حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں۔۔۔

وہ ماہ جنوری کے ابتدائی دنوں کی ایک انتہائی یخ بستہ صبح تھی اور اس دو رویہ پتلی سی سڑک کے اختتام پر موجود چوراہے کے کونے پر گرے رنگ کی ٹویوٹا ایولون سڑک کے ایک کونے میں نصب سرخ رنگ کے اسٹاپ سائن پر چند لمحوں کیلئیے رکی۔ گاڑی کا انڈیکیٹر اسکے دائیں جانب مڑنے کا اشارہ دے رہا تھا اور پھر قدرے توقف کے بعد سامنے اور بائیں جانب سے کسی بھی قسم کی آمدورفت کی غیر موجودگی کا یقین کرنے کے بعد گاڑی نے چوراہے کا موڑ کاٹا اور دائیں جانب کی ایک اور چھوٹی سی دو رویہ سڑک پر آگئی۔ تھوڑا ہی آگے جاکر ایک کھمبے پر لگا "اسکول زون - رفتار 25 میل" کا بورڈ اور اس پر جلتی بجھتی زرد بتی دکھائی دینے لگی۔ گاڑی مقررہ رفتار سے چلتی ہوئی آگے بڑھتی رہی۔ چند ہی لمحوں کے بعد سڑک کے بائیں جانب لگیں آرائشی جھاڑیوں کے قطعات کے اختتام پزیر ہوتے ہی ایک چھوٹا سا سرسبز ٹیلا نمودار ہوا اور اسی ٹیلے کے عین عقب سے ابھرتی ہوئی "میڈلاک ایلیمینٹری اسکول" کی عمارت باآسانی دیکھی جا سکتی تھی۔

گاڑی اس چھوٹے سے ٹیلے کے ساتھ اسکول کے بچوں کے والدین کیلیئے بنائے گئے پارکنگ کے مخصوص نشان زدہ حصے میں داخل ہونے لگی۔ اس مرحلے پر گاڑی کی رفتار محض پانچ میل فی گھنٹہ یا پھر اس سے بھی کم رہی ہوگی۔ گاڑی پارکنگ کیلیئے بنائے گئے ٹریک میں داخل ہوچکی تھی اور اب اسے مکمل طور پر پارک کیئے جانے میں صرف چند قدموں ہی کا فاصلہ باقی تھا کی اچانک نہ جانے کیا ہوا کے چیونٹی کو رفتار سے چلتی ہوئی کار پارکنگ ٹریکس اور ٹیلے کے درمیان موجود فٹ پاتھ پر تیزی کے ساتھ چڑھ دوڑی اور پھر ٹیلے پر مزید تیز رفتار کے ساتھ چڑھنا شروع ہوگئی۔

ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص نے یکدم دھیرے سے چلتی کار کی رفتار کو یوں اچانک بڑھتے دیکھ کر گاڑی کے بریکوں پر زور زور سے پاؤں مارنا شروع کردیا لیکن اسکی تمام تر سعی لاحاصل رہی اور کار کی رفتار مزید بڑھتی ہی جارہی تھی۔

گاڑی کی عقبی نشست پر چائیلڈ سیٹ میں حفاظتی بیلٹ سے جھکڑا پانچ سالہ بچہ اس بدلتی ہوئی صورتحال کی سنگینی کو بھانپ کر گبھرا گیا اور خوف زرہ ہو کر زور زور سے چلانے لگا:

"ڈیڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"، "ڈیڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!"، "ڈیڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!"

ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا شخص جو کہ ابھی تک اس ناگہانی صورتحال ہی کو سمجھنے کی کوشش میں گوں مگوں کی سی کیفیت کا شکار تھا، اب اپنے معصوم بچے کی چیخ و پکار سن کر اس کے اعصاب میں مزید تناؤ پیدا ہوا اور اسکے اوسان خطا ہوگے۔ اسی گھبراہٹ میں اسنے بے اختیار نہ جانے کب گاڑی کا اسٹیرنگ ویل موڑ دیا۔

گاڑی جو ابتک ٹیلے پر تھوڑا سا ہی چڑھ پائی تھی، نے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گول چکر کاٹا، دوبارہ فٹ پاتھ پر آئی، فٹ پاتھ کراس کر کے ایک بار پھر سے پارکنگ لاٹ میں داخل ہوئی اور پہلے پارکنگ ٹریکس پر کھڑی ایک کار پھر اسکے ساتھ کھڑی دوسری گاڑی سے یکےبعد دیگرے ٹکرائی اور پھر مزید تیز رفتاری کے ساتھ پارکنگ لاٹ سے نکلی اور تیزی سے دوڑتی ہوئی سامنے والی دو رویہ سڑک عبور کرتی ہوئی سڑک کے کنارے پر موجود ایک گھر کی حفاظتی باڑ کو توڑتی، آرائیشی جھاڑیوں کو روندتی، گھاس کے لان کو عبور کرتی ہوئی زوردار دھماکے کے ساتھ گھر کی دیوار سے جا ٹکرائی۔

گو کے دیوار سے ٹکرانے کے سبب گاڑی تو ٹھر گئی لیکن گاڑی کا چھے سلینڈر والا طاقتور انجن اب بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ چل رہا تھا اور انجن کی زوردار غراھٹ چاروں طرف گونج رہی تھی۔ ٹکراؤ کی شدت سے پورے ونڈ اسکرین پر دراڑیں پڑ چکیں تھیں اور گاڑی کا بونٹ قدرے ٹیڑھا ہو کر اپنی اصل شکل کھو چکا تھا اور اسمیں پیدا ہونے والی درز سے دھواں برآمد ہو رہا تھا جبکہ اگلی دونوں نشستوں کے سامنے اور اسٹیرنگ ویل پر نصب شدہ حفاظتی غبارہ کھل کر اسٹیرنگ ویل اور ڈرائیور کے درمیان حائل ہوچکا تھا۔ اس ساری ناگہانی آفت سے مکمل طور پر حواس باختہ اور گھبراہٹ کے شکار اس شخص نے مڑ کر عقبی نشستوں کی جانب دیکھا تو اسکا بچہ مکمل خیروعافیت سے نظر آرہا تھا البتہ شدید گھبراہٹ کے باعث اسکے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور مارے خوف کے چہرے کا رنگ زرد ہورہا تھا۔ دونوں کی نظریں چار ہوئیں۔ بچےنے روہانسا ہونے ہوئے قدرے زور سے چلاتے ہوئے کہا:

"اب ہم کیا کرینگے ڈیڈی? ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!"

