ایک وقت تھا کہ ۵۸ ٹو بی آئینِ پاکستان کا حصہ تھی لہذ ا
کئی حکومتیں اسی آئینی طاقت کے بل بوتے پر فارغ کی گئیں جس میں محمدخان
جونیجو کی ایک ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی دو اور میاں محمد نواز شریف کی ایک
حکومت شامل تھی ۔سندھی وزرائے اعظم کی حکومتوں کی بر طرفی تو کوئی ا چھنبے
کی بات نہیں تھی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے انھیں کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا
تھا لیکن جب میاں محمد نواز شریف کی حکومت ۵۸ ٹو بی کے تحت بر طرف ہوئی تو
ایک طوفان کھڑا ہو گیا کیونکہ میاں محمد نواز شریف کا تعلق صوبہ پنجاب سے
تھا ۔حیران کن امر یہ ہواکہ عدالتِ عظمی نے میاں محمد نواز شریف کی اس
حکومت کو بحال کر دیا جس پر کئی سوالات ا ٹھ گئے ۔ کسی زمانے میں اسمبلی
برخا ست کرنے کا اختیار گورنر جنرل کے پاس ہوا کرتا تھا لہذا پہلی بار
اسمبلی برخاست کرنے کا تجربہ غلام محمد نے ہی کیا تھا۔دنیا کے بہت سے
دساتیر میں صدر کے پاس اسمبلی کی تحلیل کا حق ہوتا ہے۔ بھارت میں بھی صدر
کو اسمبلی کی تحلیل کا اختیار حاصل ہے لیکن یہ الگ بات کہ بھارتی صدر نے
اپنا یہ آئینی حق کبھی استعمال نہیں کیا جبکہ پاکستان میں یہ حق بڑی بے
دردی سے استعمال ہو تا رہا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سارے اہم
فیصلے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ اور مرضی سے رو بعمل لائے جاتے ہیں۔سابق آرمی چیف
مرزا اسلم بیگ کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ محمد خان جونیجو کی حکومت
محض اس وجہ سے بحال نہ ہو سکی کیونکہ انھوں نے سینیٹ کے چیرمین وسیم سجاد
کے ہاتھ سپریم کورٹ کو پیغام بھیجا تھا کہ جونیجو حکومت کو بحال کرنے کی
بجائے انتخابات کی راہ اپنائی جائے اور اگر ان کی رائے کو در خورِ اعتنا نہ
سمجھا گیا تو پھر یاد رہے کہ جمہوریت اور فوجی اقتدار کے درمیان صرف ایک
سڑک حائل ہے جسے کسی بھی وقت عبور کیا جا سکتا ہے۔عدالتِ عظمی کو آرمی چیف
کی اس دھمکی کے بعد جونیجو حکومت کی بحالی کی بجائے انتخابات کی طرف بڑھنا
پڑا حالانکہ قرائن بتا رہے تھے کہ وہ جو نیجو حکومت کی بحالی کا حکم صادر
کرنے والی تھی ۔ سمبلی بحالی کے بعد اس بات کے قوی امکانات تھے کہ ملک ایک
دفعہ پھر مارشل لاء کی طرف چلا جاتا لہذا سپریم کورٹ نہیں چاہتی تھی کہ
ایسا ہو لہذا اس نے مارشل لاء کے خوف سے اپنی رائے بدل لی ۔اپنے ہی منتخب
صدر سردار فاروق احمد خان لغاری کے ہاتھوں محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری
حکومت کا خاتمہ اسٹیبلشمنٹ کی بے پناہ طاقت کا کھلا اظہار تھا ۔اس فیصلے کے
بعد پی پی پی کے کئی سر کردہ راہنما پی پی پی کو داغِ مفارقت دے کر جنرل
پرویز مشرف کے ساتھ جاملے تھے اور پی پی پی منہ دیکھتی رہ گئی تھی۔،۔
آج کل پانا ما لیکس کا بڑازور شور ہے لیکن خو ش قسمتی سے ۵۸ ٹو بی آئین کا
حصہ نہیں ہے۔اگر ۵۸ ٹو بی آئین کا حصہ ہوتی تو میاں محمد نواز شریف کی
