’’کڑوا سچ، میٹھے بول‘‘

مہتاب اکبر راشدی
’’نام میں کیا رکھا ہے…‘‘ نامی کتاب کا مسودہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں پڑھتی جاتی ہوں، کوشش کے باوجود مسودہ چھوڑنے کو دل نہیں کرتا۔ ایک کے بعد دوسری تحریر، دوسرا کالم ہاتھ پکڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اس وقت تک ہاتھ تھامے رہتا ہے جب تک آپ اسے پڑھ نہ لیں۔ میں سوچتی ہوں کہ شیکسپیئر کے مقولے کے برعکس کہ ’’نام میں کیا رکھا ہے!‘‘ آج کل تو ساری تگ و دو یہی ہے۔ کچھ باور کرانے کے لئے ہے کہ ’’نام‘‘ میں تو سب ہی کچھ ہے۔ نیکی کے بجائے نام ’’کے لئے‘‘ کمانا ہی فرض اولین بن گیا ہے۔ اگر نام میں کچھ بھی نہیں ہوتا تو بلاول زرداری، اچانک بلاول ’’بھٹو‘‘ زرداری کیوں بن جاتے؟ بینظیر بھٹو نے آصف علی زرداری سے شادی کے بعد محض بھٹو کا لاحقہ لگائے رکھنے کو ہی کیوں ترجیح دی؟ اور اب تازہ ترین نواز شریف نے، راحیل شریف کو نیا چیف آف آرمی اسٹاف منتخب کیا تو ’’شریف‘‘ کے ’’لاحقے‘‘ نے کم ازکم تین دن تک پوری قوم کو ان تبصروں سے فیض یاب کئے رکھا جو اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے تبصرہ نگاروں کے ذہن رسا نے دونوں ’’شریفوں‘‘ کے درمیان ہر صورت کوئی مماثلت اور تعلق ڈھونڈھنے میں صَرف کردی۔ وہ تو شکر ہے کہ نواز شریف کے اس دور حکومت میں لوگوں سے بابرا شریف بھولی ہوئی ہیں، ورنہ ان کے پچھلے دور حکومت میں تو اس ’’معصوم‘‘ کا بھی اس خانوادے سے تعلق بنانے کی (مذاقاً) ہی سہی کافی کوششیں ہوتی رہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شیکسپیئر کسی بھی مقصد سے ’’نام‘‘ کی اہمیت سے انکاری رہے ہوں اور وہ کام اور عمل کو ہی وجہ تعرف گرداننے پر زور دینا چاہتے ہوں، مگر ہم نے اس کو بھی غلط ثابت کر دکھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں اب ’’نام ہی کافی ہے‘‘ کا مقولہ زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔

رفیع عباسی کی بڑی کرم فرمائی ہے کہ انہوں نے مجھے اس مسودہ پر کچھ لکھنے کے لئے منتخب کیا۔ میں بڑی انکساری سے کچھ تحریر کررہی ہوں۔ اتنے اچھے اور پختہ قلم کار کی تحریروں پر تبصرے کے لئے اچھا لکھاری ہونا ضروری تھا (جو کہ میں خود کو نہیں سمجھتی)۔ لیکن مطالعہ کے شوق نے اچھی تحریر سے لطف اندوز ہونے اور اچھی اور بُری تحریر کے درمیان فرق سے ضرور آشنا رکھا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں بالکل جھجھک نہیں ہورہی کہ ایک زمانے کے بعد بہت ہی شگفتہ تحریر پڑھنے کو ملی۔ یوں اگر دیکھا جائے تو اخبار میں چھپنے والے کالم، خبروں کے ساتھ دوسرے دن ہی بھلادیئے جاتے ہیں۔ اخبار کا صفحہ پلٹا تو کالم بھی لپیٹ لیا جاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ کالم بھی بے معنی تصور کیا جاتا ہے (یا ہو جاتا ہے)۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روزانہ ہی بے شمار موضوعات سامنے آتے ہیں اور لکھنے والے کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتے ہیں۔ اب یہ لکھنے والے کے قلم پر منحصر ہے کہ وہ اس موضوع کو کیسے برتتا ہے۔ یہ بڑے کمال کی بات ہے کہ موضوع کو اس طرح قلم کی نوک سے سنوارا جائے کہ وہ ’’کل‘‘ کا ہونے کے باوجود ’’آج‘‘ کا لگے۔ اگر دس سال کے بعد بھی اسے پڑھیں تو لگے کہ یہ حسب حال ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ خیر سے ہمارے حالات بلکہ حالتِ زار ہی کچھ ایسی رہی ہے (کم از کم پچھلے ساٹھ سالوں میں) کہ کچھ بھی بدلا نظر نہیں آتا، لہٰذا رفیع عباسی کے کالموں کے آخر میں لکھی تاریخوں پر نظر ڈالے بغیر پڑھئے، تو وہ آج کا ہی قصہ لگے گا۔

