تحریر : عبدالحنّان چوھدری
ایک مچھلی سمندر سے لاکر کنوئیں میں چھوڑی گئی کنوئیں میں مینڈکوں کی اجارہ
داری تھی جب انہوں نے ایک نئی مخلوق دیکھی تو استحقاق مجروح ہونے کا اندیشہ
ہوا گروپ لیڈر نے کور کمیٹی کا اجلاس بلایا سیاہ چشمہ پہنے گروپ لیڈر نے
وسیع تر قومی مفاد میں قوم کے سامنے کنوئیں میں نئی مخلوق کی آمد کا ذکر
کیا متفقہ طور پر قوم نے گروپ لیڈر کو اعتماد کا ووٹ دیتے ہوئے مطالبہ کیا
کہ ہنگامی بنیادوں پر شفاف تحقیقات کا آغاز کیا جائے اور اس نتیجے تک پہنچا
جائے نو وارد کا شان نزول کیا ہے اور خاندانی پس منظر پر بھی باز پرس کی
جائے مینڈکوں کے گروپ لیڈر نے اجلاس سے فارغ ہوتے ہی مچھلی کے گرد چکر کاٹا
تیوری چڑھا کر شان بے نیازی سے پوچھا کون ہو تم۔ مچھلی نے مودبانہ لہجے میں
جواب دیا۔ مچھلی،،دوسرا سوال تھا کہاں سے آئی ہو۔ جواب آیا، سمندر مینڈک نے
کہا کیسا سمندر۔ مچھلی کا دل سمندر کی آزاد کھلی فضاؤں سے دوری برادری سے
جدائی پر بھر آیا۔ گویا مچھلی نے سمندر کی شان و توصیف میں آسمان سے قلابے
ملانے شروع کئے تو مینڈک کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ مینڈک نے کہا سب چھوڑ یہ بتا
سمندر کتنا بڑا ہے مچھلی نے کہا بہت بڑا مینڈک نے مچھلی کے گرد چکر کاٹا
اور پوچھا ہاں بتا اتنا بڑا۔ مچھلی نے نفی میں سرہلایا۔ تو مینڈک نے ایک
اور بڑا چکر کاٹا مگر مچھلی نے پھر ناں میں سرہلادیا۔ اب کی بار مینڈک نے
مچھلی کو زچ کرنے کیلئے آدھے کنوئیں کو چکر کاٹا مگر مچھلی کا جواب نہیں
تھا۔ اب مینڈک سیخ پا ہوا اور پورے کنوئیں کا چکر کاٹ ڈالا مچھلی مینڈک کی
کم عقلی اور احمقانہ حرکتوں پر خوب لطف اندوز ہورہی تھی مینڈک نے چکر پورا
کرتے ہی ایک بارپھر پوچھا ہاں بتا اس کنوئیں سے بھی بڑا تھا سمندر۔ مچھلی
نے کہا مینڈک میاں قصور تیرا یا اس کنوئیں کا نہیں۔ مسئلہ تیری سوچ کا ہے
تیری سوچ ہی محدود اور چھوٹی ہے اس لیئے میں تجھے سمندر کا حدود اربع
لمبائی چوڑائی سمجھا نے سے قاصر ہوں کیونکہ چھوٹی سوچ والے کو بڑی بات نہیں
سمجھائی جاسکتی۔ سعودیہ عربیہ میں 60کے قریب سربراہان مملکت کے اجلاس اور
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارت فرمانے کے بعد ایک نئے طوفان بدتمیزی کا
آغاز ہوا بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے دانشوران سوشل میڈیا اور کچھ
نابالغ اپوزیشن رہنماوں نے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف اور حکومتی
خارجہ پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ توجیہہ یہ پیش کی گئی وزیراعظم
پاکستان میاں نوازشریف کو تقریر کیلئے وقت کا نہ ملنا اور سعودی حکومت کی
جانب سے وزیراعظم کے شایان شان پروٹوکول نہیں دیاگیا۔ خارجہ امور اور دنیا
کے بدلتے ہوئے منظرنامے سے نابلد لوگ وزیراعظم کی تضحیک کے ساتھ نادانستہ
پاکستان کا بھی بین الاقوامی سطح پر امیج خراب کرتے ہیں۔ اول تو عرض یہ ہے
کہ 60 میں سے صرف 4یا 5 ممالک نے خطاب کیا دوسری اور اہم بات ہماری خارجہ
پالیسی کو ناکام کہہ کر تمسخر بنانے والوں کیلئے عرض ہے کہ الحمدﷲ وزیراعظم
نوازشریف نے دنیا کو ایک واضع اور دوٹوک پیغام دیا کہ ہم کسی پراکسی وار کا