حالانکہ اس ناگہانی حادثے کے سبب خود اسکے اپنے تمام تر اوسان خطا ہوچکے تھے لیکن اسنے اپنے معصوم بچے کو اسقدر پریشان اور شدید خوف زرہ ہوتے دیکھ کر اسے دلاسہ دینے کے خیال سے پچکارتے ہوئے کہا:

"علی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!فکر کی کوئی بات نہیں، ابھی سب ٹھیک ہو جائیگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!"

اپنے بچے کو دلاسہ دینے کی خاطر، کہنے کو تو اس نے کہ دیا تھا لیکن وہ پہلے ہی گاڑی کے ٹوٹے ہوہے بونٹ میں سے تیزی سے نکلتے ہویے دھوئیں کو دیکھ چکا تھا اور انجن اپنی پوری قوت کے ساتھ چلتے ہوئے زور زور سے غرا ریا تھا لہذا اسے یہ اندیشہ لاحق تھا کہ کہیں گاڑی کے انجن میں دھماکہ نہ ہو جائے۔ اس نے تیزی سے اپنے بکھرے ہوئے اعصاب کو مجتمع کرتے ہوئے ایک سکینڈ کے ہزارویں حصے میں آگے کے لائحہ عمل کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔

اس وقت تک حادثے کے برابر والے گھروں اور اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لئیے آنے والے لوگ وہاں جمع ہونا شروع ہو چکے تھے۔ ڈرائیور نے سب سے پہلے اسٹئیرنگ ویل پر نصب شدہ حفاظتی غبارہ جو کے حادثے کے فوراً بعد ہی کھل کر اس کے چہرے اور سینے کے درمیان حائل ہوچکا تھا اور یہ ہی اسکا اصل مقصد تھا کہ کسی بھی قسم کے حادثے کی صورت میں ڈرائیور کے چہرے اور سینے کی پسلیوں کو ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھا جا سکے، کو ہٹانا شروع کیا۔ حفاظتی غبارے کے ہٹتے ہی اسے گاڑی کی ٹوٹی ہوئی ونڈ اسکرین کے سامنے ایک شخص اپنے دونوں ہاتھوں سےگاڑی کے انجن کی جانب اشارے کرتا دکھائی دیا مگر انجن کے بے پناہ شور کے سبب اسے کچھ بھی سنائی نہ دے رہا تھا لیکن اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ شخص اسے کہنے کی کوشش کر رہا ہو کہ جلدازجلد گاڑی سے باہر نکلنے کی کوشش کرو، کسی بھی لمحے انجن میں دھماکہ ہوسکتا ہے۔۔۔۔!!!

یہ اشارہ پا کر تو اسکے رہے سہے ہوش و حواس بھی جاتے رہے اور دھک دھک کرتا دل مڑید زور و شور کے ساتھ دھڑکنے لگا۔ اسنے ایک بار پھر اپنے تیزی کے ساتھ بکھرتے حواس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی اور اب کی بار تو اسکا سانس جہاں تھا وہیں کا وہیں تھم کر رہ گیا کیونکہ ٹکراؤ کی شدت کے باعث گاڑی کے دروازے جام ہوکر رہ گئے تھے۔ اس نے دو چار بار زور زور سے گاڑی کے دروازے پر لگے لیور کو پوری قوت سے کھینچ کر دروازہ کھولنے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ تو بری طرح سے جام ہو چکا تھا۔

آخر کار کوئی اور راستہ نہ پا کر اسنے دروازے پر زور زور سے لاتیں مارنا شروع کردیا، یہ پریشان کن منظر دیکھ کر اسکا بچہ مزید خوف زدہ ہوگیا اور اسنے زور زور سے رونا شروع کردیا۔ بچے کو روتا ریکھ کر وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اور مزید زور و شور سے لاتے مارنے لگا، اس کی یہ کوشش رنگ لائی اور یک لخت دروازہ کھل گیا۔

دروازے کے کھلتے ہی اسنے اپنے حفاظتی بند کھولےاور وہ نشستوں کو پھلانگتا ہوا عقب میں جا پہنچا، بچے کو حفاظتی بندوں سے آزاد کروایا اور وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے آگے بڑھ کر بچے کو اس سے لیکر گاڑی سے باہر نکالا اور وہ خود بھی فوراً ہی باہر آگیا۔ اسکے باہر آتے ہی اسے اشارہ کرنے والا شخص تیزی سے اس کی جانب آیا اور اس سے مخاطب ہوا:

"گاڑی کا انجن اب بھی چل رہا ہے اور دھواں بھی تیزی سے نکل رہا ہے، جلدی سے گاڑی کے اندر جا کر انجن بند کردو۔"

اب اسے احساس ہوا کے گھبراہٹ اور جلدی میں اسے گاڑی کے انجن کو بند کرنا تو بالکل ہی یاد نہ رہا۔ ایک بار پھر دھک دھک کرتے دل کے ساتھ وہ دوبارہ گاڑی کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوا اور اگنیشن میں لگی چابی کو گھما کر باہر نکال لیا۔ گاڑی کا گھر گھر کرتا اور شور مچاتا انجن ایک جھرجھری لیکر خاموش ہوگیا اور وہ فوراً گاڑی سے باہر نکل آیا۔

باہر آتے ہی اپنے بچے کی متلاشی اسکی نگاھیں ادھر ادھر دہکھتی رہیں اور پھر کسی کے ہاتھوں میں اپنے بچے کو، جو اب بھی خوف اور شدید ٹھنڈ کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا کو بالکل محفوظ دیکھ کر اسکی جان میں جان آئی۔

اس نے فورا آگے بڑھ کر اپنے بچے کو اپنے بازوں میں بھر لیا اور اس سے مخاطب ہوا:

"علی بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! آپ ٹھیک ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!"

