دیکھو ! پتنگ با زی شروع ہوگئی

 کھارا در کی گلیاں اگر بول سکتیں تو ہمیں بتاتیں کہ محمد علی جناح کو بچپن میں پتنگ اُڑانے کا شوق تھا ،وہ اپنے ہم سن ساتھیوں کے ساتھ صرف ایسا کھیل کھیلا کرتے تھے جسمیں کپڑے میلے ہونے کا ڈر نہ ہو ۔انہیں شروع ہی سے اپنی پوشاک کی صفائی کا خاص خیال رہتا تھا ، ان کو مٹی کے گھروندے بنانا یا ننگے پاوئں گیٹریاں کھیلنا بالکل پسند نہیں تھا پتنگ بازی کا ایک واقعہ محمد علی جناح کو ہمیشہ یاد رہتا بچپن میں ایک دن وہ پتنگ اُڑا رہے تھے کہ کسی شریر لڑکے نے نیچے سے ڈور کاٹ دی محمد علی جناح کی نظریں پتنگ پر تھیں اور ان کو ڈور کٹنے کی خبر نہ ہوئی چنانچہ جب انہوں نے پتنگ کو ڈھیل دی تو ڈور ختم ہوگئی اور اس طرح پتنگ ہاتھ سے نکل گئی ۔محمد علی جناح نے اس واقعے سے ایک بڑا سبق سیکھا اور وہ یہ کہ جب آنکھیں آسمان کی طرف ہوں تو زمین سے غافل نہیں ہونا چاہئے ،سیاسی معاملوں میں جب اُنکے مخالف اس قسم کے شوشے چھوڑتے تھے کہ تمام ملک کے لوگوں کی نظریں اسی طرف لگ جائیں اور در پیش حالات کی طرف سے اُنکی توجہ ہٹ جائے تو محمد علی جناح کہا کرتے تھے کہ ’’یہ تو پتنگ اُڑائی جا رہی ہے‘‘ جب کبھی ہندوؤں کی کوئی تحریک ناکام ہوتی تھی اور اُن کے لیڈر بھوک ہڑتال یا چرخے کی تحریک چلاتے تھے تو قائد اعظم مجھ سے اکثر مذاق میں کہا کرتے تھے کہ ’’ دیکھو پتنگ بازی شروع ہوگئی ‘‘ ۔

یہ واقعہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں بلکہ خود قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے سابق پرائیوٹ سکریٹری مطلوب الحسن سید کی زبانی ہے جسے انہوں نے قائد اعظم کے اعزاز میں اُنکی حالات زندگی اور تواریخ کے جھرونکوں سے واقعات اپنی تالیف شدہ کتاب ’’ہمارے قائد اعظم ‘‘ میں بیان کئے ہیں یہ واقعہ وہیں سے اقتباس ہے اس واقعے کو یہاں بیان کرنے کا اصل مقصدبالکل واضح ہے کہ ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی گزشتہ سات دہائیوں سے ان ہی حالات کا شکار ہے اور وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست ،معاشرت ،اقتصادیت اور سماجی حالات کی ابتری میں آئے روز تیزی سے اضا فہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور قائد اعظم ؒ کی اس اصطلاح کا اتلاق پاکستان کے موجودہ ابتری حالات کے پیشِ نظرسو فیصد درست معلوم ہوتے ہیں ۔

