قرآن پاک میں ہے کہ 5چیزیں ایسی ہیں جن کاعلم صرف اﷲ پاک
کے پاس ہے اس کے علاوہ ان چیزوں کاعلم کسی کے پاس نہیں ۔قیامت کاعلم ،کہ کب
آئے گی۔بارش کاعلم کب اورکہاں کتنی برسے گی رحمت کی ہوگی یاغضب کی ہوگی۔ماں
کے پیٹ میں کیاہے بچہ یابچی اس کاعلم بھی اﷲ پاک کوہے ۔ انسان کے ساتھ کل
کیاہونے والاہے اس کاعلم بھی اﷲ پاک کوہے۔ انسان کی موت کب اورکہاں ہوگی اس
کاعلم بھی صرف اورصرف اﷲ کوہے ۔۔قیامت کے بارے میں اﷲ پاک نے قرآن پاک میں
مختلف مقامات پہ فرمادیاہے اور نبی پاک ﷺ نے قیامت سے پہلے ہونے والی
نشانیوں کابھی ذکر کیاہے جب وہ تمام نشانیاں واضح ہونگی تب قیامت
کاآناہوگا۔دس نشانیوں کاذکر حدیث پاک کی روشنی میں کیاجاتاہے ملاحظہ ہو:
﴿دس نشانیاں ﴾
حضرت حذیفہ بن اسید غفاری سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم پر آفتاب نبوتﷺ طلوع
ہوا، اس وقت ہم آپس میں مذاکرہ کر رہے تھے، نبی ﷺنے پوچھا کہ تم لوگ کس
موضوع پر مذاکرہ کر رہے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا ہم لوگ قیامت کا تذکرہ کر رہے
ہیں، نبی ﷺنے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم اس سے پہلے
دس علامتیں نہ دیکھ لو، پھر نبیﷺ نے دھوئیں، دجال ، دابۃالارض، سورج کے
مغرب سے طلوع ہونے ، حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول، یاجوج و ماجوج اور تین
مرتبہ زمین میں دھنسنے کے واقعات پیش آنے کا تذکرہ فرمایا، ان میں سے ایک
واقعہ مشرق میں پیش آئے گا، ایک مغرب میں اور ایک جزیرہ عرب میں ، اور سب
سے آخر میں وہ ایک آگ ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ان کے جمع ہونے
کی جگہ کی طرف دھکیل دے گی۔
اس حدیث پاک میں نبی پاک ﷺنے قیامت کی دس بڑی علامتیں بیان فرمائی ہیں لیکن
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ نبی ﷺکا مقصد صرف ان علامات کو بیان کرنا ہے، ان
علامات میں ترتیب زمانی کا خیال رکھنا مقصود نہیں ہے، اور نہ ہی یہ علامات
زمانی ترتیب کے مطابق ہیں، بلکہ ان میں سے کچھ علامات وہ ہوں گی جو پہلے
ظاہر ہوں گی اور کچھ علامات ان کے بعد ظاہر ہوں گی ، یہاں ان علامات کی
مختصر وضاحت درج کی جاتی ہے تا کہ حدیث کا مفہوم واضح ہو جائے ، لیکن اس
کیلئے ہم نبی ﷺکی ترتیب میں تبدیلی پیدا نہیں کریں گے اور اسی ترتیب سے ان
کی وضاحت کریں گے۔
﴿پہلی نشانی دھواں﴾
چنانچہ سب سے پہلی علامت نبی ﷺنے ایک دھواں قرار دی ہے، محدثین نے اس کی
وضاحت میں تحریر فرمایا ہے کہ قیامت کے قریب ایک دن کہیں سے دھواں نکلے گا،
وہ دھواں بڑھتے بڑھتے مشرق سے لیکر مغرب تک اور شمال سے لیکر جنوب تک پھیل
جائے گا، اور مسلسل چالیس دن تک برقرار رہے گا، ظاہر ہے کہ جس کی وجہ سے
لوگ سخت پریشان ہو جائیں گے، کیونکہ اگر کسی گھر میں لکڑی کے چولہے پر
روٹیاں یا سالن پک رہا ہو تو وہاں سے نکلنے والا معمولی دھواں لوگوں کیلئے
ناقابل برداشت ہوتا ہے، چہ جائیکہ ایسا دھواں نکلے جو پورے عالم کو اپنی
لپیٹ میں لے لے، لیکن اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمان اس
دھوئیں کی وجہ سے صرف نزلہ اور زکام کا شکار ہوں گے، جبکہ منافقین اور کفار
