مٹی کا بلاوا

وادی سون سکیسر کی سرزمین افواج پاکستان کے لیے ایک ایسے زرخیز خطے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ اپنی ماں کی آغوش میں ہی وطن پر قربان ہونے کا سبق پڑھ کے جوان ہوتاہے ۔ اس علاقے کا شاید ہی کوئی گاؤں یا شہر ایسا ہوگا ٗ جہاں شہیدوں اور غازیوں کا بسیرا نہ ہو ۔ جنگ عظیم اول اور دوم کے دوران بھی اسی خطہ زمین کے غیور اور بہادر لوگوں نے دنیا کی عسکری تاریخ پر اپنی بہادری سے ایسے انمٹ نقوش ِثبت کیے کہ حکومت برطانیہ کی جانب سے بہادری کے اعتراف میں کئی سرفروشوں کو برطانیہ کا اعلی ترین فوج اعزاز "کنٹری کراس "سے دیاگیا ۔ آزادی کے بعد پاکستان کی عسکری تاریخ بھی وادی سو ن سکیسر کے جانبازوں کی جرات اور بہادری سے بھری پڑی ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ اس سرزمین میں پیدا ہونے والا بچہ ٗ شہید یا غازی بننے کے لیے ہی دنیامیں آتا ہے ۔ دراز قد ٗ مضبوط جسمانی ساخت اور پھرتیلے جسم والے نوجوان دنیا کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں ٗاپنی الگ شناخت اور پہچان رکھتے ہیں ۔ پاک فوج ہو یا پاکستان ائیر فورس ٗ پاکستان بحریہ ہو یا کوئی بھی سیکورٹی ادارہ ہر جگہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا جذبہ رکھنے والے سرفروش اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔

