پنجاب میں بڑھتی ہوئی کرپشن! وزیر اعلیٰ کے لئے چیلنج

پنجاب میں کرپشن کی تیزی سے بڑہتی ہوئی صورتحال کے پیشِ نظر عام آدمی دن بدن بد حالی کا شکار ہو رہا ہے اور سرمایہ کاروں کے لئے یہاں کام کرنا دِن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔صوبہ کے غریب عوام بھوک ،افلاس اور غربت کے ہاتھوں تنگ آکر نہ صرف خود سوزیاں کر رہے ہیں بلکہ معصوم بچوں کو بھی فروخت کرنا انکا معمول بنتا جا رہا ہے ۔محکمہ صحت ،تعلیم ،لوکل گورنمنٹ ،پولیس،خوراک،بجلی ،توانائی ،ایکسائز یہاں تک کہ تمام محکموں میں کرپشن کی کہانیاں زبانِ زد عام ہوتی جارہی ہیں۔پٹرولیم مصنوعات اور یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ کی وجہ سے عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ موجودہ جمہوری حکومت کی نسبت پرویز الٰہی کی حکومت ہی اچھی تھی جب چینی 35روپے کلو ملا کرتی تھی ۔دوسری جانب ہماری حکومت کی شہ خرچیوں کی حالت ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے ،غریب عوام پر وزراء کی فوج کا بوجھ مسلط کرکے کروڑوں روپے ماہانہ اخراجات ہو رہے ہیں لیکن کسی بھی وزیر کی کارکردگی قابلِ زکر نہیں بلکہ ملک میں میرٹ کی دھجیاں اُڑانے اور جرائم پیشہ لوگوں کی پشت پناہی کی تحقیقات کروائی جائیں تو وزراء کی یہ فوج سب سے اگلی صفوں میں کھڑی ہو گی۔اطلاع تھی کہ انٹیلی جنس بیورو اور آئی ایس آئی کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے اُنہیں ملک میں سے کرپشن کے خاتمہ کا ٹارگٹ دے دیا جائے گا لیکن افسوس کہ ابھی تک اِن دو خفیہ ادروں کو کرپشن کے مکمل خاتمہ کے لئے مکمل طور پر با اختیار نہیں کیا گیا۔بہر حال اربابِ اختیار تو شائد نہیں چاہتے کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے آئی ایس آئی کو مکمل اختیارات ملیں کیونکہ وہ شائد یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارہ اُنکی کرپشن کو بے نقاب کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھے گا۔ ایسے وزراء یا ادارے جو حاجیوں کے پیسے میں بھی کرپشن نہیں چھوڑتے،ایسی این جی اوز یا کرپٹ عناصر جو سیلاب زدگان کی مدد کی بجائے انکے حصہ کا ایک ایک روپیہ ہڑپ کرنے میں مصروف ہیں ۔کیا آئی ایس آئی ایسے افراد یا ادروں کو چھوڑے گی؟ نہیں بالکل نہیں بلکہ آئی ایس آئی جو لسٹ تیار کرے گی اُس میں بڑے بڑے لوگوں کی بیگمات کے نام بھی آئیں گے جنہوں نے نہ صرف قرضے معاف کروائے بلکہ غیر ملکی ڈونرز کو بھی لوٹتے رہے۔ حکومتی بینکوں سے قرضے معاف کروانے والوں کے ناموں سے صفحات بھرے پڑے ہیں ،ترقیاتی فنڈز میں لوکل گورنمنٹ کے آفیسران کی اراکین اسمبلی سے ملی بھگت واضح نظر آتی ہے،محکمہ آبپاشی میں سرِ عام کرپشن جاری ہے جیسا کہ پنجاب ایریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی (پیڈا ) ایل سی سی ایسٹ کینال سرکل کے مینیجر نے نہری پٹواریوں سے ملی بھگت کرکے نہری آبیانہ کی مد میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی ہے جبکہ اربابِ اختیار کی خاموشی وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے ،ایکسائز دفاتر کے سامنے ایجنٹوں کے ذریعہ ہونے والی کرپشن کس کو نظر نہیں آ رہی،بھاری رشوت کے عوض صوبہ بھر کے بیشتر علاقوں میں نہ صرف سرکاری زمینوں پر قبضے کروائے جا رہے ہیں بلکہ گلی کوچوں اور بازاروں میں تجاوزات کا کلچر عام ہو رہا ہے،ترقیاتی اداروں مثلاً ہائی ویز،پبلک ہیلتھ، بلڈنگز،آبپاشی وغیرہ میں آفیسران کمیشن کو اپنا قانونی حق سمجھتے ہوئے کرپشن کو تقویت دے رہے ہیں