ایک اچھا لکھنے والا، اپنے سامنے رونما ہونے والی کسی بھی سیاسی اور سماجی ہلچل کو محسوس کئے بغیر نہیں رہتا، اس کا حساس ذہن اور قلم نہ صرف موضوع کو کریدتا ہے بلکہ اپنے شوخ، طرحدار جملوں اور فکر کی میٹھی میٹھی کاٹ سے، پڑھنے والے کے شعور کو چھوتا چلا جاتا ہے۔ وہ سچ بیان کرتا ہے، جو ذائقے میں ذرا سا کڑوا اور اس کا نگلنا مشکل ہوتا ہے، لیکن رفیع عباسی نے اس کا بھی توڑ ڈھونڈ نکالا ہے۔ اپنے قلم کی نوک کو انہوں نے مزاح کی چاشنی میں اس طرح ڈبویا ہے کہ ذہن کو جھنجھوڑنے اور کچوکے لگانے والا قلم اپنی کاٹ کے باوجود اپنا کام اس طرح دکھا جاتا ہے کہ قاری نفسِ مضمون کو نہ صرف ذہن میں سمو لیتا ہے بلکہ ایک ایک لفظ کے معنی اس پر ہولے ہولے کھلنے لگتے ہیں اور حروف کے ہنر اس پر عیاں ہوتے ہیں۔ مسئلے کی گتھیاں سلجھتی ہیں اور لکھے ہوئے جملوں کی تہیں ایک ایک کرکے کھلتی ہیں اور دیر تک پڑھنے والے کو اپنے جادو کی اسیر رکھتی ہیں۔

’’نام میں کیا رکھا ہے‘‘ پڑھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا کہ رفیع عباسی کی حس مزاح کی داد دی جائے یا چبھتے جملوں کی یا پھر اس وسیع مطالعے کو سراہا جائے جو ان کے ہر موضوع کو معتبر بنادیتا ہے۔ تاریخ سے ان کا شغف اور مطالعہ آپ کو ان کے ہر کالم میں جھلکتا ہی نہیں بلکہ رچا بسا ملے گا بلکہ میں یہ کہوں تو ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ ان کے اندر ایک مستند محقق موجود ہے۔ راسپوتین ہو یا پاپا رازی، عامل ہوں یا کوا، جوتا باری ہو یا علامہ طاہر القادری یا رحمن ملک کی ٹوپی۔ مچھر ہوں یا کتے، وال اسٹریٹ جرنل ہو یا وال میڈیا غرض کہ موضوع کوئی بھی ہو، رفیع عباسی بڑی مہارت سے اسے پس منظر سے پیش منظر میں لے آتے ہیں۔ پڑھنے والوں کو ان کے کالموں سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ بوجوہ اگر کسی موضوع کے سلسلے میں ان کی معلومات میں کوئی کمی رہ گئی ہے یا تاریخ کے جبر یا مصلحت کی بناء پر اگر کچھ حقائق جانے بغیر رہ بھی گئے ہوں گے تو وہ ان کی تحقیق کی روشنی میں آپ کو تسلسل سے پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ’’پاکستانی سیاست اور ہچ بائیکنگ‘‘ پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ جہاں انہوں نے ہچ ہائیکنگ (Hitch Hiking) کی اصطلاح اور استعمال کی ابتدا بیان فرمائی ہے، وہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کو بھی بہت خوبی اور مؤثر طریقے سے چھ صفحوں میں بیان کردیا ہے۔ پڑھیں اور مستفید ہوں۔
رفیع عباسی، صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ 30 برس سے زائد عرصے سے اسی میدان کے کھلاڑی ہیں۔ نہ صرف وہاں اپنے کام سے جگہ بنائی ہوئی ہے، بلکہ کالم نگاری میں ایک منفرد مقام بھی حاصل کرچکے ہیں۔ اردو زبان کا کون سا ایسا اخبار یا جریدہ ہے جس سے رفیع عباسی وابستہ نہ رہے ہوں۔ مارننگ نیوز، فرائیڈے اسپیشل، رابطہ، سماعت، روزنامہ پاکستان، نوائے وقت، روزنامہ حیدر(راولپنڈی)، جسارت، الشرق، اردو نیوز جدہ اور روزنامہ جنگ ان میں سے کچھ نمایاں نام ہیں۔

