ہاشمی کا بیان نواز شریف کی حمایت
(Syed Anwer Mahmood, Karachi)
مخدوم جاوید ہاشمی تین سیاسی جماعتوں اور ایک ظالم فوجی آمر کی محبوبہ رہے ہیں لیکن وفا وہ کسی سے نہ کرسکے۔ جاوید ہاشمی نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنی عملی سیاست کا آغاز 1978 میں فوجی آمریت کے سائے میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے امور نوجوانان کی حیثیت سے کیا۔ |
|
ملتان سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے اکیس جون 2017 کو ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک طویل بیان دیا ہے۔ یہ بیان انہوں اپنے دوست وزیراعظم نواز شریف کےپاناما پیپرز کیس میں ملزم بن جانے پران کی حمایت میں دیا ہے۔جاوید ہاشمی نے وزیراعظم نواز شریف کی بہت ہی سیاسی انداز میں پاناما پیپرزکیس کے سلسلے میں وکالت کی ہے۔ اپنے دوست نواز شریف کی بدعنوانی کو بہت چھوٹا ثابت کرتے ہوئے انہوں نے عمران خان کی بدعنوانیوں کا ذکر بھی کیا جس میں ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے پٹواریوں کو 15,20 کروڑ روپے میں پارٹی ٹکٹ بیچے، شوکت خانم اسپتال کا پیسہ تھائی لینڈ میں سرمایہ کرکے ڈبونا نوازشریف کے جرم سے زیادہ بڑاجرم ہے۔ اپنے اس بیان میں انہوں نے سپریم کورٹ اور فوج کو بھی للکارا ہے، جاوید ہاشمی نےسابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا قاتل سپریم کورٹ اور جنرل ضیاء کو ٹہرایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے ہی نظریہ ضرورت کے تحت ڈکٹیٹروں کو مواقع فراہم کیے، بھٹو کی پھانسی پر جسٹس نسیم حسن شاہ نے کہا کہ ان پر دبائو ہے ضیاء الحق نے برملا کہا کہ اگر ججز بازنہ آئے تو ہم اپنی ملٹری کورٹ لگائیں گے۔بھٹو کو ہر قیمت پر پھانسی دینگے، ہمارے ادارے اور بیورو کریسی نے بہت ناانصافیاں کی ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سپریم کورٹ نے دی اور انہیں قتل کیا۔ جاوید ہاشمی نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کو یہ حق کس نے دیا کہ کسی کو گارڈ فادر اور سیسلین مافیا کہے۔ متنازع جے آئی ٹی سے انتقام ہوجائیگا احتساب نہیں، یہ کہنا کیا طریقہ ہے کہ مشرف کو نہ بچایا تو تم بھی نہیں بچو گے۔ نوازشریف، حسین نوازسمیت سب کا احتساب ہونا چاہیےلیکن یکطرفہ معاملات کی بو نہیں آنی چاہئے۔
جاوید ہاشمی جس سپریم کورٹ کو رو رہے ہیں وہ تو ہمیشہ سے ہی نظریہ ضرورت کے تحت ڈکٹیٹروں کو مواقع فراہم کرتی رہی ہے، لیکن یہ ہی سپریم کورٹ اپنے پسندیدہ سول حکمران نواز شریف کو بھی سپورٹ کرتی رہی ہے۔ بینظیر بھٹوکی حکومت تو بحال نہ ہوپائی کیونکہ سپریم کورٹ اور فوج کی منشاء نہیں تھی لیکن اسی سپریم کورٹ نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو بحال کیا تھا، اس وقت سپریم کورٹ کے سربراہ جسٹس نسیم حسن شاہ تھے جو بھٹو کو پھانسی دلوانے میں بھی شریک تھےاوراس وقت مرحوم بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ یہ سب چمک کا کمال ہے اور آج بھی اسی چمک کا کمال ہے کہ سب کچھ ثابت ہوتے ہوئے نواز شریف وزیر اعظم کی کرسی پر موجود ہیں۔ پاناما پیپر کیس کا حتمی فیصلہ تو 20 اپریل 2017 کو ہی آجانا چاہیے تھا لیکن سپریم کورٹ اپنے اوپر یہ الزام لینا نہیں چاھتی ہےکہ اس نے نواز شریف کی طرف داری کی ہے، لہذا 20 اپریل کوسپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ دو اور تین میں تقسیم ہوکر دیا۔دو سینئر ججوں جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزارنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ وزیراعظم نا اہل ہیں، صادق اور امین نہیں رہے، آئین کی رو سے وہ اب قومی اسمبلی کے ممبر نہیں رہے لہذاانھیں وزیراعظم کے عہدئے سے ہٹا کر نااہل قرار دے دیا جائے، جبکہ تین ججوں نے کہا کہ ابھی ہم نے نا اہلی کا فیصلہ نہیں کیا ہے، ایک کمیشن بنایا جائے، اور 60 دنوں میں رپورٹ پیش کی جائے۔ ایک جے آئی ٹی بنائی گئی اس میں نواز شریف اور انکے دونوں بیٹے پیش ہوئے، انکے بڑئے بیٹے حسین نواز جو جے آئی ٹی کے سامنے پانچ مرتبہ پیش ہوئے انہوں نے اور ان کے درباریوں نے جے آئی ٹی کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا ہے اور اب جے آئی ٹی متنازع ہوچکی ہے۔ سرکاری ادارے جے آئی ٹی سے تعاون نہیں کررہے ہیں۔ لہذا دس جولائی کے بعد سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرئے گا وہ متنازع ہوگا۔
مخدوم جاوید ہاشمی تین سیاسی جماعتوں اور ایک ظالم فوجی آمر کی محبوبہ رہے ہیں لیکن وفا وہ کسی سے نہ کرسکے۔ جاوید ہاشمی نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنی عملی سیاست کا آغاز 1978 میں فوجی آمریت کے سائے میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے امور نوجوانان کی حیثیت سے کیا۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی لازمی ہے کہ اُس وقت جاوید ہاشمی پرقتل کے الزامات کی خبریں بھی اخبارات میں آرہی تھیں۔ جاوید ہاشمی کی آخری جماعت جس کے وہ صدر بھی رہے ہیں پاکستان تحریک انصاف ہے، اس جماعت کے سربراہ عمران خان ہی وہ شخصیت ہیں جو نواز شریف اور انکے بچوں کو پاناما پیپرزکیس میں سپریم کورٹ میں کھینچ لائے ہیں۔ 25 دسمبر 2011کو جاوید ہاشمی نے ن لیگ سے بغاوت کی اور تحریک انصاف کو جوائن کرلیا۔یکم اکتوبر 2014 کو جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف کی صدارت اور بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا تھا۔ تحریک انصاف کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جاوید ہاشمی نے کہا تھاکہ عمران خان کرپشن کے خلاف جنگ کررہے ہیں اور وہ جمہوریت کے استحکام کی اس جنگ میں ان کے شانہ بشانہ ہیں لیکن آج وہی جاوید ہاشمی عمران خان کو نواز شریف سے بڑا مجرم کہہ رہے ہیں۔
مخدوم جاوید ہاشمی کا یہ بیان نواز شریف کی ضرورت ہے، جاوید ہاشمی نے اپنے ایک بیان سے عمران خان، عدلیہ اور فوج کے علاوہ پرویز مشرف کو بھی ڈرانے کی کوشش کی ہے ، جبکہ پیپلزپارٹی سے حمایت حاصل کرنے کےلیے بھٹو کی پھانسی کا زمہ دار سپریم کورٹ اور فوج کو کہہ رہے ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ جاوید ہاشمی کو بھٹو کی پھانسی کا تذکرہ کرتے ہوئے زرا بھی شرم محسوس نہ ہوئی ، ان کو یہ ضرور یاد ہوگا کہ جب فوجی آمرجنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی تو جاوید ہاشمی فوجی آمر کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جاوید ہاشمی اور نواز شریف مشرف کےلیے آمر کا لفظ استمال کرتے ہیں لیکن دونوں ہی آمر جنرل ضیاء کی گود میں پلے ہوئے ہیں۔ جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ قوم نےانہیں گیارہ مرتبہ منتخب کیا ہے، جاوید ہاشمی کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس قوم نے ان کو گیارہ مرتبہ منتخب کیا تھا اسی قوم نے ملتان کے حلقے این ائے 149 جس سے وہ ہمیشہ جیتے تھے 16 اکتوبر 2014 کے ضمنی انتخاب میں ان کو بارویں مرتبہ مسترد کردیا اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کو کامیاب کروادیا۔
مخدوم جاوید ہاشمی ایک بات یاد رکھیں کہ انہوں نے اپنے تازہ بیان میں جو الزامات عمران خان پر لگائے ہیں، نواز شریف اور ان کے درباری تو مستقل عمران خان پر یہ ہی الزامات لگارہے ہیں،اس لیے عوام کی نظر میں ان الزامات کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، وہ لاکھ نواز شریف کے حق میں بیان دیں لیکن قوم یہ جان چکی ہے کہ نواز شریف ایک داغی رہنما ہیں۔ |