،واپڈا میں بجلی اور سوئی گیس کے محکموں میں گیس چوری کروانے میں سرکاری اہلکار زرہ بھر بھی نہیں گھبرا رہے،محکمہ مال کی کرپشن سے تو وہ شخص بھی واقف ہے جو ایک مرلہ کی جھونپڑیا کے لئے رجسٹری کروانے کچہری جاتا ہے،یہاں تک کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے کام سے لے کر بڑے کام کے لئے شہریوں کو رشوت دینا پڑتی ہے ورنہ اُنکا جائز کام بھی اعتراضات کی نظر ہو جاتا ہے ۔بیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل ضلع شیخوپورہ ہی کی مثال دی جائے تو حکومت کی گُڈ گورنس کو چیلنج کرنے کے لئے کافی ہے ۔ضلع شیخوپورہ میں ہونے والی کرپشن کی چند مثالیں بطور چیلنج پیشِ خدمت ہیں ۔محکمہ آبپاشی کی سٹور اینڈ ورکشاپ ڈویژن جہاں محکمہ کے ایک حاضر سروس سپرنٹنڈنگ انجینئر سلیم بھٹی اور اسکی ٹیم نے جعلی بھرتیوں اور سرکاری اثاثہ جات کی فروخت کی مد میں کروڑوں نہیں اربوں کی کرپشن کی لیکن افسوس کہ تا حال کرپشن ختم کرنے والے ادارے اس کرپٹ مافیا کے ساتھ ملی بھگت کرکے کرپشن کو تقویت دے رہے ہیں ۔ایسے ہی ضلع شیخوپورہ میں محکمہ تعلیم میں جعل سازیوں کے زریعہ کروڑوں روپے کے سرکاری فنڈز ہڑپ کئے جا رہے ہیں جس کی ایک ادنیٰ سی مثال یہ ہے کہ ارشد محمود ولد لال دین نامی ایک شخص جعلی ڈپلومہ کے زریعے ڈرائینگ ٹیچر بھرتی ہوا ،اور جعلی آرڈرز کے زریعے ہی گریڈ 17میں گورنمنٹ ایم سی مڈل سکول صدر تھانہ میں بطور ہیڈ ماسٹر ترقی حاصل کر لی ،حیران کُن امر تو یہ ہے کہ مزکورہ شخص جعل سازی کے زریعے سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے نکلوا چکا ہے لیکن ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ کے دفترکو بار بار شکایات کے باوجود ملزم کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی،ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ اور اسکے عملہ نے مزکورہ جعلی ٹیچر کو مکمل تحفظ دے کر وزیر اعلیٰ پنجاب کی گُڈ گورنس کو چیلنج کر دیا ہے۔ایسے ہی ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ کے عملہ نے جائیدادکی رجسٹریوں کے ساتھ ہزاروں روپے کی ٹکٹوں کی وصولی جیسے کرپشن کے نئے طریقہ کار کو جنم دیا ہے جو کہ قابلِ گرفت ہے۔محکمہ لوکل گورنمنٹ شیخوپورہ میں بھی ترقیاتی کاموں کی مد میں کروڑوں روپے کی کرپشن سامنے آئی ہے لیکن افسوس کہ محکمہ اینٹی کرپشن لاہور ڈویژن کی ٹیکنیکل برانچ تا حال خاموش ہے ۔ایسے ہی پبلک ہیلتھ ڈویژن شیخوپورہ کے ترقیاتی کاموں میں کروڑوں روپے کی بد عنوانیاں ہو ئی ہیں لیکن تحقیقاتی اداروں کی مسلسل خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے ۔انتہائی افسوس کے ساتھ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ سپیشل برانچ شیخوپورہ کے چند اہلکار بھی کرپشن کے اس گھناؤنے کھیل میں ملوث ہیں اور حیران کُن امر تو یہ ہے کہ سپیشل برانچ کے مزکورہ اہلکاران کئی کئی سالوں سے انہی سیٹوں پر تعینات ہیں اور اگر انہیں کسی دیگر شہر میں ڈیوٹی کے احکامات آجائیں تو وہ بورڈ کے ذریعے رعائیت لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔یہی حال محکمہ اینٹی کرپشن شیخوپورہ کا ہے جہاں پر بعض اہلکارکئی کئی سالوں سے تعینات ہیں اور زرائع کے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن شیخوپورہ کا عملہ باقاعدہ منتھلیاں وصول کرتا ہے۔یہ تو تھی داستان پنجاب کے صرف ایک ضلع کے چند محکموں کی انتہائی معمولی نوعیت کی۔بہر حال پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی یہی حال ہے ۔

بہر حال یہاں میں حکومت پنجاب کے لئے نہیں بلکہ حکومت میں ایسے لوگوں کے لئے جو ملک کے ساتھ تھوڑی سی بھی محبت رکھتے ہیں اُنکو تجویز دیتا ہوں کہ خدا را اس پاک وطن پر رحم کھاتے ہوئے کرپٹ مافیا کے قلع قمع کے لئے ایسے ادروں اور افراد کو متحرک کریں جو مثبت کردار ادا کر سکتے ہے ۔

Malik Aqeel Akhtar
About the Author: Malik Aqeel Akhtar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.