ملک میں موسم کی گرمی کے ساتھ سیاسی گرمی میں بھی اضافہ
ہوتا جارہا ہے۔ حکومت مشکلات میں گھرتی جارہی ہے۔پاناما لیکس کا معاملہ
مزید الجھتا جارہا ہے۔مختلف ایشوز پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ٹھنی
ہوئی تھی کہ مسلم لیگ رہنما نہال ہاشمی کی جانب سے دھمکی آمیز بیان کے بعد
حکومت اور عدلیہ کے درمیان بھی تناؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ اپوزیشن کا
اعتراض ہے کہ جے آئی ٹی میں حکومت نے اپنے منظور نظر افراد کو نامزد کیا ہے،
اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے متحد ہوگئی ہے، جبکہ جے آئی ٹی کے
شریف فیملی کو طلب کر کے تحقیقات کرنے پر حکومتی ارکان بھی ناخوش ہیں، جس
کا اظہار حکومتی ارکان کے بیانات سے ہورہا ہے۔ مجموعی حالات حکومت کے لیے
خوش کن نہیں ہیں۔ اپوزیشن نے متحد ہوکر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ
کرلیا ہے۔ اپوزیشن کے پاس حکومت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے کئی ایشوز ہیں۔
بجٹ، لوڈشیڈنگ،پاناما لیکس اور نہال ہاشمی کی متنازعہ تقریر۔ اپوزیشن نے
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب کے ’مشترکہ بائیکاٹ‘ کا فیصلہ کیا۔
خطاب کے دوران ’گونواز گو‘ کے نعرے لگائے گئے اور پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر
اپوزیشن نے اپنی الگ سے پارلیمنٹ لگا ئی۔ پارلیمنٹ متحدہ اپوزیشن کی
پارلیمانی جماعتوں کااجلاس ہوا، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک
انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی پاکستان، عوامی نیشنل پارٹی دیگر
اپوزیشن جماعتوں و آزاد اراکین نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر
خورشید شاہ کے سٹاف کے ذریعے وفاقی وزراء زاہد حامد، خواجہ سعد رفیق اور
شیخ آفتاب احمد پر مشتمل حکومتی مذاکراتی ٹیم کی طرف سے ملاقات کا پیغام
بھجوایا گیا، تاہم اپوزیشن رہنماؤں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل
حکومت سے مذاکرات سے انکار کردیا۔ اجلاس میں اپوزیشن میں قریبی رابطوں اور
بجٹ سیشن میں ہم آہنگی کے ساتھ مختلف ایشوز پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا
فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کے بعد پلے کارڈز اٹھائے اور گو نواز گو کے نعرے
لگاتے ہوئے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپوزیشن ارکان اکٹھے ایوان میں آئے۔
پاکستان کے آئین کے تحت پارلیمان کا نیا سال صدر کے خطاب سے شروع ہوتا ہے۔
موجودہ جمہوری دور میں حکومت کے ابتدائی دوسال میں صدر کا خطاب بہتر انداز
میں ہوا، لیکن اس کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس برس بھی پارلیمانی
سال کے آغاز پر اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے ’گو نواز گو‘ کے نعروں اور واک
آؤٹ کے دوران صدر مملکت ممنون حسین نے خطاب کیا۔ یہ صدر مملکت کا موجودہ
پارلیمنٹ سے چوتھا خطاب تھا، جس میں وزیراعظم نواز شریف، وفاقی کابینہ کے
ارکان، مسلح افواج کے سربراہان، صوبوں کے گورنرز، وزرائے اعلیٰ اور سفارت
کاروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ صدر ممنون حسین نے اپنے خطاب میں حکومت کی
کارکردگی کی توصیف کرتے ہوئے کامیابیوں کا تذکرہ تو کیا، لیکن جن مسائل اور
معاملات پر حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کا قطعی ذکر نہیں
کیا۔ ان کے خطاب کے دوران اپوزیشن کی جانب سے مسلسل نعرے بازی کا سلسلہ
جاری رہا، جبکہ کئی اراکین واک آؤٹ کرگئے۔ دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ
رہنما پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) خورشید شاہ نے کہا کہ صدر ممنون حسین
کو پارلیمنٹ میں جن معاملات پر بات کرنی چاہیے تھی، ان پر انہوں نے کوئی
بات نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مسئلوں کو سڑکوں پر نہیں پارلیمنٹ
میں حل کرنا چاہتے تھے، جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ ہم پارلیمنٹ کی بجائے ان