حکومت کب کی تحلیل ہو چکی ہوتی۔اب اگراس بات کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے کہ
میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو فارغ کرنا ہے تو پھر اس کیلئے ایک ہی
راستہ بچتا ہے کہ انھیں عدالتِ عظمی سے فارغ کروایا جائے کیونکہ اسمبلی کے
اندر سے انھیں عدمِ اعتماد کے ذریعے فارغ نہیں کیا جا سکتا ۔سید یوسف رضا
گیلانی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ انھیں عدالتِ عظمی نے توہینِ عدالت کے
تحت بڑی آسانی سے وزارتِ عظمی سے نکال باہر کیاتھا۔شائد یہ فیصلہ جمہوری
ملکوں میں منفرد فیصلہ تھا جس میں اسمبلی کی بجائے عدالت نے وزیرِ اعظم کو
فارغ کیا تھا ۔نوے کی دہائی میں ۵۸ٹو بی کے تحت صدرِ مملکت اسمبلی کی تحلیل
کا حکم نامہ جاری کرتے تھے جس پر عدالت اپنی مہرِ تصدیق ثبت کر دیا کرتی
تھی لیکن اب ۵۸ ٹو بی کی عدم موجودگی میں عدالتِ عالیہ نے سارے اختیارات
اپنے ہاتھ میں لے کر وزرائے اعظم کی قسمت کے فیصلے کرنے شروع کر دئے ہیں جو
کہ ایک خطرناک راستہ ہے ۔کیا سپریم کورٹ وزیرِ اعظم کو گھر بھیج سکتی
ہے؟اگر سپریم کورٹ نے ہی وزیرِ اعظم کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے تو اسے آئین
میں درج ہو نا چائیے کہ اسمبلی کے علاوہ سپریم کورٹ کو بھی یہ حق حاصل ہے
کہ وہ جب چاہے منتخب وزیرِ اعظم کو گھر بھیج دے ۔ہر ملک میں احتساب کے
خصوصی ادارے ہوتے ہیں جو تفتیش و انکوائری کا کام سر انجام دیتے ہیں او
رکرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کے مقدمات کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جا
تا ہے۔ لیکن پاناما لیکس میں اداروں کو نظر انداز کر کے میاں محمد نوا
زشریف کی گردن ناپ لی گئی ہے اور کوشش کی جا رہی کہ ان کے خاندان کا کوئی
فرد اس گرفت سے بچ کرنہ جانے پائے۔میاں شہباز شریف جن کا پاناما لیکس سے
کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے انھیں بھی جے آئی ٹی میں حاضری کا سمن جاری ہو گیا
ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں چنداں دشواری پیش نہیں آ رہی کہ پانا لیکس
کے نام پر کوئی انوکھا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔،۔
شریف خاندان کی سیاست سے بے دخلی کے منصوبے پر عمل در آمد کو یقینی بنانے
کی کاوشیں زوروں پر ہیں لیکن کیا یہ کاوشیں کامیابی منتج ہوں گی یا ملک کو
خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا جائیگا ؟ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۷ کو اقتدار کی جنگ نے
بنگلہ دیش کا قیام یقینی بنایا تھا حالانکہ کسی کی حواہش نہیں تھی کہ ملک
دو لخت ہو جائے۔متعصبانہ فیصلوں کے بعد حالات خود بخود اپنی ڈگر پر چلنے
لگتے ہیں اور انھیں روکنا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔پاناما لیکس بھی اسی
نوعیت کا مقدمہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرپشن سے پاکستان کے گلی
کوچے روشن ہیں اور ہر پاکستانی اپنی بسا ط کے مطابق اپنا حصہ وصول کرنے سے
