خود ہی جینا سکھا رہے ہیں

کتنی عجیب بات ہے نا کہ اب ہم اپنے کشمیری بہن بھائیوں بزرگوں بچوں کی خبر نیوز چینلز اخبارات ورسائل پر یوں سرسری انداز میں دیکھتے اور پڑھتے ہیں جیسے کوئی معمول کی موسمی صورتحال کا زکرِ خیر ہورہا ہو اکثر اوقات تو اگر کسی چینل پر اسطرح کی خبر نشر ہو رہی ہوتو وقتی طور پر چہرے پر افسردگی طاری کرکے ایک آد جملہ جملہ اُن کی مظلومیت پر کہہ کرریموٹ کا بٹن دبا کہ چینل تبدیل کرکے کسی ایسے چینل کو منتخب کرتے ہیں جس سے زہنی سکون یا قلبی تسکین ملتی ہو۔پھر اگر غلطی سے کسی فورم پر اس قسم کے نازک معاملات پر گفتگو ہو بھی رہی ہو تو اپنا معمولی سا تبصرہ کر کے اپنی گفتگو کا رخ آرٹ اور فنون مہنگائی سیاست یا شوبز کی جانب موڑ دیتے ہیں ایک طرف ہم پاکستانی عوام کا یہ حال ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں کی طرح بے حسی کی لمبی چادر تلے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں اور دوسری جانب ہمارے کشمیری بہن بھائی بزرگ اور بچے خاک اور خون کی چادر تلے اپنے نازک وجود کو لئے جدوجہدِ آزادی کی کوششوں میں اپنے تار تار وجود کے ساتھ منوں مٹی تلے سُلا دیے جاتے ہیں ،وہ معصوم مرتے مرتے بھی یہ ہی صدا بلند کئے جاتے ہیں کہ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘پر یہاں کس کو پرواہ ہے اُنکی اس بے دریغ قُربانیوں کی کیونکہ یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے یہ آگ ہمارے گھر میں تھوڑی جل رہی جو کوئی پرواہ کرے یہاں تو بس راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے بالکل ان اشعار کی مانند کہ
آقاوئں تجھ کو رمز آ یہ ان الملوک
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری
خواب سے بیدار ہوتا ہے زرا محکو م اگر
پھر سُلا دیتی ہے اسکو حکمراں کی ساحری

تو جناب ان بے چارے مظلوم نہتے مسلمانوں کو کیا معلوم کہ وہ جو اپنی آنکھوں میں جس پاکستان کا خواب سجائے اس کی محبت سے معمور ہو کر اپنی تیسری نسل تک کو داؤ پہ لگا بیٹھے ہیں 1947سے اب تک جدوجہد آزادی کی جنگ میں یہ انکی تیسری نسل ہے جو ہندو درندگی کا مسلسل شکار ہو رہے ہیں اور وہ جس آس او رامید سے گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستان سے اپنی جزباتی روحانی طاقت سے سرشار اپنی امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں پاکستان کی جانب سے اب تک ان کو وہ ردعمل یا supportنہیں مل رہی جسکے وہ حقدار ہیں ہم اور ہمارے حکمراں زبانی جمع خرچ تو بہت کرتے ہیں پر عملی میدان میں ہمارے قدم مستحکم نہیں ان حالات میں مزید آگے اور کتنی نسلیں برباد ہونگی کچھ کہا نہیں جا سکتا کیونکہ ہماری جانب سے کوئی ایسا ایکشن پلان نہیں ہو رہا جو انکی اس جدوجہد آزادی کے اختتام کا ثمر بن سکے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ آگے مزید یہ جنگ کتنی مدت تک جاری رہے گی کیونکہ کوئی مربوط پیشِ رفت نہیں ہورہی بس وہ بد نصیب خود ہی اپنی سی کوششوں سے اپنی بقا کی جنگ کو جاری کئے ہوئے ہیں جنکو خود اپنے ہی گھر میں بھارتی درندوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔

گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ریاست جموں کشمیر کے وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ بھارت LOC پر شہری آبادیوں کو مسلسل نشانہ بنایا ہوا ہے ، انہوں نے کہا کہ بھارتی مظالم کے خلاف کشمیری عوام اپنی آواز بلند کرتے رہینگے ‘‘۔

