آزاد جموں وکشمیرمیں وزیر اعظم فاروق حیدر کی سربراہی میں
قائم مسلم لیگی حکومت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر نجیب نقی نے ایوان نمائندگان میں
اپنا پہلا بجٹ پیش کر دیا ہے ۔جس کے 94ارب 48 کروڑ کے بجٹ میں 23ارب 28کروڑ
ترقیاتی منصوبہ جات کیلئے مختص کیے گئے ہیں اور باقی 71ارب 20کروڑ غیر
ترقیاتی اخراجات یعنی ریاستی انتظامی امور ،تنخواہوں و مراعات ،امن و عامہ
،تعلیم و دیگر اخراجات کیلئے فراہم ہونگے ۔وزیر خزانہ کی تقریر کے مندرجات
میں اعداد و شمار کا سرسری جائزہ لیا جائے تو حکومت پاکستان عالمی سطح پر
پورے ملک کیلئے جو قرضہ جات امداد کے نام پر حاصل کرتی ہے ان سمیت خود
حکومت پاکستان کے براہ راست منصوبہ جات کیلئے فراہم ہونے والے 23ارب کو
شامل رکھتے ہوئے کم و بیش 242ارب کے منصوبہ جات شروع کیے جانے کی تفصیلات
بتائی گئی ہے ۔ان میں سات ارب تعمیر نو کیلئے فراہم ہونگے ۔اگر ان میں کے
پی کے صوبہ کے زلزلہ متاثرہ اضلاع کا حصہ نہیں ہے تو اور پھر لوئر ٹوپہ
کوہالہ ایکسپریس وے کے 20ارب روپے کے منصوبوں میں سے آئندہ سال دو ارب خرچ
ہونگے ۔مثال سی پیک سمیت میگا پراجیکٹس پر مجموعی تخمینہ بتایا گیا ہے جو
ایک سال نہیں دو سے پانچ سال تک میں مکمل ہونگے ۔جن میں قانون ساز اسمبلی
کمپلیکس تاؤ بٹ تا مظفرآباد روڈ کیرن لیسواہ بائی پاس روڈ،مظفرآباد میرپور
میڈیکل کالجز،وویمن یونیورسٹی باغ کی عمارات جبکہ سی پیک کے تحت مظفرآباد
مانسہرہ میرپور منگلا ایکسپریس وے ،لوئر ٹوپہ کوہالہ ایکسپریس وے میرپور
اکنامک زون شامل ہیں تو کوہالہ 1124،کروٹ 720میگا واٹ کے ہائیڈرل پراجیکٹ
بھی اسی میں شامل رکھے گئے ہیں ۔جس کا مطلب ہے آئندہ دو سے پانچ سال تک کی
مدت تک کے منصوبہ جات پر 242ارب میں سے زیادہ ان دو منصوبہ جات پر اخراجات
ہونگے ۔خود آزادکشمیر کے محکموں نے 23ارب ترقیاتی منصوبہ جات پر ایک سال
میں خرچ کرنے ہیں ۔جن میں سڑکات ،پل،عمارات،صحت عامہ ،تعلیم برقیات،سمیت
دیگر محکموں کے لئے منصوبہ جات ہیں ۔ جو اجتماعیت کی بہتری سے تعلق رکھتے
ہیں لہذا تمام اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے پیوستہ رہے شجر سے امیدیں
بہار رکھ کہ مصداق فاروق حیدر حکومت کیلئے مبارکباد حق بنتا ہے ۔باوجود اس
کے اسلام آباد کی حکمران ٹیموں کے مائینڈ سٹ کا اصول سیاست یہی ہے آپ پانچ
ہزار کو پچاس ہزار جیسا روپ دکھا کر پیش کرو ملک کے ایک کونے والے کو دوسرے
کونے والے سے کیا لینا دینا ۔لہذا خوب شور مچائے رکھو ۔یہ ہو گیا ہے وہ
ہونے والا ہے۔جیسا کہ بجلی کا شور و غل مچا دیا گیا تھا اوراب ملک کے ایک
کونے سے لے کر دوسرے کونے تک لوڈ شیڈنگ کا کہرام برپا ہے اس کے باوجود اپنی
مرکزی حکومت کی ٹیموں سے جو کچھ حاصل کیا ہے یا حاصل کرنا ہے یہ واقعتاً
بہت بڑی پیش رفت ہے اور اصل امتحان یہ ہے اب پہلے سے بہت ہی زیادہ محنت ،پہرہ
داری کرتے ہوئے بجٹ میں پیش کردہ ترجیحات پر عملدرآمد کرایا جائے جس کیلئے
