موجودہ حکومت اپنے پانچویں سال میں داخل ہو چکی ہے
لیکن ایسے لگتا ہے کہ جیسے عوامی مینڈیٹ کا بہتر استعمال نہیں کیا گیا۔
عوام کی بے چینی اور بے قراری چہروں سے عیاں ہے۔ کوئی ایسی جمہوری سیاسی
جماعت نظر نہیں آتی جس پر عوام کھل کر اعتماد کا اظہار کر سکیں۔ مسلم لیگ
(ن) تیسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی مگر ابھی تک عوامی مسائل جوں کے
توں نظر آتے ہیں۔ بہت سے اچھے کام ضرور ہوئے مگر ابھی بہت کچھ کرنے کی
ضرورت ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی چار مرتبہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی
مگر وہ بھی اپنے عوامی اور انتخابی نعرے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے ساتھ
انصاف نہ کر سکی اور آج بھی اُسی نعرے پر کام ہو رہا ہے۔ جو نعرہ ذوالفقار
علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے لگایا تھا وہ نعرہ بلاول بھٹو زرداری
کی زبان پر ہے۔ پاکستان تحریک انصاف 2013ء کے عام انتخابات میں اُبھر کر
سامنے آئی مگر وہ بھی خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے کے باوجود دُوسری
سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر کوئی منفرد پروگرام لے کر نہیں آئی جیسے وہ پہلے
عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کی حکومتیں چلتی رہی ہیں اُن سے کچھ
بھی الگ دیکھنے کو نہیں ملا۔ پاکستان تحریک انصاف کے پاس سنہری موقع تھا کہ
وہ اگر خیبر پختونخواہ میں اچھے انداز میں حکومت کرتے پھر یقینا ان کی وفاق
میں بھی حکومت بن سکتی تھی مگر وہاں بھی حالات جوں کے توں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عوامی جمہوری جماعتوں سے مایوس عوام آخر کدھر جائیں؟ انتخاب
آتے ہیں، عوام اپنے اپنے ووٹ کا استعمال جمہوری انداز میں کرتے ہیں۔ اپنے
ووٹ کا استعمال گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے مگر عوام کا قیمتی ووٹ لینے کے
بعد عوام کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ عوام دال روٹی کے چکر سے باہر نہیں نکل
پاتے۔ ہر گذرنے والے دن کے ساتھ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ تینوں
بڑی سیاسی جماعتوں سے عوام مایوس نظر آتے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ ان
جمہوری جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور کے ساتھ بھی انصاف نہیں کیا۔ ایسے
محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سیاسی جماعتیں صرف اور صرف اپنے اقتدار کے حصول کے
لئے ہی متحرک نظر آتی ہیں۔ جیسے عوامی منشور کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں
ہوتا۔ چونکہ اگر عوامی مسائل کو سامنے رکھا جاتا تو پاکستان 1947ء میں آزاد
ہوا تھا اُس وقت سے لے کر اب تک پاکستان میں بہت بڑی تبدیلی آسکتی تھی۔
دُنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جنہوں نے مختصر وقت میں بڑی ترقی کی ہے مگر
اُن میں اور ہم میں فرق یہ ہوتا ہے کہ اُن کے حکمران عوام دوست ہوتے ہیں،
اُن کو عوام کے ساتھ محبت ہوتی ہے۔ ہماری بدبختی یہ ہے کہ یہاں کے رہنماؤں
کو عوام سے کم اور کرسی سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ اگر اتنی ہی محبت وہ عوام
سے بھی کرتے جتنی وہ کرسی کے حصول سے کرتے ہیں تو پھر اب تک پاکستان ترقی
یافتہ ملک بن چکا ہوتا۔
آج بھی پاکستان کے وہی مسائل ہیں جو کہ 30 سال پہلے تھے، ایسا کیوں ہے؟
عوامی مسائل حل کیوں نہیں ہوتے؟ آج کا نوجوان بے قرار اور بے زار کیوں ہے
کیونکہ وہ بے روزگار ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے وہ جرائم کا رُخ کرتا ہے۔
اُسے اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لئے روزگار
چاہئے۔ جب اُسے باعزت روزگار نہیں ملتا تو پھر وہ جرائم کی دُنیا میں داخل
ہو جاتا ہے۔ بارشوں کا بے پناہ پانی ضائع کر دیا جاتا ہے اور پھر ہم کہتے
ہیں کہ ہمارے پاس بجلی بنانے کے لئے پانی نہیں۔ نئے ڈیم بنانے پر ہمارا
کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ دُنیا ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے مگر ہم آج
بھی گھنٹوں بجلی کے انتظار میں گذار دیتے ہیں۔
چین کی مثال سب کے سامنے ہے، وہ کسی بھی چیز کو ضائع نہیں کرتے۔ وہ ہر چیز
کو کارآمد بناتے ہیں۔ اُن کی گلیاں، محلے کوڑا کرکٹ سے بھرے نہیں ہوتے۔
چونکہ وہ اپنا کوڑا کرکٹ ری سائیکل کر کے کارآمد بنا لیتے ہیں مگر ہمارے
شہروں کے شہر کوڑا کرکٹ سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں، آخر عوام کا کوئی مسیحا ہے؟
عوام کا مداوا بھی کوئی کرنے والا ہے؟ یا پھر عوام کو ہر روز ایک نیا خواب
دکھا دیا جائے گا۔ عوام اپنے حقوق کے حصول کے لئے نعرے لگا لگا کر تھک چکے
ہیں۔ آخر کب تک اپنے ہی نعرے لگاتے رہیں گے۔ عوام کو اپنے حقوق کے لئے اُٹھ
کھڑا ہونا ہو گا اور یاد رکھ لیں کہ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہی ہوتے ہیں۔
عوام ہی ان نام نہاد رہنماؤں کو ہیرو بناتے ہیں اور پھر عوام ہی ان کو زیرو
بنا دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |