پورئے سندھ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا وجود نہیں ہے، اس
لیے کہ غوث علی شاہ نواز شریف سے برابری سے بات کرتے ہیں، ممتاز بھٹو کا
بھی یہ ہی حال ہے اور نواز شریف کو ایسے لوگ قطعی پسند نہیں ہیں، ان کو
پسند ہیں نہال ہاشمی اور ان جیسے لوگ لہذا سندھ سے تو ممکن نہ تھا اس لیے
نہال ہاشمی کو پنجاب سے سینیٹربنوایا گیا، سینیٹر بنوانے کےلیے ان کا پتہ
گاؤں دینہ ضلع جہلم لکھوایا گیا ، ایک کالم نگار مظہر برلاس کےمطابق نہال
ہاشمی نے یہ گاؤں کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا ہوگا۔ بنیادی طور پر نہال
ہاشمی ایک خوشامدپرست انسان ہیں اور وہ اکثر اپنےاس ہنر کا استمال کرتے
رہتے ہیں، مثلاً کچھ عرصہ پہلے ان کا فرمانا تھا کہ ’’نواز شریف کسی اور
ملک میں ہوتے تو لوگ ان کی پوجا کرتے‘‘۔نہال ہاشمی بعض اوقات ایسے خوشامدی
بیانات بھی دیتے ہیں جن سے مسلم لیگ (ن) کو جان چھڑا نا مشکل ہوجاتی
ہے۔مثلاً سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے استعفی کے بعد نہال ہاشمی
کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان مخالف لوگوں نے پرویز مشرف دور میں گورنر ہاؤس
میں ڈیرہ ڈالا تھا لیکن آج نوازشریف کے چاہنے والے گورنر ہاؤس میں ہیں، 14
سال پہلے بانی ایم کیوایم کی جانب سے دہشتگرد تنظیم کا نمائندہ گورنرہاؤس
بھیجا گیا، آج جمہوریت اورآئین کی پاسداری کی صحیح علامت گورنرہاؤس میں ہے‘‘۔
اس بیان کے فوراً بعد وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا
کہ ’’سنیٹر نہال ہاشمی کا بیان حکومت یا پاکستان مسلم لیگ (ن) کاموقف نہیں،
انہوں نے اپنی ذاتی رائے کا اظہار کیا ہے‘‘۔
جس جے آئی ٹی کے بنانے پر نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے مٹھائی بانٹی
تھی اب وہی انکے لیے مصیبت بن گئی ہے، لہذا نواز شریف کی پوری خوشامدی
کابینہ اس جے آئی ٹی کی مخالفت میں لگ گئی ہے۔خوشامدیوں کو یہ اشارہ دیا
جاتا ہے کہ آئندہ انہوں نے اپنے خوشامدی بیان میں کیا کہنا ہے، ایسا ہی
ہوا اور 28 مئی 2017 کو نہال ہاشمی نے عدلیہ کو ایک پیغام دیا جووائیرل
ہوگیا۔ نہال ہاشمی کے خوشامدی پیغام میں کہا گیا ہے کہ’’تم جس کا احتساب کر
رہے ہو وہ نوازشریف کا بیٹا ہے، ہم نواز شریف کے کارکن ہیں۔ جنہوں نے حساب
لیا ہے اور جو لے رہے ہیں کان کھول کر سن لو، ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے، تم
آج حاضر سروس ہو، کل ریٹائر ہوجاؤ گے۔ ہم تمہارے بچوں اور خاندان کے لئے
پاکستان کی زمین تنگ کردیں گے۔ احتساب لینے والوں ہم تمہارا یوم حساب
بنادیں گے۔ تم پاکستان کے باضمیر باکردار نواز شریف کا زندہ رہنا تنگ کررہے
ہو، پاکستانی قوم تمہیں تنگ کردے گی‘‘۔کراچی کے سیاسی یتیم نہال ہاشمی کے
پیغام کی ویڈیو وائیرل ہونے کے بعد جب میڈیا اورسوشل میڈیل پر شور مچا تو
پہلے وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے سینیٹر نہال ہاشمی کے بیان
کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) عدلیہ اور اداروں کے احترام پر
مکمل یقین رکھتی ہے اور نہال ہاشمی کے بیان کا شریف خاندان سے کوئی تعلق
نہیں ہے۔ پھر بہت تیزی کے ساتھ نہال ہاشمی کو وزیراعظم ہاوس طلب کیا گیا
اور انکی پارٹی رکنیت معطل کردی گئی، ساتھ ہی نہال ہاشمی نے سینیٹر شپ سے
بھی استعفیٰ دے دیا۔ بعد ازاں نہال ہاشمی نے اپنے خوشامدی بیان سے یوٹرن