رفیع عباسی اپنے احباب میں بہت پسندیدہ ہیں۔ ان کی خوش اطواری کے سبب پروفیسر لطیف انور نے انہیں Happy Prince کے لقب سے نوازا ہے۔ ان کی تحریر کی شگفتگی کہیں ماند نہیں پڑتی۔ لفظوں کی بُنت ایسی کہ کوئی بھی لفظ کہیں بھی زائد محسوس نہیں ہوتا۔ بات سے بات نکالنے اور جملے سے جملے جوڑنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ کسی جگہ ان کو اردو کے ’’ابھرتے‘‘ ہوئے طنز و مزاح نگار لکھا گیا ہے۔ اس سے تھوڑا سا اختلاف کرتے ہوئے کہنا چاہوں گی کہ یہ ’’ابھرتا‘‘ ہوا ستارہ، اب پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگارہا ہے اور ادب کے ایوانوں میں اپنی جگہ پانے کا منتظر ہے اور مجھے یقین ہے کہ قلم اور لفظ کی حرمت جاننے والے انہیں اس مسند پر ضرور فائز کریں گے جو ان کا حق ٹھہرتی ہے۔ جب تک آپ کتاب پڑھیں، ان کے کالموں کے کچھ حوالے درج کررہی ہوں۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ باقی کالموں میں کیا نہیں ہوگا۔ ’’جس طرح ایک کتے کے لئے دوسرے کتے کا وجود برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے اور وہ اس پر بھونکنا اپنے بنیادی حقوقِ سگ کا حصہ سمجھتا ہے، بالکل اسی طرح ہمارے یہاں سیاست سمیت دیگر شعبہ زندگی کے افراد میں ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور خلاف مزاج و مفاد بات انسانی حقوق، آئین و قانون کی خلاف ورزی قرار دی جاتی ہے۔ لڑائی، جھگڑے، دنگا فساد ہی نہیں بلکہ پیار محبت میں بھی اسی نجس کہلائی جانے والی مخلوق کی نقالی کی جاتی ہے۔‘‘ (دیسی بدیسی کتے)

’’اکثر سنتے ہیں کہ، ’’ یہاں کا تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘‘، یہ آوا کیوں بگڑا ہوا ہے اس کا تو ہمیں علم نہیںلیکن آج کل کے عاملین اور باباؤں کی بہتات اور ہوشرباکرامات و خرافات دیکھ کر بے ساختہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ ’’یہاں کا تو بابے کا باوا ہی بگڑا ہوا ہے‘‘۔ (راسپوتین کے پیروکار)