بچے نے اثبات میں اپنا سر تو ضرور ہلایا مگر باپ کو تسلی نہ ہوئی اور اس نے بچے کو اچھی طرح سے اوپر سے نیچے تک دیکھا مگر کوئی چوٹ یا غیر معمولی بات نظرنہ آئی تو اسنے بچے کو اپنی گود سے زمین پر اتار کر اسے چند قدم چلنے کیلئیے کہا اور جب بچے نے اسے باآسانی چل کر دیکھایا تو اسے یقین ہو گیا کے بچہ محض گھبراہٹ اور خوف کا شکار ہے۔

اسی اثناء میں سائرن بجاتی اور گول گول گھومتی ہوئی لال نیلی بتیوں والی پولیس کار موقعہ پر آن پہنچی اور اسمیں سے ایک سیاہ فام پولیس افسر برآمد ہوا۔ پولیس افسر کو دیکھ کراسکا دل کچھ اور زور سے دھڑکا اور ایک لمحے کیلئیے حادثے کی سنگینی اور اسکے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا خیال اسے پریشان کرنے لگا لیکن پھر فوراً ہی اسے اس خیال نے تقویت بخشی کے وہ اور اسکا بچہ مکمل خریت سے تھے اور ویسے بھی جو ہونا تھا سو ہوچکا لہٰذا اب آنے والے واقعات کا مقابلہ ہمت اور حوصلہ مندی سے کرنا چاہیے اور اب آگے جو بھی ہوگا، دیکھا جائیگا۔

پولیس افسر نے اسکے قریب آکر اس سےاسکا ڈرائیونگ لائیسنس اور انشورنس کے کاغذات طلب کئیے، جس پر اس نے فوراً ہی مطلوبہ کاغذات اپنے بٹوے سے نکال کر اسکے حوالے کر دئیے اور پھر عرصمندانہ لہجہ میں اس سے مخاطب ہوا:

"آفیسر، اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اپنے بچے کو جو کہ اس حادثے کے سبب ڈرا اور گھبرایا ہوا ہے اور یہاں شدید ٹھنڈ بھی ہورہی ہے، اسکول کے اندر لے جا کر اسے اسکی کلاس میں چھوڑ آؤں۔"

آفیسر کو رضامندی میں سر ہلاتا دیکھ کر اسنے بچے کو اپنے بازوں میں اٹھا لیا اورانتہائی تیز قدموں سے چلتا ہوا اسکول کے عمارت میں داخل ہوگیا۔ اس وقت تک اسکول شروع ہوچکا تھا، اسنے بچے کی استانی کو دیر سے آنے کی وجہ بتاتے ہوئے سارا قصہ سنایا۔ کلاس کے دیگر بچے پہلے پریڈ جو کے جسمانی تربیت کا تھا، کیلئیے پی ٹی ہال میں جا چکے تھے لہٰذا استانی نے اسے وہاں جا کر بچے کو پی ٹی ماسٹر کے حوالے کرنے کو کہا جس پر وہ بچے کو لیکر مطلوبہ جگہ پہنچا اور پی ٹی ماسٹر کو سارا ماجرہ کہ سنایا۔ اس کی بات سن کر وہ بولا کہ چونکہ بچہ اس حادثے کے سبب ڈسٹرب ہوگا لہٰذا وہ اسے ایک طرف بیٹھا کر آرام کا موقعہ دیگا اور پی ٹی کا وقت ختم ہونے پر اسے دوسرے بچوں کے ہمراہ اسکی کلاس میں بھجوادیگا۔

اب وہ اسکول سے باہر جانےکا راستہ تیز قدموں سے طے کرتا ہوا آگے بڑھتا جا رہا تھا کہ عین صدر دروازے کے پاس قائم اسکول اور اپنے دفتر کے ساتھ ہی کھڑے ہوئے پرنسپل صاحب مسٹر ہیمنڈ سے ملاقات ہوگئی اور انہوں نے اس کی خیریت دریافت کرنے کے بعد بتایا کہ انہوں نے ہی 911 پر کال کرکے اس حادثے کی اطلاع دی تھی کیونکہ وہ حادثے کے وقت حسب معمول اسکول کے باہر ہی کھڑے ہوئے تھے۔

پرنسپل صاحب سے بات چیت کرتے ہوئے اچانک اسے یاد آیا کہ وہ اپنا سیل فون تو گھر ہی بھول آیا ہے اور ابھی نہ جانے پولیس کی کاروائی میں کتنا وقت لگ جائے لہٰذا گھر فون کر کے صورتحال سے آگاہ کرنا بہت ضروری تھا۔ اسنے پرنسپل صاحب سے اسکول کا فون استمعال کرنے کی اجازت طلب کی اور پھر مختصر لفظوں میں ساری صورتحال اپی بیگم کو بتاتے ہوئے تاکید کی کہ وہ اسکے باس کو فوراً فون کرکے انہیں حادثے کی اطلاع دیکر یہ بتا دے کہ شاید آج اسے کام پر پہنچنے میں بےحد تاخیر ہوسکتی ہے اور ممکن ہے کہ وہ آج سرے سے پہنچ ہی نہ سکے۔

فون سے فارغ ہوکر جب وہ جائے حادثہ پر پہنچا تو وباں پر اس وقت تک ایک عدد ایمبیولینس، فائر برگیڈ اور ٹوئینگ ٹرک آ چکے تھے ٹوئینگ ٹرک کا ڈرائیور ٹرک سے ایک موٹا سا آھنی رسہ (کیبل) نکال کر اسے گاڑی سےباندھ رہا تھا تاکہ گاڑی جو کہ اس مکان کی دیوار سے لگی ہوئی کھڑی تھی کو ٹوئینگ ٹرک سے نصب آھنی رسے کی مدد سے گھسیٹ کر نکالا جائے اور اسے ٹرک پر چڑھا کر لے جایا جا سکے۔

