آہ بابا تناول تیرا تناول مایوسی کا شکار ہے جس تناول کے
لوگوں کو تم نے شعور اور سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ دیا وہ قوم تمہارے جانے
کے بعد اب پھر سے غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے سیاسی چپقلیشیں ،غلامانہ
سوچ ،مذہبی تفرقہ بازی،منشیات کا اازادانہ استعمال،تعصبانہ سوچ،کرائم کا
بڑھتا ہوا رحجان بابا تناول کے خواب کے بالکل برعکس ہے وقت کی ستم ظریفی
دیکھیں کہ جب تناول کے عوام تنولی کہلانے کو اپنے لیئے گالی تصور کرتے تھے
اس وقت قدرت کو اس مظلوم اور نوابوں کی غلامی کے پسے ہوئے اس جری جفاکش اور
سادہ دل لوگوں کے مسیحا کے روپ میں یوسف تنولی مرحوم کو نجات دھندہ بنا کر
بھیجا جس نے امریکہ کی عیش و عشرت والی زندگی ٹھکرا کر اپنے آپ کو تنولی
قوم کی خدمت کے لیئے پیش کر دیا بزرگ کہتے ہیں کہ جس دن انہوں نے امریکہ
جانا تھا سارے برادری والے دوست احباب جمع تھے ان کو الوداع کہنے کے لیئے
سارا خاندان آیا ہوا تھا یہ اس دور کی بات ہے جب لاہور کراچی کو بھی کوئی
محنت مزدوری کے لیئے جاتا تھا تو اس کو گاڑی تک چھوڑنے کے لیئے پورا گاؤں
ساتھ جاتا تھا رہی امریکہ کی بات تو اس پورے علاقے سے صرف مرحوم بابا تناول
امریکہ گئے تھے اور وہاں جا کر اچھے سٹیل ہو گئے تھے مگر جس دن واپس امریکہ
جانا تھا اچانک انہوں نے ایک بہت بڑا فیصلہ کیا سب برادری رشتہ داروں کو
کہا کہہ میں وہاں عیش و عشرت کی زندگی گزاروں اور میرے تناول کے لوگ دو وقت
کی روٹی کو بھی ترس رہے ہیں تعلیم کا نام تک نہیں ہے میں کیسے اپنی قوم کو
تن تنہا نوابون خانوں اور جاگیرداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر عیش کی زندگی
گزاروں اور میرے تناول کے مظلوم لوگ ظالموں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں میں
آج امریکہ کی زندگی کو اپنے تناول کے باسیوں کے لیئے جوتے کی نوک پر رکھتا
ہوں انکے اس فیصلے پر لوگ حیران رہ گئے ااکر انہوں نے تناول کے لوگوں کو
جبر سے آزادی دلوانے کی مہم کا بیڑا اٹھایا اور کروڑوں اربوں کی مالیت کا
مالک تناول کی خاطر سادہ و فقیرانہ زندگی گزارنے لگا اپنی ساری خواہشات کو
مار کر جو پیسہ امریکہ سے ساتھ لیکر آئے تھے اس پیسے سے سب سے پہلے پڑھنہ
پھلڑہ شیرگڑھ روڈ تعمیر کروائے ہر فورم پر جا کر تناول کے حقوق مانگے حکومت
وقت اور نوابوں کو انکی یہ صدا بری لگی پہلے انکو ضلع بدر کیا مگر بابا
تناول کہاں اپنے مشن سے ہٹنے والے تھے وہ آگے ہی آگے بڑتے گئے پھر انکو
ڈویژن بدر کیا گیا وہ راولپنڈی چلے گئے وہاں بھی انکو تناول کے حقوق مانگنے
کی سزا دی گئی پنجاب سے بھی انکو نکالا گیا تو کراچی چلے گئے مگر انہوں نے
اپنا مشن جاری رکھا قید و بند کی صحبتیں برداشت کیں مالک و مزیرا کا کیس
لڑا اس دوران انکو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پرا مگر انہوں نے تناول کی
