اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ
وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ
اَجْمَعِیْن۔
قرآن کریم کیا ہے؟قرآن کریم اﷲ تعالیٰ کا پاک کلام ہے جو اﷲ تعالیٰ نے
قیامت تک آنے والے انس وجن کی رہنمائی کے لئے آخری نبی حضور اکرمﷺ پر وحی
کے ذریعہ عربی زبان میں نازل فرمایا، قرآن کریم اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے، مخلوق
نہیں۔ اور وہ لوح محفوظ میں ہمیشہ سے ہے۔ قرآن قرأ کا مصدر ہے جس کے معنی
ہیں پڑھی جانے والی کتاب ۔ واقعی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب
قرآن کریم ہی ہے، بغیر سمجھے بھی جس کی لاکھوں لوگ ہر وقت تلاوت کرتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر اپنے پاک کلام کے لئے قرآن کا لفظ استعمال کیا
ہے: اِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِےْمٌ (سورۃ الواقعہ ۷۷) اسی طرح فرمایا: بَلْ
ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ(سورۃ البروج ۲۱)
قرآن کریم کے نزول کا مقصد:اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کو قیامت تک آنے والے
انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے مگر اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہی اس
کتاب سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ کتاب
ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے۔‘‘
(سورۃ البقرۃ ۲) ’’یہ تمام لوگوں کے لئے واضح اعلان ہے اور پرہیزگاروں کے
لئے ہدایت اور نصیحت۔‘‘ (سورۃ آل عمران ۱۳۸)
قرآن کریم کس طرح اور کب نازل ہوا؟:ماہ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلۃ القدر
میں اﷲ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس
کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳
سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کا تدریجی نزول اُس
وقت شروع ہوا جب آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔ قرآن کریم کی سب سے پہلی
جو آیتیں غارِ حرا میں اتریں وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں: ’’پڑھو اپنے
اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا
کیا۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔‘‘ اس پہلی وحی کے
نزول کے بعد تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی
فرشتہ جو غار حرا میں آیا تھا آپ ﷺ کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی
چند آیات آپﷺ پر نازل فرمائیں: ’’اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ اٹھو اور لوگوں
کو خبردار کرو۔ اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک
رکھو۔ اور گندگی سے کنارہ کرلو۔‘‘ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کی وفات تک وحی کے
نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ غرضیکہ تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن
کریم مکمل نازل ہوا۔
نزول قرآن کی کیفیت: حضور اکرم ﷺ پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی۔ ۱)
گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی اور آواز نے جو کچھ کہا ہوتا وہ حضور اکرم ﷺ
کو یاد ہوجاتا۔ جب اس طریقہ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ ﷺپر بہت زیادہ بوجھ
پڑتا تھا۔ ۲) فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپﷺ کے پاس آتا اور اﷲ تعالیٰ کا
پیغام آپ کو پہنچادیتا۔ ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام
مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اﷲ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔
۳) حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنی اصل صورت میں تشریف لاتے تھے۔ ۴) بلاواسطہ
اﷲ تعالیٰ سے حضور اکرم ﷺ کی ہم کلامی ہوئی۔ یہ صرف ایک بار معراج کے موقع
پر ہوا۔ نماز کی فرضیت اسی موقع پر ہوئی۔ ۵) حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺ
کے سامنے آئے بغیر آپ ﷺ کے قلب مبارک پر کوئی بات القاء فرمادیتے تھے۔
قرآن کریم کس طرح ہمارے پاس پہنچا؟:جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ قرآن کریم ایک
ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا بلکہ ضرورت اورحالات کے اعتبار سے مختلف آیات
نازل ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآن پر زور دیا
گیا۔ چنانچہ خود حضور اکرمﷺ الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے تاکہ وہ اچھی
طرح یاد ہوجائیں۔ اس پر اﷲ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی کہ عین نزول
وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ خود آپ
میں ایسا حافظہ پیدا فرمادے گا کہ ایک مرتبہ نزول وحی کے بعد آپ اسے بھول
