وکی لیکس کے تازہ ترین انکشافات کے مطابق مبینہ طور
پر امریکی خفیہ ایجنسی نیشنل سیکورٹی ایجنسی اوربرطانوی خفیہ ایجنسی
گورنمنٹ کمیونیکیشن ہیڈکوارٹر پاکستانی ووٹرز کا تمام ریکارڈ چرا چکے ہیں۔
وکی لیکس نے 6جون کو اپنے ٹویٹ میں انکشاف کیا کہ وکی لیکس کی بانی جولین
اسانج نے2013میں عمران خان سے انٹریو کے دوران انہیں اس بات سے اگاہ کیاتھا
کہ ڈپلومیٹک کیبل 09ISLAMABAD1642 کے مطابق جولائی2009 ء میں اس وقت کے
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر داخلہ رحمان ملک اسلام آباد میں امریکی
سفارت خانے گئے اورامریکی ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی کے سیکرٹری کو
نادرا کے ڈیٹا بیس تک رسائی کی پیشکش کی۔
20جولائی2009 صبح دس بجکر چھیالیس منٹ پر امریکی سفارت خانے سے بھیجی گئی
کیبل 09ISLAMABAD1642_aمیں امریکہ کے ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی کے
سیکرٹری جینٹ نیپالیٹانو سے بارڈر سیکورٹی ،(API)ایڈوانس پسنجر انفارمیشن
اور (PNR)پسنجر نیم ریکارڈکی شئیرنگ کے معاملے میں اس وقت کے صدر آصف
زرداری،وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر داخلہ رحمٰن ملک کی ملاقاتوں کے
تسلسل کا ذکر ہے۔قابل غور اور انتہائی شرمناک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے
حکمرانوں کی طرف سے امریکی حکام کو ہر قسم کی شئیرنگ کی یقین دہانی کروائی
گئی اور امداد کا رونا ہی رویا گیا کہ مختلف ایشوز کی بنا پر مالی معاونت
کی درخواست کرتے نظر آئے ،جبکہ معلومات کی شئیرنگ کے معاملے پر قومی وقار
اور ملکی سا لمیت کے بارے میں سوچنے کی بجائے صرف اسی بات پر فکر مند
دکھائی دئیے کہ شہریوں کی ذاتی معلومات شئیر کرنے پرخود مختار عدلیہ کوئی
مسئلہ نہ کھڑا کردے۔اسی کیبل میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ وزیراعظم
یوسف رضا گیلانی اور وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے امریکہ کو اس بات کی نشان دہی
کی کہ نادرا پہلے ہی ڈرائیونگ لائسنس سے لیکر ڈی این اے تک اہم معلومات
اکٹھی کرچکاہے۔رحمن ملک نے فخریہ آفر کی کہ APIاورPNRتونادرا جیسے بڑے نظام
کا چوتھا حصہ بھی نہیں ہیں۔
جولین اسانج کے اس انکشاف کے جواب میں عمران خان نے ایمان افروز اور حب
الوطنی سے بھرپور جواب دیاکہ یہاں سارے حکمران ہی کرپٹ ہیں اور ذاتی مفادات
کی خاطر عوام کو قربان کررہے ہیں۔
لیکن میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عمران خان نے اسی جذبہ ایمانی
اور حب الوطنی کا مظاہرہ عملی طور پر کیوں نہ کیا ۔ہر ایشو بلکہ نان ایشو
پر بھی تحقیقات کا ڈھنڈورا پیٹنے والے عمران خان نے نادرا جیسے انتہائی
حساس اور اہم قومی معاملے پرکیوں چپ سادھ لی۔ عمران کو اتنا بڑا سیکورٹی
کمپرومائز کیوں سمجھ نہ آیا۔کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ2014میں نادرا کے
سنئیر آفیسر اور کوارڈینیشن ڈائریکٹربرگیڈئیر (ر)تنظیم الدین کو نادرااور
گورنمنٹ کے درمیان ہونے والے تمام پیغامات ، اہم معلومات اور ڈیٹا پی ٹی
آئی کو لیک کرنے پر فارغ کیا گیا تھا۔کہیں ایسا تو نہیں عمران خان نادرا سے
اس قومی راز کو راز رکھنے کی قیمت وصولتے رہے ہیں؟
جناب عمران خان جس راز کو آپ نے اپنے مفاد میں قوم سے چھپائے رکھا یا پھر
ممکن ہے کہ اس کی سنگینی سے اگاہ نہ ہوں اور بات کو معمولی جان کر آئی گئی
کردیا ہو۔چلیں آپ کو اور قوم کو اس کی اہمیت سے اگاہ کرتے ہی۔