اس کی وجہ سے بیہوش ہو جائیں گے اور کئی کئی دن تک بیہوش رہیں گے، بالآخر
چالیس دن کے بعد یہ دھواں خود بخود غائب ہو جائے گا
﴿دوسری نشانی خروج ِدجال ﴾
دوسری علامت دجال کا خروج ہے، قیامت سے پہلے تیس دجال رونما ہوں گے۔
علمانے لکھا ہے کہ دجال کا لفظ دجل سے نکلا ہے اوردجل کا معنی ہے مکروفریب،
یہ لفظ اردو محاورے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ فلاں آدمی
نے دجل و فریب سے کام لیا۔
اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں آدمی نے مکاری سے کام لیا، چونکہ دجال بھی
انتہائی مکروفریب سے کام لے گا اس لیے اسے دجال کا نام دیا گیا۔
لفظ دجل کا ایک معنی ہے خلط ملط کرنا ، چونکہ دجال حق اور باطل کو خلط ملط
کر دے گا کہ ان دونوں میں امتیاز کرنا مشکل ہو جائے گا اس لیے اسے دجال کا
نام دیا گیا۔
حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاکﷺنے فرمایا قیامت قائم نہ
ہو گی یہاں تک کہ کچھ دجال اور کذاب بھیج دئیے جائیں گے جو تیس کے قریب ہوں
گے، اور ان میں سے ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وہ اﷲ کا رسول ہے(الحدیث)
یادرہے کہ روئے زمین پر تاریخِ انسانیت کا یہ سب سے بڑا فتنہ ہو گا جو اپنے
وقت پر رونما ہو گا،
مذکورہ حدیث پاک میں نبی ﷺنے یہ پیشین گوئی فرمائی ہے کہ قیامت آنے سے پہلے
تیس دجال اور کذاب لوگ آئیں گے، ان میں سے ہر شخص نبوت کا دعوت کرے گا اور
خود کو اﷲ کا پیغمبر قرار دیتا ہو گا، حالانکہ اﷲ تعالی نے نبوت اور رسالت
کا سلسلہ جناب محمد رسول اﷲ پر ختم فرما دیا، ان کے بعد کوئی نبی اور
پیغمبر نہیں آئے گا اور اگر کوئی شخص نبوت کا دعوی کرتا ہے ،و ہ جھوٹا اور
کذاب و دجال ہے، ایسے دجالوں اور کذابوں کا سلسلہ نبی پاک ﷺکے زمانہ میں ہی
شروع ہو گیا تھا اور پھر بہت سے خبطی لوگوں نے یہ تاج اپنے سر پر جمانے کی
کوشش کی جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے ، ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے
اور مذکورہ بالا حدیث میں تیس کا عدد یا تو کثرت بیان کرنے کیلئے ہے ، یا
پھر نبی پاک ﷺ کا مقصد یہ ہے کہ نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے دجالوں میں
سے تیس کذابوں کا فتنہ بہت زیادہ پھیل جائے گا، ان کے معتقدین کا دائرہ بہت
وسیع ہو جائے گا، اور ان کے فتنے سے مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد متاثر ہو
گی، بالآخر اﷲ تعالی انہیں اور ان کے ہم نواؤں کو تباہ و برباد فرمائے گا،
ان کا سب سے آخری فرد وہ دجال اکبر ہو گا جو ان تمام دجالوں اور کذابوں سے
بڑھ کر فتنہ ہو گا اور اس کی وجہ سے مسلمانوں کی سخت آزمائش کی جائے گی۔
دجالوں اورکذابوں کی فہرست میں سب سے پہلا نام مسیلمہ کذاب کا ہے، جس نے
نبی ﷺکی حیاتِ طیبہ میں نبوت کا دعوی کر دیا تھا، اور یمامہ کے لوگوں نے اس
کی نبوت کو تسلیم کر لیا تھا ، اسی طرح یمن میں اسود عنسی نے اسی دور میں
نبوت کا دعوی کر دیا، سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں
بنو اسدبن خزیمہ کے طلیحہ بن خویلد نے نبوت کا دعوی کیا، بنو تمیم کی ایک
عورت سجاح تمیمہ کو شوق چڑھا اور اس مخبوط الحواس عورت نے بھی نبوت کا دعوی
