قاضی رفیق عالم
2015ء میں کشمیری مجاہدین کے سرخیل محمدبن قاسم جیسے اسم بامسمی ابوالقاسمؒ
نے آزادی کشمیر کی شاہراہ پراپناجہادی قافلہ ایسا بگٹٹ دوڑایاکہ اس کے
بعدآنے والے سالوں میں صرف کشمیری مجاہدین ہی نہیں بلکہ کمسن کشمیری بچوں
سے لے کر بڑوں اور مردوں سے لے کرعورتوں بلکہ سکولوں اور کالجوں کی طالبات
اورطلباء سمیت سب ہی اس شاہراہ آزادی پراپنے اپنے جواں ہمت قافلوں کوایک
طوفانی یلغارکے ساتھ دوڑاتے نظرآنے لگے۔آزادی کے اس قافلے میں نہ کوئی سن و
رشد کی تمیزرہی نہ کسی جنس وصنف کی اورنہ کسی نازک وغیرنازک کاامتیازرہا۔بس
ایک جذبہ آزادی ہی تھاجو سب کامشترکہ پرچم و پیمانہ بن گیا۔کشمیری عوام کے
طوفانی جذبوں کا اندازہ ابوالقاسم شہیدؒ کے جنازہ کے موقع پرہی ہوگیاجب
کشمیرکے تین ضلعے آپس میں ابوالقاسم شہیدکی میت پر جھگڑرہے تھے۔
جی ہاں!دنیانے میتوں پرجھگڑے توبہت سے دیکھے ہوں گے' کہیں وراثت کے مسئلے
پر جھگڑا تو کہیں خاندانی دشمنیوں کی وجہ سے ایک خاندان کے دوسرے خاندان کو
میت کاچہرہ نہ دکھانے بلکہ اس کی چارپائی کوبھی ہاتھ نہ لگانے دینے کا
تماشہ لیکن یہاں ایساکوئی دنیاوی جھگڑانہ تھا'جھگڑاتھا توصرف اس بات کاکہ
یہ تینوں ضلعے ابوالقاسم شہیدؒ کو اپنے اپنے علاقے میں دفن کرنے کا
اعزازحاصل کرناچاہتے تھے ۔اس اعزازکے حصول کے لیے ضلع پلوامہ کے کچھ والدین
یہا ں تک دعوے کر رہے تھے کہ یہ دراصل ہمارا ہی بیٹاتھا جو 9سال پہلے لاپتہ
ہوگیا تھا تو دوسرے ضلع اسلام آباد کی ایک فیملی کادعویٰ تھاکہ نہیں'یہ تو
ہمارا وہ بیٹا ہے جو 11سال پہلے لاپتہ ہوا تھا' بس اس نے مجاہدوں میں جاکر
اپنا نام اورکنیت وغیرہ بدل لی۔
یہ کشمیری کیوں نہ اس کے دیوانے ہوتے'اس نے 4سال تک کشمیری ماؤں'بہنوں کی
عصمتوں کی قاتل بھارتی فوج کو تگنی کاناچ نچائے رکھا۔وہ ایک پل میں یہاں
اور دوسری گھڑی میں کسی اورمقام پردشمن کی درگت بناتانظرآتا۔بھارتی فوج نے
اس کے سرکی قیمت32لاکھ رکھی تھی لیکن اس نے اپنے ایک سرکے بدلے99بھارتی
دہشت گرد فوجیوں کے سراتارے اور126 درندوں کو تڑپاکرخون میں لت پت کردیااور
ان میں ایک تووہ الطاف لیپ ٹاپ نامی غدار بھی شامل تھا جس کی ہلاکت پر
بھارتی فوج کے ترجمان نے اعتراف کیا کہ الطاف لیپ ٹاپ فوج کے 200افسروں
پربھاری تھا۔
یہی جری مجاہد ابوالقاسم تھاجس نے 60سے زائدکشمیری مجاہدوں کاجہادی گروپ
بناکرمیدان میں اتارا۔اسی مجاہد نے کشمیری عوام میں مجاہدین کی ایسی محبت
بھری کہ کشمیری عوام جہاں بھی معرکہ ہوتا'اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے
بھارتی فوج پرپتھروں کی بارش کرنے کے لیے چٹان بن کر سامنے آنے لگے اور آج
اسی ہتھیارسے بھارتی فوج بری طرح زچ ہے۔
اکتوبر2015ء میں جب ابوالقاسم عبدالرحمن شہادت کی خلعت فاخرہ سے سرفراز
ہوئے توابوالقاسم شہیدکے قافلہ جہاد سے متاثر برہان مظفروانی نامی ایک
چمکتا دمکتاستارہ جہادی افق پرنمودارہوا۔اس نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک
نئی رُوح پھونک دی۔ برہان وانی ایک توبالکل کشمیرکی نوخیز نئی نسل
