گذشتہ دنوں پنجاب سے صوبہ کے پی کے میں لایا جانے والا
65ہزار لیٹر کیمیکل ملا دورہ ڈیرہ اسماعیل خان پل پر جو کہ چار عدد بڑے
کنٹینرز میں موجود تھا ، محکمہ فوڈ اور ضلعی انتظامیہ کی مشترکہ ٹیموں نے
پکڑکر دریا برد کردیا دودھ کی مالیت 50لاکھ کے قریب بتائی جارہی ہے۔ پنجاب
سے ملاوٹ شدہ دودھ کی سپلائی گذشتہ کئی سالوں سے ہورہی تھی لیکن محکمہ فوڈ
کی مجرمانہ غفلت اور ملی بھگت کے باعث جو کارروائی سالوں پہلے کرنی چاہئے
تھی وہ موجودہ ضلعی انتظامیہ کی مخلصانہ کوشش کے باعث اب ہوئی ۔ خیر دیر
آید درست آید ، دودھ کی چیکنگ کیلئے ڈی سی ڈیرہ کیپٹن (ر) میاں عادل اقبال
اور اے سی ڈیرہ کیپٹن (ر) زبیر نیازی نے مرکزی تاجران ڈیرہ کی نشاندہی اور
مطالبے پر پشاور سے موبائل لیبارٹری منگوائی تھی جس نے موقع پر دودھ کو چیک
کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ پسے ہوئے چاول کے علاوہ فارما لین نامی کیمیکل
ملایا گیا ہے جو دودھ کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھتاہے لیکن انسانی جانوں
کیلئے انتہائی خطرہ ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان
میں جنگل کا قانون ہے یہاں پر ہر اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ کی شکایات ہر
عام و خاص کی زبان پر ہیں۔ لیکن ہمارے متعلقہ ادارے جن میں محکمہ فوڈ قابل
ذکر ہے میں براجمان کالی بھیڑیں چند ٹکوں کی خاطر قیمتی انسانی جانوں سے
کھیلنے میں مصروف ہیں۔ رمضان المقدس کے ماہ میں جہاں تاجر حضرات ناجائز
منافع خوری میں پہلے سے زیادہ مبتلا ہوجاتے ہیں وہاں وہ ملاوٹ ناپ تول میں
کمی ، ذخیرہ اندوزی جیسے کبیرہ گناہوں کو بھی گناہ نہیں سمجھتے۔ تمام
پاکستان میں ماہ رمضان میں لوگ تلی ہوئی اشیاء جن میں پکوڑے، سموسے، نمک
پارے وغیرہ قابل ذکر ہیں کا استعمال زیادہ کرتے ہیں یہ اشیاء ویکم کے تیل
میں جو انہیں نہایت ارزاں داموں سو روپے کلو ملتا ہے تلتے ہیں یہ تیل
مرغیوں کے پنجوں، مردہ جانوروں کی حرام آنتوں و دیگر اجزاء سے بنتاہے۔ جسکا
ایک طرف تو استعمال حرام ہے تو دوسری جانب یہ تیار ایسے گندے اور غلیظ
طریقے سے کیاجاتاہے کہ جسکو ہم دیکھ بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ یہ تیل آگ پر
پکانے سے اڑتا نہیں ہے لہذا اسے استعمال کرکے لوگوں کے معدوں، جگر، سینہ،
گلہ، پھیپھڑے، گردوں وغیرہ کو تباہ کیاجاتاہے ۔ قانونی طورپر ایسے تیل پر
پابندی عائد ہونی چاہئے لیکن 95فیصد پاکستان میں یہی تیل استعمال ہورہاہے۔
لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ گوشت مرغی میں ہم پانی ملاکر اسکا وزن بڑھاتے
ہیں۔ لیکن پانی ملے گوشت، مرغی کا استعمال بھی علماء کرام سے پوچھیں حلا ل
ہے یا حرام ، ملک بھر کے مذبحہ خانوں کا برا حال ہے گندگی، تعفن ہونے کے
باعث قصائی حضرات اپنے گھروں میں جانور ذبح کرتے ہیں چیک اینڈ بیلنس نہ
ہونے کے باعث مردہ لاغر، بیمار جانوروں کے علاوہ گدھوں، کتوں تک کا گوشت
فروخت کیاجارہاہے۔ لیکن کیونکہ ملک میں سکا شاہی کی حکومت ہے اسلئے کچھ
نہیں ہوتا۔ رمضان کے ہی ماہ میں سوڈے والی بوتلوں کا استعمال بھی عروج پر
ہوتاہے ان بوتلوں اور اسکی آئسکریم بنانے والی کمپنیاں شکرین کا ناجائز
استعمال کرتے ہیں ۔ ہماری سبزیوں، پھلوں کو مصنوعی طریقوں سے انجکشن لگاکر
میٹھاکرنے کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے ادرک جیسی اہم سبزی کو بھی کیمیکل
میں بھگوکر اسکا وزن زیادہ کیاجاتاہے لیکن معلوم ایسا ہوتاہے جیسے ہماری
حکومتیں اور متعلقہ ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں جب تک متعلقہ ادارے،