اسی سرزمین کا ایک عظیم فرزند "غلام علی " بھی تھے۔ جو 1953ء میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ابھی وہ گیارہ سال کے ہی تھے کہ شفقت پدری سے محروم ہوگیا ۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی بنا پر لاڈ ٗ پیار اور شفقت و محبت کے ساتھ ساتھ ان کے خون میں وطن سے محبت کا جذبہ بھی موجزن تھا ۔ جب بھی پاک فوج کا کوئی گبھرو جوان وردی پہن کر گاؤں چھٹی پر آتا تھا تو غلام علی کا وہ آئیڈیل قرار پاتا۔ بچپن سے ہی وہ وردی پہننے کا شوقین بن چکا تھا ۔ ابھی وہ کمسن اورنو عمر تھالیکن جب ان کی والدہ پاک فوج کی بہادری کے قصے سناکر اسے سلاتی تو اس لمحے ان کی آنکھوں میں وطن کی محبت کے آنسو تیرنے لگتے ۔ فوج بن کر دشمن سے جنگ کرنے کا جذبہ پروان چڑھنے لگتا ۔ اس شوق اور جنون کو ہوا دینے کی وجہ یہ بھی تھی کہ غلام علی کا حقیقی چچا غلام حسین ربع صدی پہلے پاک فوج میں سپاہی بھرتی ہوا تھا ۔ مضبوط جسم اور بہادر غلام حسین نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں کھیم کرن کے محاذ پر شجاعت کے جوہر کچھ اس طرح دکھائے کہ پاک فوج نے اس محاذپر پیش قدمی کرتے ہوئے بھارت کے سرحدی شہر "کھیم کرن"سمیت وسیع علاقے پر قبضہ کرلیا ۔ یادرہے کہ اس جنگ میں پاک فوج اور بھارتی فوج کا تناسب ایک تیرہ تھا ۔ بھارتی فوج جدید ترین روسی اسلحے سے لیس تھی اور انہیں مسلسل مدد بھی حاصل تھی اس کے برعکس پاک فوج کے جوانوں کی تعداد ایک تہائی سے بھی کم تھی اور بروقت کمک کا ملنا بھی محال تھا۔ پاک فوج نے اپنے بہترین کمانڈر بریگیڈئر شامی کی قیادت میں ایک ایسی جنگ لڑی جس کا دنیاکی عسکری تاریخ میں ذکر ہمیشہ کیا جاتا رہے گا۔جتنا بہادر کمانڈر اتنے ہی بہادر پاک فوج کے جوان تھے ۔ 1965ء کی جنگ ختم ہوئی تو پاکستانی قوم جیت کا جشن منانے میں مصروف ہوگئی اور حکومتی ایوانوں میں شرابی اور زانی لوگ آبسے ۔ جبکہ بھارت نے ٹھنڈے پیٹوں یہ شکست قبول نہ کی اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے مشرقی پاکستان کو منتخب کیا جو مغربی پاکستان سے دو ہزار میل دور تھا۔ جہاں فوجی کمک پہنچانے کے لیے بھارتی فضاؤں سے گزرنا پڑتا یا بحری راستہ اختیار کرنا پڑتا جو بہت طویل تھا۔ بھارت نے باقاعدہ جنگ شروع کرنے سے پہلے بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے بارے میں زہر گھولا اور پروپیگنڈہ کرکے باغی بنگالیوں کو بھارتی فوج نے باقاعدہ گوریلا جنگ کی تربیت دی پھر گوریلا بنگالیوں کو پاک فوج کے خلاف مشرقی پاکستان میں استعمال بھی کیا۔ سرحد پر بھارتی فوج یلغار کررہی تھی تو پیچھے شہروں ادر دیہاتوں میں مکتی باہنی کے شرپسند پاک فوج کی نقل و حرکت کو ناکام بنانے کے لیے مصروف عمل تھے ۔ اس ماحول میں حوالدار غلام حسین کا تبادلہ بھی مشرقی پاکستان کردیاگیا تاکہ وہاں کے حالات پر کنٹرول حاصل کیاجاسکے ۔ جب تک وہاں کمک پہنچی اس وقت تک بھارتی فوج اور حکومت کا پروپیگنڈہ اپنا کام دکھاچکا تھا ۔ بین الاقوامی دنیاکی اشیر باد سے بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان کو گھیر لیا تھا چنانچہ تین اطراف میں سمندر اور ایک جانب سے بھارت میں گھرا ہوا مشرقی پاکستان بچانا اب کسی کے بھی بس میں نہیں تھا ۔ افسوس کہ پاکستانی حکمران جن میں جنرل محمد یحیی خان اور ذوالفقار علی بھٹو شامل تھے۔ اس نازک صورت حال میں بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زورلگا رہے تھے ۔ چنانچہ 90 ہزار سویلین اور فوجی جوان شکست کے بعدبھارتی قید میں جا پہنچے ان میں غلام حسین بھی شامل تھا ۔ بھارتی قید میں بدترین حالات کا سامنا انہیں کرنا پڑا اس کا الفاظ میں ذکر نہیں کیاجاسکتا لیکن غلام حسین نے پھر بھی حوصلہ نہیں ہوا اور اپنے جذبوں کو جوان رکھا ۔ پھر وہ وقت بھی آپہنچا جب بین الاقوامی دباؤکے نتیجے میں بھارتی قید سے پاکستانی جنگی قیدی رہا ہوکر وطن واپس لوٹے ۔ان میں غلام علی کا چچا غلام حسین بھی شامل تھا ۔

جب غلام حسین اپنے گاؤں پہنچا تو شکست کا داغ ان کے ماتھے پر سجا ہوا دکھائی دیا ۔ نوجوان غلام علی کا خون اپنے چچا کو دیکھ کر جوش مارنے لگا انہوں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ وہ بھی پاک فوج میں شامل ہوکر بھارتی فوج سے ایک نہ ایک دن اپنے چچا کی تذلیل کا بدلہ لیں گے ۔ جب یہ خبر غلام علی کی والدہ تک پہنچی تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔اس نے غلام علی کو اپنے دوپٹے کا واسطہ دے کر کہا بیٹا باپ تمہارے بچپن میں ہی فوت ہوگیا تھا تمہارا چچا دشمن کی قید میں چار سال رہنے کے بعد ابھی واپس لوٹا ہے ۔ میں ان پریشانیوں اور مصائب سے لڑتی لڑتی بیمار اور بوڑھی ہوچکی ہوں اگر تو بھی فوج میں بھرتی ہوگیا تو میری دیکھ بھال کون کرے گا ۔ بیماری میں مجھے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس کون لے کر جائیگا ۔ میں کس کے ساتھ اپنا دکھ سکھ کیا کروں گی ۔ کون میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر دلاسہ دیا کرے گا ۔کون میرے سر کا دوپٹہ قائم رکھے گا ۔ تم میری اکلوتی اولاد ہو میں تمہیں کیسے خود سے جدا کرسکتی ہوں ۔ میں تیرے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔ ماں کی التجائیں سن کر غلام علی کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے ۔وہ ماں کی آغوش میں سر رکھ کر لیٹ گئے اور بہت دیر تک روتے رہے پھر کہا ماں.... کیا تم چاہتی ہو کہ میں اپنے وطن کی شکست کا بدلہ نہلوں ٗ کیا تم چاہتی ہوکہ میں اپنے وطن کے تحفظ کے لیے خودکو پیش نہ کروں ۔ لاکھوں بہنیں ٗ بیٹیاں اور مائیں میری منتظر ہیں کہ میں فوج میں بھرتی ہوکر ان کا تحفظ کروں اور دشمن کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملاکر اپنے ہم وطنوں کے لیے پرسکون زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کروں ۔ ماں ..... ان لاکھوں ماؤں کو دیکھوں جو وطن عزیز کی حفاظت کے لیے مجھے پکار پکار کر بلا رہی ہیں ۔ ان لاکھوں بہنوں کی صدائیں میرے کانوں میں سنائی دیتی ہیں جو مجھے اپنے تحفظ کے لیے بلا رہی ہیں ۔ ماں ...... میں ایک غیور قوم اور خاندان کا بیٹا ہوں میری رگوں میں دوڑنے والا خون ذلت اور رسوائی کی زندگی پسندنہیں کرتا ۔ وطن عزیزکی حفاظت میرے خون میں رچی بسی ہے ۔ غلام علی کے الفاظ سنتے ہی ماں نے غلام علی کے سر پر ہاتھ رکھا اورکہا بیٹا میں تمہیں فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دیتی ہوں۔

ذھوک اچھرال تحصیل و ضلع چکوال کا یہ سرفروش فوج میں بھرتی ہونے کے لیے رنگروٹ سنٹر جہلم جا پہنچا ۔ جسمانی خدو خال معیار پر پورا اترنے کی وجہ سے انہیں فوری طور پر فوج میں بھرتی کرلیا گیا ۔ چھ ماہ مردان میں تربیت حاصل کرنے کے بعد غلام علی فرسٹ پنجاب رجمنٹ کا حصہ بن گئے ۔یاد رہے کہ پنجاب رجمنٹ اپنی بہترین عسکری تاریخ کی بدولت پاک فوج میں اہم مقام رکھتی ہے ۔ یہاں پہنچ کر غلام علی کا وردی پہننے کا خواب پورا ہوا جس کا تصور وہ بچپن سے ہی کیا کرتا تھا اور گاؤں آنے والے ہر فوجی کو رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا۔ جب وہ پہلی بار وردی پہن کر اپنے گاؤں لوٹا تو پورے گاؤں میں ایک جشن کا سماں تھا ۔ ہر چھوٹا بڑا غلام علی کو پیار بھری نگاہ سے دیکھ کر رشک کررہا تھا ۔وردی کے سمیت غلام علی کو گاؤں کے اس سکول میں جلوس کی صورت میں لے جایا گیا ۔جہاں وہ کبھی زیر تعلیم رہا تھا ۔ اساتذہ کرام کی محبت اور سکول بچوں کا پیار غلام علی کے حوصلوں اور جذبوں کو مزید جوان کرگیا ۔ سکول سے فارغ ہوکر جلوس کی شکل میں غلام علی کو ان کے اپنے گھر تک لایا گیا۔ جہاں اس کی بوڑھی ماں اور پاک فوج کے ریٹائر چچا غلام حسین نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا ۔ ماں نے وردی میں دیکھ کر بیٹے کا ماتھا چوما اور آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئی بولی میریا پترا میرے وطن تے کدی آنچ نہ آن دیویں اور دشمن نوں ایسا سبق سکھائیں جیڑا وہ قیامت تک بھی نہ بھلے ۔ ماں نے اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی چوری کھلا کر کہا بیٹا میری اس خدمت کی لاج رکھنا ۔ وطن پر جب بھی برا وقت آئے تو دشمن کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے والوں میں تمہیں سب سے آگے ہونا چاہیئے ۔ غلام علی نے ماں کا ہاتھ چوم کر اپنے سر پر رکھا اور کہاماں جی میں تیری ممتا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں کبھی پیٹھ پر گولی نہیں کھاؤں گا اور دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا رہوں گا ۔ میں اپنے وطن کو ماں سے بھی زیادہ مقدس اور عظیم سمجھوں گاقدرت نے جب بھی موقع فراہم کیا میں اپنے خاندان اور گاؤں کا نام کچھ اس طرح روشن کروں گا کہ گاؤں میں تیرے بیٹے کے نام کے چراغ جلائے جاتے رہیں گے ۔

