سیاست حکمت عملی کا نام ہے کہ بغیر کسی کو تکلیف دیئے اور
بغیر کسی کی حق تلفی کیئے اقتدار برائے قیام عدل و انصاف ہے۔ بدقسمتی سے
پاکستان میں نظریاتی سیاست تو دفن ہوچکی ہے۔ اب تو سیاستدانوں نے اپنے گروپ
تشکیل دے رکھے ہیں جو اپنے اپنے مفادات اور حصول دولت کے لیئے ایک لیڈر کو
معاذاﷲ خدا و رسول سے بڑھ کر درجہ دیتے ہیں۔ حصول دولت کے لیئے اقتدارمیں
آنے کے لیئے ہر جائز ناجائز ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ جس میں قومی خزانے
کی لوٹ مار، اربوں کی رشوت، جتھے کو مضبوط رکھنے کے لیئے وسائل اقتصادیات
پر قبضے کیئے یہی جرائم ہیں۔ بے شک یہ جرائم ہیں یہی سیاسی مافیا ہے۔ اپنے
سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو بہرصورت ہٹانے کے لیئے عوام کا بے تحاشا قتل،
مخالفین پر ظلم و ستم اور انکی سیاسی قوت ختم کرنے کے لیئے تمام حربے
استعمال ہورہے ہیں۔ حکومت کی ناک میں نکیل ڈالنے کی صرف عدلیہ مضبوط قوت ہے
لیکن ایک وقت تھا کہ عدلیہ بھی اس مافیا کا حصہ بنی ہوئی تھی۔ جب جسٹس سجاد
علی شاہ صاحب پر حملہ ہواتو اسلام آباد پولیس تماشائی تھی، جج صاحبان جان
بچا کر بھاگے، جہاں کچھ کا ضمیر زندہ تھا وہیں کچھ سپریم کورٹ کی کرسیوں پر
نظریں جمائے ہوئے تھا ۔ سجاد علی شاہ صاحب کی کسی نے مدد نہ کی۔ نوٹوں کے
بریف چل رہے تھے، عہدوں کی پیش کش، آنکھوں کو چکاچوند کرنے والے مناصب۔
لیکن آج سب کچھ بدل چکا ہے۔ جج صاحبان بالکل انصاف دینے پر تلے ہوئے ہیں،
ججز دلیر اور غیرتمند ہیں، ججز کے نظریات میں بڑی تبدیلی آگئی ہے ۔ اب وہ
کہتے ہیں ہم نے اﷲ کو جواب دینا ہے۔ اب ایسا کوئی نہیں جو حکمِ انصاف تحریر
کرنے کے بعد کسی کے دباؤ پر دوسرا فیصلہ تحریر کرے۔ ملک سے سیاسی مافیا کا
خاتمہ لازمی ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ جوابازوں کے اڈے کا ایک بڑا ہوتا ہے جو
جیتنے والوں سے اپنا حصہ لیتا ہے اور جو ہارجائے تو اسے قرضہ فراہم کرتا ہے۔
اسی طرح مختلف جرائم کا ایک سرپرست ہوتا ہے جس کے رابطے قانون نافذ کرنے
والے بڑے افسران، انتظامیہ، سیاستدانوں عدلیہ کے ضمیرفروشوں سے ہوتا ہے۔
ٹیم کے لوگ جرائم کرنے کے بعد سب کچھ اپنے دادا گیر کے پاس لاتے ہیں اور
اپنے حصے وصول کرتے ہیں۔ اسے ہی گاڈ فادر کہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ کام
اب سیاستدان سرانجام دے رہے ہیں۔ عوام میں کسی کو بولنے کی جرات نہیں اور
کوئی بولے تو اس کی کون سنتا ہے کیونکہ میڈیا اخبارات انکے خدامِ خاص ہیں۔
پیسے دو اخبار میں چھا جاؤ۔
ان حالات میں پاکستان کی عدلیہ ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ اﷲ جب
مخلوق کی بھلائی چاہتا ہے تووہاں ججوں کو انصاف کی توفیق دیتا ہے۔ دوسرا
شعبہ ریاست کے دفاع کا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس وقت پاکستان کی
افواج اپنے پیشورانہ امور میں مخلص ہیں اور وطنِ عزیز کے اندرونی و بیرونی
تحفظ میں اس قدر مخلص ہیں کہ عوام میں انکو 1965 والی مقبولیت حاصل ہے۔بلکہ
اس سے بھی کہیں زیادہ۔ لگتا ہے فوج کو اب اقتدار سے کوئی دلچسپی نہیں
کیونکہ اس دہ دہشت گردی کیخلاف نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ ظاہر اور چھپے
دشمنوں کے پاکستان پر حملوں کا نہائت موئثر جواب بھی دے رہے ہیں۔اس مافیا
اور گاڈفادر جتھوں کا خاتمہ کرنے کے لیئے عوام کی ذہنی تربیت ہونی چاہیئے۔
اب قوم ایسے شعور کا ثبوت دے کہ انتخابات کو نظریاتی شکل دے تاکہ پاکستان
اپنی نظریاتی اساس پر قائم ہوجائے اور آئیندہ گاڈ فادر یا مافیا نام کے لوگ
پیدا نہ ہوں۔ عوام اتنے باشعور ہوچکے ہیں اب اپنی عدلیہ اور افواج کے خلاف
کوئی بکواس سننے کو تیار ہی نہیں اور یہی بیداری امت ہے۔ |