کانمائندہ بنا'دوسرے اس نے تحریک کی تاریخ میں پہلی بار سوشل میڈیا کو اپنا
نیا ہتھیار بنایا۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی پرچم لہرانے کی تحریک بھی برہان
کے دورمیں ہی عروج پر پہنچی' اگرچہ اس کی بنیاد رکھنے والا عظیم کشمیری
مجاہد مسرت عالم بٹ تھا جو آج کل بھارتی دہشت گردوں کی جیل میں ہے۔ 21سالہ
برہان وانی 15سال کی عمرکابڑاہی خوبصورت نوجوان تھا جس نے جہادکی راہ
اپنائی۔6سال تک اس نے سوشل میڈیا کواستعمال کرکے بھارتی ایوانوں میں وہ
تھرتھلی مچائی کہ کشمیرکے ہر درودیوار پربرہان وانی 'برہان وانی ہونے لگی۔
برہان نے اپناایک گروپ بنایا۔پہلی باراس نے گوریلاجنگ کے بھی نئے اصول
متعارف کروائے۔ چہروں سے نقاب اتاردیے۔فوجی وردی،بکتر بند گول کیپ' ہاتھوں
میں کلاشن اٹھائے یہ نوجوان اچانک نمودار ہوکرکم وقت میں وادی اور اس سے
باہر شہرت حاصل کرنے لگے۔ برہان وانی کے ابھرنے سے بھارت کایہ پروپیگنڈا
بھی خاک میں مل گیاکہ کشمیری نوجوان نسل تحریک آزادی سے لاتعلق ہے۔وہ تحریک
جو پہلے زیادہ تربزرگوں کی تحریک سمجھی جاتی تھی'برہان وانی نے اسے کشمیری
نوجوانوں کی مقبول ترین تحریک بنا دیا بلکہ میرواعظ جیسے سینئررہنما خود یہ
کہنے پر مجبور ہوگئے کہ تحریک آزادی کشمیراب ہمارے ہاتھوں سے نکل کر
نوجوانوں میں منتقل ہوگئی ہے اور اب ہمارے لیے بھی اسے کنٹرول کرناممکن
نہیں رہا۔
برہان وانی کے نوجوان ایک شہر'کبھی دوسرے شہر سے اچانک نمودار ہوکر بھارتی
فوج کے لیے دہشت کی علامت بن گئے۔ سوشل میڈیا نے ان کی کارروائیوں میں
آندھی اور برق کی سی تیزی پیداکردی۔ برہان وانی کے سرپر دس لاکھ (18لاکھ
روپے پاکستانی)کاانعام تھا۔دسویں جماعت کے امتحان میں شامل ہونے کے فوری
بعد ترال کا یہ 15سالہ نوجوان حزب المجاہدین میں شامل ہوگیا۔
2015ء میں برہان کے بڑے بھائی خالدمظفروانی کومحض برہان کا بھائی ہونے
پربھارتی فوج نے زیرحراست رکھ کربے دردی سے شہید کردیا۔ اب برہان کاکردار
بھارتی فوج کے لیے پہلے سے زیادہ خطرناک رخ اختیار کرگیا۔اس نے سوشل
میڈیاکوہتھیار بنایا تو اس کی اپیل پرسینکڑوں نوجوان مجاہدین کی صفوں میں
شامل ہوگئے۔وہ جب ان مسلح کشمیری نوجوانوں کی تصویریں سوشل میڈیا پرچڑھاتا
تو یہ سب سے زیادہ وائرل ہوتیں اور یوں برہان بھارت کے لیے ناقابل برداشت
حیثیت اختیارکرگیا۔ بھارتی فوج کواب برہان کو اپنے راستے سے ہٹاناضروری
ہوگیا۔
9جولائی2016ء کو ککرناگ کے معرکے میں برہان اپنے دو ساتھیوں سمیت خلعت
شہادت سے سرفراز ہوا۔ بھارت نے سمجھاکہ وہ برہان کوشہید کرکے تحریک آزادی
کو نوجوانوں میں مقبول ہونے سے روک لے گا لیکن یہ اس کی پہلے کی طرح ایک
اوربڑی بھول ثابت ہوئی۔برہان کی شہادت سے تحریک نے کمزور تو کیا ہوناتھا'یہ
پہلے سے زیادہ موج مارتے سمندر کی طرح اپنے کناروں سے بھی باہرہونے لگی۔
برہان کے بعد اس کی قیادت برہان کے قریبی دوست سبزاربھٹ نے سنبھالی۔اب یہ
تحریک نوجوان لڑکوں سے سکولوں کالجوں کی لڑکیوں تک پھیل گئی۔یہ لڑکیاں بھی
جب پتھرلے کر بھارتی فوج کے سامنے آگئیں تواس سے پوری دنیا میں بھارت منہ
دکھانے کے قابل نہ رہا اور نہ اب وہ یہ بات کرنے کی پوزیشن میں رہا کہ
