تنازعہ جموں و کشمیر پرانے حل طلب عالمی تنازعات میں سے
ایک ہے جسے موجودہ وقت میں بھی سمجھنے کیلئے اسکی بنیاد کو جاننا ضروری ہے۔
متحدہ ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت ہاہ دراصل گرتی ہوئی خالصہ پنجاب
سلطنت کے ملبے میں سے تعمیر ہوئی تھی جب 1845-46 میں برطانوی ایسٹ انڈیا
کمپنی اور خالصہ پنجاب سلطنت کے درمیان جنگ میں پنجاب کی شکست کے بعد ایک
کڑوڑ تاوان جنگ کے بدلے ہزارہ ،کشمیر اور ملحقہ کوہستانی علاقے9 مارچ 1846
کے معاہدہ لاہور میں انگریز کمپنی بہادر کو منتقل ہوئے جو بعدازاں جموں کے
راجہ گلاب سنگھ کی طرف سے پچھتر لاکھ تاوان جنگ کی ادائیگی کی رضامندی پر
16مارچ 1846 کے معاہدہ امرتسر میں جموں میں شامل کئے گئے اور یوں ڈوگرہ راج
کیساتھ کثیرالمذہبی، کثیر ثقافتی و لسانی مشترک سیاسی اکائی یعنی متحدہ
ریاست جموں کشمیر واقصائے تبت ہاہ کا وجود تخلیق کیا گیا جو بعدازاں لداخ،
بلتستان، استور، گلگت۔ ہنزہ، نگر اور چترال تک پھیل گئی اور تین تہذیبوں کی
تین سلطنتوں کا سنگم بنی جس کے ا طراف میں چین، ہندوستان، روس و افغان واقع
تھے۔ ڈوگرہ شاہی نے اپنی جغرافیائی سرحدوں کو مستحکم کرتے ہوئے ایک صدی تک
باقی ہندوستانی ریاستوں کیطرح مطلق العنان شخصی راج قائم کیا جس میں منفی و
مثبت پہلو نمایاں رہے ہیں۔
1947 کی تقسیم ہند میں تاج برطانیہ نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر برطانوی
ہند کے مسلم اور ہندو اکثریتی علاقوں پر مشتمل باالترتیب پاکستان و انڈیا
(بھارت) جبکہ ساڑھے پانچ سو سے زائد شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کو اختیار
دیا کہ وہ اپنے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک میں سے کسی ایک
کیساتھ شامل یا اپنی علیحدہ آزادحیثیت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ برطانوی ہند کے
اس ہنگامی، انتشاری اور فرقہ ورانہ سیاسی اثرات کو ریاستوں میں محسوس کیا
جانا طے تھا اور ریاست جموں و کشمیر میں مذہبی سیاست 1931سے تنوع پاکر اب
مضبوط ہو چکی تھی ۔ ان نازک حالات میں ریاست ( جموں و کشمیر) کے سیاسی
میدان میں تین مضبوط کردار اپنے سیاسی افکار کیساتھ سامنے آئے۔ وادی کشمیر
کے مقبول ترین مسلم رہنمااور نیشنل کانفرنس کے سربراہ شیخ عبداﷲ جو
جون1946میں کشمیر چھوڑ دو تحریک
(Quit Kashmir) میں معاہدہ امرتسر کی تنسیخ کیساتھ وادی کشمیر کا جموں سے
علیحدگی کا مطالبہ کر چکے تھے اور اب انڈین نیشنل کانگرس کے سپاہی بنتے
ہوئے بھارت سے الحاق کے سالار بننے کے خواہشمند تھے (جو بعدازاں لمبا عرصہ
اقتدار پر براجمان رہے)۔ دوسرے مسلم کانفرنس کے رہبرچوہدری غلام عباس جو
صوبہ جموں کے اکثر مسلمانوں کے رہنما اور ریاستی سیاست میں آل انڈیا مسلم
لیگ کی نمائندگی اور مسلم اکثریتی بنیاد پر ریاست کا مستقبل پاکستان کیساتھ
جوڑنے کے خواہاں تھے (بعد از تقسیم آزاد کشمیر کے اقتدارمیں حصہ داررہے)۔
تیسرا اہم کردار ریاستی حکمران مہاراجہ ہری سنگھ تھے جو ریاست کی متفرق
آبادی کے تناظر میں ریاست کی خودمختاری کے تو حامی تھے تاہم ریاست کے
اندرونی و بیرونی سیاسی دباو سے پریشان خودمختاری کا اعلان نہ کرسکے اور
