ایک محفل میں ہم سب دوست گپ شپ لگا رہے تھے اس دوران
بڑے بڑے قد آور لوگوں پر دولت لٹانے کے حوالے سے بحث چل رہی تھی کہ
راولپنڈی کے ایک قانون دان رمضان غوری ایڈووکیٹ مرحوم نے آزاد کشمیر کی ایک
بڑی ہی قدر آور شخصیت کی مثال دیتے ہوئے برملا کہا کہ سردار صاحب بڑے ہی
عظیم قائد اور اچھے انسان ہیں وہ کسی بھی پارٹی لیڈر یا کارکن سے کہیں کہ
بھائی ! 5یا 10لاکھ روپے پارٹی کے لیے ضرورت ہے تو لوگ فوراً حکم کی تعمیل
کر دیتے ہیں ۔میں نے کہا کہ بھائی ! یہاں کوئی کسی کو اﷲ واسطے کی مدد نہیں
کرتا ،انہیں پیسے دینے والے بیوقوف نہیں ،انہیں پتہ ہوتا ہے کہ موصوف کا
زیادہ وقت حکومت میں ہی گزرا ہے ، اقتدار اور اختیارات تو اُن کے پاس اکثر
رہتا ہی ہے ،اس لیے انہیں دی گئی رقم گھاٹے کا سودا نہیں ،یہ سرمایہ کاری
کرتے ہیں ،اوراس احسان کے بدلے اِ ن لوگوں سے ہزاروں کام نکلوا لیتے ہیں ۔
آزادکشمیر کی سیاست کا مرکز ومحور محض ’’ٹھیکیداری نظام ‘‘ ہے اکثر سیاسی
قائدین بنیادی طور پر ٹھیکیداری کرتے ہیں ۔اگر انہیں ایک ٹھیکہ بھی اپنے
لیڈران کی شفقت سے مل جاتا ہے تو اُن کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ ان
میں بعض شاہ خرچ ’’سرمایہ کار‘‘ غریب کے منہ میں ایک نوالہ تک دینے کے
روادار نہیں ہوتے ،کیونکہ انہیں کسی غریب سے کچھ ملنے کی توقع نہیں ہوتی -
یہ واقعہ ہمیں اس لیے یاد آیا کہ گذشتہ روز ’ن‘ لیگ جاپان کے صدر ملک نور
اعوان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید
احمد کو للکارا اور کہا کہ ’’نکالو میرے 22لاکھ روپے ‘‘۔موصوف کی اس حرکت
سے ایک بھونچال سا آگیا ۔ ایک غیر متعلقہ شخص کا یوں پارلیمنٹ ہاؤس کی
حدودمیں داخل ہو جانا اور ایک معزز رکن اسمبلی کی سرعام تذلیل کرنا کسی
المیہ سے کم نہیں ۔گو کہ شیخ رشید احمد کی شکایت پر وفاقی وزیر داخلہ
چوہدری نثارعلی خان نے مذکورہ شخص کو گرفتار کروا دیا ہے ۔ لیکن اس واقعہ
نے سیکورٹی کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے ۔
بچپن میں ایک کہانی سنا کرتے تھے کہ دو دوست کہیں سفر پر جا رہے تھے ۔ان
میں سے ایک نے دوسرے کو کھانے کے لیے ایک’’ دانہ‘‘ دیا ،جو اُس نے کھا لیا
بعد ازاں دوران سفر دونوں باتیں کرتے اپنی منزل کی طرف بڑھتے گئے ،دانہ
کھانے والا شخص اپنے دوست کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملاتا اور وہ خوش ہوتا
کہ وہ بہت ہی کمال کی باتیں کرتا ہے ۔ جب بھی موصوف اس کی بات پر تاسف کا
اظہار کرتے کہ یہ کیا بکواس سنا رہے ہو تو ’’دانہ‘‘ دینے والا شخص اُسے
کہتا کہ کہ ’’فیر کڈ میرا دانہ ۔۔؟‘‘( یعنی نکالو میرا دانہ ۔۔)۔ظاہر ہے کہ
دانہ چونکہ وہ کھا چکا ہوتا ہے ۔ اس لیے وہ’’ دانہ ‘‘کہاں سے واپس کرتا ۔۔مجبوراً
وہ اُس کی ہاں میں ہاں ملاتا اور کہتا کہ بھائی ! واقعی آپ کمال کہہ رہے ہو
۔یوں دونوں دوست اپنی منزل پرپہنچ جاتے ۔
یہی حال ملک نور اعوان کا بھی ہے کہ 20سال قبل موصوف نے جو گاڑی شیخ رشید
احمد کو دی تھی ،اُس کی رقم لینے وہ اتنے عرصے بعد لال حویلی کی بجائے
پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گیا ۔ظاہر ہے کہ شیخ رشیداحمد۔۔ نوراعوان کے ماموں تو
لگتے نہیں تھے کہ انہوں نے انہیں کریڈٹ پر قیمتی گاڑی دے ڈالی ۔ظاہر ہے کہ
گاڑی دینے میں اُن کا کوئی نہ کوئی مفاد ضرور ہوگا ۔یقیناً نور اعوان نے
گذشتہ 20سالوں میں شیخ رشید احمد کی سیاسی حیثیت کا کسی نہ کسی طرح فائدہ
اٹھایا ہوگا ۔ہمارے خیال میں موصوف کے بارے میں مکمل تحقیقات ہونا چاہئے کہ
انہوں نے اس تمام عرصے میں شیخ رشید احمد کے نام کو استعمال کرکے یا اُن کے
عہدے کی وجہ سے کتنے کام کروائے ۔اور اُن کاموں کی نوعیت جائز تھی یا
ناجائز ۔؟۔۔شیخ صاحب جیسی قد آور شخصیت پر اب تک کتنے ہی لوگ لاکھوں
،کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرتے رہے ہیں ۔ لیکن آج تک کسی نے یوں اُن سے
پیسوں کی واپسی کا تقاضا نہیں کیا ۔ اور نہ ہی کبھی انہوں نے ان سرمایہ
کاروں کے احسانات چکانے کی زحمت گوارا کی ۔
اس واقعہ کے پس منظرمیں جو لوگ بھی شریک جرم ہیں ،انہوں نے اپنے ہی خیر
خواہوں کے لیے مزید مشکلات بڑھا دی ہیں ۔یہ واقعہ شیخ رشید احمد کی بدنامی
سے زیادہ حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی کا ایک نمونہ ہے کہ وہ جے آئی ٹی میں
حسن نواز کی باربار پیشی سے کس قدر پریشان اور مضطرب ہیں کہ وہ حالات کو
سنوارنے کی بجائے مسلسل اپنے لیے ایسا گڑھا کھودنے میں لگے ہیں کہ جس میں
گرنے کے بعد انہیں کوئی نکالنے والا بھی نہیں ہوگا ۔احتساب سے بڑا چھوٹا
کوئی مبّرا نہیں ہوتا ۔ کل اگر ملکی وسائل کو ’’شیر مادر ‘‘ سمجھ کر یہ لوگ
لوٹتے رہے ہیں تو انہیں اس لوٹ مار کا حساب دینے میں بھی کوئی تکلیف نہیں
ہونا چاہئے ۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں حما م میں سبھی ننگے ہیں ،کسی
ایک کا دامن بھی صاف نہیں ہے ۔ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے ۔ اسی لیے
حکمران جماعت کے وفادار اپنی جگہ کارروائیاں ڈالنے میں لگے ہیں توتحریک
انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت تمام اپوزیشن اپنا زور لگا رہی ہے کہ کسی
طرح نواز حکومت کو رخصت کر دیا جائے ۔جبکہ آئندہ الیکشن میں جیت کے سپنے
دیکھنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔کیونکہ حکومتیں بنانے اور
گرانے والوں کی حکمت عملی ہی الگ ہے ،وہ بیک وقت اپنے کئی مہرے میدان میں
چلا رہے ہوتے ہیں اور ہر کھلاڑی یہی خیال کرتا ہے کہ وہ اپنے سرپرستوں کے
طفیل اپنے مخالف کو پچھاڑ دے گا اور اقتدار کے ایوانوں میں اسی کا طوطی
بولے گا لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا ،یہاں جیتنے کی اُمید لگانے والا ہار
جایا کرتا ہے اور ہارنے والاجیت جایا کرتا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ
حکومتیں بنانے اور بگاڑنے والے ہی اس ملک کی اصل قوت اور اتھارٹی ہیں،جنہیں
کوئی دنیاوی قوت چیلنج کرنے کی جرات ہی نہیں کر سکتی۔ بقول شاعر
جو چائیے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے |