کنٹرول لائن پر بسنے والے آئے روز بھارتی گولیوں کا نشانہ
بنتے ہیں، کتنے سہاگ لٹتے ہیں، کتنے بچے یتیم ہوتے ہیں، کتنے لوگ آپائج
ہوتے ہیں، کسی کو غرض نہیں۔ میڈیا میں جان بحق ہونے ، زخمیوں اور گولیوں کی
تعداد کا بس ذکر ہوتا ہے۔ان خلاف ورزیوں کو ستر سالوں سے جو جھیل رہے ہیں،
ان کی زخموں کو کس نے دیکھا ہے، ان کے دکھڑے کس نے سنے ہیں، ان ماؤں سے کون
ملا ہے جن کے جوان بچے جام شہادت نوش کر گئے، ان یتیموں کے سر پر کس نے
ہاتھ رکھا ہے جو والدین کی نعمت سے محروم ہوئے۔ظلم کی یہ سیاہ رات ختم ہونے
کو بھی تو نہیں آ رہی، خون کے دریا کو عبور کرنے کا کوئی وقت بھی معین نہیں۔
وہاں تو انسانیت بس اس انتظار میں ہے کہ کون کب ، کس گولی کا نشانہ بنتا ہے!
جن کے گھروں سے روز جنازے اٹھتے ہیں اور جو روز کسی نئے جنازے کے منتظر
رہتے ہیں، وہ اسی ملک کے شہری ہیں۔ ان کی جان مال کی ذمہ دار جن کندھوں پر
ہے وہ عیش و عشرت میں کھوئے ہوئے ہیں، وہ مراعات اور کمیشن سے باہر نہیں
نکل رہے۔ وہ کرسی کے شیطانی چکر میں الجھے ہوئے ہیں۔ کون ہے جو ان مظلوموں
کے لیے آواز اٹھائے گا، ان کے زخموں پر مرہم رکھے گا۔
آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان خونی لکیر 740 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی
ہے اور 5 لاکھ انسان ہر وقت بھارتی نشانے پر رہتے ہیں۔ بھارتجب چاہتا ہے
اپنی توپوں کے منہ کھول دیتا ہے۔ٍ1965 اور پھر 1971 کی جنگوں کے دوران
بھارت نے سیز فائر لائن کی تمام جنگی نوعیت کے اونچی جگہوں پر قبضہ کرلیا
تھا۔آج برنالہ سے تاؤ بٹ تک پھیلی طویل سیز فائر لائن کی تمام اونچی پہاڑی
چوٹیاں بھارت کے قبضے میں ہیں اور وہ جب چاہتا ہے آزادکشمیر کے شہریوں کو
نشانہ بنتا ہے۔ ہمارئے کئی ایک بین الاضلاعی راستے اس کے کنٹرول میں ہیں،
وہ جب چاہے انہیں بند کردے۔
کنٹرول لائن پر بسنے والے اپنے ہی گھروں میں ہر وقت اور ہر آن غیر محفوظ
ہیں۔ بھارتی توپوں کا منہ کھلتے ہی یہ لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو کررہ
جاتے ہیں اور بھارتی فوجی ایک ، ایک گھر کو بہ آسانی نشانہ بناتے ہیں۔ ان
کی املاک، مال مویشی سب ہی کچھ بھارتی رحم و کرم پر ہیں۔
بدقسمتی سے نہ تو سیزفائر لائن پر رہنے والوں کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی
کسی حکومت نے تربیت دی اور نہ ہی ایل او سی کے قریب فوری طبی امداد کے
مراکز قائم کیے۔ستر فیصد آبادی کو ہنگامی حالت میں ایمبولینس سروس کی سہولت
بھی میسر نہیں ۔ جو لوگ بھارتی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں وہ تڑپ، تڑپ کر
جان دینے پر مجبور ہوتے ہیں ، کیونکہ گولہ باری بند ہونے تک ان علاقوں میں
کوئی پرائیوٹ ٹرانسپورٹ بھی میسر نہیں ہوتی، جو شہریوں کو ہسپتالوں تک
منتقل کرے۔
بھارت آئے روز اپنی پسند کے مقام کا انتخاب کرتا ہے اور انسانی جانوں کو
نشانہ بنا کر اپنی خفت مٹاتا ہے۔ ہمیں اگلے دن صرف یہی خبر ملتی ہے کہ پاک
فوج نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ حکمران کنٹرول لائن کے متاثرین
کے بارے میں اخباری بیانات کے علاوہ کچھ کرنے پر تیار نہیں۔ وہ بھی کسی بڑے
واقع پر ہی جاری ہوتا ہے۔ صدر اور وزیراعظم آزادکشمیر کے میڈیا آفیسر کے
پاس اس طر ح کے اخباری بیان کے نمونے ہر وقت تیار ہوتے ہیں جو بوقت ضرورت
میڈیا کو جاری کردئیے جاتے ہیں۔ آج تک آزادکشمیر اسمبلی میں کنٹرول لائن کی
صورت حال پر تفصیل بحث نہیں ہوسکی۔
ایسے میں غیر سرکاری تنظیموں کی ذمہ داری میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ
متاثرین کنٹرول لائن کی زخموں پر مرہم رکھیں۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما کام
ہے۔ برنالہ سے فارورڈ کہوٹہ اور فاروڈ کہوٹہ سے چکوٹھی اور چکوٹھی سے تاوبٹ
تک پھیلے ہوئی آبادی کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت دینا، فرسٹ ایڈ ہر
عورت، مرد، بوڑھے اور جوان کو سکھانا، ہر بستی میں ریسپانس سینٹر قائم کرنا
اور ہر یونین کونسل کی سطح پر ایک ایمبولینس گاڑی فراہم کرنا۔ اس کام کے
لیے جتنے وسائل اور رضا کار درکار ہیں وہ عام نوعیت کی این جی اوز کے بس کی
بات نہیں۔
جب حکومت آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان کنٹرول لائن کی صورت حال پر خاموش
رہیں گے تو ایسے میں کوئی بین الاقوامی ادارہ بھی اس کام کے لیے کھڑا نہیں
ہوگا۔ عسکریت پسندوں اور مخبروں کی آمد و رفت دونوں ملکوں کا مسئلہ ہے تاہم
سول آبادی اس میں قصور وار نہیں اس کے باوجود ملکی اور بین الاقوامی ادارے
ان سرحدی خلاف ورزیوں کے کنٹرول لائن کی دونوں اطراف آباد سول آبادی پر
پڑنے والے اثرات بارے خاموش رہتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے مابین یہ نہ ختم
ہونے والے جنگ ہے، جس کنٹرول لائن پر بسنے والے نہتے کشمیریوں کی گھروں،
صحنوں، سکولوں اور چراہ گاہوں میں لڑی جارہی ہے۔ |