عمران نے پلٹ کر دیکھا تو بابا
وقاص کے خادمِ خاص خادم حُسین کو اپنی جانب متوجہ پایا ایک لمحے کیلئے
عمران کو لگا تھا جیسے وہ پلٹ آئی ہو کہ جس کی دید کیلئے عمران تڑپ رہا تھا
مگر یہ تُو بابا کے خدمتگار تھے عمران کی بھیگی آنکھیں چھلک پڑیں تبھی خادم
حُسین نے اپنے ہاتھوں کو جوڑتے ہوئے کہا عمران بابا اِس وقت آپ چلے جاؤ
سائیں بُہت غصے میں ہیں اِتنا غصے میں بابا صاحب کو میں نے کبھی نہیں دیکھا
لیکن میں اِتنا ضرور جانتا ہُوں بابا صاحب آپ سے بھی بے حد پیار کرتے ہیں
اِسلئے آپ پھر کسی وقت آکر بابا صاحب کو منا لینا مجھے اُمید ہے وہ ضرور
مان جائیں گے۔
عمران نے خادم حُسین سے کہا ، نہیں خادم حُسین میں اُس وقت تک نہیں جاؤں
گا جب تک کہ اپنی صفائی پیش نہ کردوں آج اگر میں یہاں سے چلا گیا تو شائد
پھر کبھی نہ آسکوں ،، خادم حُسین کافی دیر تک عمران کو سمجھاتا رھا لیکن
عمران نے تُو جیسے آج قسم کھالی تھی کہ آج ورنہ کبھی نہیں۔
عمران اپنے آنسو پونچھ کر وَہیں مہمان خانے والے حِصے میں بیٹھ کر بابا
صاحب کی آمد کا منتظر رہا یہاں تک کہ عصر کی آذان ہُوگئی لیکن بابا وقاص
اپنے حُجرے سے نہیں نِکلے عمران نے وضو بناکر عصر کی نیت باندھ لی نماز سے
فارغ ہُوکر عمران دُعا مانگتے ہُوئے ہچکیاں باندھ کر رو پڑا دُعا سے فارغ
ہُوکر جُونہی عمران کھڑا ہُونے کے بعد پلٹا تو بابا وقاص کھڑے تھے عمران نے
بابا کی آنکھوں کو بھی نم پایا عمران بابا وقاص کو دیکھتے ہی بابا کی جانب
بَڑھا بابا وقاص نے عمران کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا بڑے بے
وقوف نکلے تُم۔ اب خُود بھی رو رہے ہُو اور مجھے بھی رُلا رہے ہو حالانکہ
میں نے دِل میں تَہیہ کرلیا تھا کہ تُمہاری اِس غلطی کو معاف نہیں کرونگا
لیکن تُمہاری حالت اور تُمہاری بے اِختیاری کے سبب اپنے ہاتھوں کو نہیں روک
پایا ، اچھا اب مجھے بھی نماز پڑھنی ہے تُم کچھ دیر بیٹھو تاکہ میں بھی
نماز ادا کرلوں ، عمران بابا وقاص کے سینے سے الگ ہوکر چٹائی پر بیٹھ گیا
جبکہ بابا وقاص نماز میں مشغول ہوگئے۔
عمران بابا صاحب کو نماز ادا کرتے ہُوئے دیکھنے لگا ، اور سوچنے لگا واقعی
نماز تُو بابا صاحب پڑھا کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ نماز پڑھتے ہوئے
دُنیا و مافیہا سے بیگانہ ہُو جاتے ہیں ایک مرتبہ عمران نے بابا وقاص سے
پُوچھا بھی تھا کہ بابا ایسی نماز ہم سے کیوں نہیں پڑھی جاتی؟ تب بابا نے
ایک شعر پڑھا تھا
جب تک بِکا نہ تھا تُو کوئی پُوچھتا نہ تھا
تُم نے خرید کر مجھے انمُول کردیا
اور جب عمران نے بابا وقاص سے اِسکا مطلب پُوچھا تو بابا وقاص نے کہا تھا
کہ بیٹا کبھی ہماری نماز بھی بڑی بےکیف تھی زندگی میں صرف رِیا کاری ہی
رِیا کاری تھی 20 برس تک ڈھونگ کرتا رہا ڈھونگ کرتے کرتے ڈھنگ آگیا اور پھر
ایک کامل کی نظر پڑگئی تو صرف ایک نظر میں رَنگ کر چلے گئے ، یوں ڈھونگ سے
ڈھنگ اور ڈھنگ سے رنگ آگیا۔ سو ہم بھی رَنگ گئے اور یہ کیف و مستی صرف اِک
نظر کا کمال ہے میاں صرف ایک مرتبہ اُس کامل کی دِید سے وہ کچھ مِل گیا
جسکی میں کبھی تمنا بھی نہیں کر سکتا تھا کبھی تمام عمر مانگنے سے بھی
اسقدر نہیں مِلتا کہ جھولی میں سما جائے اور کبھی بِن مانگے اِتنا مِل جاتا
ہے کہ دامن کی تنگی کا احساس ہُوتا ہے اور جب عمران نے پُوچھا کہ بابا اِس
مقام تک پُہنچنے میں آپ کا کیا کمال ہے تو بابا وقاص نے صرف اِتنا ہی
