدائی نوعیت کا اسلحہ تیارکرتی ہیں۔آرمرڈ گاڑیاں جو سعودیہ میں استعمال ہوتی ہیں مقامی طورپر تیار ہوتی ہیں۔باقی تمام جدید اسلحہ جات جوبری،بحری اور ہوائی افواج استعمال کرتی ہیں۔وہ باہرسے خریدا جاتا ہے۔اسلحہ جات خریدنے کے معاہدے جاری رہتے ہیں۔2010ء کے بعد اب2017ء میں بھی110۔ارب ڈالر کا سودا ہوا ہے۔یہ110۔ارب ڈالر کے اسلحہ جات آئندہ10سال تک خریدے جاتے رہیں گے۔یوں سعودیہ میں امریکہ کے جدید ترین جہاز۔ٹینک اور دوسری ضروری اشیاء آتی رہیں گی۔ایران کو بھی پیغام ملتارہے گا جیسا کہ آپ جانتے بھی ہیں بڑا رقبہ ہونے کے باوجود سعودیہ کی اپنی آبادی صرف3کروڑ ہے۔اور اس میں سے تقریباً6۔لاکھ متحرک افراد دفاع کے لئے دستیاب ہوتے ہیں۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق باقاعدہ بری فوج3۔لاکھ،نیشنل گارڈ 2لاکھ اور دیگر مسلح ادارے ملکر بری افرادی قوت کو6۔لاکھ تک پہنچا دیتے ہیں۔نیوی میں افرادی قوت60ہزار اور ائیر فورس میں40ہزار افراد شامل ہیں۔ان تمام سے علیحدہ سعودی سٹریٹجک میزائل فورس ہے۔سعودیہ کے پاس یہ ایک Uniqueفورس ہے۔نیشنل گارڈ بھی جدید ترین ہتھیار وں سے لیس ہے۔یہ پرانی قبائلی فورسز سے ترتیب دی گئی ہے۔رائل گارڈز کاکام ہاؤس آف سعود کی حفاظت ہے۔سعودی عرب اپنی افواج پرG.D.Pکا10۔فیصد اور اپنے سالانہ بجٹ کا25 %خرچ کرتا ہے۔سعودیہ میں فی سپاہی خرچ دنیا میں بہت زیادہ شمار ہوتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق سالانہ88۔ارب ڈالر کا دفاعی بجٹ ہے۔2۔ایجنسیاںMISاورG.I.Dوہی کام کرتی ہیں جو اطلاعاتی ایجنسیوں کے ذمہ ہوتا ہے۔جہاں تک اسلحہ کی تعداد کا تعلق ہے۔اس سے سعودی سٹور بھرے پڑے ہیں۔ان میں اضافہ تو ہوتارہتا ہے۔لیکن استعمال کم ہوتے ہیں۔سعودی ہوائی فورس کے پاس تقریباً800کے قریب طیارے ہیں۔ان میں سے400سے کچھ زائد فائٹر طیارے ہیں۔باقی ٹرینرزاور ٹرانسپورٹ کا کام دینے والے ہیں۔نیوی کے پاس نئے اور پرانے55۔جہاز ہیں۔کئی بحری جہاز جدید ترین ہیں۔ٹینکوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ہروقت نیا اسلحہ آتارہتا ہے لہذا اوپر بتائی گئی تعداد حتمی نہیں رہتی۔یہ تمام ہتھیار انتہائی مہنگے اور جدید ترین ہیں۔پڑوسی ملکوں سے سعودیہ اس شعبہ میں سب سے آگے ہے۔آئیے دیکھیں سعودیہ کو کن اطراف سے خطرات ہیں۔اگر آپ نقشہ دیکھیں گے تو شام ،شمال میں ہے۔جہاں داعش نے عراق اور شام کے ایک بڑے رقبہ پر قبضہ کیا ہوا ہے۔سب سے زیادہ چیلنج سعودیہ کو اسی نام نہاد خلافت سے درپیش ہے۔یہ تنظیم اب تک سعودیہ میں15۔بڑے دھماکے کراچکی ہے۔بشار الاسد اپنی شیعہ فورس کے ساتھ یہاں کافی مستحکم ہے۔اسے ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے۔اس سے نیچے عراق کا ایسا علاقہ ہے جہاں سعودی مسلک کے مخالف شیعہ حضرات کی حکومت بن چکی ہے۔اور اس کے ساتھ ہی ایران شروع ہوجاتا ہے۔ایران سے تعلقات بہت ہی کم عرصہ کے لئے نارمل رہے ہیں۔زیادہ تر مخالفانہ بیان بازی ہی ہوتی رہتی ہے۔ایران خلیج فارس میں اپنی موجودگی کافی بڑے پیمانے پر رکھتا ہے۔