مسئلوں کو سڑکوں پر لے جائیں۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا
کہ حکومت بھی نہیں چاہتی تھی کہ اپوزیشن اطمینان سے صدر کا خطاب سنے۔ صدر
نے کرپشن کے خلاف حکومت کو نہ ہی کسی قسم کی نصیحت کی، نہ تنبیہ کی اور نہ
ہی اس کا نوٹس لیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے بدھ کو بھی قومی اسمبلی کے
اجلاس کا بائیکاٹ جاری رکھتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پارلیمنٹ لگا ئی،
جس کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر قالین اورکرسیاں لگائی گئیں۔ یہ احتجاج
قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران حزب اختلاف کے رہنماؤں کا اظہار خیال
سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشر نہ کرنے کے خلاف تھا۔ عوامی اسمبلی میں
پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، بی این پی عوامی اور
عوامی مسلم لیگ کے ارکان نے شرکت کی۔ اپوزیشن ارکان نے کہا کہ ملک میں پانی
ہے نہ بجلی، حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ عوام نے بجٹ کو بھی مسترد کردیا ہے۔ بجٹ
میں وزیر خزانہ نے عوام کو دھوکا دیا۔ حکومت اپنے مفادات کا سوچتی ہے۔
حکومت اپوزیشن کا منہ بند کرنا چاہتی ہے، جس پر ہم نے عوامی اسمبلی لگائی
ہے۔ اس دوران حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو منانے کے لیے محمود خان اچکزئی
کی قیادت میں وفد بھیجا گیا، مگر اپوزیشن کو منانے میں ناکام رہا۔تجزیہ
کاروں کے مطابق حکمران جماعت کے حالیہ اقدامات اپوزیشن کو ایک دوسرے سے
ہاتھ جوڑنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ایسے وقت جب حکومت کو کشیدگی کے خاتمے
کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، وہ اسے یکجا کرنے اور قریب لانے ہی میں معاون
و مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ نجی میڈیا کے دور میں پی ٹی وی پر اپوزیشن کا
’’بلیک آؤٹ‘‘ کر کے حکومت نے کیا حاصل کیا ہے؟ بعض سیاسی رہنما ’’نوازشریف
ہٹاؤ‘‘ پراتحاد کے لیے کام کررہے ہیں۔ وزیراعظم جن کا بیٹا جے آئی ٹی کے
سامنے پیش ہے، وہ پہلے ہی سے دباؤ میں ہیں۔ دوسری جانب پورے ملک میں طویل
دورانیہ کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے باعث سندھ اور خیبر پختونخوا میں
ہنگامے پھوٹ پڑے اور امن وامان کا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ جماعت اسلامی کراچی
میں یوم سیاہ کی کال بھی دے چکی ہے۔ اندرون سندھ پیپلز پارٹی سڑکوں پر ہے
اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف رائے عامہ کو متحرک کر رہی ہے۔ رمضان
المبار ک کے دوران لوڈشیڈنگ تو اپوزیشن کے حق میں جا رہی ہے۔
دوسری جانب نہال ہاشمی کے بیان کے بعد عدلیہ اور حکومت کے درمیان تناؤ بھی
بڑھتا جارہا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق اطلاعات ہیں کہ جے آئی ٹی اس دوران
وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو بھی طلب کر سکتی ہے، جے
آئی ٹی کو آئندہ 40 دنوں میں اپنا کام مکمل کرنا ہے۔ اس دوران ضرورت پڑنے
پر نوازشریف کو طلب کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم کے ایک قریبی معاون نے بتایا
کہ وزیراعظم خود عدالت عظمیٰ یا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے لیے آمادہ
ہیں، لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس ایشو پر بٹی ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں کے
دوران حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اس کے وفاقی اور صوبائی وزرآ اور رہنماؤں
نے جے آئی ٹی کے مبینہ رویہ پر نہایت جارحانہ ردعمل کا اظہارکیا۔ پارٹی
رہنماؤں کے لب و لہجے پر خود وزیراعظم نوازشریف کو مداخلت کرنا پڑ گئی۔ ن
لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی کے بیان کے بعد اداروں کے ٹکراؤ کی طرف بڑھتا
دکھائی دے رہا ہے۔ نہال ہاشمی نے بیان کے دوران شریف فیملی کا احتساب کرنے
والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آج حاضر سروس ہو کل ریٹائر ہوجاؤ گے‘‘