لیتے ہوئے کہا کہ ’’ میری تقریر غیر جمہوری افراد کے خلاف تھی۔ مسلم لیگ
(ن) کا ہر دور میں احتساب ہوتا رہا ہے۔ اگر مجھے جے آئی ٹی کے بارے میں
بولنا ہوتا تو نام لیتا‘‘۔
سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور نہال ہاشمی کو عدالت میں پیش ہونے کا
حکم دیا۔ پیشی پرسماعت کے دوران تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل
کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے دور میں ججوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ایک
اور جج جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نہال ہاشمی کی آواز میں
کوئی اور بول رہا تھا۔ اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ
’’مبارک ہو مسٹر اٹارنی جنرل! آپ کی حکومت نے سیسیلین مافیا (اٹلی کے جرائم
پیشہ افراد کا گروہ) جوائن کرلیا، آپ ان کے نمائندہ ہیں، کیونکہ مافیا
والے ہی ایسی دھمکیاں دیتے ہیں۔ شایدحکومت کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ
جسٹس عظمت سعید کا یہ کہنا کہ نہال ہاشمی کی آواز میں کوئی اور بول رہا تھا
سیدھا سیدھا نواز شریف کی طرف انگلی اٹھانا تھا، دوسرئے اسے حکومت کو مافیا
قرار دینا بھی برا لگا، لہذا ایک نامعلوم حکومتی ترجمان کی طرف سے ایک بیان
جاری کیا گیا کہ ’’ججوں کے ریمارکس ضابطہ اخلاق اور حلف کے منافی ہیں،
حکومت کو سیسیلین مافیا اور اٹارنی جنرل کو اس کا نمائندہ قرار دینا
انتہائی افسوس ناک جس سے دنیا بھر میں ایک ملک کی حیثیت سے پاکستان کی
شناخت اور وقار کو شدید دھچکا پہنچا ہے‘‘۔ نواز شریف کو یہ دوسرا اعزاز ملا
ہے اس سے پہلے پاناما لیکس کے فیصلے کے وقت سپریم کورٹ نے نواز شریف کےلیے
’’گارڈ فادر‘‘ کا لفظ استمال کیا تھا۔
نواز شریف ایک کاروباری انسان ہیں اور خوشامد کا نشہ کرنے کے عادی ہیں، وہ
اپنے خوشامدیوں سے بہت خوش رہتے ہیں۔بہت سے اخبارات کے کالم نگار، اخباری
رپورٹرز اور نیوز چینل کے بہت سے اینکر ز نواز شریف کے دستر خوان سے ہی
اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ اگر آپ نواز شریف کی کابینہ پر غور کرینگے تو ہر وزیر
نواز شریف کی جی حضوری میں لگا رہتا ہے۔نواز شریف صرف اپنے گھر والوں کے
وفادار ہیں لیکن وہ ہر اس شخص کو لازمی فائدہ پہنچاتے ہیں جو کبھی بھی ان
کے کام آتا ہے۔ ملکی اداروں سے لڑنا نواز شریف کا محبوب مشغلہ ہے ، عدلیہ
اور فوج ، ان دو اداروں سے نواز شریف اپنے ہر دور میں لڑتے رہے ہیں اور جب
بھی وہ کسی لڑائی میں ہارنے والے ہوتے ہیں اپنے کسی بھی خوشامدی کی قربانی
دینے میں دیر نہیں کرتے۔ ایک زمانے میں مشاہد اللہ خان ٹی وی ٹاک شوز میں
نواز شریف کےلیے سب سے لڑجاتے تھے نواز شریف کےبہت فرماں بردار تھے لیکن جب
ضرورت پڑی تو ان کی قربانی دئے دی گئی اور وزارت لےلی گئی لیکن مراعات یا
فاہدئے سب جاری ہیں۔پرویز رشید جو وزیر اطلاعات کم اور نواز شریف اور انکی
فیملی کے ملازم زیادہ لگتے تھے ڈان لیکس کے سامنے آنے پرقربان کردیے گئے ،
اب پرویز رشید کا کہیں پتہ نہیں لیکن انہیں بھی سارئے فائدے مل رہے ہیں۔
پرویز رشید کی قربانی کے بعد وزیراعظم کو اپنے مشیر طارق فاطمی کی بھی
قربانی دینی پڑی جس میں انہوں نے قطعی دیر نہیں کی اور ڈان لیکس سے اپنی
جان چھڑالی۔
نواز شریف کے ساتھ کام کرنے والے حکومت کے کم نواز شریف کے زیادہ وفادار