قریب آنے پر ایمبیولینس میں آئے ہوئے دو پیرامیڈیک اسٹاف میں سے ایک آگے بڑھااور اسنے سوال کیا:

"کیا آپ ٹھیک ہیںؤ"

"جی ہاں میں تو اپنے آپ کو بالکل ٹھیک محسوس کررھا ہوں لیکن میں یہ چاہتا ہوں کے آپ زرا میرے بچے کا معائنہ کرلیں، کہیں اسے کوئی اندرونی چوٹ نہ آئی ہو۔"

یہ سنتے ہی وہ پیرامیڈیک اسکے ساتھ ہولیا اور اسکول کے اندر جا کر پی ٹی ہال میں موجود بچے کا اچھی طرح سے معائنہ کیا اور پھر بولا:

"بظاہر تو کوئی فکر والی بات نظر نہیں آتی لیکن بعد ازاں بچے یا خود آپ کو کسی قسم کا درد محسوس ہو تو فوری طور پر ڈاکڑ سے رجوع کیجیئے گا۔"

ویاں سے نکل کر وہ دوبارہ پولیس افسر کے پاس پہنچا جو کے اب تک ابتدائی کاغذی کاروائی مکمل کرچکا تھا اور اب اسے اسکا بیان قلمبند کرنا تھا، لہذا اسے نے مکمل واقعہ من و عن بیان کردیا اور اسی دوران اسے پہلی بار ان دو گاڑیوں اور انکے مالکان کا خیال آیا جس سے اسکی گاڑی جا ٹکرائی تھی۔

اس نے مڑ کر پارکنگ ایریا میں دیکھا تو حادثے کا شکار وہ دونوں گاڑیاں ابتک وہیں کھڑیں تھیں اور ان کے ساتھ انکے مالکان جنمیں سے ایک سفید فام مرد اوردوسری ایک سفید فام خاتون تھی، بھی کھڑے تھے۔

اس شخص نے پولیس افسر سے دریافت کیا کہ اگر اسکا کام مکمل ہوچکا ہوں تو وہ جا کر ان لوگوں سے کچھ بات چیت کرنا چاہتا ہے۔

پولیس افسر بولا: "مجھے ابھی ان دونوں کے بھی بیانات قلمبند کرنے ہیں، آپ ان سے جو بات کرنا چاہتے ہیں کرلیں اور ہاں یہاں شدید ٹھنڈ ہورہی ہے، اس لیئے آپ ان صاحب سے درخواست کرکے ان کی گاڑی میں بیٹھ جائیں ورنہ آپکو ٹھنڈ بھی لگ سکتی یے، ان سے فارغ ہو کر میں آپ کو پھر بلواتا ہوں۔"

وہ شخص قدرے جھینپی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ پہلے خاتون کی جانب بڑھا جو کہ مسلسل کسی کے ساتھ اپنے سیل فون پر باتیں کرنے میں مصروف تھی۔ اسے اپنے پاس آتے دیکھ کر اسنے اپنے کان سے سیل فون ہٹالیا اور اسکی جانب متوجہ ہوئی۔

"دراصل یہ سارا معاملہ ایک اچانک اور محض اتفاقی حادثہ تھا اور میری گاڑی نہ جانے کیسے ازخود بے قابو ہوگئی جس کے سبب یہ حادثہ پیش آیا جسپر میں آپ سے معذرت خواہ ہوں"

اسکی یہ بات سن کر وہ خاتون ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ صرف اتنا ہی بولی:

“IT OK (کوئی بات نہیں)"

اب وہ دھرکتے دل کے ساتھ دوسری گاڑی کے مالک کے پاس پہنچا جو کے شدید ٹھنڈ کے سبب اپنے گاڑی کے اندر ہی بیٹھا تھا، اسے دیکھ کر گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آگیا۔ اس نے اس سے بھی کم و بیش انہی لفظوں میں معذرت طلب کی اور اسکی خلاف توقع اس شخص کا ردعمل بھی اسی خاتون کے جیسا ہی تھا۔ پھر اسنے نہایت ہی جھجھکتے ہوئے اس پولیس افسر کے کہنے کے عین مطابق اسکی گاڑی میں ٹھنڈ سے بچنے کیلئیے کچھ دیر بیٹھنے کی درخواست کی۔

یہ سنتے ہی اسنے کمال خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً نہ صرف اپنے ساتھ والی نشست کا دروازہ کھول دیا بلکہ اسپر پڑی ہوئے کاغذات اور چند کتابیں بھی اٹھا کر پچھلی نشستوں پر ڈالدی اور اسکے گاڑی میں داخل ہونے ہی ہیٹر مزید تیز کردیااور پھر پولیس افسر کے بلانے پر اسے حیران و پریشان چھوڑ کر اپنا بیان قلمبند کروانے چلا گیا۔

اب وہ اکیلا گاڑی کے ہیٹر والے گرماگرم ماحول میں گم سم بیٹھا ابتک کے سارے واقعات جو کہ اسکی فہم و فراست سے قطعاً بالا تر تھے کا شروع سے جائزہ لینے لگا۔

گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اسکی نظر جب ونڈ اسکرین کے باہر اس فٹ پاتھ پر پڑی، وہ سارا منظر جب اسنے اپنے دماغ کی اسکرین پر دھرانے کو کوشش کی تو اپنی گاڑی کے پارکنگ میں داخل ہونے اور پھر یک لخت ازخود رفتار پکڑ کر فٹ پاتھ پر سے ہوکر ٹیلے پر چڑھنے اور پھر واپس مڑ کر پارکنگ ایریا میں کھڑی دو گاڑیوں سے ٹکرانے تک کے مناظر تو اسکے حافظے میں ضرور محفوظ تھے البتہ اسکے بعد کب گاڑی پارکنگ ایریا اور مکان کے بیچ حائل اس دو رویہ سڑک کو پار کر گئی اور مکان کی دیوار سے جا ٹکرائی اور وہ سب کچھ اسقدر تیزی سے ہوا کے اسے اپنے دماغ پر شدید زور دینے کے باوجود بھی کوئی منظر یاد نہ آ رہا تھا۔