اور یہیں سے وہ یمن کے زیدیوں کی حمایت کرتا اور انہیں اسلحہ پہنچاتا ہے۔یمن میں ابتدائی لڑائی2009ء سے شروع ہے۔2015ء سے حالات زیاد ہ خراب ہوئے۔سعودی عرب اپنی آرٹلری اور فضائیہ سے یمنی بغاوت دبانے کی کوشش کررہا ہے۔ابھی تک کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔اسلامی عسکری اتحاد (عرب نیٹو) کی تشکیل کے عقب میں یہی محرکات ہیں۔یمن سے سعودی عرب والے بہت زیادہ خائف ہیں۔یمن کی سرحد 1458کلومیٹر سعودیہ سے متصل ہے۔ریاض کا نفرنس میں بھی سعودی عرب نے یہی پیغام دیا ہے کہ ہم سعودی عرب والے اکیلے نہیں ہیں۔اسلامی عسکری اتحاد کے ساتھ ساتھ ہمیں امریکہ جیسی سپر پاور کی مدد بھی حاصل ہے۔اس کانفرنس کے بعد ایران کے ایک بیان سے یہ اثر ظاہر بھی ہوتا ہے کہ سعودی عرب کی دفاعی خامیوں میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں دیہائیوں سے صرف ایک خاندان کی حکومت ہے۔عوام کے ووٹوں سے منتخب کوئی طاقتور ادارہ نہ ہے۔مشوروں کے لئے صوبوں سے کچھ لوگوں کو صرف Selectکیاجاتا ہے۔پوری قوم کی اجتماعی دانش کے اظہار کے لئے کوئی پارلیمنٹ نہیں ہے۔سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت بہت بڑھ سکتی ہے۔اگر یہ اپنی اس خامی کو دورکرلے۔بادشاہت کے اختیار کم کرکے منتخب شوریٰ کے اختیارات بڑھائے جائیں۔عربوں میں اس کام سے ہمت و حوصلہ پیدا ہوگا۔جب قومی اور دفاعی قسم کے فیصلوں میں عوام براہ راست شریک ہونگے تو قوم لڑنے مرنے کے لئے تیار ہوجائے گی۔آئین میں بھی جمہوری شقیں ڈالی جائیں۔اب اکیسویں صدی ہے۔چند عرب ممالک کے علاوہ پورا کرۂ ارض عوامی حکومتوں کے تحت کام کرتا نظر آتا ہے۔سعودی نوجوان بھی ایسی ہی خواہشات رکھتے ہیں۔اگر سعودیہ یہ کام کرلے تو اسے نہ امریکی افواج کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی اسلامی عسکری اتحاد کی۔سعودی عرب سے باہر جو متصل حامی ریاستیں ہیں۔وہاں بھی عوامی منتخب شورائیں بنائی جائیں۔اس تبدیلی سے سعودی عرب کی سرحدوں کے باہر ایک طاقتور شیلڈ بن جائے گی۔فائدہ سعودیہ کو ہی ہوگا۔گلف تعاون کونسل میں ایسی تجویز پر غور ہونا ضروری ہے۔سعودی عرب کے تعلیمی اداروں میں اونچے درجے کی سائنس پڑھانے کے انتظامات کئے جائیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی یونیورسٹیاں چند ایک پہلے موجود ہیں۔انکا زیادہ ہونا ضروری ہے۔یہاں انجینئرز اور ماہرین پیدا ہوں اور مختلف طرح کی اشیاء اور اسلحہ جات اپنے ملک میں بنانے کے پلان بنائے جائیں۔تیل سے حاصل شدہ دولت کو اسلحہ کی خرید کے لئے واپس امریکی کمپنیوں کو اداکرنا بیوقوفی ہی کہلائے گی۔سعودیہ میں اب بھی دفاعی صلاحیت کافی ہے۔اوپر والی دونوں تجاویز پر عمل کرنے سے اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔سعودی عرب کا صحیح اور مکمل دفاع تب ہوگا جب اپنی افواج،اپنے ٹریننگ کے ادارے اور ہر قسم کا اسلحہ بھی اپنا ہوگا۔عرب اور غیر عرب مسلم اقوام غیروں پر انحصار ختم کریں۔

Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55073 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.