پاک فوج کے سابق سرفروش اور غلام علی کا چچا غلام حسین آگے بڑھا اور بھتیجے کو سینے سے لگا کر پیار کیا اور فوجی انداز میں سیلوٹ کر کے کہا بیٹا تم میرے وطن کی عزت اور مان ہو ۔ جب بھی دشمن سے آمنا سامنا ہو تم نے 1971ء والی شکست کا بدلہ لینا ہے یہ میرا تم پر قرض ہے ۔ قدرت نے ہر وہ موقع فراہم کیا جس میں بے شمار مشکلات اورایڈونچر بھی شامل تھیں لیکن وہ موقع فراہم نہیں ہوسکا جس کے لیے غلام پاک فوج میں شامل ہواتھا ۔ وہ مقصد بھارتی فوج سے دو دو ہاتھ کرنے کا تھا ۔

1975ء میں غلام علی کی پوسٹنگ کراچی ہوگئی ۔ جہاں 1976ء میں اسے کمانڈو کورس کے لیے منتخب کرلیا گیا ۔ کمانڈو کورس مکمل کرنے کے بعد انہیں اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمدٹکا خان کا حفاظتی گارڈ تعینات کردیاگیا۔جنرل ٹکا خان بھی غلام علی کی بہادری کے معترف نکلے انہوں نے ایک دن غلام علی کو اپنے بنگلے پر بلایا اور توصیفی الفاظ ادا کرکے غلام علی کے حوصلے بڑھائے ۔ یہ اسی تعریفی الفاظ کا پیش خیمہ تھا کہ جب جنرل محمدضیاء الحق نے آرمی چیف کا چارج سنبھالا تو غلام علی کو ان کی حفاظتی گارڈمیں بلا حیل و حجت شامل کرلیا گیا ۔ پھرتیلا جسم ٗ بلند حوصلے اور جواں مردی یہ تمام خوبیاں غلام علی کی شخصیت کا حصہ تھیں ۔ 1981ء تک جنرل ضیا ء الحق کے ساتھ ڈیوٹی انجام دینے کے بعد چند ماہ کے لیے انہیں اوکاڑہ چھاؤنی میں تعینات کردیاگیا جہاں کور کمانڈ ر کراچی لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز جنجوعہ کے ساتھ بطور حفاظتی گارڈ مقرر کردیاگیا ۔ 1989ء میں غلام علی کو فوج سے ریٹائر کردیاگیا ۔گویا سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہونے والا غلام علی لانس نائیک کی حیثیت سے ریٹائر ہوگیا ۔

