تاریخ بہت دلچسپ مضمون ہے۔ ابھی کل کی بات ہے ضیاء
الحق کی حکمرانی کا طوطی بول رہا تھا۔جنرل جیلانی پنجاب کا گورنر تھا۔اتفاق
فاؤنڈری کے مستری محمد شریف کے پاس پیسہ بھی تھا ٗ عقل سمجھ اورمعاملہ فہمی
بھی۔اس نے جیلانی کی شخصیت کا بغور مطالعہ کیا۔اس کی کمزوریاں تلاش کیں
اورپھر اسے اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے پوری چالاکی سے استعمال کرنے
کا راستہ اختیار کیا۔’’شریف جیلانی ڈیل‘‘نے شریف کی اولاد کو لوہے کی
بھٹیوں سے اٹھا کر پنجاب کی کیبنٹ میں بٹھا دیا۔کوئی میرٹ نہ تھا ٗ کوئی
سیاسی کارکردگی نہ تھی صرف بھاری جیب کا کارنامہ تھا۔مؤرخین کا فرض ہے کہ
نئی نسلوں کی آگاہی کے لیے لوہے سے سیاست تک لانے کی اس ڈیل کی تفصیلات
بتائیں۔آج کل جو وزیر باربار ارشادات فرماتے ہیں کہ ’’ووٹ سے آئے تھے ٗ ووٹ
سے جائیں گے‘‘۔ ان کے ان باطل کلمات کاردّسچائی بتانے کے ذریعے کیا جائے ۔حقیقت
میں یہ شرفاء کل کی طرح آج بھی ملی وقومی سیاست کی ابجد سے ناآشنا ہیں ۔ ان
کی بھاگ دوڑ لفافے سے لفافے اوریا پھر دھونس دھاندلی سے وابستہ ہے اوربس۔یہ
ذاتی اغراض سے بڑھ کر کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہیں ہی نہیں۔ اقتدار مل
جائے تو ’’گماشتے ‘‘اور’’ٹشوپیپر‘‘نیز مالشئے اورخوش آمدیئے وافر مقدار میں
مل جاتے ہیں۔خاندانِ شریفاں کے اقتدار کی ایک معصوم سی گواہی ہمارے سامنے
بھی آئی۔ایک دن ہم اپنے پرانے دوست سے جو ٹاؤن شپ کالج سے بطور وائس پرنسپل
ریٹائرڈ ہوئے گپ شپ کررہے تھے کہ ہمارے ایک مشترک دوست چودھری صاحب بھی
وہاں آگئے۔باتوں باتوں میں چودھری صاحب نے ایک واقعہ سنایاکہ ہمارا ایک
چھوٹا ساوفد میاں امیر الدین مرحوم سے ملنے گیا۔اُن کے پاس ایک ملاقاتی
بیٹھا باتیں کررہا تھا۔ہم بھی ایک طرف بیٹھ گئے۔وہ چلا گیا توہم نے پوچھا
یہ کون صاحب تھے۔میاں صاحب نے کہا یہ مستری شریف تھا۔مجھ سے مشورہ کرنے آیا
تھا۔ کہتا تھاکہ میرا بیٹا نواز کہتا ہے کہ مجھے تیس لاکھ روپے دو ٗمیں
وزیر بننا چاہتا ہوں۔میاں شریف پوچھتا تھا کہ میں بیٹے کو پیسے دے دوں ٗ
کہیں وہ ضائع تو نہیں کردے گا۔میں نے کہا تمہارے بچے سمجھدار ہیں ٗ پیسے
کیوں ضائع کریں گے۔تو یوں خاندانِ شریفاں کی اقتدار طلبی کی داستان کی ایک
کڑی ہماری نگاہ میں بھی آگئی۔اُس دور میں’’شریف جیلانی معاہدہ ‘‘زبان زد
عام بات تھی۔یہ انیس سو اَسّی کی دہائی کا ابتدائی زمانہ تھا۔جنرل ضیاء نے
اپنے دوست جیلانی کی سفارش پر شریف زادے کی بہت سرپرستی کی اوراپنی عمر اسے
ملنے کی دعا بھی دی جو پوری ہوگئی۔جنرل ضیا ء پر سو اعتراض کریں مگر اس کا
دامن مالی بدعنوانی کے پرچھائیں سے بھی پاک تھا۔ اس کے برعکس جمہوریت کا
راگ الاپنے والی پیپلز پارٹی کا اکلوتا معتوب جرنیل ہے اوراس پر تبریٰ کرنے
والے جمہوری لبادہ اوڑھے جمہوری لیڈر نوٹ خوری ٗ زمین خوری ٗ حرام خوری غرض
نجانے کس کس خوری کے انسانی تاریخ کے عالمی چمپئن ثابت ہوئے۔خیر تاریخ کا
پہیہ چلتا رہا۔کئی خواجے ماجے درباری بن کر سامنے آتے رہے یہاں تک کہ نہال
ہاشمی ن لیگ کے لئے گویا ’’خودکش بمبار‘‘ بن گیا۔تب ہمیں ہوا کا ایک
ٹھنڈاجھونکا یوں محسوس ہوا کہ خاندانِ شریفاں کی سیاست کے بانی جنرل جیلانی
کا لگایا ہواپودا شاید اپنے آخری مناظر تاریخ کے سپرد کررہا ہے۔نہال ہاشمی
نے تو کمال ہی کردیا کہ اپنے سیاسی مالکوں کے حق میں گویا خودکش بمبار بن
کر نئی تاریخ رقم کرگیا۔اب تفتیشی مشینری کے لیے چیلنج ہے کہ وہ ا س بمبار
کی تیاری میں ملوث لوگوں اورسہولت کاروں کی تلاش کریں۔اگر پاکستان کے عوام
کو جاہل نہ رکھا جاتا اوراگر سیاسی ورکر اپنے لیڈروں کی پوجا پاٹ کی پالیسی