نوزائیدہ پاکستان و بھارت کو معاہدہ قائمہ ((Stanstill Agreement کی پیشکش
کی جسے صرف پاکستان نے قبول کرلیا تاہم سول و فوجی ریاستی انتظامیہ کے حاضر
و ریٹائرڈ ملازمین اور موقع و مفاد پرست سیاستدانوں کی معاونت سے 22
اکتوبر1947کو پاکستانی علاقوں سے ہونے والی قبائلی یلغار نے اس معاہدہ
قائمہ کی خلاف ورزی کی۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کی حفاظت اور قبائلی
حملہ آوروں کے انخلا کیلئے درکار فوجی امداد کے حصول میں 26 اکتوبر 1947
کوریاست کا بھارت کیساتھ تین امور( دفاع، خارجہ و مواصلات) پر مشروط الحاق
کیا جس کا حتمی فیصلہ عوامی استصواب رائے سے طے کیا جانا تھا (مہاراجہ نے
1952میں شاہی نظام کے خاتمے پرباقی زندگی جلاوطنی میں گزاری) ۔ یکم
نومبر1947کو گلگت سکاوٹس نے انگریز افسر میجر ولیم براون کی قیادت میں گلگت
میں ریاستی مشینری پر قبضہ کر لیا اور حکومت پاکستان کو علاقہ کا کنٹرول
سنبھالنے کی دعوت دے دی۔ یوں اپنے قیام کے دوران ہی پاک بھارت جنگ نے دونوں
ممالک کے درمیان مستقبل کے تعلقات کا نقشہ کھینچ دیا۔ یکم جنوری1948کو
بھارت اقوام متحدہ میں شکایت لیکر پہنچا اور یوں تنازعہ جموں و کشمیر کا
ظہور ہوا۔ اقوام متحدہ نے بطور غیرجانبدارثالث ریاستی مستقبل کے تعین
کیلئیجنگ بندی، فوجی انخلا اور رائے شماری کی قراردادوں کیساتھ مذاکراتی
عمل شروع کیا جس کے نتیجے میں27جولائی1949کے کراچی معاہدہ امن میں دوطرفہ
جنگ بندی کے اعلان اور جنگ بندی لکیر(جوشملہ معاہدہ 1972 میں کنٹرول لائن
بنی) کے تعین کیساتھ ریاست اور خاندانوں کو بھی تقسیم کر دیا گیا۔ یوں اس
خونی لکیر سے ریاست جموں وکشمیر دراصل پاکستان و بھارت کے زیر انتظام دو
جغرافیائی اور سرینگر، مظفرآباد اور گلگت پر مشتمل تین انتظامی اکائیوں میں
تقسیم کر دی گئی۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر (سرینگرانتظامیہ) کو مقامی
اسمبلی، جھنڈے اور آئین کیساتھ خصوصی حیثیت دی گئی مگر وقت کے ساتھ ساتھ
دہلی مرکز نے تمام امور پر گرفت حاصل کر لی ہے۔ مہاراجہ کی جانشین کہلانے
والی آزادکشمیر انتظامیہ (مظفرآباد)کے بظاہرخدوخال ہی ریاست جیسے ہیں جبکہ
گلگت بلتستان کا مکمل کنٹرول نومبر 1947ہی سے وفاق (پاکستان) کے پاس رہا
ہے۔ جس کو سیاسی و اخلاقی چھتری حکومت پاکستان و حکومت آزاد کشمیر کے
درمیان 28اپریل 1949کو ہونے والے سمجھوتہ کراچی میں دے دی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کی کوششوں کے باوجود باہمی عدم اعتماد کیوجہ سے پاک و ہند
تنازعہ کشمیر کے حتمی حل تک نہیں پہنچے اور نتیجہ1965 ، 1971 اور 1999
(کارگل) جنگ اور تاشقند و شملہ معاہدات و متعدددوطرفہ اعلامیہ جات کے
باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعلقات تناو ہی کا شکار رہے ہیں۔ تنازعہ جموں
کشمیر کے تصفیہ میں تاخیر نے دونوں ممالک اور متنازعہ و منقسم ریاستی حصوں
میں دیگر کئی اہم تنازعات کو پروان چڑھایا جن کا مختصر جائزہ ہی اس تحریر
میں مقصود ہے۔
بھارتی زیر انتظام وادی کشمیر ریاستی سیاست میں ہمیشہ سرفہرست رہی ہے یہی
وجہ ہیکہ تنازعہ کشمیر کی ابتدا سے ہی وہاں کی سیاست میں اقوام متحدہ میں