نہیں سکیں گے۔ اس طرح حضور اکرم ﷺ پہلے حافظ قرآن ہیں۔ چنانچہ ہر سال ماہ
رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا
دور فرمایا کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن
کریم کا دور فرمایا۔ پھر آپ ﷺ صحابۂ کرام کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی
نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ خود صحابۂ کرام
کو قرآن کریم یاد کرنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے
کی فکر میں رہتا تھا۔ چنانچہ ہمیشہ صحابۂ کرام میں ایک اچھی خاصی جماعت
ایسی رہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں
اسے دہراتی تھی۔ غرضیکہ قرآن کی حفاظت کے لئے سب سے پہلے حفظ قرآ ن پر زور
دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا۔
قرآن کریم کی حفاظت کے لئے حضور اکرم ﷺ نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص
اہتمام فرمایا چنانچہ نزول وحی کے بعد آپ کاتبین وحی کو لکھوادیا کرتے تھے۔
حضور اکرم ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ
اﷲ کے حکم سے کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرماتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں
فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے۔ اس زمانہ میں کاغذ دستیاب نہیں تھا اس
لئے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں،
بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں۔ کاتبین
وحی میں حضرت زید بن ثابتؓ، خلفاء راشدینؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زبیر بن
عوامؓ اور حضرت معاویہؓ کے نام خاص طور پر ذکر کئے جاتے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے وہ عموماً
متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں جب جنگ
یمامہ کے دوران حفاظ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروق ؓ
نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو قرآن کریم ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت
ابوبکر صدیق ؓ ابتدا میں اس کام کے لئے تیار نہیں تھے لیکن شرح صدر کے بعد
وہ بھی اس عظیم کام کے لئے تیار ہوگئے اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی
اﷲ عنہ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ
جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔ حضرت زید بن ثابت ؓ خود کاتب وحی ہونے کے
ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ
سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُس وقت سینکڑوں حفاظ قرآن موجود تھے ،مگر انہوں نے
احتیاط کے پیش نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک
وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی جب تک اس کے
متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اس کے علاوہ حضور
اکرم ﷺ نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں، وہ مختلف صحابۂ
کرام کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید بن ثابتؓ نے انہیں یکجا فرمایاتاکہ نیا
نسخہ ان ہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد
خلافت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔
جب حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر دور دراز
عجمی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے علاقہ کے لوگ ان صحابہ وتابعین سے
قرآن سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی ۔ صحابۂ کرام
نے قرآن کریم حضور اکرم ﷺسے مختلف قرأتوں کے مطابق سیکھا تھا۔ اس لئے ہر
صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھایا جس کے مطابق خود
انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے پڑھا تھا۔ اس طرح قرأتوں کا یہ اختلاف دور دراز
ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قراء ت کو حق اور دوسری قرأتوں کو غلط
سمجھنا شروع کردیا حالانکہ اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف
قرأتوں میں قرآن کریم پڑھا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے حضرت حفصہ
رضی اﷲ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس (حضرت ابوبکر صدیقؓ کے تیار
کرائے ہوئے) جوصحیفے موجود ہیں ، وہ ہمارے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ حضرت زید
بن ثابت رضی اﷲ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا
گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآن کریم کے چند ایسے
نسخے تیار کریں جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کے چند نسخے
تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر ارسال کردیا گیا تاکہ اسی کے مطابق