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال جہاں پر بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کاروائی کے دوران گزشتہ دنوں ضلع باندی پور میں چار کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا بھارتی پولیس آفیسر نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ CRPFکے کیمپ پر حملہ کیا گیا تھا بھارتی تحقیقاتی ایجینسی NIAکے چھاپوں اور انکی مسلسل بڑھتی ہوئی ریاستی دہشت گردی سے ہونے والے خوف و حراس کے تناظر میں گزشتہ دنوں سری نگر میں سید علی گیلانی کی رہایش گاہ پر ایک اجلاس طلب کیا تھا تاکہ آیئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جاسکے کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اجلاس کے بعد آزادی پسند رہنماؤں کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے لئے خطاب کرنا تھا تاہم قابض انتظامیہ (بھارتی درنوں) نے آزادی پسند قیادت کو ملاقات سے روکنے کیلئے سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کو سیلڈ کر دیا اور وہاں بھاری تعداد میں بھارتی فورسز تعنیات کر دی جبکہ میر واعض عمر فاروق کو گھر میں نظر بند اور محمد یاسین ملک کو گرفتار کر لیا گیا مشترکہ قیادت نے اس سے پہلے بھی اپنے ایک بیان میں NIAکی جانب سے حریت رہنماوئں ،کشمیری تاجروں اور ان کے رشتے داروں کے گھروں میں چھاپوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی حکومت اور اسکی ایجینسیز کے ہتھکنڈوں کا مقصد جموں کشمیر کی سنگین صورتحال بد ترین ریاستی دہشت گردی سے توجہ ہٹانا بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنا کشمیر کی تحریکِ آزادی کو بدنام اور حریت رہنماوئں کی کردار کشی کرنا ہے۔

شایدبھارت کو خوشفہمی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے اندر ظلم ڈھانے کے بعد جو وہاں پر سلسلہ جاری ہے جس انداز میں برھان وانی کی شہادت ہوتی ہے اسکے بعد سبزار بھٹ کی شہادت ہوئی ہے کہ شاید یہ آزادی کی تحریک کی جو آواز ہے وہ دبا سکینگے لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے بلکہ انکی اس درندگانہ اور سفاکانہ اقدامات سے ان کے اندر آزادی کی جنگ میں مزید شدت آتی جا رہی ہے اور انکا صدائے احتجاج آئے روز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔آزاد کشمیر کے صدر جناب مسعود خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ
’’اس وقت کشمیر میں دو حقیقتیں ہیں ایک طرف ہندوستان کی جانب سے انکی جوش و درندگی کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اس نے جو قتل ِ عام کا سلسلہ شروع کیا ہے اور دوسری طرف حقیقت جو نوشتہ دیوار ہے وہ یہ ہے کہ اہلِ جموں و مقبوضہ کشمیر نے ہندوستان کو جو پیغام دیا ہے کہ ہم ہارنے والے نہیں ہیں وہاں انکی گلیوں سے کوچہ بازار سے انکے قصبوں اور شہروں سے ایک ہی آواز بلند ہو رہی ہے کہ ’’آزادی یا شہادت‘‘ اور وہ آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں ہندوستان کے قبضے کو انہوں نے مسترد کر دیا ہے پہلے اسمیں صرف نوجوان شامل تھے اب اسمیں نوجوان طلبہ و طالبات غرض کے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اسمیں شامل ہو گئے ہیں خواہ وہ مزدور ہوں ،کاریگر ہوں،کسان ہوں کاروبار کرنے والے ہوں سارے کے سارے شامل ہو گئے ہیں اور ایک چیز جو ایک جہت جسمیں اسکا اضافہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے جو خواتین نوحہ کرتی تھیں پہلے شکوہ کرتی تھیں گریہ زاری کرتی تھیں اب وہ بھی سینہ ٹھونک کر باہر آگئی ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ اب ہم مقابلہ کرینگے اگر آپ ہندوستان کے ٹیلی ویژن نیٹورکس دئکھیں انکے سرکاری اور غیر سرکاری مبصرین اور انکے ترجمان کو اگر آپ سنیں تو وہ اس بات سے بے حد پریشان ہیں انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ مقبوضہ کشمیر نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک وہ آزادی حاصل نہیں کر لیتے اس وقت تک انکی جدوجہد جاری رہے گی اور وہ جان دینے سے نہیں گھبرا رہے ہیں اور ہندوستان کی فوج کا خوف انکے دلوں سے دور ہو گیا ہے‘‘