اکاؤنٹ 101سے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ منسلک مشینری کے تمام پرزوں کو زنگ
اتارتے ہوئے پالش کرنا ہوگا جو اس طرح ممکن ہیں مشینوں کے پرزوں کو کنویں
سے نکال کر سمندر یعنی ملک کے اندر ساری مشینری میں شامل کر کے سیکھنے
سکھانے کے عملی کردار سے گزارہ جائے اور ملک کی مشینری کے پرزوں کو یہاں لا
کر اپنی مشینری میں شامل کرتے ہوئے اس کی صلاحیت و عمل میں مقابلے کا رجحان
پیدا کیا جائے ۔آپ ٹیوٹا ،سماجی بہبود وغیرہ کے تحت لڑکیاں ہوں یا لڑکے ہنر
مندی کی تعلیم دے کر فنڈز اور کے وقت کا درست استعمال نہیں کروا سکتے ہیں
بلکہ ڈگریاں ،سرٹیفکیٹ،ڈپلومے بغیر باعمل ماحول کا حصہ بنے ناکارہ ثابت
ہوتی ہیں ۔پہلے سے موجود پرائیویٹ مکینکل ورکشاپ فیکٹریوں ،درزی سے لے کر
ہنر مند کی چھوٹی بڑی ورکشاپوں ،دکانوں میں نوجوانوں کومعمور کر کے مناسب
اعزازیہ دیا جائے اور دکان والے ہنر مند کی بھی حوصلہ افزائی کیجائے تو بڑی
تبدیلی آسکتی ہے ۔سمال انڈسٹری سمیت بینکوں سے قرضے جائیداد بینک بیلنس
وغیرہ کی شرط کے بجائے حقیقی معنوں میں حقدار نوجوان کو خواندہ یا ناخواندہ
اورتعلیم کے مطابق صرف پچاس ہزار سے تین لاکھ تک خواہ سبزی سے لے کر موبائل
پرچون یا حصول روزگار کے ذریعے کے حوالہ سے محلہ کمیٹی کے معززین کی سفارش
پر کاروبار کا آغاز کرایا جائے تو بنگلہ دیش کی طرح سب قرض واپس آکر ایک
چین بنتے ہوئے معاشرتی ،معاشی بہتری کا تسلسل ثابت ہو سکتی ہے ۔یہ کام آزاد
حکومت اور اس کے ادارے خود بھی کر سکتے ہیں ۔جس کے وزیر اعظم فاروق حیدر
اور سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے اپوزیشن قائدین سے مذاکرات کر کے
ایوان میں واپس لاتے ہوئے کارروائی کا حصہ بنانے کا فریضہ دیر آید درست آید
کے مصداق سر انجام دیا ہے ۔سپیکر کی رولنگ جس معاملے یا جواز بنا کر دی گئی
تھی وہ الزام جان کے دشمنوں پر بھی نہیں لگایا جاتا ہے جسے حذف کرنا شاندار
اقدام ہے اور اپوزیشن لیڈر چوہدری یاسین بھی مبارکباد کے حق دار ہیں جنہوں
نے صحیح معنوں میں درست موقف پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ان سمیت ساری
اپوزیشن اسمبلی کارروائی کا حصہ بنی ہے ۔نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومتی ممبران
کو بھی یہ سوال پوری شد ومد کے ساتھ اٹھانے چاہئے ہیں کہ ہائیڈرل پراجیکٹس
ناگزیر ہیں وسائل اسباب کا بھرپور استفادہ ہونا چاہئیے مگر مظفرآباد جہلم
کوہالہ وادیوں کی آبادیاں ماحولیاتی زلزلوں کا شکار ہونگی ان کا کیا حل کیا
گیا ہے جس پر سارا بجٹ گونگا تماشائی بنا ہوا ہے اسی طرح سارے مسائل کی جڑ
اور ان کا حل آئینی اصلاحات تجویز ہوا تھا یہ آئینی اصلاحات کب اور کتنی
مدت میں ہونگی ۔کیونکہ لیگی حکومت کے منشور کا سب سے اہم ایشو یہی تھا آزاد
حکومت کو باوقار اور بااختیار بنائیں گے۔جو آئینی اصلاحات کے بغیر ممکن
نہیں ہے ۔ |