1982ء میں اپنی چچازاد سے شادی ہوئی ۔ جس کے بطن سے اﷲ تعالی نے انہیں ایک بیٹا اور دوبٹیوں سے نوازا ۔ فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد دو سال گاؤں میں قیام پذیر رہے پھر کسی حوالے سے بنک آف پنجاب کے ہیڈ آفس جاپہنچے جہاں بطور گارڈ ٗ سابق آرمی کمانڈوز کی بھرتیاں ہورہی تھیں ۔ غلام علی جسمانی طور پر چاق چوبند اور مضبوط جسمانی ساخت کی بنا پر بنک آف پنجاب میں بطور گارڈ بھرتی ہوگئے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ بنک آف پنجاب واحد ایسا مالیاتی ادارہ ہے جہاں حفاظتی گارڈ کی حیثیت سے صرف آرمی کمانڈوز کو ہی تعینات کیا جاتاہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بنک آف پنجاب کا نام سنتے ہی ڈاکہ زنی کے شوقین لوگوں کی پتلونیں ڈھلی پڑ جاتی ہیں ۔ میں نے 1994ء سے 2014تک بیس سال بنک آف پنجاب میں ملازمت کی ہے ۔ اس دوران دو یا تین ڈاکہ زنی کی وارداتیں ہوئیں لیکن ہر مرتبہ ڈاکو برانچ کولوٹ کر لے جانے میں بری طرح ناکام ہوگئے ۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر آباد میں بنک کی برانچ میں دو ڈاکو کسٹمرز کی شکل میں داخل ہوئے اور منیجر کے پاس جاکر پستول دکھاکر ہینڈ از اپ کروالیا ۔ جبکہ دوسرا ڈاکو کیش کاؤنٹر پر رقم اکٹھی کرنے لگا ۔ اسی اثنا میں برانچ منیجر نے آنکھ سے گارڈکو آپریشن شروع کرنے کا اشارہ کیا تو ریٹائر آرمی کمانڈونے پانچ فٹ کا جمپ لگایا اور منیجر پر پستول تانے والے ڈاکو کے اوپر جاگرا اور جاتے ہی ڈاکو کے سینے پر اپنا پستو ل رکھ کر ہینڈ از اپ کروایا ۔ جب دوسرے ڈاکو نے یہ صورت حال دیکھی تو وہ کیش وہیں چھوڑ کر بھاگنے لگا لیکن ریٹائر آرمی کمانڈو کے پستو ل کی زد میں آکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ اس طرح ایک بنک گارڈ نے دو ڈاکووں کا جس بہادری سے مقابلہ کیا ۔ اسے پریس میڈیا نے بھی تحسین کی نظر سے دیکھا یہ واقعہ جب عام ہوا تو پھر کسی ڈاکو کو بنک آف پنجاب میں آنے کی جرات نہیں ہوئی ۔

بے شک غلام علی جیسے بہادر ٗنڈر اورموت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دشمن پر ٹوٹ پڑنے کا جذبہ رکھنے والے گارڈ اپنے بنک کی حفاظت کرنا خوب جانتے ہیں۔ جب بنک کا ہیڈ آفس ایجرٹن روڈ پر ہواکرتا تھا تو پانچویں فلور پر جہاں میری نشست تھی ٗ وہیں غلام علی کا ہنستا مسکراتاہوا چہرہ ہر روز دیکھنے کو ملتا ۔ حسن اتفاق سے غلام علی کی ڈیوٹی بھی پانچویں فلور پر ہی ہواکرتی تھی۔ مجھے وہ بہت شفیق اور اچھا انسان نظر آیا ۔ اس کے بارے میں اگر کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایسے ہی بہادر لوگوں کے لیے کہاجاتاہے جو دشمن کے لیے فولاد اور مومنوں کے لیے نرم ہوا کرتے ہیں ۔