حصہ نہیں بنیں گے۔ کرائے کے مجاہد بننے کا وقت گزر گیا۔ پرائی جنگوں میں
کود کر آج تک جو نقصان پاکستان اٹھا آرہا ہے وہ سب کے سامنے ہے اگر سعودیہ
کو ایران کیساتھ کوئی مسئلہ ہے تو سعودیہ خود نمٹے پاکستان خدائی خدمتگار
یا ساری امت مسلمہ کا ٹھیکیدار نہیں بنے گا سعودیہ یا خدام الحرمین شریفین
سے گلہ کیا کرنا ان کی تو تاریخ ہی امریکہ نوازی سے بھری ہوئی ہے۔ خادم
الحرمین شریفین کے دعویدار آج تک عراق شام لبنان فلسطین افغانستان برما
بوسینیا کشمیر سمیت دنیا بھر میں مسلمان کٹ رہا ہے ظلم کی چکی میں پس رہا
ہے سب دیکھتے ہوئے بھی ہمیشہ یہ خدام ذاتی مفادات کی جنگ لڑتے رہے۔
پاکستانی عوام کو اگر حکومت پر تنقید سے فرصت مل گئی ہو تو ذرا یہ مذہبی
اکابرین جو دفاع خدام الحرمین شریفین کا نعرہ لگاتے ہیں ان خدام سے پوچھیں
کہ ٹرمپ کے سامنے آپ نے افغانستان پر ناجائز قبضہ کا معاملہ اٹھایا۔ کیا
عراق پر شب وستم پربات کی یا صرف آپ نے 60ممالک کو بلاکر اسلحے کی ڈیل کرکے
ایران کو پاورشو کروادی۔ ہمارا مسئلہ ایران یا پاکستان نہیں نہ دونوں
حکومتوں کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمارا مسئلہ اپنی کمزور معشیت کو اپنے
پاوں پر کھڑا کرنا ہے جس کیلئے ہمیں ہر قیمت پر جلد سے جلد سی پیک کی تکمیل
ہے وزیراعظم پاکستان کو میں اس دو ٹوک اصولی اور واضع موقف پر سیلوٹ پیش
کرتا ہوں جو انہوں نے دنیا کو باور کروادیا آپ کے اپنیمفادات ہیں تو ہمارے
اپنیمفادات ہیں۔ روس ترکی چائینہ اور سی پیک منصوبے کی وجہ سے وزیراعظم
پاکستان کو تقریر نہیں کرنے دی گئی تو اس میں کوئی ندامت و شرمندگی والی
بات نہیں یہ موقف پورے پاکستان کیلئے قابل فخر ہے اگر ایران مخالف اتحاد کا
حصہ نہ بننے پر وزیراعظم کو لفٹ نہیں کروائی گئی تو میں وزیراعظم کو اس
جاندار فیصلے پر بھی داد دونگا۔ ہمیں حقائق کو تسلیم کرنا چاہیئے سعودیہ و
ایران کے چاہنے والے خدا کیلئے پاکستان کے مسائل کو سمجھیں اور یہ
فرنچائزیں کھولنے کا سلسلہ بند کریں ہمارے اداروں کیلئے بھی یہ غیر ملکی
فرنچائزز بڑا چیلنج ہیں اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے آنیوالی نسلوں
کیلئے پاکستان کو محفوظ پرامن فرقہ واریت مذہبی انتہا پسندی سے پاک بنانا
ہے تو پھر سعودیہ و ایران دونوں کی دکانداریاں بند کرنا ہونگی اگر اسی طرح
ہم نے پاکستان کو بیرونی قوتوں کا اکھاڑہ بنائے رکھا تو ہر آنے والا دن
پاکستان کو غیر مستحکم پسماندہ ریاست کے تشخص کا روپ دھارتا چلا جائیگا اور
جو اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور کچھ جگاڑیئے اپنی سوچ بڑی کریں ملک کا
اور اس قوم کا سوچیں ہم کہاں کھڑے ہیں یہ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے رہی
بات سعودی شہزادوں کی تو اس پہ زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ڈونلڈ ٹرمپ
اپنا 450 ارب ڈالر کا سودا بیچ کر چلتا بنا اور ہماری بھولی بھالی قوم
وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کو اپنیموقف پر ڈٹے رہنے پر شکریہ ادا کرنے
کی بجائے ابھی تک تنقید کے نشتر چلانے میں مصروف عمل ہے سچ کہتے ہیں پاوں
کی موچ اور چھوٹی سوچ آگے نہیں بڑھنے دیتی۔
شکریہ۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|