مقبوضہ کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر میں بھارتی
فوجی سربراہ بپن راوت نے خصوصی طور پر ملک بھر کے کور کمانڈرز کی کانفرنس
طلب کر کے جن فیصلوں کا اعلان کیا ان میں سے ایک کشمیری مجاہدین اور تحریک
آزادی کے لئے برسرپیکار لوگوں کے خلاف کھلا اعلان جنگ بلکہ اعلان قتل عام
تھا۔ بپن راوت نے لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین کے چند سرکردہ جہادی
کمانڈروں کے نام گنوائے اور کہا کہ یہ جہاں اور جیسے ملیں، انہیں نشانہ
بنایا جائے۔ یہ تمام نوجوان مقبوضہ کشمیر کے ہی رہنے والے ہیں اور گزشتہ
بھارتی الزامات اور دعوؤں کے برعکس ان کا پاکستان سے کسی قسم کا کوئی تعلق
نہیں ہے اور یوں یہ کشمیریوں کے ہی قتل کا کھلا اعلان ہے۔ اس سے پہلے بپن
راوت نے کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ کشمیریوں کے ہاتھوں میں اگر پتھر کے
بجائے بندوق ہوتی تو انہیں خوشی ہوتی تاکہ وہ انہیں وہیں گولیوں سے بھون
دیتے۔ مزید کہاکہ پتھر اٹھانے والوں پر گولیاں چلانا ان کے لئے نسبتاً مشکل
ہوتا ہے۔ اس سے پہلے بھارت نے حریت رہنماؤں پر پاکستان اور پروفیسر حافظ
محمد سعید سے مدد لینے کا الزام عائد کر کے ان کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنا
شروع کر رکھا تھا اور ان کے گھروں پر چھاپے مار کر لوٹ مار ، چادر و چار
دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے خواتین سے دست درازی اور جبر و تشدد کے
ساتھ گھروں میں لوٹ مار بھی کی جاتی رہی۔اس نئی مہم میں کئی حریت رہنماؤں
کو برائے تفتیش نئی دہلی طلب کیا گیا تو بڑی تعداد گھروں میں قید ہے۔ ساری
دنیا گونگی بہری بنی دیکھ رہی ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں مزیدہزاروں کشمیری
نوجوان، بچے اور خواتین جیلوں میں ٹھونس دیئے گئے اور انہیں جموں سمیت ملک
کے گرم ترین علاقوں کی انتہائی خوفناک جیلوں میں بھر دیا گیا جہاں انتہائی
گرم موسم کے ساتھ ان پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ 25 سال سے
اپنے سرتاج کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنے والی کشمیری خاتون آہن محترمہ
آسیہ اندرابی سخت علالت کے باوجود اپنی ساتھی فہمیدہ صوفی کے ہمراہ جموں کی
انتہائی گرم جیل میں قید ہیں جہاں ان کی حالت روز بروز بگڑ رہی ہے۔ بھارتی
آرمی چیف کے کور کمانڈر اجلاس کے بعد تو بھارت نے یک دم کشمیریوں کا قتل
عام تیز تر کر دیا ہے۔ پوری وادی میں ہی نہیں سیز فائر لائن ( المعروف
کنٹرول لائن) اور مقبوضہ جموں کے آزاد کشمیر سے متصل اضلاع میں بھی جگہ جگہ
کئی کئی ہزار فوجیوں نے فضائیہ کی مدد سے سخت ترین آپریشن شروع کر رکھے ہیں
اور ہر روز کتنے نوجوانوں کو درانداز قرار دے کر شہید کیا جا رہا ہے اور ان
کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے نامعلوم جنگجو قرار دے کر
فرعونی و نمرودی تاریخ دہرانے والی بھارتی فوج دور دراز ویران پہاڑی علاقوں
میں خود ہی دفنا رہی ہے۔ ان نوجوانوں کی لاشیں حاصل کرنے کے لئے ہر علاقے
میں کشمیری مظاہرے بھی کر رہے ہیں اور گولیاں بھی کھا رہے ہیں لیکن لاشیں
حوالے نہیں کی جا رہیں۔ اسی انداز میں بھارتی فوج نے گزشتہ 28 سال میں لگ
بھگ 10 ہزار کشمیری نوجوانوں کو قتل کر کے نامعلوم قبروں میں دفنایا ہے جن
کے لواحقین اپنے پیاروں کی یاد میں ہر ماہ سرینگر کے ہری پرتاپ پارک میں
اکٹھے ہو کر دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن
کوئی ان کی آواز پر کان دھرنے والا نہیں ۔
8 جولائی 2016ء کو سرینگر سے 42 کلو میٹر دور علاقے ترال کے قصبہ شریف آباد
کے رہائشی برہان وانی کو جب بھارتی فوج نے دو ساتھیوں سمیت شہیدکیا تھا تب
سے آج تک سارا جنت نظیر کہلانے والا کشمیر آتش و آہن کی بھٹی میں جھلس رہا
ہے۔ کشمیریوں کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن سیاحتی سیزن گزشتہ سال بھی تباہ ہوا،
سیب اور دیگر پھلوں کی ساری فصل برباد ہو گئی۔ دیگر سارا کا سارا کاروبار
زندگی بھی مکمل ٹھپ رہا۔ وہ سرکاری ملازمین جو کرفیو کی وجہ سے نوکریوں پر
پہنچ نہیں پائے تھے، بڑی تعداد کو ملازمتوں سے برخاست کر دیا گیا۔ اس وقت
سے اب تک مکمل محاصرے کے باعث کشمیریوں کا اب تک جینا محال ہے۔ لگ بھگ 7ماہ