’’بعض بابا و عامل ہوم سروس بھی دیتے ہیں اور گھروں پر آنے کی صورت میں انہیں سارا گھر ہی آسیب زدہ نظر آتا ہے جہاں بعض اوقات بد ارواح، جنات اور آسیبوں کا خاندان ہی نہیں پورا قبیلہ آباد ہوتا ہے، جس سے ان کی مہینوں معرکہ آرائی ہوتی ہے اور اس جنگ و جدل کے سامان حرب کیلئے وہ مریض کے لواحقین سے ہزاروں ہی نہیں بلکہ لاکھوں روپے تک وصول کرلیتے ہیں! (راسپوتین کے پیروکار)

’’مختلف سلسلوں سے منسلک بابا اور نوری عامل تو ان تمام مسائل کا حل زعفران سے لکھے ہوئے سنہری تعویذ، دم کئے ہوئے نمک، چینی یا پانی سےکرتے ہیںلیکن سسرالیوں کے معاملات وہ سات شیاطین کے نام لکھے ہوئے تعویذوں کو جوتے مارنے یا انہیں وزنی چیز کے نیچے دبانے کی ہدایت دے کر نمٹاتے ہیں۔‘‘ (راسپوتین کے پیروکار)

’’پہلے تو ہم یہ سمجھے کہ شاید ہم سری لنکا کے جزیرے کینڈی کے ایلیفنٹ باتھ (Elephant Bath) میں آ گئے ہیں، جہاں ہاتھیوں کو اجتماعی طور سے نہلایا جاتا ہے، لیکن جب اپنے بدن میں چٹکی بھری تو احساس ہوا کہ ہم پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک عالیشان حمام میں کھڑے ہیں اور اس حمام میں صاحب اقتدار، فرینڈلی اپوزیشن کے تخلیق کار اورکرپشن مافیا کے سرکردہ افراد اتحاد ثلاثہ (ٹرائیکا) کی صورت میں اپنے اصلی چہروں کے ساتھ قدرتی لباس میں موجود ہیں جن کے ہاتھ میں ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کی قوت و اختیارات ہیں اور جو عوام کو بھوک اور افلاس کے ہاتھوں زندہ درگور کرنے کے بعد قتل و غارت گری اور دہشت گردی کو ہوا دے کر ان کا مزید ’’غریبی میں آٹا گیلا کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘ (تیل کی دھار دیکھو)

کرنے کو تو اور بھی کئی دلچسپ حوالے درج کئے جا سکتے ہیں، لیکن اگر میں نے سب کچھ یہاں ہی بیان کر دیا تو آپ کے پڑھنے کو کیا بچے گا؟ ہاں البتہ، اندھے کی ریوڑیاں اور قومی ایوارڈ، حملہ آور کا سر مل گیا، پیٹ میں داڑھی، ہمتِ نسواںِ مدد خدا کے علاوہ اور بھی دلچسپ کالم پڑھنا مت بھولیے گا۔ محاوروں کا چسکا لینا ہے تو اس کا بھی بھرپور انتظام ہے اور اگر کوئی عشقیہ کہانی پڑھنی ہے تو ’’شیریں فرہاد ‘‘ بھی حاضر ہے۔ مجھے بالکل حیرت نہیں ہو گی، اگر کسی دن آپ یہ سن لیں کہ رفیع عباسی افسانہ نگار بھی بن چکے ہیں کیونکہ اس صنف میں ڈبکی لگانے کے بھی تمام اطوار ان میں پائے جاتے ہیں۔

آخر میں یہی کہوں گی کہ ایک کہنہ مشق قلمکار کی خوبصورت تحریر کا مجموعہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ انصاف ضرور کیجئے گا۔ فکاہیہ کالموں پر مشتمل یہ کتاب اردو ادب میں ایک گرانقدر اضافہ ہے۔ یہ تو بارش کا پہلا قطرہ ہے، سیلِ رواں تو آنے کو ہے۔
Rafi abbasi
About the Author: Rafi abbasi Read More Articles by Rafi abbasi: 213 Articles with 223137 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.