خواتین کی حکمرانی کے بارے میں حقائق حصّہ سوم

لیڈیز فرسٹ والے عقیدےاور نظریے اور بھی شعبوں اورعلاقوں میں رائج کرنے کے لئے شریفانہ فیملیوں میں اس کا پرچار کرنے کے لئے انسائی حقوق کے نام پر کام ہورہا ہے جو بدنام طبقوں سے زیادہ تیزی سے عام کیا جا رہا ہے ان میں کھلم کھلا نہیں کہا جاتا کہ کڑی منڈا راضی تے کی کرے گا قاضی اس میں یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ عورت کسی بھی میدان میں کمتر نہیں ہے مثلا اگر مرد کاروبار کر سکتا ہے کھیتی باری کر سکتا ہے تو عورتیں بھی کر سکتی ہیں اگر مرد موٹر سائیکل چلا سکتا ہے تو عورت بھی چلا سکتی ہے اگر مرد سپورٹس مین بن سکتا ہے عورت بھی سپورٹس وومن بن سکتی ہے-

سیکولر لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام میں دہشت گردی انتہا پسندی اور جاہلانہ رسومات بکثرت پائی جاتی ہیں حالانکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے یہ چیزیں توغیر اسلامی کاموں میں پائی جاتی ہیں مثال کے طور پر جتنے بھی کبیرہ گناہ کیے جاتے ہیں یہ فتنہ وفساد اور انتہا پسندی اور ظلم و زیادتی اور بدامنی کا ذریعہ بنتے ہیں اور کبیرہ گناہوں کا ارتقاب کرنے والے ہی اصل بیک ورڈ ہوتے ہیں لیکن اکثریت کی وجہ سے وہ ان کبیرہ گناہوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں ہمارے معاشرے میں لیڈیز فرسٹ کا گمراہ کن نظریہ اس قدر طاقت پکڑ چکا ہے کہ میں اور میرے جیسے عام مسلمان دعوت حق دینے کے بارے میں صرف سوچ ہی سکتے ہیں بیان نہیں کر سکتے اور اگر بیان کریں بھی تو کوئی سننے والا کان دھرنے والا نہیں ملتا اور اس سے پہلے کہ لوگ متوجہّ ہوںغیر اہم کر دیا جاتا ہے اس کی جگہ خوبصورت انداز میں لیڈیز فرسٹ والا نظریہ مختلف انداز سے اور دلچسپ انداز سے بیان کردیا جاتا ہے جو لوگوں کی توجّہ کا مرکز بن جاتا ہے اور لوگ سیکولرازم اور لیڈیز فرسٹ والے نظریہ کو قبول کرلیتے ہیں اور اللہ کے احکامات کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور اس طرح سے جو لوگ کہتے ہیں

کہ اللہ کا حکم یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ ہے ان کو ناکام کر کے اور مایوس کرکے اپنے غیر اسلامی نظریہ اور بے دلیل عقیدے کے پیروکار بنالیا جاتا ہے جب حکمرانوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ اللہ کے حکم پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے تو اس کا الٹ مشورہ دیا جاتا ہے کہ سیکولرازم اور لیڈیز فرسٹ پر سختی سے عمل کرایا جائے اور یہ دھمکی بھی دی جاتی ہے کہ مولوی طبقہ اگر اسلام پر سختی سے عمل درآمد کرائے گا تو یہ ان کا کلچر ہے تو ہم اپنے کلچر پر سختی سے عمل کرانے کا حق رکھتے ہیں اور یوں نام نہاد مسلمان اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے اسلام مخالف نظریات و عقائد کو کلچر کا نام دے کر سختی سے عمل درآمد کرانا شروع ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کو اس کا قصوروار قرار دے دیا جاتا ہے کہ سختی سے عمل درآمد کرانے کی روایت ان ملّاوں نے شروع کی ہے اب اپنے کیے کا خمیازہ بھگتیں اور یوں اللہ کے حکم کو نافذ کرنے سے نام نہاد مسلمان کہلانے والے ہی ناجائز طور پر روک دیتے ہیں - کیا ایسے مسلمانوں کو جو نام کے تومسلمان ہوتے ہیں اور کام کافرو٘ والے کرتے ہیں کیونکہ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ جو لوگ اپنے معاملات کے فیصلے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق نہیں کرتے وہی تو کافروں میں سے ہیں وہی تو فاسق گنہگار ہیں وہی تو خسارہ اٹھانے والے ہیں یعنی ایسے منافقوں کو اللہ تعالٰی نے اصل گنہگار قرار دیا ہے -

جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے بلکہ شیطان کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں لیڈیز فرسٹ میں سب سے بڑھ کر ملوّث وہ ہیں جو اس نظریہ پر یقین رکھتے ہیں کہ جینے اور ترّْقی کرنے کے لیے اور امن وامان قائم کرنے کے لیے سب مردوں عورتوں کو گاہک دلّا اور طوائف بن کر جینا ہوگا اس طرح سے ہر فرد کمائی کرے گا اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا اور سب خوش رہیں گے گاہک بھی خوش دلّہ بھی خوش اور طوائف بھی خوش لیکن اس گندے اور قبیح کاروبار کو رازداری سے کیا جاتا ہے تاکہ گاہک کو کوئی شرمندگی نا ہو اور اس کام کو سب مذاہب مثال کے طور پر ہندو ازم عیسائی ازم یہودی ازم بدھ مت ازم مجوسی ازم اور جتنے بھی مذاہب ہیں ان میں مختلف دلائل کے ساتھ جو موجودہ قانون اور مذہب سے حاصل کیے جاتے ہیں اور بڑے بڑے مذہبی رہنماوں سے اس کاروبار کے جائز ہونے کے فتوے اور پرمیشن لیے جاتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کڑی منڈا راضی اور کی کرے گا قاضی کہ دونوں افراد راضی ہیں جنسی ملاپ کے لیے اور جدید سیکسی سین فلمانے کے لیے تو قانون اور پولیس کو کیا تکلیف ہے کہ وہ خواہ مخواہ پرسنل معاملے میں مداخلت کریں ہاں اگر مداخلت کر بھی لیں تو ایسے لوگوں کے پاس رشوت میں دینے کے لیے بہت پیسے ہوتے ہیں جن سے قانون کے رکھوالوں کو خوش کر لیا جاتا ہے بلکہ بہت سارے لوگوں نے منتھلی لگائی ہوتی ہے کہ قانون پولیس کی ٹینشن سے چھٹکارہ ہی مل جائے اور اپنے اس کالے دھندے کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جا سکے-

میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ ہماری فوج اگر اللہ کے حکم کے مطابق چلے تو اس کو اپنی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیے اور ہمارے ملک میں فوج کی تعداد کم از کم پانچ کروڑ ہونی چاہیے تو اس مشورے کو ہندو اور غیر مسلم ایجنسیاں اچک لے جاتی ہیں اور ایسے منصوبے لانچ کر دیے جاتے ہیں کہ گاہکوں دلّوں اور طوائفوں کی تعداد کو پانچ کروڑ سے بھی بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ غیر مسلم ایجنسیاں کھلے عام اپنے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچاسکیں اور پاکستانی فوج کو اپنے زیر دست کر لیا جائے ہونا تو یہ چاہیے تھا فوج اپنی تعداد اور جنگی استعداد بڑھا کر ان سیکولر اور لیڈیز فرسٹ والے گندے عقیدے اور نظریے والوں پر قابو پاتے اور ان کو اسلامی قوانین کے مطابق سزائیں دے کر جرائم کو ختم کر دیا جاتا اور عدل وانصاف اور امن و امان کا بول بالا کر دیا جاتا اور اللہ کے احکامات کو ملک پاکستان پر نافذ کر دیا جاتا اور جہاد کو جاری کردیا جاتا تاکہ اللہ کا دین دنیا کے سب ادیان پر غالب آ جاتا اور اللہ کا حکم مانا جاتا اور اسلام کی عمل داری ممکن بنا دیا جاتا لیکن الٹ کام ہو جاتا ہے کہ گاہک دلّہ اور طوائف والے نظریے کو لیڈیز فرسٹ اور دوسرے خوبصورت خوبصورت ناموں سے وسیع پیمانے پر پھیلا دیا جاتا ہے 