اچانک اسے ایک اور بات کا بھی احساس ہوا اور اس احساس کے ساتھ ہی وہ سر سے پاؤں تک لرز اٹھا۔ یہ تو وہی فٹ پاتھ تھی جسکے پاس وہ روزانہ اپنی گاڑی پارک کرکے، دیگر بے شمار والدین کی طرح سے اپنے بچے کے ساتھ اسپر چلکر اسے اسکول کے اندر تک چھوڑتا تھا۔ عموماً اس وقت اس فٹ پاتھ پر کافی آمدورفت رھا کرتی ہے، لیکن اللہ کے کرم سے اس وقت جب اس کی گاڑی بے قابو ہوئی، معجزاتی طور پر وہ فٹ پاتھ بالکل خالی پڑی ہوئی تھی جبکہ بصورت دیگر کوئی سنگین حارثہ بھی وقوع پزیر ہوسکتا تھا۔ اسی طرح سے اس سڑک پر بھی پیدل یا گاڑیوں میں اسکول آنے والے بچوں اور انکو چھوڑنے کیلیئے آنے والے والدین کی بڑی تعداد کی آمدورفت رہتی ہے لیکن وہاں پر بھی معجزاتی طور پر اس وقت کوئی نہ تھا، وگرنہ یہ حارثہ کوئی اور شدید سنگین صورتحال بھی اختیار کرسکتا تھا۔

اس خیال کے آتے ہی اس نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے اس سنگین حادثے میں نہ صرف اسکے بچے اور اسے بالکل محفوظ رکھا بلکہ اپنے فصل و کرم سے دوسرے بچوں اور انکے والدین کو بھی کسی خطرناک حادثے کا شکار ہونے سے بچا لیا تھا۔۔

ابھی وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ گاڑی کے مالک نے آکر اسے بتایا کہ ان دونوں کے بیانات مکمل ہوچکے ہیں اور اب پولیس افسر اسے دوبارہ طلب کررھا ہے۔

پولیس افسر نے اسے اپنی گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور جب وہ اندر بیٹھ چکا تو اس سے مخاطب ہوا:

"سب سے پہلے تو میں آپ سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اسقدر شدید ترین حادثے کے بعد بھی جس حوصلہ مندی اور تحمل سے کام لیتے ہوئے آپ نے خود کو یکجا رکھا وہ قابل تعریف یے۔"

پولیس افسر کے منہ سے یہ الفاظ سن کر وہ بے حد حیران ہوا اور اسنے اپنے دل ہی میں سوچا:

"میرا اس وقت سے لیکر ابتک جو حال ہے وہ تو میں ہی جانتا ہوں اور اس حادثے کو اللہ کی مرضی گردانتے ہوئے،تب سے لیکر اب تک اپنی گھبراہٹ اور خوف پر قابو پانے کی کوشیش کررہا ہوں لیکن اصل صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ تو خود اس پولیس افسر اور اسے بھی کہیں زیادہ بڑھکر ان دونوں نے کیا ہے جن کی گاڑیوں کو نقصان پہنچا تھا۔"

ظاہر ہے کہ وہ اپنے منہ سے کیا کہہ سکتا تھا، اپنے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر اسنے محص دھیرے سے اپنا سر ہلادیا۔

لیکن ابھی اسکے مزید حیران ہونے کی باری تھی اور پولیس افسر نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا:

"ان دونوں نے بھی آپ کے روئیے کی تعریف کی ہے اور جب آپ کی گاڑی ان کی گاڑیوں سے ٹکرائی تو اس وقت وہ دونوں اپنی گاڑہوں میں ہی موجود تھے اور انہوں نے اس حادثے کو اچانک وقوع پزیر کسی ممکنہ میکانکی خرابی سے تعبیر کیا ہے اور آپکا قصور نہ ہونے کے باوجود ریاست جارجیا کے قانون کے مطابق مجھے آپکا ٹکٹ (چالان) بنانا ہی پڑیگا، البتہ میں کسی قسم کے سخت چارجز عائد کرنے کے برعکس محض "اپنی لین برقرار نہ رکھ سکنے" کی دفعہ عائد کررہا ہوں جسے آپ باآسانی عدالت میں چیلینج بھی کرسکتے ہیں اور مجھے قوی امید ہے کہ متعلقہ جج اس حادثے کی وجوہات کو دیکھتے ہوئے آپکو بناٴ جرمانہ عاید کیئے ہی یہ ٹکٹ خارج کردیگا."

یہ کہہ کر افسر نے اس سے ٹکٹ پر دستخط کروائے اور متعدد کاپیوں میں سے ایک پیلے رنگ کے کاپی علحیدہ کرکے اسکے حوالے کردی۔

انتہائی حیرت زدہ ہوتے ہوئے اسنے ٹکٹ وصول کیا اور پھر افسر سے مخاطب ہوا:

"میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے میرے ساتھ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسقدر نرمی کا برتاؤ کیا۔ دراصل یہ پہلا موقعہ ہے کہ میں کسی حادثے کا شکار ہوا ہوں لہذا اگر آپ محسوس نہ کریں تو میں آپ سے یہ پوچھناچاھوں گا کہ اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟"

"جی ضرور" افسر نے بڑی خوش اخلاقی کے ساتھ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: "پولیس سے متعلق کاروائی تو مکمل ہوچکی ہے۔ میں نے آپ کے انشورنس کارڈ سے تینوں متاثرہ فریقین کو اپنے اپنے کلیم داخل کروانے کیلیئے مطلوبہ معلومات فراہم کردیں ہیں اور اب آپ فوری طور پر اپنی انشورنس کمپنی سے رابطہ قائم کرکے انہیں حادثہ کی مکمل تفصیلات بہم پہنچا دیں۔ عموماً انشورنس کمپنیاں پولیس رپورٹ بذریعہ فیکس ازخود حاصل کرلیتی ہیں جس کیلیئے انہیں محض پولیس رہورٹ نمبر درکار ہوتا ہے جو کہ آپکو جاری کردہ ٹکٹ پر موجود یے۔ آپ کی گاڑی ٹوئینگ ٹرک پر لادھی جا چکی ہے لہٰذا اب آپ اس ہی کے ہمراہ روانہ ہوجائیں"۔