2009میں نادرا کی جانب سے ’’انٹرنیشنل اڈینٹٹی سروسز‘‘نامی سیکورٹی کمپنی
سے برطانیہ اور امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کونیشنل ایڈنٹٹی کارڈ فار
اوورسیز پاکستانیز (NICOP) اورPakistan Origin Cardجاری کرنے کا کنٹریکٹ
کیا گیا۔
دی نیوز کی 6ستمبر2011کی رپورٹ کے مطابق ’’انٹرنیشنل اڈینٹٹی سروسز‘‘ کے
ساتھ آؤٹ سورسنگ کے منصوبے کی تکمیل کے سلسلے میں برطانیہ میں پاکستانی
ہائی کمیشن میں ہونے والی میٹنگ میں نادرا کے چیئرمین علی ارشد حکیم بھی
موجود تھے۔ اس منصوبے سے افراد کی اہم معلومات، ہیک، لیک یا خفیہ طور پر
فروخت بارے شدید تحفظات کے باوجودکچھ نادرا حکام اس کی تکمیل کیلئے پرعزم
تھے جبکہ وزارت داخلہ اس کنٹریکٹ میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی تھی۔ رپورٹ
میں مزید انکشاف کیا گیا کہ آؤٹ سورسنگ کے منصوبے سے منسلک کلیدی افرادنے
جیل میں ایک ساتھ وقت گزارا ہے اوروہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اعلی سطح کے
رہنما کے نہایت قریبی ہیں۔ایک اور پاکستانی نژاد فردجو اس منصوبے میں ملوث
ہے پی پی پی کے اہم وزیر کا بہت قریبی ہے اور منسٹرنے آؤٹ آف وے جاکر اس
پروجیکٹ کی وکالت کی۔
دی نیوز کی رپورٹ کی مطابق، جنرل منیجر نادرا برطانیہ اور یورپ طارق لودھی
نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ سروسز کو بہتر بنانے کی غرض سے نادرا آؤٹ
سورس منصوبہ 2009 ء سے جاری ہے۔
یقینی طور پر یہ آسان راستہ تھا کہ سسٹم کے اندررہ کر منظم انداز سے تمام
ڈیٹا تک رسائی حاصل کی جاسکے اوراس طرح یوسف رضا گیلانی اور ان کے معاونین
کو بھی تحفظ مل گیا۔
حیران کن اور دلچسپ بات یہ ہے انٹرنیشنل اڈینٹٹی سروسز نامی کمپنی 2009میں
ہی بطور لمیٹڈ کمپنی رجسٹرڈ کی گئی اورنادرا کے ساتھ یہ اس کی پہلی
اسائنمنٹ تھی۔ نادرا جیسے اہم ادارے کا ایک نومولود کمپنی کے ساتھ معاہدہ
بھی ابہام پیدا کرتا ہے۔ 9 جولائی 2009 کو رجسٹرڈ ہونے والی کمپنی کیلئے
نادرا کی اسائنمنٹ پہلی اور آخری اسائنمنٹ ثابت ہوئی اور 18نومبر2014کو اس
نام نہا د کمپنی کو تحلیل کر دیا گیا۔تب سے تاحال آپ کو کمپنی کا کوئی بھی
ریکارڈ نہیں مل پائے گا۔
ان سب واقعات میں مماثلت سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اس
کمپنی کے قیام مقصد صرف نادرا کے ڈیٹا تک رسائی تھا۔جیسے ہی ٹاسک ختم ہوا
کمپنی کا وجود ختم ۔آئی ٹی کنسلٹنٹ کمپنی سے کنٹریکٹ ختم ہوگیا ہو تب بھی
وہ ’’بیک ڈور‘‘ضرور رکھتے ہیں۔ جس سے نہ صرف ڈیٹا تک رسائی کی جاسکتی ہے
بلکہ اپنی مرضی کے مطابق ڈیٹابیس میں کسی بھی فرد کی نئی انٹری اوراخراج
کیا جاسکتا ہے۔
ستمبر2015میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے نادرا کو تحریری طور پر
اس خدشے سے اگاہ کیاتھا کہ ہم اس امکان کو رد نہیں کرسکتے کہ نادرا
کاانتہائی حساس ڈیٹا’’را‘‘اور’’سی آئی اے‘‘سمیت دشمن ایجنسیز کے ہاتھ لگ
چکا ہے۔
نادرا عوامی ریکارڈ کا سب سے اہم ڈیٹا بیس ہے آپ کے شناختی کارڈ، خاندان کی
تفصیل،ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ، ڈی این اے کابایومیٹرک ڈیٹا اور
ووٹرریکارڈسمیت سب نادرا کے ڈیٹا بیس میں ہے۔ نادرا کے ڈیٹا بیس کی اہمیت
کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نئی سم رجسٹرڈ کروانے یا
ویریفیکیشن کیلئے ٹیلی کام آپریٹرز کی طرف سے آن لائن فنگر پرنٹ کے بعد ہی
سم جاری کی جاتی ہے۔ ڈیٹا بیس چوری سے واضح ہے کہ یہ سنگین مضمرات اور
نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔اگر آپ کا پاس ورڈ چوری ہو جاتا یہ ہے تو آپ آسانی
سے اسے تبدیل یا ریکور کرسکتے ہیں لیکن اگرکوئی دشمن آپ کے فنگر پرنٹس حاصل
کرلے تو آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔نادرا کی جانب سے چوری شدہ فنگر پرنٹس کی
مددسے آپ کے علم کے بغیر آسانی سے آپ کے نام سے سم جاری کروائی جاسکتی ہے
غرض جہاں کہیں بھی فنگر پرنٹس کی ضرورت ہو وہاں آسانی سے آپ کے فنگر پرنٹس
کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔جو لوگ ہماری مغربی سرحد، چمن سے آتے ہیں انہیں
بایومیٹرک تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے۔نادرا کا ڈیٹا چوری ہونے کی صورت
میں’’این ایس اے ‘‘اور’’جی سی ایچ کیو‘‘نادرا کے ڈیٹا بیس میں کوئی بھی نیا
ریکارڈ شامل کرسکتے ہیں۔ کسی کوبھی مؤثر طریقے سے بایومیٹرک تصدیق کروا کر
چمن سرحد پار کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔2011میں
26،2012میں493،2013میں6062،2014میں22361،2015میں96689جبکہ2016میں بھی
ریکارڈایک لاکھ گیارہ ہزارپانچ سوچالیس شناختی کارڈ غیر ملکی ہونے کے شک
پرمنسوخ کیے گئے۔2016میں نادرا کو تیرہ ہزار سے زائد پاکستانیوں کی طرف سے
ان کے خاندان میں غیر ملکیوں کے اندراج کی شکایات درج کروائی گئی۔نادرا
ڈیٹابیس2016میں کالعدم طالبان لیڈر ملا منصور کو بھی پاکستانی شہری قرار
دینے کا کارنامہ سر انجام دے چکا ہے۔
اس سلسلے میں ٹاپ کلاس ایتھیکل ہیکر اور معروف سائبر سیکورٹی ایکسپرٹ رافع
بلوچ کا کہنا ہے کہ نادراجیسے اہم ادارے میں کسی کوبھی کوئی رسائی نہیں
دینی چاہئے ،بنک اور سیلولر کمپنیز کو بھی ویریفیکیشن کی سہولت دیتے وقت "کم
از کم کے اصول" پر عمل کرنا چاہئے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں حکومت اور
الیکشن کمیشن سے پرزور درخواست کی جاتی ہے کہ مناسب حفاظتی اقدامات تک
الیکٹرانک ووٹنگ نہ کروائی جائے۔نادرا کا ڈیٹا بیس’’ این ایس اے ‘‘اور دیگر
ملک دشمن ایجنسیز کی پہنچ میں ہونے کی صورت میں الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے
بیرونی طاقتیں باآسانی اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرسکتی ہیں۔جیسا کہ نیشنل
سیکورٹی ایجنسی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق رشین ملٹری انٹیلی جنس
نے2016کے امریکی صدارتی الیکشن سے ایک روزقبل الیکٹرول سسٹم کو ہیک کرنے کی
کوشش کی ۔ایسے میں جب ہمارا سارا ووٹر یکارڈ ہی چوری ہوچکا ہو تو دشمن
طاقتوں کی طرف سے کچھ بھی رزلٹس لیے جاسکتے ہیں۔
رافع بلوچ کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں "سائبر سیکورٹی
یونٹ"کا قیام ناگزیر ہے۔سائبر سیکورٹی سسٹم کی موجودگی سے ہم حساس نوعیت کے
اہم ڈیٹا کو دشمن کی پہنچ سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ اپنے
شہریوں کی پرائیویسی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے۔
نادرا کی سکیورٹی کو از سرے نو ترتیب دیا جائے اورحساس ڈیٹا لیک کرنے اوراس
میں کسی بھی طرح سے معاونت کرنے والے قطعی رعائیت یا معافی کے حقدار نہیں
ہیں۔جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنا کر ان کا سخت احتساب کیا جائے اور
پاکستانی قوم کا حساس ریکارڈ دشمن کے حوالے کرنے والے ملزمان کو قرارواقعی
سزا دی جائے۔ ذاتی مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کرنے والے بھی قوم کے مجرم
ہیں بے شک ان کاکردار بھی ملک کے ساتھ غداری کے زمرے میں آتاہے۔ |