آپ خود ہی غور کیجئے اگر ہم صرف پاکستان کی سیاسی حالات ہی کو لے لیں جو کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں تمام سیاستدان اور حکمراں اپنے اپنے زاتی مفادات کی آڑ میں ملکی اور ملی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں جس طرف بھی نگاہ اُٹھائیں بے اعتباری کی فضا چہار سو پھیلی ہوئی ہے عوام کے ساتھ نجانے کس قسم کا کھلواڑ کرنا چاہتے ہیں کوئی ان کی حدود و قیود نہیں جان سکتا نا متعین کر سکتا ہے ،حکومت سے لے کر ایک عام عہدِ دار تک سب کے سب کرپشن میں ملوث ہیں اور بات کی جائے عوام کی تو عوام بھی بہت حد تک اسکی ذمہ دار ہے ،اب اگر ہم موجودہ حکومت کے گزشتہ سے موجودہ سال تک کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو تمام کا تمام چٹھا کٹھا صاف دکھائی دیتا ہے کرپشن دھاندلیوں سے ان کی تاریخ بھری پڑی ہے اور سب پر سب کچھ واضح بھی ہو چکا ہے پر عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کیلئے موٹروے اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کا لالچ دے کر عوام کی توجہ اس طرف مبزول کرائی جا رہی ہے مگر چونکہ بنیادی مسائل کے پہاڑ سے مسلسل انکی سرفِ نظر کی بنا پر اُنکی ہیت و حیثیت کوہِ ہمالہ سے بھی زیادہ بڑی ہوتی چلی جا رہی ہے ، اب ان حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو پتنگ بازی نہیں کہیں تو اور کیا کہا جائے عوام کو رمضان کے بابرکت مہینے میں ریلیف دینے کے بجائے مسلسل لوڈ شیڈنگ اور پھر یک نہ شُد دوشُد کے مصداق موجودہ بجٹ کے اعلان کے زریعے مہنگائی کا تحفہ بڑے خوبصورت ریپنگ پیپر میں لپیٹ کر دیا جارہا ہے پھر چاہتے ہیں کے عوام کی خوشنودی بھی حاصل کی جائے۔

حکومت کی جو اصل ذمہ داریاں ہونی چاہئیں اس سے مسلسل انحراف کیا جا رہا ہے ، جسکا فائدہ ہمارے دیگر سیاستدان بھی ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں کیونکہ اُنکو ایسے مواقع ڈھونڈنے نہیں پڑ رہے بلکہ حکومت کی کارکردگی خود اُن کیلئے سوالیہ نشان بن رہی ہے حالانکہ گزشتہ حکومت نے بھی اپنے دورِ حکومت میں عوام کا خون نچوڑنے کے سوا کچھ خاص نہیں کیا جو لائق تحسین ہو ،غرض ہر کسی کو اپنے اپنے مفاد کی پڑی ہے دولت صرف اشرافیہ یا چند مخصوص طبقات میں گردش کر رہی ہے غریب غربت سے غریب تر اور امیر امیر ترین ہوتے جا رہے ہیں جو پاکستان کی مزدور پیشہ عوام ہے اسکا مسلسل اصتحصال ہو رہا ہے دولت کا چکر منصفانہ طور پر دائرہ تقسیم میں نہیں لایا جارہا مظلوم اور حقیقی عوام بنیادی سہولت سے کل بھی محروم تھی آج بھی محروم ہے افراط زر پاکستان کا لازمی جُز بن چکی ہے یہ تو ہمارے گزشتہ سے موجودہ سیاسی اور اقتصادی حالات ہیں جس پر بابائے قوم کی پتنگ والی اصطلاح اک دم فٹ بیٹھتی ہے۔

ہماری حکومت اور سیاستدان کی نگاہیں اپنے اپنے ذاتی مفادات کی جنگوں میں آسمان پہ ہی مرکوز ہیں زمین پر آہی نہیں رہیں انکی اس قسم کی لا پروائی سے ملک دشمن عناصر کو بہت تقویت مل رہی ہے وہ مسلسل پاکستان کی جڑیں کھوکلی کرنے اور یک کے بعد دیگرے چال چلنے میں مصروف ہیں CPAKمعاہدہ جس سے تمام پاکستانیوں کی مثبت اُمیدیں وابستہ ہیں اس قسم کے ملک دشمن عناثر کبھی نہیں چاہنگے کے اُنکا پڑوسی ملک کسی بھی قسم کی ترقی کرے اسی لئے وہ ایک کے بعد ایک وار کر نے مین مصروف ہیں گزشتہ دنوں پانچ چینی باشندوں کی گمشددگی بھی اسی معاہدے کو ناکام بنانے کی ایک کڑی ہے ہمارے سیاستدان اور حکومت آخر اپنے زاتی مفادات سے ہٹ کر ملکی معاملات پر سنجیدگی کیوں نہیں اختیار کرتے یہ لوگ آخر کب تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فرداں رہینگے ، آخر اور کس بات کا انتظار ہے انکو ہمارے نیشنل فورمزکی مثال بالکل اس شعر پر پوری اُترتی ہے کہ
جلسے کا اہتمام ہے چھت پر مگر نسیم
دیمک ستون چاٹ چکی ہے مکان کے