کر دیا ۔ اسود عنسی تو نبیﷺ کے زمانہ رسالت میں ہی مارا گیا تھا، مسیلمہ
کذاب کو سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالی عنہ نے کیفرِ کردار تک پہنچایا، جبکہ
طلیحہ اور سجاح نے اپنے اس دعوے سے توبہ کر لی تھی۔
﴿تیسری نشانی دابۃ الارض کاخروج﴾
تیسری علامت دابۃ الارض کا خروج ہے، دابۃ الارض کا لفظی معنی ہوتا ہے زمین
کا چوپایہ ۔ اور اس سے مراد دیمک ہوتی ہے جو لکڑی کو چاٹ جاتی ہے اورلکڑی
ایک دن بیکار ہو جاتی ہے،
لیکن جب علامات قیامت کے بیان میں یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ
مخصوص جانور لیا جاتا ہے جو قیامت کے قریب خروج کرے گا، اس جانور کا چہرہ
اور قدوقامت عام جانوروں سے مختلف ہو گا، قیامت کے قریب ایک دن حرم کعبہ
میں زلزلہ آئے گا جس کی وجہ سے صفا پہاڑی شق ہو جائے گی اور اس میں سے یہ
جانور نکلے گا، اس جانور کے ایک ہاتھ میں حضرت موسی علیہ السلام کی لاٹھی
اور دوسرے ہاتھ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی ہو گی، وہ جانور
پوری دنیا میں پھر جائے گا اور ہر شخص پر نشان لگاتا جائے گا، جو شخص
مسلمان ہو گا، یہ جانور اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی سے نشان
لگائے گا اور اس کی پیشانی پر مومن لکھ دے گا اور جو شخص کافر ہو گا، یہ
جانور اس پر حضرت موسی علیہ السلام کی لاٹھی سے مہر لگا دے گا اور اس کی
پیشانی پر کافر لکھ دے گا، یہ جانور انتہائی تیز رفتار ہو گا اور کوئی شخص
دوڑ میں اس کا مقابلہ نہ کر سکے گا، مومن اور کافر کے درمیان اس امتیاز کے
بعد اسے ختم کرنا ممکن نہ ہو گا، اور ہزار طرح کے جتن کر لینے کے بعد بھی
پیشانی پر لکھے ہوئے لفظ مومن یا کافر کو مٹایا نہ جا سکے گا اور مومن و
کافر کی شناخت اس کے بعد نہایت آسان ہو جائے گی۔
﴿چوتھی نشانی سورج کامغرب سے طلوع﴾
چوتھی علامت جو کہ قیامت کی انتہائی قریبی علامت ہے اور اس کے بعد کسی کا
ایمان لانا معتبر نہ ہو گاسورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے،
روایات کے اندرملتاہے کہ ایک موقع پر جب سورج غروب ہورہاتھاتوحضورﷺنے حضرت
ابوذرغفاریؓ سے فرمایاکیاتم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتاہے آپ ؓنے عر ض
کیاکہ حضور!اﷲ اوراس کارسول بہتر جانتاہے آپ ﷺنے فرمایاکہ سورج ہر روز یہاں
سے جاکر عرش الٰہی کے نیچے سجدہ کرتاہے اورپھر اسے اپنی رفتار جاری رکھنے
کی اجازت ملتی ہے اور وہ حسبِ معمول اپناسفرجاری کردیتاہے فرمایاکہ ایک دن
ایساآئے گاجب سورج سجدہ کے لیے حاضر ہوگاتواﷲ تعالیٰ کاحکم ہوگاکہ اپنی
حرکت اُلٹ دوچنانچہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگالوگ یہ عظیم نشانی
دیکھ کر گھبراجائیں گے اورسب لوگ ایمان لانے کی کوشش کریں گے حدیث کے الفاظ
ہیں کہ سارے کے سارے لوگ ایمان لے آئیں گے مگراُس دن کسی کا ایمان قبول
نہیں ہوگا۔
﴿پانچویں نشانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کانزول﴾
پانچویں علامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کانزول ہے نبی پاک ﷺ نے آپ علیہ
السلام کی نشانیاں بھی بتائیں ہیں جن میں سے چند یہ ہیں