ٹوئینگ ٹرک کا ڈرائیور جو اسکا انتظار کرہا تھا اسے آتے دیکھ کر اپنی نشست پر سوار ہوگیا اور پھر ٹرک ایک نامعلوم سمت کی طرف روانہ ہوچکاتھا۔ کچھ دیر وہ ہونہی گومگوں کی سی کیفیت میں رہا پھر ڈرائیور سے مخاطب ہوا:

"ہم کہاں جا رہے ہیں؟"

"میں آپ کی گاڑی کو قریبی مرمتی مرکز (کولیژن سینٹر) لے جا کر اتار دوں گا، جہاں وہ لوگ گاڑی کا مکمل معائنہ کرکے اخراجات کا تخمینہ لگائیں گے اور آپ کی انشورنس کمپنی کا نمائیندہ بھی آکر گاڑی کے نقصانات اور اخراجات کے تخمینہ کا جائزہ لیگا اور مرمتی تخمینہ گاڑی کی مارکیٹ ویلیو سے زیادہ ہونے کی صورت میں انشورنس کمپنی گاڑی کو ناقابل مرمت قرار دیکر آپکو اسکی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ادائیگی کر دیگی۔" اس نے اپنی نگاہیں ونڈ اسکرین پر مرکوز رکھتے ہوئے کہا اور پھر اچانک بولا: "آپ نے اپنی انشورنس کمپنی کو حادثہ کی تفصیلات وغیرہ سے آگاہ کیا بھی ہے کہ نہیں؟ اور کیا آپ کی انشورنس میں فری رینٹ اے کار کی سہولت میسر ہے؟"

اس کے ان سوالات پر وہ کچھ سوچتا ہوا بولا:

"دراصل میں اپنا سیل فون گھر ہی پر بھول آیا تھا لہٰذا ابتک تو انکو فون نہیں کرسکا ہوں اور اس وقت باوجود کوشیش کے بھی مجھے یاد نہیں آ رھا ہے کہ آیا میری انشورنس میں رینٹ اے کار کی سہولت موجود بھی ہے کہ نہیں؟"

اسکی پریشان سی شکل دیکھ کر شاید ڈرائیور کو اسپر ترس ہی آگیا. اسنے اس سے انشورنس کمپنی کا نمبر مانگ کر اپنے سیل فون سے خود ہی فون کر ڈالا اور نہ صرف انہیں مرمتی مرکز کا پتہ فراہم کیا بلکہ دیگر تفصلات جاننے کے بعد اسے آگاہ کیا کہ وہ کسی بھی قریبی "رنینٹ اے کار" پر جا کر ایک مخصوص یومیہ کرائے کی گاڑی آئیندہ تیس دنوں تک کیلیئے حاصل کرسکتا ہے اور یہ تمام رقم انشورنس کمپنی ادا کریگی۔

یہ جان کر اسے قدرے اطمینان ہوا کہ کم از کم جب تک اسکی گاڑی مرمت ہوکر نہیں آ جاتی اسے آئیندہ تیس دنوں تک کیلیئے گاڑی کی فکر کرنے کی تو کم از کم چنداں صرورت نہیں۔

اچانک اسے یاد آیا کہ اسکی بیگم گھر پر پریشان ہورہی ہونگی لہٰذا اسے نے ایک با پھر ڈرائیور سے درخواست کرکے اسکے سیل فون سے گھر کا نمبر ملایا اور بات کرنے پر پتہ چلا کہ جب بیگم نے اس کے باس کو فون کر کے تمام صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسے لینے آرہے ہیں تاکہ جائے حادثہ پر جاکر اسے پک کیا جاسکے۔ جسپر اس نے انہیں وھاں جانے کی بجائے ڈرائیور سے مرمتی مرکز کا پتہ لکھواکر انہیں وھاں آنے کی تاکید کی اور ان کے کچھ ہی دیر بعد وہ لوگ بھی وھاں آ پہنچے۔

ڈرائیور نے انتظامیہ سے بات چیت کر کے گاڑی ٹرک سے اتار کر انکے حوالے کردی اور متعلقہ کلرک نے اس سے گاڑی کی چابی وصول کرکے اس سے چند کاغذات پر دستخط کروائے۔

اس کاروائی سے فارغ ہوکر اب وہ اپنے باس کی گاڑی میں سوار ہوکر قریبی رینٹ اے سینٹر کی جانب چل پڑا اور پھر کچھ ہی دیر بعد اسکے باس نے اسے وھاں اتارا اور خود روانہ ہوگیا۔

رینٹ اے کار کے دفتر میں موجود ڈیوٹی کلرک کو اپنا انشورنس کارڈ تھما دیا جس نے انہیں کچھ دیر انتظار گاہ میں بیٹھ کر توقف کرنے کیلیئے کہا اور پھر تھوڑی دیر بعد آکر ان سے بولا:

"آپکی انشورنس کمپنی سےتو ہماری بات ہوچکی ہے، لیکن آپکی انشورنس میں ایک درمیانے درجے کی کار کا کرایہ شامل ہے اور چونکہ اس وقت ہمارے پاس کوئی چھوٹی یا درمیانی کار موجود نہیں اسلیئے اگر آپ کی انشورنس کمپنی کی طرف سے منظور شدہ کرائے میں کچھ رقم مزید اپنی جانب سے شامل کرنے کو تیار ہوجائیں تو ہم اس وقت یہاں موجود چھ نشستوں والی ٹو؛وٹا کی وین (ایس یو وی) آپکو دے سکتے ہیں"

دیکھئیے صاحب،" وہ ڈیوٹی کلرک سے بولا: "ہمیں بڑی گاڑی کی قطعاً صرورت نہیں ہے اگر آپ ہماری انشورنس کمپنی کی مختص کردہ رقم میں ہی کوئی گاڑی فراہم کرسکتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ پھر ہم کسی دوسری جگہ کو آزمائیں۔"