ہوتے ہیں، وہ نواز شریف کے جی حضوریوں میں شامل ہوتے ہیں، وزیر داخلہ
چوہدری نثار اپنے آپ کو بہت تیس مار خان سمجھتے ہیں لیکن کام وہ بھی نواز
شریف کے خوشامدیوں کا ہی کرتے ہیں۔ نواز شریف کسی ایسے شخص کو حکومت میں
آنے ہی نہیں دیتے جو ان کے سامنے بولے ۔ ان کے اپنے دور میں انہوں نے جن
صدروں کا انتخاب کیا، وہ رفیق تارڑ اور ممنون حسین ہیں اور ان دونوں کے
بارئے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ یہ نواز شریف کے وفادار ہیں اور اپنی
صدارت سے بھرپور مالی فائدہ اٹھایا ہے جبکہ ممنون حسین اب بھی فائدہ
اٹھارہے ہیں۔ مختصر ایک اور واقعہ بھی سن لیں کہ نواز شریف کے پچھلے دور
میں جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے تو دونوں کے درمیان اختلاف
ہوئے اور جب اُن کی چپقلش عروج پر پہنچ گئی تو نواز شریف نے گوہر ایوب سے
فرمائش کی تھی کہ وہ ان کو کوئی ایسا طریقہ بتادیں کہ’’وہ ایک رات کے لیے
چیف جسٹس کو گرفتار کرکے جیل بھیج سکیں‘‘۔ایسا تو نہ ہوسکا لیکن پھر جسٹس
سجاد علی شاہ کو گھر بھیجنے کے لیے جسٹس سعید الزمان صدیقی ان کے کام
آئے۔گذشتہ سال اسی سالہ سعید الزمان صدیقی کو نواز شریف نے ان کی اسی خدمت
کا معاوضہ سندھ کا گورنر بناکر دیا لیکن شدید علالت کے باعث وہ دو ماہ بعد
انتقال کرگئے۔
پاکستان میں بڑے مجرم ہمیشہ اپنے چھوٹوں کی قربانی دیتے ہیں اور چھوٹے
اپنےبڑوں سے نمک حلالی کی خاطر ملک سے نمک حرامی کرتے ہیں۔ اس کیس میں بھی
ایسا ہی کچھ ہے ، یہ سب کچھ ملک میں رائج بدنظمی، غنڈہ گردی اور سرمایہ
دارانہ سیاست کا نتیجہ ہے۔ نواز شریف کے پاس قربانی دینے والوں کی کمی نہیں
ہے کیونکہ ان کے ہر خوشامدی کو معلوم ہے کہ نواز شریف معاوضہ اچھا دیتے
ہیں۔ خوشامدی نہال ہاشمی جب سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو وہ بکری بنے ہوئے
تھے، ان کا کہنا تھا کہ’’میں اپنے کہے ہوئے پرشرمندہ ہوں اور عدالت سے
معافی کا طلب گار ہوں‘‘۔عدالت نے ان کی معافی قبول نہیں کی اور انہیں اظہار
وجوہ کا نوٹس جاری کرکے اگلی پیشی پر جواب دینے کو کہا ہے۔ دوسری طرف حکومت
کے اٹارنی جنرل نے نہال ہاشمی کے خلاف فوجداری مقدمے کی کارروائی کا آغاز
کر دیا ہے۔نواز شریف نے یہ اصول اپنا رکھا ہے کہ جب بھی ان کی حکومت پر
کوئی مشکل آئے تو فوراً اپنے کسی خوشامدی کی قربانی دے دیتے ہیں۔ اس وقت
جو قربانی نہال ہاشمی نے دی ہے بقول اعتزاز احسن اگر آئندہ بھی نواز شریف
حکمراں ہوئے تو نہال ہاشمی سندھ کے گورنر ہونگے۔
نواز شریف جو سپریم کورٹ کے ججوں کی نظروں میں گارڈ فادر سےسسلی مافیا تک
کا سفر کرچکے ہیں، اے آر وائی چینل کے ٹاک شو کے دوران میزبان ارشد شریف
نے پاناما کیس پر کی جانے والے نواز شریف کی تقریر اور معروف فلم گارڈ فادر
کے مرکزی کردار اور ڈان مافیا کی امریکی سینیٹ میں تقریر میں مماثلت دکھا
کر سب کو حیران کر دیا تھا۔نہال ہاشمی کی قربانی سے کم از کم عدلیہ بھی
ہوشیار ہوجائے گی،عدلیہ کو دھمکانا ایک سنگین جرم ہے لہذا نہال ہاشمی کی
خاطرمدارت لازمی ہونی چاہیے تاکہ جو بڑئے ان کے پیچھے ہیں ان سے وفاداری کا
دم بھرنے والوں کےلئے عبرت کا نشان ہو۔شاید موجودہ سسٹم میں جہاں انصاف کا
حصول ناممکن ہے نہال ہاشمی کے ساتھ ایسا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے لیکن
آئندہ سندھ کاگورنر بننا مشکل نہیں۔
|