بنک آف پنجاب میں چودہ سال ملازمت کرنے کے بعد غلام علی نے اپنا تبادلہ بنک آف پنجاب کی تلہ کنگ برانچ میں کروالیا۔جو اس کے گاؤں اچھرال سے پندرہ بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ جب غلام علی الوداعی ملاقات کے لیے میرے پاس آیاتو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے میں نے حوصلہ دیتے ہوئے پوچھا غلام علی یہ آنسو تمہاری آنکھوں میں اچھے نہیں لگتے ۔ اس پر غلام علی نہیں کہا سر یہ آپ کی محبت کے آنسوہیں ۔ آپ اور بنک کے تمام افسران اورملازمین کی محبت کے آنسو ہیں جنہوں نے مجھے اس قدر محبت سے نوازا کہ مجھے محسوس ہی نہیں ہواکہ مجھے یہاں ملازمت کرتے ہوئے بیس ہوچکے ہیں ۔ میں نے کہا زندگی کے بہترین 35 سال گزارنے کے بعد اچانک اپنے گاؤں جانے کی جلدی کیوں پڑ گئی ۔ غلام علی ایک بار پھر جذباتی ہوگئے اور کہا سر مجھے میرے گاؤں کی مٹی بلا رہی ہے ۔ میں اپنی مٹی کا قرض اتارنے کے لیے فوج میں بھرتی ہوا تھا۔ اب وہ قرض اتر چکا ہے اب مٹی مجھے واپس بلا رہی ہے ۔ ہماری سرزمین وادی سون سکیسر کا یہی دستور ہے ۔ ہمارے علاقے میں پیدا ہونے والا ہر بچہ پاک فوج سے والہانہ محبت کرتا ہے اور وطن کی حفاظت کے لیے جان دینا بچپن سے ہی ہمارا خواب ہوتا ہے ۔اگر دفاع وطن کا تقاضا پورا کرتے ہوئے شہادت مل جائے تو شہید کے لواحقین کو پورے علاقے کے لوگ مبارک باد دیتے ہیں اور اس کی بہادری کی کہانیاں مائیں اپنے نو مولود بچوں کوسنا کر جوان کرتی ہیں ۔ اگر شہادت نصیب نہ ہو تو زندگی کی شام ہونے سے پہلے پہلے ہمیں اپنے گاؤں لوٹا ہوتا ہے ۔ جب بھی موت کا فرشتہ آئے تو لبیک کہتے ہوئے ہیں اپنی مٹی کی چادر اوڑھ کر قبر میں جا سو ئے ۔ یہ ہمارے پرکھوں کی روایات ہیں جنہیں کوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا ۔ ہمارے سرزمین پر پیدا ہونے والا بچہ کبھی بزدل نہیں ہوتا ہے اور اگر بزدل ہو تو ہماری مائیں خود اپنے ہاتھوں سے اس کا گلہ دبا دیا کرتی ہیں۔ ہماری مائیں اس قدر بہادر ہیں کہ وہ آغوش میں بچے کو سلانے کے لیے اپنے بہادر باپ دادا کی کہانیاں سناتی ہیں ہم بچپن سے ہی دشمن سے لڑنے اورشہید ہونے کا عزم لے کر جوان ہوتے ہیں ۔غلام علی نے کہا سر میں خودنہیں جارہا مجھے کوئی بلا رہا ہے ٗ اب میری زندگی کے دن زیادہ نہیں ہیں اور مجھے ہر حال میں واپس جاناہے ۔ میں زندگی کے آخری دن اپنی بوڑھی ماں ٗ بیو ی بچوں اور خاندان کے لوگوں میں گزارنا چاہتا ہوں ۔جب غلام علی مجھ سے گفتگو کررہا تھا تو میں نے اس کے چہرے تبدیل ہوتے رنگ دیکھے جیسے ان کے کانوں میں بوڑھی ماں کی آواز آرہی ہوئی جو پکار پکار کر اسے اپنے پاس بلا رہی ہو۔غلام علی میرے احساسات کو محسوس کرتے ہوئے بولے سر ہماری مائیں بیٹے کی شہادت پر فخر محسوس کرتی ہیں وہ روتی نہیں بلکہ مبارکیں وصول کرتی ہیں لیکن ان کا بیٹا دشمن کو پیٹھ دکھاکر اگر واپس آجائے تو گھر کادروازہ نہیں کھولتیں ۔

غلام علی کی باتوں میں بہت اثر تھا ۔جذبات میں بہنے کی وجہ سے میری آنکھوں سے بھی آنسو نکل رہے تھے ہم اردگرد کے ماحول سے بے نیاز اپنے دلی جذبات کا اظہار کررہے تھے ۔ اچانک وہ کرسی سے اٹھا اور مجھ سے اجازت لے کر واپس اپنے گاؤں چلا گیا پھر خبر ملی کہ تلہ کنگ جاتے ہی اسے گردوں کی بیماری نے آ گھیرا ہے ۔ چندماہ علالت کے بعد غلام علی ہمیشہ کے لیے اپنے گاؤں کی مٹی سے بنی چادر اوڑھ کر قبرستان میں جاسویا جہاں کی مٹی اسے اکثر بلایا کرتی تھی اور وہ اپنی مٹی سے جدائی کا اکثر و بیشتر مجھ سے کیا کرتا تھا۔وہ وطن پرست انسان تھا وہ اپنی مٹی سے پیار کرتا تھا ۔

بے شک غلام علی ایک انسان ہی تھا لیکن ان کا جذبہ جہاد اور بہادری کی داستانیں وادی سون سکیسر کا ہر گوشہ اور ہر ذرہ قیامت تک بیان کرتا رہے گا۔ میرے نزدیک ہر وہ شخص قوم کاہیرو ہے جو صرف ایک رات کے لیے میرے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جاگتا رہاہوں ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ اسلام مکمل دین ہے لیکن جہاد کے بغیر شریعت اور دین کی تکمیل نہیں ہوتی ۔ اس اعتبار سے پاک فوج کا ہر غازی اور شہید قابل تحسین اور قابل فخر ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.