انتظامیہ حرکت میں نہیں آتی عوام الناس کی صحت سے کھیلا جاتا رہیگا گنے کا
جوس ہر چوک چوراہے پر فروخت ہورہاہے نہ تو گنے کو دھویا جاتاہے اور نہ ہی
گلاس کپ وغیرہ کو ۔ کیونکہ جگر کے مریضو ں کو گنے کے جوس کے استعمال کیلئے
کہاجاتاہے تو وہ اسکا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان کے استعمال شدہ برتن میں
موجود وائرس دیگر لوگوں کو مرض میں مبتلا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ پکوڑوں
میں استعمال ہونے والا بیسن ، چنے کی دال سے بنتاہے لیکن اس میں مکئی، خراب
گندم و دیگر ناکارہ اشیاء استعمال کرکے بیسن کو بھی زہر آلود کیاجارہاہے ۔
چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے، جانوروں کا خون ڈال کر اس میں رنگ پیدا
کیاجاتاہے۔ لیکن یہ چائے بھی حرام ہے او رمضر صحت بھی لیکن جب ہماری
لیبارٹریوں میں کوئی بھی ناقص گھی، تیل، بیسن، چائے، دودھ وغیرہ ٹیسٹ
کیاجاتاہے تو اکثراوقات رشوت دے کر وہ پاس ہوجاتے ہیں مذکورہ اشیاء کے
علاوہ ہماری ادویات تک میں دو نمبری عروج پر ہے۔ انٹی بائیوٹکس ، انجیکشن
سرنج، ویکسین ، ڈراپس و دیگر اشیاء مریض استعمال کرکے تھک جاتے ہیں لیکن
آرام نہیں ملتا۔ ایک طرف تو ادویات دو نمبر دوسرے وزارت صحت کی ملی بھگت سے
ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ چند روپوں کی ادویات پر کئی گناہ
زائد قیمت لکھ کر تاجر ، ڈاکٹر، کمپنیاں تمام غریبوں کا خون چوسنے میں
مصروف ہیں ہماری اشیاء خوردنی کے علاوہ ہم جو پانی اور آکسیجن استعمال
کررہے ہیں وہ بھی آلودہ اور مضر صحت ہیں جس کے باعث ہمارے ہسپتالوں میں
مریضوں کیلئے جگہ تک نہیں ہوتی۔ علاج کروانا تو دو رکی بات ہے ہمارے
ہسپتالوں میں سہولت اور لوڈشیڈنگ کے عذاب مسلسل کے باعث ادویات، پولیو، و
دیگر ویکسین ایکسپائر ہوجاتی ہیں لیکن مریضوں کو ایکسپائر ویکسین ٹھونک دی
جاتی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے حکومت کا بجٹ صحت کے معاملے میں نہ ہونے
کے برابر ہے ہماری تمام ملکی مشینری 20کروڑ عوام کی صحت سے کھیلنے میں
مصروف ہے ایسے میں ڈیرہ میں ملاوٹ شدہ دودھ کے خلاف کارروائی حوصلہ افزاء
ہے جسکے لئے ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ ادارے قابل تحسین ہیں ضرورت اس امر
کی ہے کہ ہم ایسے عمل کو متواتر جاری رکھیں اور ایسی کالی بھیڑوں کا سدباب
کریں جو دینی اور دنیاوی دونوں اطراف سے گھناؤنے ، مکروہ ، حرام کاروبار
میں ملوث ہیں۔اس سلسلے میں پنجاب حکومت جو گڈ گورنس کی دعویدار ہے سے پوچھا
جائے کہ آخر ملاوٹ شدہ دودھ کے بڑے بڑے کنٹینر ان کے صوبے سے ہوکر یہاں
داخل کیسے ہوتے ہیں انہیں وہاں چیک کرنے والا کوئی نہیں ہے یہ تیار کہاں
ہوتے ہیں لاہور میں ایسے اداروں کے خلاف کارروائی کرنے والی لیڈی فوڈ
ڈائریکٹر جو کہ مرحوم ادکار رنگیلا کی دختر ہے، کو کھڈے لائن کیوں لگایا
گیا؟ اسی طرح سندھ اور دیگر صوبوں میں شراب اور وہ بھی ملاوٹ والی پینے کے
باعث سینکڑوں اموات ہوچکی ہیں لیکن ہمارا ناکارہ اور کرپٹ سسٹم ملاوٹ کرنے
والوں کو تحفظ تو دیتاہے لیکن ان کی سرزنش نہیں کرتا۔ ہماری سبزیاں، پھل و
دیگر اجناس کو مصنوعی کھادوں کے علاوہ ایسے گندے آلودہ پانی سے سیراب
کیاجاتاہے جسے ہم دیکھ بھی نہیں سکتے لیکن کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہے۔ ضرورت اس
بات کی ہے کہ جبتک ملاوٹ کے گھناؤنے جرم میں ملوث لوگوں کو عبرتناک سزا
نہیں دی جاتی یہ کاروبار چلتا رہیگا ایسے عناصر پر صرف جرمانوں کی سزا کافی
نہیں۔
|