’’تم، تمہارے بچوں اور تمہار ے خاندان کیلئے زمین تنگ کردیں گے۔‘‘، جس پر
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ لہجہ، یہ انداز اور یہ پیغام نہال ہاشمی کا نہیں
ہوسکتا۔ پی پی پی کے رہنما اعتزاز احسن نے نہال ہاشمی کے واقع پر گفتگو
کرتے ہوئے کہا کہ اسے جو لائن ملی تھی، اس نے ویسا ہی بیان کیا، تاہم جوش
خطابت میں کچھ زیادہ ہی بول گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی سازش ہے
کہ جے آئی ٹی کو متنازعہ بنایا جائے اور سپریم کورٹ کو دباؤ میں لیا جائے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نبیل گبول نے کہا کہ جے آئی ٹی میں مریم نواز کو بھی
طلب کیا جائے گا اور اس کے بعد آخری سمن وزیر اعظم کو جائے گا۔ جے آئی ٹی
کی جانب سے وزیر اعظم کو سمن جاری ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کے ورکرز کا رد
عمل کیا ہو گا، اس بات کو لے کر میں ڈر گیا ہوں۔ خواجہ آصف نے جو پوسٹرز
لگائے اور نہال ہاشمی نے جو بیان دیا، مجھے ڈر ہے کہ یہ کہیں سپریم کورٹ پر
دوبارہ حملہ تو نہیں کرنے والے؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب فری فار آل ہو جائیں
گے اور جس طرح انہوں نے سجاد علی شاہ کے ساتھ کیا تھا اور سپریم کورٹ پر
چڑھائی کی تھی، وہی دوبارہ ہو گا۔ نبیل گبول نے مزید کہا کہ ن لیگ کی حکومت
تو رہے گی، لیکن جون کے آخر تک نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔
ن لیگ کے سابق رہنما نہال ہاشمی کی متنازع تقریر کے بعد عدالت کی طرف سے
بھی حکومت کو سخت ریمارکس کا سامنا کرنا پڑا، جس پر حکومت نے بھی سخت ردعمل
دیا۔ نہال ہاشمی کے معاملے پر بنچ کے تینوں ارکان سخت برہم دکھائی دیے۔
عدالت نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں ججز کودھمکیا ں دی جارہی ہیں،
لیکن وہ ڈرنے والے نہیں ہیں۔ جسٹس سعیدعظمت نے اٹارنی جنرل کوطلب کرکے
کہاکہ یہ آپ کی حکومت ہے۔ یہ سب کچھ آپ کی حکومت کررہی ہے۔ جسٹس عظمت
سعیدنے کہا کہ ہم نے فوجی حکومت کے ادوار بھی دیکھے ہیں، ہمارے خاندان اور
بچوں کو کبھی فوجی حکمرانوں نے بھی دھمکی نہیں دی۔ عدالت نے کہا کہ نہال
ہاشمی کی آواز میں کوئی اور بول رہا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دو
دن تک یہ تقریر سامنے نہیں آئی تو حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہ
ہمارے ملک کی حکومت ہے، جو ہم کو دھمکیاں د ے رہی ہے۔ جسٹس عظمت سعیدنے
اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مبارک ہو اٹارنی جنرل صاحب آپ کی
حکومت نے سسلین مافیا کو جوائن کرلیا۔ عدالت نے کہا کہ جو بھی عدلیہ کی
تضحیک کرے گا، اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ حکومت ہمارے لیے مسائل پیدا
کر رہی ہے۔ حکومتی ترجمان نے کہا کہ دوران سماعت اٹارنی جنرل کوطلب کرکے
حکومت کو سسلین مافیا اور اٹارنی جنرل کو ان کا ایجنٹ کہنا افسوسناک ہے۔
نقادوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کے اپنے کیمپ کے اندر ایک خاص نقطہ نظر پنپ
رہا ہے اور نہال ہاشمی اس کو عیاں کررہے تھے۔ دوسری طرف ایک خیال یہ بھی ہے
کہ نواز شریف کے کیمپ کے اندر یہ فیلنگ کم از کم موجود ہے کہ کسی نہ کسی
طریقے سے ان کے گرد گہرہ تنگ ہوتا چلا جارہا ہے۔مذکورہ سیاسی کارکن پانامہ
انکشافات کے حوالے سے جاری قانونی کارروائی سے خاصے پریشان تھے اور سپریم
کورٹ کی قائم کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں وزیراعظم کے صاحبزادوں کی
طلبی انہیں سخت ناگوار گزری، حالانکہ اس سے پہلے بھی وزیراعظم میاں نواز
شریف سمیت کئی وزرائے اعظم قانون کی بالادستی پر اپنے یقین و اعتماد کا
اظہار عدالتی نوٹسوں پر ججوں کے سامنے پیش ہوکر کرتے رہے ہیں۔ اس عمل سے ان
کے وقار اور احترام میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہوا۔بہرحال جے آئی ٹی کے
حوالے سے وٹس ایپ کی کال کا ذکر اور اس حوالے سے شائع ہونے والا خط عدلیہ
کے لیے ایک براہ راست چیلنج ہے کہ موجودہ حالات میں معزز ادارے کی ساکھ کا
سوال اٹھ گیا ہے، لیکن دوسری طرف نہال ہاشمی کا بیان بھی کوئی کم خطرے کی
گھنٹی نہیں۔ |