یہ سب تو وہاں کے حکمرانوں کی زبانی ہے جبکہ اصل صورتحال تو اس سے زیادہ فکر انگیز ہے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ 1947سے بھارت کشمیر کو جو اپنا اٹوٹ انگ کہنے پر آج تک مسر ہے تاریخ گواہ ہے کے ماضی میں کبھی برصغیر پاک وہند پر کسی ہندو کی حکومت نہیں تھی انہوں نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ہم بھی کبھی ہندوستان پر حکومت کر سکینگے یہ تو انکو ہمارے ماضی کے پاکستانی اکابرین اور حقیقی حکمرانوں آزادی ہندو پاک کے متوالوں یعنی مسلمانوں کا نا صرف احسان مند بلکہ شکر گزارہونا چاہئے کہ ہمارے رہنماوئں کی جدوجہدِ آزادی بالاخر رنگ لائی اور سینتالیس میں پاکستان اور ہندوستان وجود میں آئے ، پاکستان کے طفیل انکو بھی حکمرانی کرنا نصیب ہوئی پر وہ مہاورہ ان ہندو اقوام پر خوب بیٹھتا ہے کہ یہ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسمیں چھید کر دیتے ہیں جسکا ثبوت انہوں نے پاکستان کی شہہ رگ کشمیر پر اپنی نیت خراب کر کے دیا اور آج تک مظلوم کشمیری عوام اور کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ کر کے ظلم وجارحیت کے تمام رکارڈ توڑ بئیٹھے ہیں -

ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ آج انکو کلبھوشن یادیو کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ ،عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی کیا اور کیوں ضرورت پیش آگئی جبکہ 1947میں تقسیم ہند کے نتیجے میں عالمی رضامندی سے کشمیر آزادی حق رائے خود اریت کے نتیجے میں پاکستان کے حصے میں شامل کیا گیا تھا تب تو ہندووئں نے کیوں عالمی انصاف کے مبنی اصولوں کو توڑتے ہوئے تب سے اب تک کشمیر پر اپنا جابرانی تسلط جماتے ہوئے ظلم وبربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے جسپر تمام عالمی امن کے ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں کیوں نہیں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کشمیر کوپاکستان میں زم ہونے دیتے کلبھوشن یادیو جیسے خونی درندے کو معصوم فرشتہ اور کشمیری مظلوم عوام کو دہشت گرد کیوں گردانا جا رہا ہے کیا عالمی امن کے ادارے اسی لئے قائم ہیں کے ظالم کو ظلم کرنے کیلئے کُھلی چھٹی دے دی جائے ۔آخر کہاں گئی امریکہ کی وہ فلاح ِ انسانیت جسکا ڈھول وہ اذل سے پیٹتا چلا آرہا ہے۔

مگر میں یہاں آکر خاموش ہوجاتی ہوں کہ ہم کس سے امن اور فلاح کی امید یا تقاضہ کر رہے ہیں جو خود ازل سے مسلمانوں کو زمین چٹانے کی کوششوں میں یہودوہنود اور تمام لادینی طاقتوں کو اپنا ہمنوابنا کر پوری دنیا سے اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے کمر بستہ رہتے ہیں ۔میری صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہم وطنوں سے التماس ہے کہ اگر آپکے اندر شعورِ انسانیت کی ہلکی سی بھی کہیں کوئی رمق باقی ہے تو برائے کرم اپنے حکمرانوں کی طرح زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی طور پر اپنے کشمیری ہم وطنوں کا ساتھ دینے کیلئے عملی اقدامات کریں سب سے پہلے تو بھارتی تمام مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں علاوہ ازیں تمام بھارتی شوبز ڈپارٹمنٹ بالخصوص بھارتی سینما فلمز تھیٹر کا کیونکہ بھارت کو جتنا اس ڈپارٹمنٹ کے حوالے سے پاکستان سے آمدنی ہو رہی ہے اتنی پزیرائی اور کہیں سے نہیں اس ضمن کی تمام آمدنی وہ اصلح سازی کو فروغ دینے اور ہم پاکستانی بشمول کشمیری قوم سے خاک اور خون کی ہولی کھیلنے میں سرف کرتے ہیں ہمارے حکمراں تو اس سلسلے میں خاموش تماشائی ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہماری عوام ابھی اتنی بے حس نہیں ہوئی ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان حکمرانوں کو ووٹ نہ دیں جنہوں نے ہر بار پاکستانی عوام سے جھوٹے وعدے کئے بلکہ انکو ووٹ دیں جو ہماری بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ کشمیری کاز کیلئے عوام کے ساتھ افواجِ پاکستان کے ساتھ ہر لمحہ صفِ آرا رہے تا کہ ہم بھی اپنے عمل سے اقوامِ عالم پر یہ بات ثابت کر سکیں کہ
یہ مہرِروشن سے جا کے کہہ دو کہ اپنی کرنوں کو گِر کے رکھے ( ندا یوسف )
ہم اپنے صحرا کے زرے زرے کو خود ہی جینا سکھارہے ہیں

Nida Yousuf Shaikh
About the Author: Nida Yousuf Shaikh Read More Articles by Nida Yousuf Shaikh: 19 Articles with 14324 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.