کئے گئے رائے شماری کے وعدے پر عمل درآمد کا مطالبہ شامل رہا ہے۔ فروری
1984میں مقبول بٹ کی تہاڑ جیل میں پھانسی نے وہاں مزاحمتی سیاست کو مہمیز
کیا اور خاص کر1987کے ریاستی انتخابات میں دھاندلی نے ان سیاسی گروہوں کو
بھی مسلح جدوجہد پر مجبور کر دیا جو اس انتخابی عمل کا حصہ تھے۔ مسلح
جدوجہد کو کچلنے کیلئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے بے دریغ طاقت کا
استعمال کرتے ہوئے قید وبند، تشدد، اغوا و حبس بیجا، عصمت دری اور قتل و
غارت جیسے غیر قانونی و غیراخلاقی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا جس سے وادی کا
ہرگھر متاثر ہوا جس سے وہاں سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو
کر رہ گیا۔ دوسری طرف کسی مرکزی متفقہ مزاحمتی قیادت کی عدم موجودگی،بیرونی
مداخلت اور پنڈتوں کی نقل مکانی نے ایک جائز سیاسی تحریک کو فرقہ ورانہ اور
علاقائی تحریک میں بدل دیاجس سے وہاں جموں اور لداخ کٹ کر رہ گئے اور دائیں
بازو کے سیاسی گروہوں کو پزیرائی ملی اور نتیجہ2014کے انتخابات میں پی ڈی
پی(PDP) کی 28 نشستوں کے مقابلے میں بی جے پی (BJP) کی 24نشستوں پر کامیابی
کیساتھ ریاستی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت بن کر سامنا آنا ہوا ہے۔ بی جے
پی نے عوام کو جموں کی کشمیر سے علیحدگی اور خصوصی حیثیت کے خاتمے پر انڈیا
میں مکمل ادغام کا جھوٹا جھانسہ دے رکھا ہے جبکہ جموں و لداخ دونوں متنازعہ
ریاست کا ہی حصہ ہیں۔لداخ میں بھی وادی کشمیر کی انتظامی بالادستی کے خلاف
آواز پائی جاتی ہے اور وہ اپنے لئے علیحدہ یونین ٹیرٹری کا مطالبہ کرتے
ہیں۔ جموں کی آبادی تقریباٌ 5350811اور وہ اس طرف 26 فیصد علاقے پر مشتمل
ہے، اسی طرح لداخ 58 فیصد علاقے کیساتھ تین لاکھ کے قریب بدھ اور مسلمان
تقریباٌ مساوی آبادی پر مشتمل ہے جبکہ وادی کشمیر علاقے میں تقریباٌ سولہ
فیصد اور کثیر آبادی انہتر(69) لاکھ سے زائد ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کا ریاستی علاقہ آزاد کشمیر اور گلگت
بلتستان نام سے دو انتظامی اکائیوں پر مشتمل ہے۔ دونوں اکائیوں میں دو الگ
الگ قانون ساز اسمبلیاں اور کونسل موجود ہیں جبکہ تمام اہم امور وفاقی
وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کی مشاورت سے چلائے جاتے ہیں۔ دونوں
متنازعہ اکائیوں کے درمیان سڑک کا رابطہ موجود نہیں البتہ مستقبل میں نیلم
اور استور کو بذریعہ سڑک جوڑنے کا منصوبہ متوقع ہے۔ اٹھائیس ہزار ( 28000)
مربع میل اور تقریباٌ پندرہ لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل شمالی علاقہ جات (
گلگت بلتستان) تزویراتی اہمیت کا حامل وہ علاقہ ہے جو پاکستان اور چین کے
درمیان واحد زمینی رابطہ اور قراقرم ہائی وے اور مستقبل میں چین پاک
راہداری منصوبہ کا گیٹ وے بھی یہی خطہ ہے۔ نومبر1947سے ہی گلگت اور بلتستان
ایجنسی کا یہ علاقہ ایف سی آر ( FCR) قانون کے مطابق برائے راست وفاقی
حکومت کے زیر انتظام رہا ہے۔1972 کی اصلاحات کے بعد وہاں سیاسی و انتظامی
ترقی کو فروغ ملا اور وفاق کی طرف سے امپاورمنٹ آرڈر2009کے بعد اس خطے
کوعبوری صوبائی حیثیت بھی دے دی گئی ہے۔ گلگت بلتستان کا سیاسی و سماجی