تحریک آزادی کشمیرمیں کشمیریوں کی کوئی زیادہ دلچسپی نہیں اوریہ صرف بیرونی
دراندازی ہے یاپروفیسرحافظ محمدسعیدحفظہ اﷲ اس کے ذمہ دار ہیں۔پروفیسرحافظ
محمدسعیدحفظہ اﷲ کشمیرمیں بھارتی مظالم کو دنیامیں بے نقاب کرتے اور
پاکستانی عوام اور حکمرانوں کو مسئلہ کشمیر پربیدار رکھنے کے یقینا ذمہ دار
ہیں لیکن یہ کوئی جرم نہیں جس کی سزا آج انہیں اور ان کے رفقاء کو
نظربندکرکے دی جارہی ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رو سے کشمیرمسلمہ
طورپر ایک متنازعہ اورقابل حل مسئلہ ہے۔ اس وجہ سے پاکستان یاحافظ
محمدسعیدحفظہ اﷲ کی طرف سے کشمیریوں کی حمایت ان کاایک قانونی اوراخلاقی
فریضہ ہے۔ تاہم یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کشمیری عوام
کی خالص اپنی تحریک ہے۔
ابھی مقبوضہ جموں کشمیرکے ضمنی الیکشن میں بھی 98 فیصد کشمیریوں نے الیکشن
کابائیکاٹ کیااورصرف 2فیصد ووٹنگ ہوسکی جوبھارت کے لیے پوری دنیامیں زبردست
بدنامی کا سبب بنی۔ دنیا کومعلوم ہوگیا کہ کشمیریوں کی حمایت حاصل ہونے
کابھارتی دعویٰ 100فیصد جھوٹ ہے کیونکہ 2 فیصد ووٹنگ بھی صرف ان کشمیریوں
کی ہے جو بھارتی سرکاری ملازم اور فوج وپولیس کے اہلکار ہیں۔ سرکاری ملازم
نہ ہوتے تووہ بھی بھارت کوایک ووٹ نہ دیتے۔
تحریک کی اس قدر مقبولیت سے گھبرا کر ہی اب بھارت نے برہان وانی کے جانشین
سبزاربھٹ کوبھی ایک معرکہ میں شہید کردیاہے لیکن یہ بات وہ باربار بھول
جاتاہے کہ یہ شہادتیں جس قدر بڑھ رہی ہیں'بھارت کا بوریابستر کشمیر سے اسی
قدر جلد گول ہورہاہے۔اب توکشمیری ماؤں نے اپنے بیٹوں کی شہادتوں پر رونا
بھی چھوڑ دیاہے۔ سبزاربھٹ کی والدہ نے اپنے بیٹے کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے
کہ میری شہادت پررونانہیں' ایک آنسونہ بہایا۔اس قوم کو کون شکست دے سکتاہے
جہاں ایسی بہادرمائیں ہوں۔آج ہر کشمیری سبزار ہے اورپوری وادی لالہ زار
ہے۔برہان وانی سے اب تک تادم تحریر یہ کشمیری ایک سال میں 140جانوں
کانذرانہ پیش کرچکے ہیں جبکہ پیلٹ گنوں سے نابینا ہونے والے 7760اور
دیگر16840 زخمی ہوچکے ہیں۔1994ء سے اب تک 94,697 کشمیری جام شہادت نوش
کرچکے ہیں لیکن اس قدرقربانیوں سے بھی تحریک کمزورنہیں ہوئی بلکہ اس کی
رفتاردشمن کی سوچوں کی رفتارسے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے ،کشمیری عوام
دنیا کی چوتھی بڑی فوج کے ساتھ صرف پتھروں سے مقابلہ کر رھے ہیں،وہ رمضان
میں روزے کی حالت میں بھی بدر کی تاریخ دہرا رہے ہیں،اس سے صاف معلوم ہوتا
ہے کہ وہ دن اب زیادہ دور نہیں رہا جب کشمیری عوام کی تحریک آزادی کایہ
سونامی پورے بھارت کو ڈبو کررکھ دے گا۔ان شاء اﷲ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں
یہ کشمیری اپناسب کچھ پاکستان کے لیے نچھاور کررہے ہیں۔
عید کے موقع پر اہل پاکستان کافرض ہے کہ وہ بھی اپنا سب کچھ کشمیری بھائیوں
پر نچھاور کرکے عیدمنائیں۔ اگر ہم یہ جذبہ زندہ کرلیں تو کشمیری عوام کی
قربانیاں ثمرآور ہوجائیں گی اور آزادی کی منزل پھر دور نہیں ہوگی۔ان شاء اﷲ
|