آپ سے پہلے حضرت مہدی کاآنا،آپ کاعین نمازفجر کے وقت اترنا،حضرت مہدی کا آپ
کونماز کے لیے آگے کرنااورآپ کاانکار کرنا،نمازمیں آپ کاقنوت نازلہ کے طور
پہ یہ دعاپڑھنا۔۔۔۔۔قتل اﷲ الدجال۔
نماز سے آپ کافارغ ہوکر قتل دجال کے لیے نکلنا،دجال کاآپ کودیکھ کر سیسے کی
طرح پگھلنے لگنا،بابِ لُدنامی جگہ پر(جوفلسطین شام میں ہے)آپ کادجال کوقتل
کرنااوراپنے نیزے پہ دجال کالگاہواخون مسلمانوں کودکھانا،قتلِ دجال کے بعد
تمام دنیاکامسلمان ہوجانا،صلیب کوتوڑنے اورخنزیر کوقتل کرنے کامسلمانوں
کوحکم دینا،آپ کے زمانہ میں امن وامان کایہاں تک پھیل جاناکہ بھیڑیے بکریوں
کے ساتھ اورچیتے گائے بیلوں کے ساتھ چرنے لگیں اوربچے سانپوں کے ساتھ
کھیلنے لگیں ،آپ کاقبیلہ بنوکلب کی ایک عورت سے نکاح کرنااوراس سے اولاد
کاہونا،آپ کاحج وعمرہ کے لیے روانہ ہونا ،روضہ رسول پہ سلام بھیجنااوروہاں
سے نبی پاک ﷺ کاجواب دینا،وفات کے بعد روضہ رسول میں آپ علیہ السلام کادفن
ہونایہ سب آپ علیہ السلام کی واضح نشانیاں ہیں
نیزیاجوج ماجوج کانکلناآپ کی زندگی میں اورآپ کی وفات کے بعددابۃ الارض
،سورج کامغرب سے طلوع ہونا،مومن اورکافروں کے درمیان امتیازی نشانات
لگانا،قرآن پاک کاسینوں اورصحیفوں سے اٹھ جاناہوگاقیامت اس وقت تک نہیں
آسکتی جب تک قرآن پاک اس دنیا میں موجود ہے
﴿چھٹی نشانی یاجوج ماجوج کاخروج﴾
چھٹی علامت یاجوج و ماجوج کا خروج ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے
میں ہی ہو گا، ان کی وجہ سے زمین میں فساد ہوگابالآخر حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کی بددعاکی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گے اوربڑے بڑے پرندے ان کے لاشوں
کواٹھاکرسمندر میں پھینکے گے پھر زور کی بارش ہوگی تعفن ختم ہوگااوربارش کی
وجہ سے صفائی ہوجائے گی ۔
﴿ساتویں آٹھویں نویں نشانی زمین میں دھنسایاجانا﴾
ساتویں، آٹھویں اور نویں علامت زمین میں لوگوں کو دھنسائے جانے کے وہ تین
واقعات ہیں جن میں سے ایک مغرب میں، ایک مشرق میں اور ایک جزیرہ عرب میں
پیش آئے گا ، گو کہ ان علاقوں میں خسف کے ایسے واقعات بارہا مرتبہ پیش آچکے
ہیں لیکن احادیث کے سیاق وسباق سے واضح ہوتا ہے کہ قیامت کے قریب پیش آنے
والے ایسے واقعات ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہولناک اور خطرناک ہوں گے، ان کے
نقصانات بہت زیادہ ہوں گے، اور ان کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد
کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا،۔
﴿دسویں نشانی آگ کاخروج﴾
دسویں اور آخری علامت سرزمین یمن سے ایک آگ کا خروج ہے جو لوگوں کا پیچھا
کرے گی اور انہیں گھیر گھار کر ملکِ شام میں جمع کر دے گی۔ خلاصہ کلام یہ
کہ قیامت سے پہلے ان دس علامتوں کا پورا ہونا ضروری ہے۔آج کے جدید دور میں
کئی لوگوں نے ڈیڈلائینیں دی ہیں کہ قیامت اس تاریخ کوآنے والی ہے لیکن
مسلمان کاایمان ہوناچاہیے کہ نبی پاک ﷺ کے ارشاد ات سچے اورپکے ہیں جب تک
یہ علامات پوری نہ ہوں گی قیامت نہیں آئے گی۔ اﷲ پاک ہم سب کوقیامت کی
ہولناکیوں سے محفوظ فرمائے اوربغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل فرمائے
(آمین یارب العالمین)
|