مظلوموں کی خاطر ہر مشکل کا بڑی جواں مردی اور بہادری سے مقابلہ کیا اور
جہاں جہاں سے انکو نکالا گیا وہاں کے تنولی باشندوں کو شعور منتقل کرتے گئے
اور آگئے بڑھتے گئے ۔بابائے تناول نے اس دوران جو تکالیف برداشت کیں وہ صرف
انکا ہی خاصہ تھا راقم یہ تحریر لکھتے ہوئے سوچ بھی رہا ہے کہ مرحوم بابا
تناول کس مٹی کے بنے ہوئے تھے جنہوں نے اپنی آن بان شان اس تناول دھرتی کی
خاطر سب قربان کر دیں جس مشن کو لیکر وہ اکیلے کھٹن اور پر خطر راستے کے
راہی بنے تھے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے وقت کے جابر و ظالم اور تناول کی
ترقی کے دشمنوں کو یہ بتا دیا کہ تنولی اگر اپنے حق کے لیئے نکل پڑے تو
دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے اپنے مشن سے ہٹا نہیں سکتی بیس اکتوبر انیس سو
اٹھاتر کو بالآخر وہ اپنے بل بوتے پر تناول دھرتی پر پہلی بار گورنر فضل حق
کو تناول لیکر آئے انہوں نے تناول سوشل ویلفیئر سوسائٹی کا قیام بھی عمل
میں لایا گورنر مرحوم فضل حق سے علاقہ تناول کے لیئے پہلی بار ترقیاتی کام
بھی لیئے تناول کی دھرتی اپنے اس محسن کو کیسے بھول سکتی ہے جس نے اہلیان
تناول سے تعلیم جیسی نعمت سے پہلی بار راوشناس کروایا جبکہ اس سے پہلے
نوابوں نے تناول کے باسیوں کو تعلیم سے نا بلد ہی رکھا تھا تعلیم کا نام
لینا بھی تناول کی دھرتی پر جرم نا قابل معافی سمجھا جاتا تھا مگر بابائے
تناول نے جس مشن کا بیڑا اکیلے شروع کیا تھا اور اس قوم کو جب شعور ملا تو
انہوں نے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر بابائے تناول کو کامیابی دلا
کر تنولی ہونے کا ثبوت دیا یوسف تنولی مرحوم رحمتہ اﷲ علیہ کو جب صوبائی
اسمبلی کا پلیٹ فارم ملا تو انہوں نے تنولی قوم کی محرومیوں کا پورا پورا
ازالہ کیا حتیٰ کہ بابائے تناول اپنی زندگی کے آخری دن بھی تناول کی عوام
کے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے وہ مالک اور مزیرا کیس کی تاریخ پر عدالت میں
پیشی کے لیئے پشاور گئے ہوئے تھے صبح انکی عدالت میں پیشی تھی مگر اگلی رات
کو ہی وہ تنولی قوم کو یتیم اور بے سہارا چھوڑ کر اس دارفانی سے رخصت ہوگئے
انکی فوتگی پشاور کے مقامی ہوٹل میں ہوئی بحثیت سیاستدان وہ موجودہ سیاسی
رہنماؤں کے لیئے ایک رول ماڈل کی حثیت رکھتے ہیں اگر تناول کے سیاسی لیڈر
مرحوم بابائے تناول یوسف تنولی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کریں تو
تناول کی محرومیوں کابڑی حدتک ازالہ ہو سکتا ہے مرحوم بابائے تناول آج بھی
تنولی قوم کے دلوں میں زندہ ہیں اور تنولی قوم اپنے اس محسن کو کبھی بھی
فراموش نہیں کر سکتی آخر میں راقم اہلیان تناول کی طرف سے اپنے محسن کو
سلام عقیدت پیش کرتا ہے کہ آج انکی قربانیوں کی وجہ سے راقم بھی اپنے نام
کے ساتھ تنولی بڑے شوق سے لکھتا ہے۔ |