اس نظام کا آئے روز ایک نیا اور پہلے سے زیادہ بھیانک اور
مکروہ چہرہ اپنی تمام تر غلاظت کے ساتھ ہماری بے بسی کا مذاق اڑاتا ہے ۔ ان
دنوں جہاں وزیر اعظم پاکستان کے صاحبزادے کی ایک متنازعہ تصویر جو ان کی جے
آئی ٹی پیشی کے دوران نکال کر سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی نے ہنگامہ کھڑا
کررکھا ہے وہیں راولپنڈی کی ایک روحانی شخصیت کے بیٹے اور سپریم کورٹ کے
ایک جج کے مابین ہونے والا تنازعہ بھی موضوع بحث ہے ان دونوں واقعات نے
ہمارے نیم برہنہ نظام کے بچے کچھے چھیتڑے بھی اتار پھینکے ہیں ۔ حصول انصاف
کیلئے نظام کی پیچیدہ بھول بھلیوں میں بھٹکتے اس ارض پاک کے عام لوگوں کی
اس تضاد نے چیخیں نکلوادی ہیں اور وہ یہ پوچھنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ یہ
کیسا نظام ہے کہ جو عام آدمی کے مسئلہ پر بوسیدگی کی ساری حدیں پھلانگ جاتا
ہے لیکن جب معاملہ کسی بااثر کا ہوتو اس کی توانائی دیکھنے سے تعلق رکھتی
ہے ۔
حسین نواز کی متنازعہ تصویر پر اگرچہ کافی لے دے ہورہی ہے ۔ اپوزیشن
جماعتوں نے اسے حکومت کی ایک چال قراردیا ہے ۔جسے ایوان اقتدار کے باسی
مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں اس میں اولین مقصد تو جے آئی ٹی
کو مزید متنازعہ بنانا جبکہ دوسرا مقصد عوام کی ہمدردیاں سمیٹنا ہوسکتا ہے
لیکن حکومت اس تصویر کے وائرل ہونے کو اپنی تضحیک قراردے رہی ہے اور حکومتی
ترجمان اداروں کے ایجنڈوں کی بات کرکے یقینا کسی بڑی محاذ آرائی کیلئے اپنی
تیاری کا عندیہ دے رہے ہیں ۔
دوسرا واقعہ پیر محمد نقیب الرحمن کے صاحبزادے اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس
سردار طارق مسعود کے اہل خانہ کے مابین توتکرار سے شروع ہوا جس کے انجام کے
طور پر تھانہ کالیگی منڈی حافظ آباد میں فی الفور مقدمہ کا اندارج ہوا
پیرزادے پر دہشت گردی سمیت کئی دفعات لگائی گئیں اور حوالات کی ہوا کھاتے
اس پیر زادے کے بااثر والد نے اگرچہ دودنوں میں معاملہ نبٹادیا مگر یہاں
ایک بار پھر اناؤں کا کھیل شروع ہوا نتیجہ کے طور پر پیر نقیب الرحمن کو
مجبور کیا گیا کہ وہ قومی اخبارات میں ایک معافی نامہ شا ئع کرے اور اس
معافی نامہ کی عبارت کے ہر لفظ میں اس قدر تضحیک بھری گئی کہ پیر نقیب
الرحمن برسوں اس کی شرمساری محسوس کریں گے ۔ لیکن اس معافی نامہ کی اشاعت
کا کمال یہ ہے کہ ان کے صاحبزادے کو فی الفور ضمانت مل گئی اور یوں دہشت
گردی بھی وطن عزیز میں قابل راضی نامہ مقدمات کے فہرست میں شامل ہوگئی ہے ۔
میں ان واقعات کی جزئیات میں نہیں جاؤنگا ان پر کافی لکھا جاچکا ہے صرف چند
سوال ہیں جو ارباب اختیار کے سامنے رکھنے جارہا ہوں ایک ٹھنڈے ٹھار کمرے کی
آرام دہ کرسی پر بیٹھے شخص کی دوران انکوائری سامنے آنے والی تصویر تضحیک
کیسے ہے ؟ کیا ایوان اقتدار میں بیٹھے خاندان کو یہ اندازہ نہیں کہ پاکستان
کے تھانوں میں ایک عام آدمی سے کیسے تفتیش کی جاتی ہے ۔ جے آئی ٹی کی دوران
تفتیش کیا یہ پہلی تصویر سامنے آئی ہے ؟ڈاکٹر عاصم سمیت کتنے صاحبان کی اس