لیڈیز فرسٹ والے عقیدےاور نظریے اور بھی شعبوں اورعلاقوں میں رائج کرنے کے لئے شریفانہ فیملیوں میں اس کا پرچار کرنے کے لئے انسائی حقوق کے نام پر کام ہورہا ہے جو بدنام طبقوں سے زیادہ تیزی سے عام کیا جا رہا ہے ان میں کھلم کھلا نہیں کہا جاتا کہ کڑی منڈا راضی تے کی کرے گا قاضی اس میں یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ عورت کسی بھی میدان میں کمتر نہیں ہے مثلا اگر مرد کاروبار کر سکتا ہے کھیتی باری کر سکتا ہے تو عورتیں بھی کر سکتی ہیں اگر مرد موٹر سائیکل چلا سکتا ہے تو عورت بھی چلا سکتی ہے اگر مرد سپورٹس مین بن سکتا ہے عورت بھی سپورٹس وومن بن سکتی ہے-

مرد راج مزدور کاکام کر سکتا ہے تو عورت بھی کر سکتی ہے مرد انجینئر بن سکتا ہے تو عورت بھی بن سکتی ہے مرد ڈاکٹر بن سکتا ہے تو عورت بھی بن سکتی ہے مرد ڈرائیور بن سکتا ہے تو عورت بھی بن سکتی ہے مرد اگر فوجی اور پولیس مین بن سکتا ہے تو عورت بھی بن سکتی ہے مرد اگر سیاست دان بن سکتا ہے تو عورت بھی بن سکتی ہے مرد جج بن سکتا ہے تو عورت بھی بن سکتی ہے مرد اگر امام خطیب مقرّر اور مذہبی رہنما بن سکتا ہے تو عورت امام مسجد خطیب اور مقرّر اور مذہبی رہنما بن سکتی ہے اور مردوں کو خطبہ جمعہ پڑھا سکتی ہے مردوں کو جماعت کروا سکتی ہے بلکہ عورت مردوں سے زیادہ یہ کام کر سکتی ہے اور ہر لحاظ سے نمبر ون ہے

لہٰذا لیڈیز فرسٹ ہے مردوں سے زیادہ اہل اور لائق ہے کہ وہ حکمرانی کرے اور ملک کو ترقّی کی راہ پر گامزن کر دے چہ جائیکہ صرف گھر میں ہی قید ہو کر بیٹھی رہے اور خاوند نااہل ہونے کے باوجود بھی حکم چلاتا پھرے اور مار کٹائی کرتا پھرے اور حالانکہ مارکٹائی کا بھی عورت کا برابر کا حق ہے اور ہمارے پیارے ملک پاکستان میں یہ قانون پاس ہوگیا ہے کہ مرد اگر پٹائی کرتا ہے اپنی بیٹی بہن بیوی کوتھپّڑ وپّڑ مارتا ہے تو اس کو قید وجرمانہ کی سزا دی جائے گی اور عورت اگر مرد کی پٹائی کرتی ہے تو اس کو کوئی قید وجرمانہ کی سزا نہیں ہوگی یہ قانون اللہ کے حکم کے سراسر خلاف ہے اور یہ کافرانہ قوانین کے مطابق ہے بلکہ شیطانی قوانین میں شامل ہے اور سراسر اللہ تعالٰی کی نافرمانی ہے اور بالکل فرعون کی طرح کا قانون ہے کہ اس نے مردوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کردینے کا حکم دیا اور اس کے حکم کو قانون کی شکل میں ملک مصر میں نافذ اور رائج کر دیا گیا اور یہ حکم عورتوں پر لاگو نہیں کیا تاکہ وہ زندہ رہیں اور ہماری لونڈیاں بن کر ہماری قوم کے کام کاج کریں اور خدمت کریں

تو کیا لیڈیز فرسٹ بھی فرعون کے قانون کی طرح ظالمانہ نہیں ہے اگر یہ لیڈیز فرسٹ والا قانون فرعون کی طرح کا نہیں ہے تو اور کس کی طرح کا قانون ہے -