بحرحال تقریباً آدھہ گھنٹہ کی گفت و شنید اور ضروری کاغذی کاروائی کے بعد ڈیوٹی کلرک نے بناٴ کسی اضافی کرائے کے انہیں چھ نشستوں والی ٹویوٹا کی چابی یہ کہتے ہوئے تھما دی:

"یہ گاڑی آئیندہ تیس دنوں تک اپنی انشورنس پر چلاسکتے ہیں اور ہم اسکا بل ازخود انشورنس کمپنی کو روانہ کردینگے البتہ اسکے بعد کی مدت کے کرائے کے ذمہ دار آپ خود ہونگے"۔

کچھ دیر کے بعد وہ اور اسکی بیگم گاڑی میں سوار ایک بار اس خیال کے تحت اسکول کی طرف رواں دواں تھے کہ وہاں جاکربچے کی خیر و عافیت معلوم کرلی جائے تاکہ اس حادثے کے سبب کسی ذہنی پریشانی کی صورت میں اسے اپنے ساتھ ہی گھر واپس لےجایا جاسکے۔

کچھ ہی دیر بعد وہ اس نئی گاڑی کو اسی پارکنگ ایریاٴ میں پارک کررہا تھا جہاں کچھ گھنٹوں قبل وہ حادثے کا شکار ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ گاڑی سے اترا تو اچانک ایک خاتون جسکے ہاتھ میں ایک مائیک جس پر ٹی وی چینل "فاکس فائیو" کا نشان بنا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ایک شخص جسنے اپنے کاندھے پر ایک بڑا سا کیمرہ لادھ رکھا تھا نے اسے گھیر لیا۔

یہ "فاکس نیوز" کے مقامی چینل کی ٹیم تھی اور اس حادثے کی اطلاع پاکر اس کی رپورٹ تیار کرنے آئی تھی۔ مذکورہ خاتون اینکر نے فوراً ہی اپنا سوال داغ دیا۔

"کیا آپ کے علم میں ہے کہ جس نوعیت کے حادثہ کا شکار ہوئے تھے، آج سے چند ماہ قبل اسی میک اور ماڈل کی گاڑی اسی قسم کے حادثے کا شکار ہو چکی ہے، جس میں گاڑی میں سوار چاروں افراد کی جانیں چلی گئی تھی"۔

یہ سن کر تو اسکا سانس اسکے سینے میں اٹکے کا اٹکا ہی رہ گیا اور وہ ابھی اسی کیفیت میں ہی تھا کہ وہ خاتون پھر سے بول پڑی:

"دراصل اس میک اور ماڑل کی گاڈیوں کو کمپنی نے ایکسیلئیٹر سسٹم میں پیدا ہوجانے والے اچانک خلل جو کہ عموماً شدید ٹھنڈ کے باعث ہوجایا کرتا ہے اور گاڑی کی رفتار ازخود بڑھنے لگتی ہے،کی مرمت کیلیئے واپس طلب (ریکال) کیا ہوا ہے، کیا آپکو اس ضمن میں کوئی نوٹس موصول ہوا تھا؟"

"جی نہیں یہ گاڑی دراصل میں نے استعمال شدہ چند سالوں قبل ریاست فلوریڈا میں رہائش کے دوران خریدی تھی اور غالباً کمپنی کے پاس پتہ نہ ہونے کے سبب وہ نوٹس نہ مل سکا ہو"۔ اس نے جواب دیا۔

"لیکن اسکا اعلان تو متعدد بار میڈیا پر بھی ہو چکا ہے" وہ بولی

"بحرحال مجھے اسکی خبر نہ تھی" اس نے جواب دیا۔

"دراصل ہم اس گاڑی میں موجود اس مسلئے سے عوام الناس کو آگاہ کرنے کیلیئے اپنے چینل کیلئیے ایک رپورٹ تیار کررہے ہیں" خاتون نے تفصلات بتاتے ہوئے کہا: "یہ رپورٹ آج شام پانچ بجے والی خبروں میں نشر کی جائے گی لہٰذا آپ اس حوالے سے تمام والدین کے نام پیغام ریکارڈ کروا دیں کہ وہ اپنی گاڑیوں کا مکمل معائنہ ضرور کروالیں۔"

پھر وہ اس سے مخاطب ہو کر بولی:

" ہمیں عینی شاہدوں نے اس حادثے کی جو تفصیلات بیان کی ہیں اس کے مطابق تو یہ حادثہ بے حد خطرناک صورتحال بھی اختیار کرسکتا تھا لیکن آپ، آپکے بچے اور دیگر لوگوں کو خدا نے بالکل محفوظ رکھا۔"

اس نے خاتون اینکر پرسن کے کہنے کے مطابق اپنا پیغام ریکارڈ کروادیا اور پھر وہ دونوں اسکول کی عمارت میں داخل ہوگئے اور اپنے بچے کے کلاس روم میں جا پہنچے۔ جہاں انکا بچہ کچھ دیر قبل ہونے والے حارثے کو یکسر بھلا کر اپنی تعلمی سرگرمیوں میں مشغول و مصروف تھا۔

*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*

یہ سال رواں کے ماہ جنوری کی چھے تاریخ کا واقعہ ہے جو کہ خود راقم الحروف کو صبح تقریباً ساڑھے سات بجے اپنے بیٹے علی کو اسکے اسکول چھوڑنے جاتے ہوئے پیش آیا تھا۔