اس ملک کے حکمراں اور سیاستدان اب بھی اگر اپنا قبلہ درست کر لیں تو کچھ نقصانات کی تلافی بہت حد تک ممکن ہے اس کے لئے میرے پاس بابائے قوم کے کردار سے بہتر ین مثال اور کوئی نہیں نظر آتی بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کی سیاسی بصیرت اور انکی حالاتِ زندگی سے آخر کیوں سرفِ نظر کئے ہوئے ہیں جنکی ایمانداری کی مثال غیر اقوام غیر مذاہب کے لوگ انتہائی حسرت سے دیا کرتے تھے ۔قائد اعظم کی دیانتداری اور اصول کی پابندی کی سب تعریف کرتے تھے یہاں تک کے اُن کے دشمن بھی دل سے ان کے معترف تھے۔ قائد اعظم کے پرسنل سیکرٹری مطلوب الحسن بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسٹر ٹیٹنس نے جو مرھٹی زبان کے اخبارکیسری کے ایڈیٹر تھے میرے سامنے قائد اعظم کوبہت بُرا بھلا کہا جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپکو ان سے کیا شکایت ہے ؟تو انہوں نے کہا کہ مجھے اسبات پر غصہ آتا ہے کہ اس شخص کی کوئی قیمت نہیں اور یہ بِک نہیں سکتا ،جب میں نے ان سے کہا کہ یہ بات تو ناز کرنے کی ہے کہ ہندوستان میں نہ بکنے والے لوگ بھی موجود ہیں تو وہ بولے ’’ایسے لوگ کہاں ہیں ،صرف ایک ہی تو ہے ‘‘ پھر انہوں نے ایک سرد آہ بھری اور کہا ’’میں ناز بھی نہیں کرتا میں تو اس شخص کی پرستش کرتا ہوں ،کاش ہم ہندوؤں میں کوئی آدھا جناح بھی پیدا ہو جائے تو ہمارے ملک کو آزادی حاصل کرنے میں کوئی دیر نہ لگے‘‘ جب میں نے دوسرے روز یہ واقعہ قائد اعظم کو سنایا تو انہوں نے صرف اتنا کہا ’’میں مسٹر ٹیٹنس کا ممنون ہوں ‘‘ اور بات کاٹ دی ۔ دراصل وہ اپنی تعریف پسند نہیں کرتے تھے۔

اس واقعے سے اندازہ لگایئے کہ جس ملک کا بانی اپنی بات اپنے کردار کا اس قدر مضبوط ہو کہ دوسرے اقوام و مزاہب کے لوگ بھی اسکی مثال دیں تو سوچیں ہم تو ایسے بانی ِ پاکستان کی قوم ہیں جبکہ اسکے برعکس آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے کردار اور عمل سے دوسری اقوام اور ملک دشمن عناثر کو یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان کو کھلی دعوت دے رہے ہیں کہ پاکستان ملک نہیں بلکہ مالِ غنیمت ہے آؤاور لوٹو ہم بھی تمھارے ساتھ ہیں ۔آج ہم خود یعنی عوام موجودہ حالات پر غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہیں بالکل اقبال علیہ الرحمتہ کے اس شعر کی مانند
یوں تو آیا ہے تباہی میں یہ بیڑ ا سو بار
پر ڈراتی ہے آج بھنور کی صورت

Nida Yousuf Shaikh
About the Author: Nida Yousuf Shaikh Read More Articles by Nida Yousuf Shaikh: 19 Articles with 14330 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.