ذوق انقلاب ہی وقت کا تقاضہ ہے

انسانی تاریخ کے مطالعے سے یہ شعور ملتا ہے کہ اقوام کے عروج و زوال کے اسباب حکمران طبقہ مہیا کرتا ہے۔معاشرےکو منظم رکھنے اور اسے ترقی کی راہ پہ ڈالنے کے لئے ایک سیاسی، معاشی نظام کی ضرورت پڑتی ہے۔

سیاسی نظام ریاست کی ترقی اور فلاح کے لئے مختلف شعبہ جات تشکیل دیتا ہے،اور پھر وقت کے تقاضوں کے مطابق انہیں پروان چڑھاتا ہے،تاکہ اس ریاست میں بسنے والے انسان تعلیمی، اخلاقی،معاشی حوالوں سے ترقی کی منازل طے کریں۔کسی بھی ریاست کا مرکزی سیاسی نظام اگر درست طریقے سے کام کر رہا ہے تو اس کے ذیلی تمام ادارے درست کام کریں گے لیکن اگر مرکزی سیاسی نظام غیر فعال اور غیر منظم اورکرپٹ ہو گا تو لا محالہ ریاست کے تمام ادارے اور شعبہ جات خرابیوں کی آما جگاہ بن جایں گے۔

انسانی تاریخ میں بارہا ایسا ہوا کہ جب کبھی بھی سیاسی نظام زوال کا شکار ہوا تو پوری ریاست تباہ و برباد ہو گئی اور انسانوں کی آبادیاں طرح طرح کے ظلم کا شکار ہو کر نیست و نابود ہو گئیں۔

آج ہمارا شمار بھی ایسی ہی ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں سیاسی نظام کی کرپشن اور ناہلی عروج پہ ہے۔کرپشن کا ایک ایسا لا متناہی سلسلہ ریاست کے تمام اداروں اور شعبہ جات میں پھیلا ہوا ہے جس کا کوئی سرا نظر نہیں آتا، ریاست کو چلانے والا طبقے کی ناہلی کا اگر اندازہ لگایا جائے تو گذشتہ نصف صدی کی کارکردگی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح انہوںنے ایک نسل سے دوسری نسل تک اپنا ذاتی مال اور عزت بنانے میں توانائیاں صرف کیں،اس ملک کو اس طبقے نے کیا دیا؟یہ ایک انتہائی سنجیدہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کے لئے زیادہ تگ ودو نہیں کرنی پڑتی۔اس ناہل اور کرپٹ سیاسی نظام نے تعلیم کا بیڑہ غرق کیا ، معیشت کا بیڑہ غرق کیا، صنعت وتجارت، زراعت کو تباہی کے دھانے پہ پہنچایا، قومی وقار، قومی عزت، قومی کلچر، قومی زبان، قومی مفادات سب کا سودا کیا،چوری اور بددیانتی اور بد اخلاقی ہر شعبے اور دارے کا وطیرہ بن گیا ہے،اوپر سے شروع ہونے والی اس خرابی نے آج پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،ریاست سے متعلق تمام ادارے اور شعبے اس وقت زیادہ تر ناہل اور کرپٹ اور بددیانت افراد کے ہاتھ میں ہیں جس کا نتیجہ یہ کہ ہرطرف کرپشن اور بے انصافی کا دور دورا ہے۔

یہ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ اس وقت کس طرح کے لوگ ہمارے تمام اداروں پہ بر اجمان ہیں اور کس طرح سے ہر شعبے کو وقت کے ساتھ تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ایک زرعی ملک ،زرخیز زمینوں اور پانی کے باوجود زراعت میں زوال کا شکار ہے،گندم امپورٹ کرتا ہے، خام مال اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔صنعتیں صرف اس وجہ سے فروغ نہیں پا رہیں کہ یہاں کرپٹ انتظامیہ اور تمام ادارے رشوت کے بغیر کسی کاروبار کو آگے بڑھنے نہیں دیتے۔وہ لوگ جانتے ہیں جنہوں نے بیرون ملک سے اپنا سرمایہ پاکستان میں منتقل کرنے اور یہاں صنعتیں لگانے کی کوششیں کیں اور ان کا کیا حشر کیا گیا۔ایک چھوٹی سے فیکٹری لگانے کے لئے ریاست کے تمام اداروں کو رشوت دینی پڑتی ہے۔ایک کلرک سے لے کر ایک سیکرٹری تک سب ذاتی مفاد کے لئے سرگرداں نظر آتے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہے قومی سطح پہ صنعتیں تباہی و زوال کا شکار ہیں اگر جو موجود ہین وہ اسی کرپٹ مافیا کی ملکیت ہیں جو اسی عوام کے خزانے کو لوٹ کر مال بنا رہا ہے،جہاں تک قومی سطح پہ صنعتوں کا جال پھیلانے اور ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کا کام ہے وہ نصف صدی کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ کس قدر اس حرام خور مرکزی سیاسی نظام کے کرپٹ اداروں نے اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی کو کمزور کرنے میں کردار ادا کیا۔آج انڈیا کو شکست دینے کی بات کی جاتی ہے،انڈیا کو شکست دینے کے لئے ہمیں اپنے صنعت وتجارت کو مضبوط بنانا پڑے گا،ہمیں مینو فیکچرنگ کلچر کو پروان چڑھانا پڑے گا، تعلیمی نظام کو صنعت سے جوڑنا پڑے گا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں جب تک موجود مرکزی سیاسی نظام اپنی موجود شکل میں موجود ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب اقوام میں زوال کی اس طرح کی گھناونی شکل نمودار ہوتی ہے تو اس وقت لازم ہے کہ معاشرے کے باشعور طبقات اٹھ کھڑے ہوں اور مرکزی سیاسی نظام کے اندر انقلابی تبدیلی لانے کی جدو جہد کریں وگرنہ زوال پوری قوم کا مقدر ہو گا۔جب کبھی بھی مرکزی سیاسی نظام خرابی سے دوچار ہو جاتا ہے تو انقلاب کے بغیر اسے درست نہیں کیا جا سکتا ہے۔ماضی کی تاریخ اور عصر حاضر کے انقلابات کا مطالعہ کیا جانا چاہئے کہ کس طرح اقوام نے اپنے آپ کو زوال سے نکالا۔اگر سیاسی نظام میں جزوی خرابی ہو تو اسے اصلاح سے درست کی جا سکتا ہے لیکن جب اس نظام کے اندر اجتماعی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو پھر اسے انقلابی عمل ہی سے درست کیا جا سکتا ہے۔آج نوجوان طبقے پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انقلاب کے لئے جدو جہد کریں،انقلابی عمل نظاموں کے اندر جوہری تبدیلی لاتا ہے،کرپٹ اور ناہل گروہوں کو اداروں اور مرکزی نظام سے بے دخل کرتا ہے اور اس کی جگہ اہل اور ایماندار لوگوں کو متعین کرتا ہے۔جب نظام انسانی معاشرے کے لئے ناسور بن جائے تو اس کا آپریشن ناگزیر ہو جاتا ہے۔ عہد حاضر کی مثالوں سے ہم سبق سیکھ سکتے ہیں،چین کو دیکھئے، انہوں نے مائوزے تنگ کی قیادت میں اس فرسودہ سیاسی نظام کو نیست ونابود کر دیا جو چینی قوم کی ترقی میں رکاوٹ بنا ہوا تھا،انقلابیوں نے چین کو نیا آئیں،نیا نظام اور قوت متحرکہ دی جس کا نتیجہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ چین عالمی سطح پہ ایک بڑی قوت کے طور پہ ابھر رہا ہے۔اسی طرح شمالی کوریا، ایران وغیرہ کی مثالیں دی جا سکتی ہیں، یقینا انقلاب کے لئے ہر خطے، قوم اور قوم کا اپنا مزاج اور حالات ہوتے ہیں،لہذا ان کو ہی مد نظر رکھ کر جدو جہد کی جا سکتی ہے۔