اس دن کے بعد سے تادم تحریر بلاناغہ اب بھی ہم علی کو اسی طرح سے روزانہ اسکول چھوڑنے جایا کرتے ہیں۔ حلانکہ اب بھی ہمارا ایسے بہت سے لوگوں سے کم و بیش روزانہ سامنا ہوتا ہے جو کہ اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے لیکن نہ تو ان میں سے کبھی کسی نے اور نہ ہی اسکول کی انتظامیہ میں سے کسی نے ہمیں روک کر اس حادثے سے متعلق کچھ بھی کہنے یا سننے کی کوشش کی، ہاں البتہ ہمیں اور علی میاں کو دیکھ کر ان کے چہروں پر ایک دوستانہ سی مسکراہٹ ضرور پھیل جاتی ہے اور حد تو یہ ہے کہ متعدد بار ان صاحب اور صاحبہ سے بھی آمنا سامنا ہوتا رہتا ہے اور ہم محض ایک دوسرے کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے اور کبھی اشاروں کنایوں میں تو کبھی زیرلب تو کبھی باآواز بلند دعا سلام کا تبادلہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے سے کچھ ہوں گزر جاتے ہیں جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

یہ سب دیکھہ کر کبھی کبھی ہمیں خیال آتا ہے کہ اگر اسی نوعیت کا واقعہ ہمارے ساتھ وطن عزیر میں پیش آیا ہوتا تو کیا ہوا ہوتا؟

یہ بھی ممکن تھا کی یہ معاملہ فریقین کے درمیان کسی دیرینہ رنجش کا سبب بنکر تاحیات کبھی ناختم ہونے والی دائمی چپقلیشوں کا پیش خیمہ بن جاتا۔

یہ بھی ممکن تھا کہ دو گاڑیوں کو ٹکر مارکر ایک مکان کی دیوار پر اپنی گاڑی ماردینے پر ہمیں متاثرہ مخالف فریقین، ان کے حمایتی و حواری اپنے دل نادان کی بھڑاس نکالنے کیلیئے اور وہاں موجود جیالی طبیعت کے سر پھرے محص دل پشوری کی خاطر خودہمیں گاڑی سے نکال کر اپنے ہاتھوں، لاتوں اور ڈنڈوں سے خوب دھلائی کرتے ہوئے یا تو اس کہانی کو خود ہی کوئی بھیانک انجام دے ڈالتے اور ہماری گاڑی کو آگ لگادی جاتی یا پھر ادھ موا کرکے پولیس کے حوالے کردیتے اور پھر باقی بچی کھچی جان ہمارے اپنے ہم وطن پولیس والے اپنی بدنام زمانہ "چھترول" کر کے نکال لیتے اور پولیس اورمخالف فریقین سے "مک مکا" اور معاملہ "رفع دفع" کروانے کیلیئے ہماری بیگم کو (کسی سفارش، کسی اعلیٰ سرکاری و حکومتی عہدیدار سے ہماری جان پہچان کے نہ ہونے کے سبب) اپنے زیورات بیچنے پڑتے اور گھر کی جمع پونجی کے علاوہ کسی عزیر رشتہ دار سے بھاری رقوم قرض بھی لینا پڑجاتی اور پھر اس چنگل سے آزاد ہوکر کر ہم بسوں، ویگنوں، رکشوں اور ٹیکسیوں میں روز دھکے کھاتے اور اپنے مقدروں کو کوستے ہوئے کام پر پہنچتے۔

اور ہاں۔۔۔! قاریئن کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ پر چھے ماہ بعد گاڑی کی جس انشورنس کا پریمیم ادا کرتے وقت ہمیں شدید کوفت کا سامنا ہوتا تھا، اسی انشورنس کے سبب تمام تر مراحل بخیر و خوبی طے پا گئے۔

انشورنس کمپنی کے سروے کے مطابق ہماری گاڑی مکمل طور ہر تباہ اور ناقابل مرمت قرار پائی لہذا انشورنس کمپنی کی جانب سے گاڑی کی مارکیٹ ویلیو پر ممعولی بحث کے بعد باہمی رصامندی سے کلیم کی ادائیگی حادثے کے بیس سے پچیس دنوں کے اندر اندر کردی گئی۔

البتہ اس حادثے کی وجہ سے انشورنس کمپنی نے ہمارے پریمیم میں سالانہ تقریباً دو سو ڈالر سے ذائد کا اضافہ کردیا، جو کہ یہاں ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے اور کسی ٹریفک اصول کی خلاف ورزی پر ملنے والے تادیبی ٹکٹ یا کسی حادثے کی صورت میں انشورنس کمپنیاں پریمیم میں اچھا خاصا اصافہ کردیا جاتا ہے۔۔

پولیس افسر کی جانب سے جاری کردہ ٹکٹ کو ہم نے متعلقہ عدالت میں بے قصور ہونے کے دعویٰ(نو گیلٹی پلیڈ) کے تحت چیلنج کیا۔ ماہ جنوری میں جاری ہونے والے اس ٹکٹ کی اولین شنوائی غالباً یکم مارچ کو ہوئی تھی جس میں ہم نے عدالت کے سامنے"نو گیلٹی پلیڈ" کیا تھا، لہذا عدالت کی جانب سے متعلقہ پولیس افسر کو طلب کرنے کیلیئے مذکورہ کیس کو نامعلوم مدت کیلیئے ملتوی کردیا گیا اور مذکورہ عدالت میں اس نوعیت کے کیسوں کی بہتات ہونے کے سبب، جی ہاں، آپ نے بالکل درست پڑھا ہے جناب! آپ کو اپنی آنکھیں اور صاحب! آپ کو اپنی عینک صاف کرنے کی ہرگز صرورت نہیں، یہاں امریکی عدالتوں میں بھی غیر فیصلہ شدہ کیسوں کی بھرمار ہے، جس کے سبب ہم نے اس قسم کے کیسوں میں ساعلین کو ڈیڑھ سے دو برسوں تک انتظار کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے، لہٰذا آج جب مورخہ بیس اکتوبر کو زیرنظر سطور تحریر کیں جارہیں ہیں،کم و بیش سات ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اگلی شنوائی کی تاریخ موصول نہیں ہوئی۔

اس بھیانک حادثے نے ہمیں گو کہ ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس حادثے کے محض چند گھنٹوں ہی کے بعد ہم اپنی زندگی کے معمولات کی جانب گامزن ہوچکے تھے اور اسی روز دوپہر تک ہم اپنے کام پر پہنچ کر اپنے فرائص منصبی بھی بخوبی انجام دے رہے تھے۔

*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 55085 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.