دریغ نہیں کر رہا۔پاکستان کے اکثر با اثر فراد، صنعتکار،جاگیردار،بیوو
کریٹ، سرمایہ دار ، پارلیمنٹیرین، ججز،جرنیل اور سیاست دان دولت بنانے کے
کام میں بڑے انہماک سے جٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس کارِ
خیر سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ کسی کے دل میں کسی قسم کے پچھتاوے یا افسوس کا
شائبہ تک نہیں ہوتا کہ وہ پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے اور اپنے
ملک کی تباہی کا سامان خود اپنے ہاتھوں سے سر انجام دے رہا ہے بلکہ ایک دوڑ
لگی ہوئی ہے جس میں جو سب سے زیادہ ملکی دولت اڑانے کا کارنامہ سر انجام
دیگا وہی مقدر کا سکندر ٹھہرے گا ۔ ایسے کرپٹ لوگوں کا رہن سہن اور انداز
زیست یہ بتانے کیلئے کافی ہوتا ہے کہ ھذا من فضلِ ربی کی برکات کا نور ہر
طرف پھیلا ہوا ہے جس سے ان سب کے چہروں کے ساتھ ساتھ ان کی دنیا بھی روشن
دکھائی دیتی ہے ۔وہ قومی دولت سے عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں لیکن
انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔ان کیلئے تو محکمہ جاتی قوانین اور
ضابطے بھی ہوتے ہیں لیکن جب سزا دینے والے خود گنگا نہا رہے ہوں تو انصاف
کی میزان کون کھڑی کرے گا؟اسٹیبلشمنٹ میاں محمد نوا شریف سے نالاں ہے
کیونکہ منتخب وزیرِ اعظم کی حیثیت سے وہ ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کرتے
ہیں حالانکہ چیف ایگزیکیٹو کی حیثیت سے یہ ان کا آئینی حق ہے کہ وہ جس بات
کو مناسب سمجھیں اسی کا فیصلہ کریں ۔کوئی جرنیل، کوئی جج،بیووکریٹ یا کسی
ادارے کا سربراہ انھیں مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ ان کی رائے اور مرضی کے
مطابق فیصلہ کریں۔کس سے تعلقات رکھنے ہیں اور کس نوعیت کے رکھنے ہیں قوم نے
انھیں اس کا اختیار دے رکھا ہے ۔ وزیرِ اعظم پاکستان کسی ادارے کے ماتحت
نہیں ہیں بلکہ ادارے آئینی طوپر ان کے ماتحت ہیں لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ اس
حقیقت کو قبول کرنے سے گریزاں ہے۔پاکستان میں جمہوریت کی کشتی اس وقت تک
مامون و محفوظ نہیں ہوسکے گی جب تک اسٹیبلشمنٹ اپنا مائنڈ سیٹ نہیں بدلے
گی۔وکی لیکس میں آئی ایس پی آر نے ٹویٹ کیا تھاکہ ہم وزیرِ اعظم کے فیصلے
کو رد کرتے ہیں ۔ایک بڑے یدھ کے بعد ٹویٹ تو واپس ہو گیا لیکن اس کے بعد جو
کہانی شروع ہو ئی ہے اس کا کہیں کوئی کنارا نہیں مل رہا ۔میا ں محمد نواز
شریف کو پاناما لیکس پر جس طرح دھر لیا گیا ہے وہ اس بات کی گواہی دینے
کیلئے کافی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی کو اونچا بولنے کا حق بھی تفویض نہیں کرنا
چاہتی ۔ پاکستان میں جمہوریت اسٹیبلشمنٹ کی رائے کے سامنے خود کو جھکانے کا
نام ہے جس نے جھکا دیا وہ پانچ سالہ مدت پوری کر گیا جس نے کھڑا ہونے کی
کوشش کی اسے رخصت ہونا پڑا۔آصف علی زرداری اس راز کو پاگئے تھے اسی لئے
پانچ سال پورے کر گئے لیکن میاں محمد نواز شریف اس سچائی کو تسلیم کرنے سے
گر یزاں ہیں اسی لئے گرم پانیوں میں گرے ہوئے ہیں ۔،۔ |