تعلیمی ادارے بند رہے تو اب ایک بار پھر طلبہ و طالبات کو چن چن کر ان کے
اداروں میں گھس گھس کر مارا اور جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ اس عرصہ میں
زخمی کشمیریوں کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہے تو جن کی آنکھیں اور بینائی ان
سے چھین لی گئی، وہ دو ہزار سے زائد ہیں اور یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد جب ہرکشمیری سڑکوں پر تھا اور ہر طرف خون کی
ندیاں بہہ رہی تھیں، تب سے اب تک اس ایک طرح کے سلسلے میں بھارتی وزیراعظم
نریندر مودی اور اس کے سارے کرتاؤں دھرتاؤں نے کشمیریوں کے حوالے سے ایک ہی
فیصلہ کر رکھا ہے کہ انہیں صرف اور صرف طاقت سے کچلا جائے گا اور اس حوالے
سے نہ کوئی دوسری پالیسی اپنائی جائے گی اور نہ کسی کی کوئی بات سنی جائے
گی۔یہی پالیسی 70سال سے جاری و ساری ہے۔ بھارت سمجھتا ہے، چونکہ ساری دنیا
اس کے ساتھ ہے اس لئے وہ اگر آخری کشمیری بچے اور آخری کشمیری خاتون کو بھی
قتل کر دے تو اسے کبھی کوئی نہیں پوچھے گا ،لہٰذا اس نے فوج کو قتل عام کی
مزید کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ ایک کشمیری نوجوان فاروق ڈار کو مار مار کر
زخمی کرنے کے بعد انتہائی برے حال میں جانور کی طرح جیپ کے سامنے باندھ کر
دن بھر گھمایا اور عبرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ایسا کرنے والا بھارتی
فوجی میجر انعام کا حق دار ٹھہرتا ہے اور نئی دہلی سے خوب تعریف کی جاتی ہے
توہم اس سب کو کیا کہیں گے؟
بھارت نے گزشتہ 28 سال میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید، کئی لاکھ زخمی
کئے لیکن آج تک سرعام سینکڑوں کشمیریوں کو قتل کرنے والے کسی ایک فوجی کو
ہاتھ تک نہیں لگایا گیا مگر کشمیریوں کے خون کی قیمت بھارت کے نزدیک ایک
مکھی یا مچھر جتنی بھی نہیں ہے۔ ان تمام تر حالات کے باوجود کشمیری ہر روز
پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے، پاکستان کے پرچم اٹھاتے، پاکستان سے الحاق
کی جدوجہد کی پاداش میں گولیاں کھاتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان سے محبت اور
آزادی کی جدوجہد کی راہ میں قربانیاں دینے اور عزیمت کی نئی تاریخ رقم کر
ڈالی ہے۔ یہ ان کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ بھارتی فوج پاکستان پر حملے
کرنے کی ذرہ بھر پوزیشن میں نہیں ہے،یعنی ہمارے دفاع کی حقیقی دیوار اب بھی
کشمیری قوم ہے جس سے ہم سارے لوگ مکمل بے بہرہ ہیں۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ
بھارت نے پاکستان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑتے پانی کو روکنے کے لئے
مقبوضہ کشمیر سے پانی روکنے کے بعد اب پانی کے منبع ہی تباہ کرنا شروع
کررکھے ہیں۔ بھارت کو نظر آ چکا ہے کہ کشمیر جلد یا بدیر اس کے ہاتھوں سے
نکل کر رہے گا تو اس نے اندھے قتل عام کے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے سارے قدرتی
وسائل کو ملیا میٹ کرنا تیز کر دیا ہے۔ جنگلات کا تیزی سے خاتمہ کیا جا رہا
ہے جس سے پانی کی آمد میں بھی کمی ہو رہی ہے ۔مقبوضہ کشمیر کی بڑی بڑی
جھیلیں اب تیزی سے سکڑ اور ندیوں نالوں کے ساتھ ساتھ خشک ہو رہی ہیں۔ اگر
حالات یہی رہے اور ہم نے کشمیر کی آزادی کے لئے فوری اور سنجیدہ کوشش نہ کی
تو کشمیر کسی صحرا نہیں بلکہ جلے سڑے چٹیل علاقے کا نقشہ پیش کرنے لگے گا
اور ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا ۔کیا ہم اس روز کا انتظار کر رہے ہیں
جب بھارت آخری کشمیری کو بھی قتل کر کے سارے کشمیر کو مکمل خاکستر کر چکا
ہو گا۔ اگر ہماری کشمیر پر ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ پالیسی تبدیل نہ
ہوئی تو ہمیں سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ملے گا۔ اس وقت حکومت وقت کا فرض
ہے کہ وہ ساری قوم کو اعتماد میں لے اور تمام تر طبقات ساتھ ملا کر آزاد ی
کشمیر کو اولین ترجیح بنا کر قومی و عالمی مہم چلائے۔ اپنے ہمنوا دوست
میدان میں لائے۔ کشمیر کے بغیر ہمارا سی پیک کی کامیابی کا خواب بھی تشنہ
ہے تو ملک کا حال و مستقبل بھی شدید خطرے میں ہے، لہٰذا اب ہوش میں آ جائیں
اور آنکھیں کھول کر آگے بڑھنے والے بن جائیں۔ |