سے قبل تصاویر حتیٰ کہ ویڈیوز تک سامنے آچکی ہیں یہاں تو جیل کی کال کوٹھڑی
سے سزائے موت کے منتظر ایک قیدی کا پورا ویڈیو بیان بھی میڈیا کی زینت بن
چکا ہے ۔ کیا یہاں قانون کی نگاہ میں بھی بااثر اور بے اثر کیلئے فرق ہے ؟
پیر نقیب الرحمن ایک بڑے طبقے کے روحانی پیشوا ہیں ۔ ہم پیری مریدی کے قائل
ہو یا نہ ہو اندھی عقیدت رکھنے والے لاکھوں لوگوں پر اعتراض کا بھی کوئی حق
ہمارے پاس نہیں ہے ۔ ایک پیر کے صاحبزادے اور معزز جج کے اہل خانہ کے
درمیان موٹروے پر ہونے والی ناچاقی دہشت گردی کیسے تھی ؟ اس ملک میں ہزاروں
پیر،وڈیرے ،لغاری ،مزاری ،لاشاری ،زرداری اور نواب زادے پورے لاؤ لشکر کے
ساتھ سڑکوں پر نکلتے ہیں ان کے گارڈز راستے بلاک کردیتے ہیں اور کوئی سر
پھر ا لشکر کے درمیان آجائے تو اسے گنیں تان کر گالم گلوچ کرکے ایک طرف
کردیا جاتا ہے ۔یہ روز کا معمول ہے لیکن قانون چپ سادھ لیتا ہے اور اداروں
کی یہ خاموشی ان لوگوں کیلئے دندناتے پھرنے کا اجازت نامہ ہے ۔یہ قانون عام
آدمی کی ہتک پر تو کبھی حرکت میں نہیں آتا لیکن اس واقعہ میں تو قانون ایف
سولہ کی رفتا ر سے حرکت میں آیا۔دہشت گردی کی دفعات تک لگ گئیں اور پھر
کمال یہ ہوا کہ دہشت گردکی راضی نامہ پر ضمانت بھی ہوگئی ۔ اس پورے کھیل کا
تاریک ترین پہلو وہ اخباری اشتہارہیں جن کا ہر لفظ ایک حریف کی تسکین انا
اور دوسرے حریف کی خجالت کو عیاں کررہا ہے ۔
یہ جو بیس کروڑ سادھو نما مخلوق جو اس ارض پاک پر بستی ہے اس کا یہ پوچھنا
برحق ہوگا کہ اناؤں کے اس کھیل میں ان کا درجہ کون سا ہے ؟ان کی تضحیک ،ہتک
اور تذلیل کسی کو دکھائی کیوں نہیں دیتی ۔
یہ واقعات اس نظام کا نوحہ بلکہ ماتم ہیں ۔ یہ قانون شاید مظفر گڑھ کی اس
نوجوان لڑکی کو ابھی تک بھولا نہ ہو جس کی انگلیاں زنجیر عدل ہلاہلا کر
لہولہان ہوگئیں مگر اجتماعی عصمت دری کی شکار اس متاثرہ کی کسی نے نہ سنی ۔
بے بسی اس نہج پر پہنچ گئی کہ اس نے تھانے کے دروازے کے سامنے اپنے اوپر
تیل چھڑک کر شعلوں کا کفن پہن لیا مگر ہائے ری بدنصیبی کہ اسے انصاف موت کی
قیمت پر بھی میسر نہ آیا۔ اکتوبر 2016ء سپریم کورٹ کے دوفیصلے تو یقینا
ابھی تازہ ہیں مظہر حسین نامی شخص کی بریت کا فیصلہ آیا تو پتہ چلا کہ حصول
انصاف کے طویل اور صبر آزما انتظار نے دوسال قبل ہی اس کی آخری سانسیں قید
وبند میں ہی چھین لی ہیں ۔رحیم یار خان کے گاؤں صادق آباد کے رہائشی
دوبھائیوں غلام سرور اور غلام قادر کو انصاف کی سب سے بڑی عدالت نے رہا
کرنے کا حکم دیا تو خبر ملی کہ ایک سال قبل ہی دونوں بھائیوں کو بہاولپور
جیل میں تختہ دار پر لٹکایا جاچکا ہے ۔
کیا یہ سچ نہیں کہ ہم مٹھی بھر لوگوں کی اناکو اداروں کا تقدس سمجھ بیٹھے
ہیں ان کی طبع ناز پر کچھ ناگوار گزرے تو یہ کہیں توہین عدالت ہے کہیں ملکی
سالمیت کیخلاف سازش ،کہیں کارسرکارمیں مداخلت اور کہیں جمہوریت خطرے میں
پڑجاتی ہے اورستم یہ ہے کہ بیس کروڑ عوام جو زندگی بسر نہیں کررہے جھیل رہے
ہیں ،سسک سسک کر ،گھٹ گھٹ کر جیسے کوئی سزا پوری کرہے ہوں ۔#
|