فرعون نے عورتوں کو کس لیے زندہ رکھا تھا کیونکہ عورتیں کسی کا سہارہ نہیں بن سکتیں بلکہ ان کو سہارے کی ضرورت ہوتی ہے فرعون نے ہزاروں لاکھوں بیٹوں کو قتل کردیا جن کو ماوں نے جنم دیا اور مہینوں تک سالوں تک ان کی تکلیفیں برداشت کیں کیا بیٹوں کا قتل ماوں پر ظلم نہیں ہے اور ماوں پر ظلم قوم پر ظلم نہیں ہے اور اللہ نے جس طرح ماں کوحق دیا ہے کہ اپنے بیٹے کی مالک بنے اور اس کو پیار کرے اور اس کی پرورش کرے اس کی خوراک لباس اور رہائش اور اچھی تربیّت والا ماحول فراہم کرے اسی طرح اللہ نے خاوند کو حق دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کا مالک بنے اس کی خوراک لباس اوررہائش اور اچھی تربیّت والا ماحول فراہم کرے اور مرد کو اللہ نے اپنی عورت پرحکمران قرار دیا ہے عورت اپنے مرد پر حکمرانی نہیں کر سکتی کیونکہ عورت صنف نازک ہے اس پر اس کی اپنی زندگی اور مرد اور بچوں کی زندگی کے فیصلوں کا بوجھ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حدیث کا مفہوم ہے کہ عورت پر فیصلوں کا بوجھ نا ڈالو بلکہ اس کی دیکھ بھال حفاظت تربیّت عزّت کرو کھانے کو خوراک دو پہننے کو لباس دو رہنے کو گھر دو نان نفقہ دو زیورات دو تحفے تحائف دو

ماں اپنے بچےپر خرچ کرے جو مال باپ بھائی اور خاوند اور بیٹے کی طرف سے ملنے والے خرچ سے جو تحائف حسن سلوک وراثت اور حق مہر نان نفقہ کی صورت میں ملتا ہے اور ان کی کمائی اگر ہے کہ ان کے کھیت ہیں باغات ہیں کارخانے یا فیکٹریاں ہیں اس میں سے بھی خرچ کرنا چاہیے اپنے بیٹوں بیٹیوں کو خوراک لباس رہائش اور تعلیم وتربیّت سے اچھی پرورش کرے اور تمام گھریلو معاملات کو اللہ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے اپنے خاوند کی فرمان بردار بن کر سر انجام دے اور جو حکمران عورتوں کو یہ سب حقوق فرائض سے بری الذمّہ قرار دے کر حکومت کا لالچ دے کر اللہ رسول اور خاوند کا نافرمان بنا دے اور بلکہ والدین اور بھائیوں کا بھی نافرمان بنا دے وہ حکمران کیا فرعون سے کم ظلم کر رہا ہے اور اپنے حکم کا پیروکار بنا کر آزادی کے نام پر در بدر خجل خوار کردے وہ حکمران کیا فرعون سے کم ظلم کر رہا ہے عورتوں پر بھی اور ان کے خاوندوں پر بھی اور جو مرد اپنی عورت کو حکمرانوں کے بنائے ہوئے قانون کی پیروی کی اجازت دے کر کیا وہ بھی ظلم نہیں کر رہے ہیں عورتوں پر اور کیا عورتیں اللہ کی نافرمان بن کر اللہ کے احکامات کو توڑ کر حکمرانوں کی فرمانبرداری کرکے ماں باپ بھائی بیٹوں اور خاوند پر ظلم نہیں کر رہی ہیں کیونکہ اللہ نےتو عورتوں کویہ حکم دیا ہے کہ والدین بھائی اور خاوند بھی اگراللہ کے حکم کےخلاف حکم دیں تو ان کی بات نہیں ماننی ہےمثال کے طور پر جو بھی عزیز رشتے دار برائی یعنی زناکاری کا حکم دیں اور کوئی بھی غیر قانونی غیر اسلامی حکم دیں تو ان کی بات نہیں ماننی ہے