ڈھانچہ بھی علاقائی اور شدید فرقہ ورانہ تقسیم کا شکار ہے۔ عوام علاقہ کی
غالب اکثریت اپنا حال و مستقبل پاکستان کیساتھ جوڑتے ہیں،کچھ قابل ذکر
سیاسی و سماجی گروہ علاقے کو متنازعہ ریاست (جموں و کشمیر) کا تاریخی اور
آئینی حصہ مانتے ہیں جبکہ چند دیگرگروہ گلگت بلتستان کا مستقبل الگ
خودمختار ریاست کی شکل میں بھی دیکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان کا خاصا پڑھا لکھا
طبقہ پاکستان کے مختلف شہروں(خصوصاٌ کراچی) میں مقیم ہے جو علاقے میں
سماجی، سیاسی اور معاشی ترقی کے خواہشمند ہیں تاہم اپنے علاقوں میں ایسی
عملی سیاسی سرگرمیوں سے گریزاں ہیں۔
دوسرا حصہ آزاد جموں کشمیر یا آزادکشمیر محض پانچ ہزار مربع میل لیکن کثیر
آبادی چھیالیس ((46 لاکھ کے قریب ہے۔ آزاد کشمیر مسلسل سیاسی سرگرمیوں کا
مسکن ہے اور اسی سیاست نے سیاسی وسماجی ڈھانچے کی شدید قبیلائی (برادری
ازم) تقسیم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیاسی و حکومتی نظام پر پاکستان نواز
یا پاکستان ہی کی سیاسی جماعتوں کا اثر و رسوخ ہے اور اس کے علاوہ متعدد
فشاری گروہ ہیں جو ایک دوسرے کے مد مقابل ترقی پسند و قوم پرست نظریات
رکھتے ہوئے جغرافیائی وحدت کیساتھ اسی15 اگست 1947 کی حیثیت میں متحدہ
خودمختار ریاست کی بحالی کو منزل مقصود مانتے ہیں۔ ایسے اکثر گروہ آزاد
کشمیر کے پسماندہ سیاسی و انتظامی ڈھانچے سے لاتعلقی اورکسی بڑے لائحہ عمل
کی عدم موجودگی میں بیس کیمپ آزاد کشمیر کی باقی سیاسی جماعتوں کیطرح
سرینگر کی تحریک آزادی کشمیر کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور یوں آزادکشمیر کی
اقتداری اور ترقی پسندسیاست سرینگر میں ہونے والے حادثات پر مکمل انحصار
کرتی ہے حالانکہ آزادکشمیر خود روزمرہ امور میں شدید پسماندہ اور بنیادی
ترقی کا متقاضی ہے۔ آزاد کشمیر کے دس لاکھ سے زائد تارکین وطن یورپ و
امریکہ میں مستقل آباد ہیں جنکی گروہ بندسیاسی سرگرمیاں آزاد کشمیر سے مکمل
ہم آہنگ ہیں اسی لئے بیرونی دنیا میں تنازعہ کشمیرپر مثبت حمایت حاصل کرنے
کی متحمل ثابت نہیں ہوسکیں ہیں۔
منقسم و متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے مختلف حصوں کے اس سیاسی و سماجی جائزہ
کے بعد یہ جاننا مشکل نہیں کہ یہ تمام علاقے اور عوام دراصل اس مشترکہ
تنازعہ کشمیر کے متاثرین ہیں جس نے متنازعہ خطوں میں ایسے دیگر تنازعات کو
جنم دیا ہے جو علاقوں اور گروہوں میں تقسیم ہو کراپنے اپنے راستوں کے
متلاشی ہو گئے ہیں حالانکہ کسی بھی متنازعہ حصے کیلئے انفرادی طور پر اس
تنازعہ سے نکلنے کا کوئی راستہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ
متنازعہ ریاست کے اندر ریاستی سطح کی کبھی کوئی قومی تحریک کبھی ابھر ہی
نہیں سکی ۔ 1947میں جغرافیائی ریاست کیساتھ خاندان تقسیم ہوئے جو دریاوں کے
آرپار اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ کرغمی خوشی کے موقع پر بے
بسی کے آنسو بہاتے ہیں، دونوں طرف عوام سیاسی و معاشی حقوق اور بنیادی
سہولیات سے بھی محروم ہیں،حد متارکہ کے دونوں جانب مقامی حکومتیں بے اختیار
ہیں اور بیروزگاری سے مجبور لوگ پردیس کا رخ کرتے ہیں، وادی کشمیر میں