نہ اپناتے تو نہال ہاشمی جیسے گائیڈ ڈ میزائل کے دھماکے کے بعد حکمران
خاندان کی تاریخ کو کوڑا دان میں پھینکنے سے کوئی چیز روک نہ سکتی۔عمران
خان پاکستانی قوم کا وہ غیور ہیرو ہے کہ اس سے وطن پاک کی سیاست میں کھیلے
جانے والے ڈرامے دیکھے نہ جاسکے اوروہ جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے
پناماقضئے کے حوالے سے حکمرانوں سے ٹکرا گیااورنوبت یہاں تک پہنچی کہ شریف
’’بادشاہت‘‘کے فیض یافتگان اسے برداشت نہ کرسکے اوراس کے خلاف لیٹی گیشنوں
کی لائنیں لگادیں۔وہ زرداری اورالطاف کہاں گئے۔ کسی کو معلوم نہیں مگر
حکمرانوں کی پوری مشینری خان پر گویا پل پڑی ہے۔اگر عمران خان کو پارلیمنٹ
کی ممبری کا نااہل بنا دیا جاتا ہے توہماراتاریخی شعور یہ بتاتا ہے کہ پھر
وہ پاکستانی سیاست کا خمینی بن کر سیاست کا بے تاج بادشاہ بن جائے گا۔تب
قوم قائداعظم اوربھٹو کے بعد تیسرا عظیم قائد اپنی آنکھوں سے دیکھے گی
اوروہ ’’بادشا گر‘‘بن کر اجڑے پجڑے وطن کو نئی قیادتوں کی بہار مہیا کرے
گا۔اگر بھٹو قبر میں جا کر اپنے اثرات دکھا سکتا ہے تو عمران خان پارلیمنٹ
سے باہررہ کر ہزاروں گنا زیادہ طاقتور ’’ملی رہبر‘‘بن کر حقیقی لیڈر کا
کردار ادا کرے گا جس کی مالیت جنرل جیلانی کی خوشنودی نہ ہوگی۔سچ تو یہ ہے
کہ سیاستِ شریفاں کا بانی جنرل جیلانی کا دور اب اپنے انجام کو پہنچ کر
خریدوفروخت کی شہرت والے حکمرانوں کو انجام سے دوچار کرنے کو ہے۔ آج کیسے
کیسے لوگ عدالتوں اورالیکشن کمیشن کو عمران دشمنی پر اکسانے میں لگے ہوئے
ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ وہ خان کو قوم کا بلاشرکتِ غیرے اکلوتا قومی لیڈر
بنانے کے عمل میں ہمہ تن مصروف ہیں۔وہ دو دھاری تلوار چلا کر اپنی قیادت کو
انجام کی طرف دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں کررہے۔ہماری میڈیا سے درخواست ہے کہ
ضیاء الحق کے دور میں جیلانی کی انگلی پکڑ کرپنجاب کیبنٹ میں چوردروازوں سے
اینٹری مارنے والے ’’سیاست کے تاجر‘‘کی تفصیلات کندمکرر اورتاریخ کی شہادت
کے طور پر سامنے لائیں۔اس دور کے اخبارات کے تراشے بھی سامنے لائے جائیں ۔
بیس کروڑ انسانوں کو گمراہ کرنے والے جھوٹے نعروں ’’ووٹ سے آئے تھے ٗ ووٹ
سے جائیں گے ‘‘کی حقیقت سے ووٹروں کو آگاہ کرنا ملی فریضہ ہے۔میڈیا کے ریسر
چ ونگ کے ماہرین نیز سیاسیاتِ وطن کے ماہرین آج کے حالات کے حقیقی ڈیزائنر
جنرل جیلانی وضیاء الحق کے کردار سے پردے ہٹائیں۔وطن عزیز پاکستان بابائے
قوم کی قیادت میں فکرِ اقبال پر قائم عظیم الشان جمہوری ریاست ہے۔آج امریکہ
وبرطانیہ کے صدور چارچار سال کے دومواقع کے بعد فارغ ہوجاتے ہیں مگر جنرل
جیلانی کو کیا پورے مستقبل کی زمام ایک لوہے کی تجارت کرنے والے خاندان کے
ہاتھ میں دینے کااختیار حاصل تھا۔سچ یہ ہے کہ آج سیاست کے میدان میں
گندڈالنے والے جنرل جیلانی کے کردار کاناقدانہ جائزہ لیا جائے اورپنجاب کی
وزارت کی خریدوفروخت کا مسئلہ عوامی رائے عامہ کے لئے سامنے لایا جائے۔آج
ووٹروں کی اکثریت ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ’’سیاستِ شریفاں کا بانی جنرل
جیلانی‘‘کے نعرے کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہے۔اس لیے یہ لمحہ موجود کا شدید
تقاضا ہے کہ پنامہ قضئے میں پھنسے حکمرانوں کی اصلیت بتائی جائے۔اوریہ خواب
دیکھنے والے کہ ’’اب حکمرانی ہماری اولاد کے ہاتھ میں آئے ‘‘کا خواب دیکھنے
والوں کو اصل مقام تک پہنچایاجائے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ حسین کہانی کا ’اے‘‘جنرل
جیلانی تھا اس کا ’’زی ‘‘نہال ہاشمی ہے۔ نہال ہاشمی تیرا شکریہ۔ |