بلاآخر نواز شریف صاحب صدر ن لیگ اور وزیر اعظم پاکستان
سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو گئے۔وہ اس پیشی میں جے
آئی ٹی کے تیار کردہ منی ٹریل کے سوالات کا جواب دیں گے کہ لندن جائیداد
خریدنے کے لیے پیسے کیسے لندن پہنچے۔ اس سے قبل وزیر اعظم ہاؤس میں وکلا،
نواز فیملی اور وفاقی وزیروں کے ساتھ دو دن میٹینگ کی گئی۔ اس میں ممکنہ
سوالات کے جوابات دینے کے لیے تیاری کی گئی۔ نواز شریف کے ساتھ پرویز رشید
جو قومی راز فاش کرنے کے مجرم بھی ہیں ان کے ساتھ موجود تھے۔ وزیر داخلہ
چوہدری نثار، مریم نواز، حمزہ شہباز، خواجہ آصف، اسحاق ڈار، عرفان
صدیقی،شہباز شریف، کیپٹن صفدر،حسین نواز کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس سے روانہ
ہوئے۔ لاہور سے وکلا کی ٹیم بھی یوڈیشنل اکیڈمی کے سامنے موجود ہیں۔ ن لیگ
کے کثیر تعداد میں کارکن بھی موجود ہیں ۔نعرے لگ رہے ہیں قدم بڑھاؤ نواز
شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں۔واہ رے سیاست کی منافقت کہ ایک طرف ایک دن پہلے
کارکنوں کو منع کیا وہ یوڈیشنل اکیڈمی نہ آئیں اور آج اس کے آنے پر خوشی
کااظہار کرتے ہوئے ہاتھ ہلا ہلا کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہے تھے ۔
وزیر ہاؤس سے مریم نواز نے میٹنیگ میں شریک اشخاص کی تصویر بھی جاری کی۔
وزیر اعظم کے خصوصی مشیر آصف کرمانی صاحب یوڈیشنل اکیڈمی کے سامنے ٹریفک
کنٹرول کر رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم استثنی کے باوجود جے آئی ٹی
کے سامنے اپنی گاڑی میں آکر پیش ہوئے۔ صاحبو! یہ عجیب منطق ہے کہ آپ پر
کرپشن کا الزام ہوں آپ اقتدار میں بیٹھ کر عوام کا پیسہ لوٹ لیں اور اس پر
قانون آپ کو استثنی دے۔پاکستان سے لوٹے ہوئے تین سو پچھتر ارب ڈالر باہر
ملکوں میں پڑے ہیں۔ قرضوں کی وجہ سے ملک کے ہر شہری ایک لاکھ بیس ہزار کا
مقروض ہے۔ عابد شیر اعلی نے یوڈیشنل اکیڈمی کے باہر ظہر کی باجماعت نماز
ادا کی اور نواز شریف کے لیے دعا کی جس پر ٹی وی تبصرہ میں کہا گیا کہ نماز
کی امامت تو سینئرترین شخص کرتا ہے اور اس وقت نواز شریف ہیں جنہیں نماز کی
امامت کرنے چاہیے۔ اسحاق ڈار اور خواجہ آصف کو یوڈیشنل اکیڈمی میں داخل
ہونے سے روک دیا گیا۔میڈیا کے مطابق صرف اپنے منظور نظر ایک بڑے میڈیا گروپ
کے نمائیندوں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی جس پر صحافیوں نے احتجاج بھی
کیا۔ ممکنہ پریس کانفرنس کے لیے ایک اسٹیج بنایا گیا تھا جو بعد میں ہٹا
دیا گیا۔ مریم نواز کے اس ٹیویٹ کہ وزیر اعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر
تاریخ مرتب کر رہیں۔ا یسی مثال قائم کی جا رہی ہے جس کی ضرورت تھی۔ جناب!
یہ کوئی سیاسی مقدمہ نہیں کہ تاریخ مرتب ہو رہی ہے۔ یہ عوام کے امین کے
ہاتھوں عوام کے لوٹے ہوئے پیسے کی کرپشن کا مقدمہ ہے۔ اس میں سب کو سنجیدہ
ہونا چا ہیے۔ تاریخ مرتب کے جواب پر تبصرہ نگار کہتے ہیں یہ کوئی نئی بات
نہیں کہ وزیر اعظم پاکستان سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کے سامنے
پیش ہو رہے ہیں ۔اس سے قبل پیپلزپارٹی کے دووزیر اعظم، یوسف رضا جیلانی اور
راجہ اشرف سپریم کورٹ میں پیش ہو کر پہلے ہی سے تاریخ مرتب کر چکے ہیں۔
مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں بے نظیر بھٹو بھی عدالت میں پیش ہوئی تھی۔ پیپلز
پارٹی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں کہا ہم نے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے
کھلے دل سے تسلیم کیے۔ پیپلز پارٹی کو رسوا کرنے والے آج کوخودسوائی کے عمل
سے گزر رہے ہیں۔ یہ بات نہیں جس بھی سیاسی لیڈر پر کرپشن کاالزام لگے گا
اسے پاکستان کی عدالتوں میں پیش ہو کر اپنی بے گنا ہی کاثبوت پیش کرنا پڑے
گا یہی دنیا کے جمہوری ملکوں کا رواج ہے۔بظاہر تو یہ تاثر دیا گیا کہ وزیر
اعظم بغیر پروٹکول اور پاکستان کے جھنڈا لگے بغیر گاڑی کے جے آئی ٹی میں