روزمرہ تشدد اور ہزاروں شہدا کے خون کی پکار بھی اقوام عالم تک نہیں پہنچتی
جبکہ مزاحمتی قیادت کا کردار مشکوک ہو کر رہ گیا ہے۔ ان حالات میں تبدیلی
کیلئے ضروری ہے کہ متنازعہ و منقسم خطوں کے متاثرین باشندگان ریاست اندرونی
تفرقات کو پس پشت ڈالتے اور سب کی مساوی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوتے ہوئے اس
تنازعہ کے حصہ دار اور ایک مشترکہ ریاستی سطح کی آواز بنیں۔ بھارتی زیر
انتظام جموں ولداخ بھی اتنے ہی محروم و متنازعہ ہیں جتنا وادی کشمیر اور
قانونی طور پر انکے پاس بھی کوئی الگ حیثیت ممکن نہیں ہے تو حق خودارادیت
کی پرامن سیاسی جدوجہد میں وہ بھی وادی والوں کیساتھ برابر کے شراکت
داربنیں، اسی طرح آزاد کشمیر و گلگت بلتستان بھی مشترکہ تنازعہ کے برابر
حصہ دار ہیں تو انکو بھی کسی مشترک نقطے پر جڑنا ہوگا کیونکہ ان دونوں خطوں
کو بھی بہرحال ایسے با اختیار سیاسی و انتظامی ڈھانچے کی ضرورت ہے جہاں سے
وہ وادی کشمیر کے مظلوم عوام کی بہترسیاسی و اخلاقی حمایت بھی کر سکتے ہیں۔
متنازعہ ریاست کے دونوں جانب کے تارکین وطن گروہی سیاست کو ایک طرف رکھتے
ہوئے ، تنازعہ کے فریقین ممالک کی طرفداری یا انکے سفارتی دفاتر سے ہدایات
کے بغیر صرف حق خودرادیت جیسے یک نکاتی ایجنڈے پر مغربی ممالک کے نمائندگان
کی سفارتی حمایت حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ جانبدار گروہوں کی دو طرفہ پشت
پناہی سے مغربی ادارے اور نمائندگان بھی بخوبی واقف ہیں۔
پاکستان و بھارت دونوں مخالف ایٹمی طاقتیں ہیں اور تنازعہ کشمیر پر تناو نے
دونوں ممالک کیساتھ پورے جنوبی ایشیا کو جنگ کے خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان اسلحے کی دوڑ کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہوا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اب سہہ فریقی مذاکرات کا دروازہ کھولا جائے کیونکہ
ستر سال سے التوا میں پڑے تنازعہ کے پرامن اور دونوں فریقین کیساتھ ریاستی
عوام کیلئے قابل قبول تصفیے میں بھی دونوں ممالک اپنے اپنے قومی مفادات کا
تحفظ کر سکتے ہیں کہ جس سے پورے خطے میں ترقی و خوشحالی کی راہیں ہموار ہو
سکتی ہیں۔ اگر دونوں فریقین غیرموثر سرحدات ، ریاست جموں و کشمیر پرمشترکہ
انتظام پر مذاکرات اور اپنی مستقل سرحدوں پر گلدستوں، مٹھائیوں کا تبادلہ
کر سکتے ہیں تو عارضی حدمتارکہ (کنٹرول لائن)کے دونوں جانب عوام کو بھی
آرپار آگ اگلتے بارود سے نجات دیں ، باشندگان ریاست کو متنازعہ ریاست کے
اندر نقل و حمل، تجارت اور آپسی میل ملاپ کی آزادی دی جائے۔ متنازعہ جموں و
کشمیر کے دونوں حصوں کے عوام اس ریاست، پاک و ہند اور پورے خطے میں امن و
خوشحالی کے خواہشمند ہیں لہذا اب وقت و حالات کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک
اس خونی تنازعہ کے تصفیہ کی طرف فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھیں اور متنازعہ
خطوں کو غیر فوجی علاقہ قرار دیتے ہوئے دونوں اطراف سے فوجی انخلا کا
آغاذکریں کیونکہ پاک وہند سمیت پورے جنوبی ایشیا ئی خطے کا امن، ترقی،
خوشحالی اور روشن مستقبل کسی حتمی فیصلے (تصفیہ ) کا منتظر ہے۔
|