فرمایا تھا،، صرف ادب،، اِس کے سِوا کچھ بھی نہیں یہ بُزرگوں کا اَدب ہی
تھا جس نے میرا اقبال بھی بُلند کر دیا اور ایک مردِ قلندر کی نگاہِ لطُف
کا امیدوار بنا ڈالا۔
بابا وقاص نماز سے فارغ ہُو کر چارپائی پر جا بیٹھے اور عمران کو بھی اپنے
پاس بُلا لیا کچھ لمحے یونہی خاموشی میں گُزرے پھر بابا وقاص ہی نے خاموشی
کو توڑتے ہوئے استفسار فرمایا ، بیٹا کیوں چُھپ کر بیٹھے تھے اُس کُٹیا
میں؟
سُوچا تھا کہ آستانے میں شائد دِل بھر کر نہ دیکھ سکوں کہ ادب آستاں مانع
رہے گا۔ اِس لئے ایک نظر دِل بھر کر دیکھنا چاہتا تھا عمران نے نگاہیں جھکا
کر جواب دِیا
اب کیا اِرادے ہیں ؟بابا وقاص نے اگلا سوال کیا
بابا غلطیاں بچوں سے ہوجاتی ہیں مجھ سے بھی سرزد ہوئی ہے چاہیں تو مُعاف
فرمادیں چاہے سزا دے لیں لیکن خود سے جُدا نہ فرمائیں آپ چاہیں تُو اُسے
پھر سے بُلا سکتے ہیں اگر آپ نے مجھے موقع عنایت فرما دیا تُو میں مزید
شُکر گُزار ہُوں گا اور اگر اُسے نہیں بُلایا تب بھی کوئی شِکوہ کبھی اپنی
زبان پر نہیں لاؤں گا عمران نے نگاہیں بدستور نیچے رکھتے ہوئے جواب دیا۔
عمران میاں ہمیں معلوم تھا کہ تُمہاری سعادتمندی تُمہیں ہمیشہ ہم سے قریب
رکھے گی بُزرگوں سے ہمیشہ ایک ہی بات سُنی ہے،، با ادب با نصیب اور بے ادب
بد نصیب،، سُو تُمہاری فرنبرداری ہمیں بھی پسند آئی ہے اب چونکہ غلطی تُم
سے سرزد ہُوچکی ہے اِس لئے اِس کی معمولی سی سَزا بھی تُمہی بُھگتو گے
لہٰذا تُمہاری سَزا یہ ہے کہ مزید ایک ہَفتہ تُمہیں انتظار کرنا ہُوگا جبھی
تُمہاری مُراد پُوری ہوگی ، عمران معافی مِلنے پر اگرچہ سرشارِ قلب تھا مگر
پھر بھی ایک نامعلوم سی بے چینی تھی جسکا اِدراک عمران اُس وقت نہیں کر
پارہا تھا۔
گھر پُہنچ کر عمران جان گیا کہ یہ بے چینی اُس مہ جبین کی ناراضگی کی وجہ
سے تھی جِسے منانا ابھی باقی تھا اور ابھی اُسے یہ صبر آزما ہفتہ بھی تُو
گُزارنا تھا لیکن یہ بات بھی اَٹل تھی کہ اُس کی مُلاقات ایک ہفتہ بعد ہی
سہی لیکن لکھی جا چُکی تھی یہی سب کچھ سوچتے ہوئے عمران اپنے بستر پر دراز
ہوگیا رات کسی پہر اُسے احساس ہُوا کہ کوئی اُسکے سینے پر اپنا چہرہ رکھے
سِسک رہا ہے بے اِختیار عمران کی آنکھ کھل گئی لیکن یہ کیا اُسکے بستر پر
کوئی نہیں تھا دوسرے بیڈ پر بَچّے اپنی ماں سے لِپٹے سورہے تھے۔
عمران کے تمام جِسم کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے کسی نِسوانی سسکیوں کی آواز ابھی
تک عمران کے کانوں میں گونج رہی تھی عمران پر خوف کی کیفیت سوار تھی حلق
میں پیاس کی وجہ سے کانٹے سے پڑ گئے تھے پانی کا جَگ سامنے ٹیبل پر پڑا تھا
لیکن اُٹھنے کی ہمت بھی نہیں ہو پارہی تھی تبھی ایک سائے کو دیوار پر
رینگتے دیکھ کر عمران نے چیخنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی ناکام ہی رہی۔
(جاری ہے)
قارئین محترم امید کرتا ہُوں کہ آپکی ناراضگی کافی حد تک کم ہوگئی ہوگی میں
اپنی بھرپور کوشش کرونگا کہ اب یہ تسلسل نہ ٹوٹنے پائے اس کے علاوہ ایک بات
اور کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک ایسی انمول سچی کہانی ہے جسکی قیمت شائد کوئی
عام انسان دے ہی نہیں سکتا ہماری ویب کے علاوہ میں نے اس کہانی کو آج تک
کہیں بھی پوسٹ نہیں کیا اور دُنیا میں صرف آٹھ دس ہی افراد ہُونگے جو اِس
سچّی کہانی کے مُتعلق جانتے ہیں۔
والسلام مع الاکرام آپ سبکی دُعاؤں کا طالِب آپکا بھائی |