پیش ہونے کے لیے گئے۔ بلکہ پورا علاقہ سیکورٹی اداروں کی گرفت میں ہے ۔
سیکورٹی کے تین حصار قائم کیے گئے ہیں۔ادھر برطانوی خبر رساں ایجنسی نے کہا
ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں ملک میں افراتفری کا خدشہ ہے۔یہ
مغرب کا وطیرہ ہے کہ ایسے باتیں پھیلائی جائیں۔ کیاان کے ملک میں بڑے بڑے
واقعات نہیں ہوتے ۔کرپشن کے الزامات لگتے ہیں مقتدر لوگ مستعفی ہو جاتے ہیں
ان کی جگہ دوسرے لوگ آ جاتے ہیں کہیں بھی افراتفری نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک
میں ایسا ہونے سے ایسی ڈسانفارمیشن کی خبریں پھیلا کر برطانوی خبر رساں
ایجنسی کس کے ہاتھ مضبوط کرتی نظر آتی ہے؟۔ ٹی وی پر تبصر ے میں کہا گیا کہ
اے کاش کہ اس پیشی کی لائف کوریج ہوتی جیسے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے اس سے
پوری قوم دیکھتی کہ وزیر اعظم نے ممکنہ کرپشن اورمنی ٹریل کے سوالات کے
کیاجوابات دیے۔سابق اٹارنی جنرل غلام قادر نے ٹی وی تبصرے میں کہا کہ اچھا
ہوتا کی جے آئی ٹی والے نواز شریف کے پاس سوالات کرنے کے لیے خود چلے
جاتے۔لگتا ہے کہ پاناما کیس میں نواز شریف فیملی کے پاس قطری خط کے علاوہ
منی ٹریل کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔ اسی لیے سپریم کورٹ کے دو ججوں نے
نوازز شریف کو نا اہل قرار دینے کا فیصلہ لکھا تھا۔ تین ججوں نے مزید
تحقیقات کے لیے ساٹھ دن کی مہولت اور ایک جے آئی ٹی بنا کر حتمی فیصلہ کرنے
کے لیا ثبوت فراہم کرنے کی نواز شریف ایک اور موقعہ فراہم کیا تھا۔ قطری خط
بھی محمل سا خط ہے جس میں شہزادہ لکھتاہے کہ جیسے مجھے یاد ہے میرے والد کے
ساتھ نواز شریف کے والد نے کاروبار کے لیے پیسے لگائے تھے جس میں منافع ہوا
اور اب ایک عرصہ کے بعد اس کی ایڈجسمنٹ کے لیے میں نے لندن کے فلیٹ نواز
فیملی کے نام کئے۔ حسین نواز ٹی وی پروگرام میں میں مان چکا ہے کہ جدہ کی
اسٹیل مل میں ہماری فیملی کو بہت منافع ہوا جس پر ہم نے لندن والے فلیٹ
خریدے۔ قطری اور حسین نواز کے بیانات میں تضاد ہے۔ جے آئی ٹی تو سیدھا
سادھا سا سوال کر رہی ہے کہ پیسہ لندن کیسے منتقل ہوا اس کے کاغذات پیش کیے
جائیں جوابھی تک نواز فیملی پیش نہیں کر سکی۔ آج نواز شریف صاحب سے بھی جے
آئی ٹی ممکنہ طور پر یہی سوالات کرے گی۔ واجد ضیا کی سربرائی میں جے آئی ٹی
کا اجلاس ہوا۔ تین گھنٹے سوالات کے جواب دینے کے بعد وزیر اعظم باہر آگئے
ہیں۔وزیر اعظم نے باہر آکر میڈیا سے گفتگو ی۔ پیچھے حسین نواز اور حمزا
شہباز موجود تھے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں اس لیے جے آئی ٹی میں پیش ہوا کہ
وزیر اعظم سمیت سب قانون کے سامنے پیش ہونے کے پابند ہیں۔انہوں نے کہا کہ
میرے اثاثون کے کاغذات سپریم کورٹ کے پاس موجود ہیں ۔ آج میں بے پھر کاغذات
پیش کر دیے ہیں۔ میں نے اپنے پورے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کر دیا ہے۔
میں نے خووجو یڈیشل کمیشن قائم کرنا کا کہا تھا۔ میں نے ایک ایک پائی کا
حساب دے دیا ہے۔ ۱۹۳۶ء سے میری تین نسلوں کا بے رحمانہ احتساب ہو ا ہے۔اس
سے پہلے بھی کڑاحتساب ڈکٹیٹر مشرف نے کیا۔ آج ہماری حکومت ہے عوام نے تین
بار مجھے چنا ہے ہم نے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیا نہ پہلے کچھ
نکلا نہ اب نکلے گا ۔ مخالف کچھ بھی کر لیں ہم سرخ رو ہون گے۔ عوام یاد
رکھیں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں کرپشن یا خرد برد کا کوئی الزام نہیں
ہے۔ہمارے خاندان کے ذاتی کاروبار کو الجھایا جا رہا ہے۔ عوام کو یا رکھنا
چاہیے کہ ایک بڑی عدالت بیس کروڑ کی عدالت بھی لگنے والی ہے وہ بھی ہمارے
حق میں فیصلہ دی گی۔ ایک اﷲ کی عدالت ہے جو سب کچھ جانتا ہے ہمیں اس عدالت
میں پیش ہونے کی فکر ہے۔آیندہ آنے والے دنوں میں کچھ کہوں گا۔مریم نواز نے
نے ٹویٹ کیا کہ نواز شریف صرف شیر ہی نہیں ہیں بلکہ شیر دل بھی ہیں۔ |