وہ اگر شرک کا حکم دیں تو ان کی بات نہیں ماننی ہے کبیرہ گناہوں کے ارتقاب کا حکم دیں تو ان کی بات نہیں ماننی ہے سود خوری حرام کاری اسلام اور ملک سے غدّاری کا حکم دیں تو ان کی بات نہیں ماننی ہے اسی طرح حکمرانوں کی بھی خلاف شریعت بات نہیں ماننی ہے چہ جائے کہ عورتیں حکمرانوں کو یہ کہتی پھریں کہ اللہ کے دین کو چھوڑو اور جدید دور کے مطابق آزادانہ قانون بناو ہم ناصرف تمھاری فرماں برداری کریں گی بلکہ خلاف شریعت کاموں میں تمھاری مدد بھی کریں گی اور برابری والے نظریے پر عمل کریں گی تو اس صورت میں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرعون اگر مردوں کو قتل کرتا تھا تو عورتوں کو بھی چاہیے تھا کہ ہم نے مردوں کی برابری کرنی ہے فرعون جتنے مردوں کو پیدا ہوتے ہی مارڈالے گا ہم عورتوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالیں گی تاکہ جینے مرنے میں مردوں کے ساتھ برابری رہے اور فرعون اگر حکمران ہے تو ہم بھی حکمران بنیں گی اور عورتوں کے حقوق کی تحریک چلائیں گی اگر اسطرح برابری سے ہی انصاف ہوتا ہے تو کیااس وقت کی عورتیں ظالم نہیں تھیں حالانکہ ان کے نومولود ان کی آغوش سے چھین کر قتل کردیے جاتے تھے حالانکہ بیچاری عورتیں اپنے جگرگوشوں کے قاتلوں کی

لونڈیاں بن کر ان کے کام کاج کرنے پر مجبور تھیں ان کے بچّوں کو جنم دیتی تھیں اور ان کے جانوروں کو چارہ ڈالتی تھیں ان کے کھیتوں اور باغوں میں محنت مشقت کرتی تھیں کیا آج کے حکمران فرعون سے کم ظالم ہیں ہر گز نہیں بلکہ زیادہ ظالم ہیں کیونکہ والدین نے عورتوں کو پالا پوسا جوان کیا تعلیم وتربیّت کی خوراک لباس رہائش فراہم کی اور محبّت سے اچھی پرورش کی لیکن سب کے حقوق کا قتل کرکے حکمرانوں کی باتوں میں آگئیں خاوند نےبرسوں اس کی خوراک لباس رہائش اور سیفٹی کے لیے کمائی کی اور ان کو اپنی بنایا اور پیارو محبّت دیا حق مہر نفقہ دیا اور حکمرانوں کی باتوں میں آکر خاوند کے اللہ کی طرف سے دیے گیے حق کا قتل کردیا کیا یہ حکمرانوں کا ظلم نہیں ہے جس میں عورتوں نے بھی ساتھ دیا اور حکمرانوں کی وہ باتیں مانیں جن کا اللہ نے حکم ہی نہیں دیا تھا بلکہ یہ حق دیا تھا کہ خلاف شرع بات نہیں ماننی ہے لیکن حکمرانوں کی شیطانی باتیں مان کر گمراہی کا رستہ اختیار کر لیا کہ ہم ایک مرد پر صبر نہیں کر سکتی ہیں ہم پاکدامنی کا رستہ اپنا کر اپنی جنسی طلب کو ترسا نہیں سکتی ہیں

ہمارا تو جس پر دل آئے گا اس سے اپنی جنسی ہوس کو پورا کرنے کو آزادی سمجھتی ہیں اگر گروپ سیکس پر جی کیا تو وہ کرلیا ہم پر کوئی روک ٹوک نہیں ہونی چاہیے تو کیوں ہم اپنی جی کو ترسائیں اللہ کے حکم سب کے لیے ہیں اکیلے ہم ہی اللہ کے حکم مانتی پھریں باقی ساری دنیا جب جس سے جیسے دل نے چاہا ویسے ہی موج مستی کرلی ساری پابندیاں ہم پر ہی ہیں دنیا کے ساتھ چلنا پڑتا ہے لیکن بندہ لائف کو انجوائے ہی نا کرے صرف اس ڈر سے کہ اللہ کی نافرنانی ہو جائے گی جس کو کسی نے نہیں دیکھا ایک ان دیکھی قوّت کے ڈر سے کیا کیا مصیبتیں اٹھاتے پھریں حالانکہ دنیا کی اکثریت نافرمان اور کافر ہے کہ ایسی کوئی ہستی موجود ہے ہی نہیں ہے تو جی بھر کے جیو اور جو چاہے کرو ایسا صرف انسان ہی کر سکتے ہیں جانور نہیں کر سکتے انسانوں اورجانوروں میں فرق ہی یہ ہےکہ جانور جو مرضی نہیں کر سکتے اور انسان جو مرضی جو جی چاہےکر سکتے ہیں جانور پلاننگ نہین کر سکتے انسان پلاننگ کر سکتے ہیں - 
------- جاری ہے

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 138865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.