نسخے تیار کرکے تقسیم کردئے جائیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں اختلاف باقی نہ
رہا اور پوری امت مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں
لوگوں کی سہولت کے لئے قرآن کریم پر نقطے وحرکات (یعنی زبر، زیر اور پیش)
بھی لگائے گئے، نیز بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدنظر قرآن کریم کو تیس
پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تلاوت قرآن کی سہولت کے لئے رکوع کی
ترتیب بھی رکھی گئی۔
فضائل قرآن: حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قرآن کا ماہر جس کو خوب یاد ہو،
خوب پڑھتا ہو، قیامت کے دن ان کا حشر فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ (بخاری، ابوداود)
حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن
پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو
دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا۔ پس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت
پر پہونچے۔ (مسلم)رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر
عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائے گا، جس کی روشنی
سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو تو
کیاگمان ہے تمہارا اس شخص کے بارے میں جو خود اس پر عمل پیرا ہو۔ (رواہ
احمد ، ابوداود)
مضامین قرآن: علماء کرام نے قرآن کریم کے مضامین کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی
ہیں، تفصیلات سے قطع نظر ان مضامین کی بنیادی تقسیم اس طرح ہے: ۱) عقائد۔
۲) احکام۔ ۳) قصص۔۔۔ قرآن کریم میں عمومی طور پر صرف اصول ذکر کئے گئے ہیں
لہٰذا عقائد واحکام کی تفصیل احادیث نبویہ میں ہی ملتی ہے، یعنی قرآن کریم
کے مضامین کو ہم احادیث نبویہ کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ ۱) عقائد: توحید
، رسالت، آخرت وغیرہ کے مضامین اسی کے تحت آتے ہیں۔ عقائد پر قرآن کریم نے
بہت زور دیاہے اور ان بنیادی عقائد کو مختلف الفاظ سے بار بار ذکر فرمایا
ہے۔ ان کے علاوہ فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان، تقدیر پر ایمان،
جزاوسزا، جنت ودوزخ، عذاب قبر، ثواب قبر، قیامت کی تفصیلات وغیرہ بھی مختلف
عقیدوں پر قرآن کریم میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۲) احکام: اس کے تحت مندرجہ
ذیل احکام اور ان سے متعلق مسائل آتے ہیں۔ عبادتی احکام: نماز، روزہ، زکاۃ
اور حج وغیرہ کے احکام ومسائل۔ قرآن کریم میں سب زیادہ تاکید نماز پڑھنے کے
متعلق وارد ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں نماز کی ادائیگی کے حکم کے ساتھ ہی
عموماً زکاۃ کی ادائیگی کا حکم بھی وارد ہوا ہے۔ معاشرتی احکام: مثلاً حقوق
العباد کی ساری تفصیلات۔ معاشی احکام: خرید وفروخت، حلال اور حرام اور مال
کمانے اور خرچ کرنے کے مسائل۔ اخلاقی وسماجی احکام: انفرادی اور اجتماعی
زندگی سے متعلق احکام ومسائل۔ سیاسی احکام: حکومت اور رعایا کے حقوق سے
متعلق احکام ومسائل۔ عدالتی احکام: حدود وتعزیرات کے احکام ومسائل۔ ۳) قصص:
گزشتہ ابنیاء کرام اور ان کی امتوں کے واقعات کی تفصیلات۔
قرآن کریم کا ہمارے اوپر کیا حق ہے؟ قرآن کریم کے، جو اﷲ تعالیٰ نے ہماری
اور پوری انسانیت کی رہنمائی کے لئے نازل فرمایا ہے، ہمارے اوپر اس کے
بنیادی طور پر پانچ حق ہیں:
۱) تلاوت قرآن: احادیث میں تلاوت قرآن کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، چنانچہ
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جس
نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے ایک نیکی ہے او رایک نیکی دس
نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمٓ ایک حرف ہے بلکہ" ا"
ایک حرف ہے، "ل" ایک حرف ہے اور" م" ایک حرف ہے۔ (ترمذی)
۲) حفظِ قرآن: حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا
اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں
ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا۔ پس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہونچے۔
(صحیح مسلم)
۳) قرآن فہمی: چونکہ قرآن کریم کے نزول کا اہم مقصد بنی نوع انسان کی ہدایت
ہے اور اگر سمجھے بغیر قرآن پڑھا جائے گا تو اس کا اہم مقصد ہی فوت ہوجاتا
ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ علماء کرام جنہوں نے قرآن وحدیث کو سمجھنے اور
سمجھانے میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ لگایا، ان کی سرپرستی میں ہم قرآن
کریم کو سمجھ کر پڑھیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح
واضح ہے کہ جس ذات عالی پر قرآن کریم نازل ہوا اس کے اقوال وافعال کے بغیر
قرآن کریم کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد
مرتبہ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے، ایک آیت پیش ہے: ’’یہ کتاب ہم نے آپ کی
طرف اتاری ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول
کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔‘‘ (سورۃ النحل ۴۴)لہٰذا ہم
روزانہ تلاوتِ قرآن کے اہتمام کے ساتھ کم از کم علماء کرام وائمہ مساجد کے
درس قرآن میں پابندی سے شریک ہوں۔
۴) العمل بالقرآن: یہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت کی تطبیق
ہے اور اسی میں بنی نوع انسان کی دنیاوی واخروی سعادت مضمر ہے ، اور نزول
قرآن کی غایت ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کے احکام پر عمل پیرا نہیں ہیں تو گویا
ہم قرآن کریم کے نزول کا سب سے اہم مقصد ہی فوت کررہے ہیں۔ لہٰذا جن امور
کا اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو بجالائیں اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان
سے رک جائیں۔
۵) قرآنی پیغام کو دوسروں تک پہنچانا: امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کی
گئی کہ اپنی ذات سے قرآن وحدیث پر عمل کرکے اس بات کی کوشش وفکر کی جائے کہ
ہمارے بچے، خاندان والے، محلہ والے، شہر والے بلکہ انسانیت کا ہر ہر فرد اﷲ
کو معبود حقیقی مان کر قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے والا بن جائے۔ امر
بالمعروف اور نہی عن المنکر (اچھائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا)
کی ذمہ داری کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار بیان کیا ہے۔ سورۂ
العصر میں اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی کامیابی کے لئے چار صفات میں سے ایک صفت
دوسروں کو حق بات کی تلقین کرنا ضروری قرار دیا۔ لہٰذا ہم احکام الٰہی پر
خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی دعوت دیں۔
قرآن کریم اور ہم: یہ مقدس کتاب حضور اکرم ﷺ کے زمانہ سے لے کر رہتی دنیا
تک مشعل راہ بنی رہے گی کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اس کتاب کو اتنا جامع اور مانع
بنایا ہے کہ ایمانیات، عبادات، معاملات ، سماجیات ، معاشیات واقتصادیات کے
اصول قرآن کریم میں مذکور ہیں، ہاں ان کی تفصیلات احادیث نبویہ میں موجود
ہیں۔ مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلق اس کتاب سے روز بروز کم ہوتا
جارہا ہے۔ یہ کتاب ہماری مسجدوں اور گھروں میں جزدانوں میں قید ہوکر رہ گئی
ہے، نہ تلاوت ہے نہ تدبر ہے اور نہ ہی اس کے احکام پر عمل، آج کا مسلمان
دنیا کی دوڑ میں اس طرح گم ہوگیا ہے کہ قرآن کریم کے احکام ومسائل کو
سمجھنا تو درکنار اس کی تلاوت کے لئے بھی وقت نہیں ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اﷲ
علیہ نے اپنے دور کے مسلمانوں کے حال پر رونا روتے ہوئے اسلاف سے اس وقت کے
مسلمان کا مقارنہ ان الفاظ میں کیا تھا:
وہ زمانہ میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
آج ہم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں، انہیں عصری علوم
کی تعلیم دینے پر اپنی تمام محنت وتوجہ صرف کرتے ہیں اور ہماری نظر صرف اور
صرف اس عارضی دنیا اور اس کی آرام وآسائش پر ہوتی ہے اور اُس ابدی ولافانی
دنیا کے لئے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرتے، الا ما شاء اﷲ۔ لہٰذا ہمیں چاہئے
کہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا تعلق وشغف قرآن وحدیث سے جوڑیں، اس کی تلاوت
کا اہتمام کریں، علماء کی سرپرستی میں قرآن وحدیث کے احکام سمجھ کر ان پر
عمل کریں اور اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ ہمارے ساتھ، ہمارے بچے، گھر والے،
پڑوسی ، دوست واحباب ومتعلقین بھی حضور اکرم ﷺ کے لائے ہوئے طریقہ پر زندگی
گزارنے والے بن جائیں۔ آج عصری تعلیم کو اس قدر فوقیت واہمیت دی جارہی ہے
کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن کریم ناظرہ کی بھی تعلیم نہیں دی جارہی ہے
کیونکہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے،
امتحانات کی تیاری کرنی ہے وغیرہ وغیرہ یعنی دنیاوی زندگی کی تعلیم کے لئے
ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا ہمارے لئے آسان ہے، لیکن اﷲ
تعالیٰ کے کلام کو سیکھنے میں ہمیں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ غور فرمائیں کہ
قرآن کریم اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے ہماری رہنمائی کے لئے نازل فرمایا
ہے اور اس کے پڑھنے پر اﷲ تعالیٰ نے بڑا اجر رکھا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو
ہدایت عطا فرما اور قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے والا، قرآن وحدیث کے احکام
پر عمل کرنے والا اور قرآن وحدیث کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے والا بنا،
آمین۔ |