آج نوجوانوں کی یہ ذمہ داری کہ وہ ذوق انقلاب پیدا کریں،جو نام نہاد دانشور اور میڈیا اجارہ دار گروپ عوام کو اس خوف میں مبتلا کرتے ہیں کہ انقلاب سے خون خرابہ ہو گا،تباہی ہو گی، بربادی ہو گی وغیرہ وغیرہ یہ سب اسی کرپٹ اور فرسودہ نظام کے طفیلیے ہیں جو لوگوں کے اندر خوف و ہراس پیدا کرتے ہیں، حالانکہ انقلاب قتل و غارت گری کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے ایک فرسودہ نظام کو مکمل طور پہ ایک بہتریں اور جاندار نظام سے تبدیل کیا جاتا ہے۔یہاں نظام سے مراد نظام چلانے والی ٹیمیں ہیں جونااہل اور کرپٹ ٹیموں کو بے دخل کریں گی اور ان کی جگہ سنبھا لیں گی، بعض افراد کا یہ کہنا ہے کہ یہ سب کچھ سیاسی عمل سے یعنی جمہوریت سے ہی آج کے دور میں ممکن ہے، لیکن نظام کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ کرپٹ مافیا جمہوری نظام کو ایک ہتھیار کے طور پہ استعمال کرتی ہے،جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹ کر انقلاب کے عمل کو بدنام کرتی ہے لیکن حقیقی انقلاب در اصل ریاست میں موجود گندگی کو صاف کر کے حقیقی جمہوریت کو قائم کرنے کا نام ہے، اور یہ تب تک نہیں ہو سکتا جب تک کلی طور پہ تمام ریاستی اداروں سے تمام گند ختم نہ ہو جائے، میں یہاں پہ انقلاب نام پہ کسی متشدد یا انتہا پسند تحریک کی تبلیغ نہیں کر رہا ہوں بلکہ میں اس ملک کے نوجوانوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جب تک ایک منظم اور باشعور جدو جہد کے ذریعے مرکزی سیاسی نظام کے تمام اداروں کو تبدیل نہیں کیا جاتا کسی بھی قسم کی جزوی تبدیلی سے ملک کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔

ہمیں پانی کے ٹینک سے اس چوہے کو پہلے نکالنا پڑے گا، پھر پانی صاف ہو گا““““اس وقت وطن عزیز کے ہر فرد پہ انقلاب کے لئے جدو جہد کرنا فرض ہے۔ذوق انقلاب ہی ہماری قوم کی کایہ پلٹ سکتا ہے۔جو نظام مزدور کو مناسب اجرت نہ مہیا کر سکے، جو نظام انصاف مہیا کرنے میں ناکام ہو، جو نظام معیاری تعلیم دینے میں ناکام ہو، جو نظام معاشرے کی عزت نفس کے تحفظ میں ناکام ہو چکا ہو، جو نظام جان و مال کا تحفظ نہ کر سکے تو اسے قائم رہنے کا حق نہیں۔ شاہ ولی اللہ کا قول ہے کہ جب نہ کمانے والا طبقہ کمانے والے طبقے کی کمائی پہ قابض ہو جائے تو یہ حالت انقلاب کی پیش خیمہ ہے اس وقت یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ معاشرے کا باشعور اور قومی سوچ رکھنے والا طبقہ اس ظالم نظام کے سامنے کھڑا ہو جائے۔

 

Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136289 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More