بظاہر تو چرس اور چوہوں کا آپس میں کوئی تعلق
دکھائی نہیں دیتا ، سوائے اس کے کہ دونوں الفاظ کی ابتدا ’چ‘ سے ہوتی ہے۔
مگر سینیٹر حمداﷲ کی گفتگو میں دونوں کا ذکر ہے پا کر تعلق بھی دکھائی دینے
لگتا ہے۔مولانا حمداﷲ کا تعلق جمعیت العلمائے اسلام سے ہے، یعنی وہ حکومت
کی اتحادی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے بیانات کو بعض اوقات متنازع بنا
کر ان پر گرما گرم بحث بھی کی جاتی ہے۔ اُن کے بیانات پر جو تبصرے بھی ہوں،
یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ ان کی باتوں میں انفرادیت ضرور ہوتی ہے۔ تازہ
بیان انہوں نے ایوانِ بالا کے فلور پر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ’’ ․․․
پارلیمنٹ کے ممبران اور ان کے مہمان بھی چر س پینے لگے ہیں، بد بو کی وجہ
سے پارلیمنٹ میں بیٹھنا مشکل ہو گیا ہے۔ چرس کے علاوہ پارلیمنٹ میں چوہوں
کی بھی بھر مار ہے․․․ یہاں نشئیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ․․․اگر ممبران اور
ان کے مہمان چرس اور شراب پیتے ہیں تو عوام کا کیا حال ہوگا ․․․؟‘‘۔
پارلیمنٹ میں ’نشہ آور‘ چیزوں کا ذکر پہلی مرتبہ نہیں آیا، اس سے قبل بھی
جنوبی پنجاب سے ممبر قومی اسمبلی ،جمشید دستی جوکہ اب اپنی ہی پارٹی کے
لیڈر بھی ہیں، نے اسمبلی کے اندر معزز ممبران کے شراب پینے کی بات کی تھی،
بہت سے معزز ارکان ناراض ہوگئے تھے، بہت سوں نے ان کے بیان کی تصدیق کی تھی
اور ایسے بھی تھے جنہوں نے خاموشی اختیار کی اور ہوا کا رخ دیکھا کئے۔ اس
معاملہ کو سنجیدہ لے لیا گیا تھا، اس لئے انکوائری کمیٹی بھی بنادی گئی تھی،
اور کمیٹی کا فیصلہ پاکستان کی روایات کے مطابق وہی نکلا، جس کی پوری قوم
کو توقع تھی، یعنی کوئی نتیجہ ہی نہیں نکلا۔ بعد ازاں بھی ایسے ہی الزامات
کی باز گشت سنائی دی، مگر معاملہ چونکہ معزز ارکان پارلیمنٹ کا ہوتا ہے، اس
لئے ایسے باتوں پر غور نہیں کیا جاتا، ٹالنا ہی بہتر ہوتا ہے کیونکہ کون
رکن اسمبلی ہو گا جو اپنی ہی برائیاں بیان کرے گا، اور مخالفین کو تنقید کی
دعوت دے گا؟ سو یہ ایک ایسا راز ہے ، جسے جانتا تو ہر کوئی ہے، مگر یہ ہے
مکمل طور پر خفیہ۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں ایسی کوئی
واردات نہیں ہوتی، تمام معزز ممبران پارلیمنٹ محترم ہیں، قانون ساز ہیں،
قانون کے محافظ ہیں، قانون کے علمبردار ہیں، سراپا قانون ہیں، بلکہ سراپا
آئین کہا جائے تو بھی بے جانہ ہوگا۔
اب مولانا حمداﷲ چرس پر زیادہ زور دیا ہے، اور بتایا ہے کہ بدبو کی وجہ سے
پارلیمنٹ میں بیٹھنا مشکل ہو رہا ہے۔ مولانا کا تعلق جس صوبے سے ہے، وہاں
چرس وغیرہ کلچر کا حصہ ہے، عام زندگی میں اسے بُرا نہیں جانا جاتا، یہ کارِ
خیر عام لوگ سرانجام دیتے ہیں، وہاں شاید بدبو اس لئے نہیں آتی کہ وہ لوگ
یہ کام کھلے عام کرتے ہیں ، بند کمرے میں بدبو کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ
بھی عجیب بات ہے کہ شراب یا چرس پینے والے خود کو معروف معانوں میں نشئی
تصور نہیں کرتے، اگرچہ ان دونوں اشیاء کے ’’پینے‘‘ کے انداز مختلف ہوتے ہیں،
مگر یہ کام ہر کلاس کے لوگ کرتے ہیں، چونکہ یہ خدمت سرانجام دینے والے
پارلیمنٹ میں بھی بیٹھے ہوتے ہیں اس لئے ان عناصر کو نشہ کی ذیل میں نہیں
لکھا جاتا۔ ان کا یہ کہنا بھی قابلِ غور ہے، اگر ممبران یہ کام کرتے ہیں تو
قوم کا کیا حال ہوگا؟ مگر مولانا! آپ کے اس سوال کا اصل جواب یہ ہے کہ جیسی
قوم ہوتی ہے اس کے نمائندے بھی ویسے ہی ہوتے ہیں، یہاں ہمارے نمائندے بھی
اپنے ووٹرز کی عملی تصویر ہیں۔
پارلیمنٹ میں چوہوں کی شکایت بھی بہت پرانی اور مستقل ہے، ایک مسئلہ چوہوں
کے زیادہ ہونے کا ہے، مگر دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ چوہے موٹے تازے اور
ہٹے کٹّے ہوتے ہیں، جس وجہ سے وہ ممبران کے سامان وغیرہ کو تقصان بھی
پہنچاتے ہیں۔ ان کے صحت مند ہونے کی وجہ تو صاف ظاہر ہے، جو عمارت پاکستان
کے وسائل کی مرکز ہو، جہاں پورے ملک کے منتخب نمائندے جمع ہوں، وہاں قیام
پذیر چوہے بھی ان وسائل سے حصہ بٹورتے ہونگے، اور معزز ممبران پارلیمنٹ کے
خوردونوش کے سامان میں نقب لگانے والے چوہے موٹے تازے نہیں ہوں گے تو کیا
چولستان اور تھر کے چوہے موٹے ہوں گے، جہاں انسانوں کو بھی غذا پوری نہیں
ملتی؟مگر یہاں یہ سوال اہم ہے کہ پارلیمنٹ کے چوہے مولانا حمد اﷲ کے بیان
کردہ مشروب سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں یا اُن سے محروم رہتے ہیں؟
|